(قاسم یعقوب)
افغان ؍امریکہ کے اُردو شاعری پر اثرات کا جائزہ لینے سے پہلے ہم ایک نظر افغانستان پر روسی افواج کی چڑھائی کے نتیجے میں امریکہ؍روس جنگ جو پاکستانی مجاہدین اور مقامی افغان جہادیوں کے تعاون سے لڑی گئی،کے اُردو شاعری پر اثرات کا مطالعہ کریں گے۔یہ امر قابلِ غور ہے کہ اس پوری جنگ(۱۹۷۹ء ۔۱۹۸۸ء) کو حق و باطل کی جنگ بنا کر پیش کیا گیا۔چوں کہ پاکستان میں اس وقت فوجی اقتدار تھا اس لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ایک ایجنڈے کے تحت امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے پاک؍افغان نوجوان جہادیوں کو اس گوریلا جنگ میں دھکیل دیا۔روس کا افغانستان میں دخلول ایک خالصتاً سیاسی اور خطے کے معاشی ذرائع(Sources) پر قبضہ کا جارحانہ فعل تھا جو امریکی مفادات کو براہِ راست نقصان پہنچاتا تھا۔امریکہ نے پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کے اس پورے جنگی معرکے کو اسلام کی بقا کا ضامن قرار دلوایا اور ہماری مذہبی جماعتیں فوج کا ایک خفیہ ادارہ بن کر افغان مجاہدین کو مذہبی بنیادوں پر مدد فراہم کرنے لگیں۔یاد رہے کہ یہ وہی مذہبی جماعتیں ہیں جو 9/11 کے واقع کے بعد دنیا بھر میں کالعدم قرار دے دی گئیں۔یاد رہے کہ یہ وہی مذہبی جماعتیں ہیں جنھوں نے مذہب کے نام پر ہزاروں افراد کو ’’شہدا‘‘ کی فہرست میں لکھوایا تھا۔سوال یہ نہیں کہ ہمیں مدد کے لیے افغانستان جانا چاہیے تھا کہ نہیں؟مسئلہ یہ ہے کہ ان جماعتوں کے پلیٹ فارم پر بے گناہ اور معصوم شہریوں کو اسلام کی جنگ دکھائی گئی جب کہ یہ سارا عمل ’’بے وقوف‘‘بننے کا عمل تھا۔کیا ہم واقعی بے وقوف بنے رہے؟کیا ہمارا ادیب،دانش ور بھی بے وقوف اور احمق بنا رہا؟اس نہایت اہم معاشی چکر کو سمجھنے کی بجائے ہم حق وباطل کا شکار بنے رہے۔جیسے اب ایک اہم مذہبی جماعت کی طرف سے ملک میں ہونے والے خود کش حملوں کو حق وباطل کا معرکہ قرار دیا جا رہا ہے اور سامراج امریکہ کے مذموم مقاصد کو اُن کے حقیقی آئینے میں سمجھنے کی بجائے اسلام اور قران کی جنگ بنا کے ہم اس سارے منظر نامے کا رُخ بیرونی طاقتوں کے حق میں موڑ دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں اُردو شاعری میں روسی افواج کے افغانستان میں داخل ہوتے ہی دو طرح کے روّیے سامنے آئے۔ایک وہ طبقہ تھا جو اس جنگ کی شدید مخالفت کر رہا تھا اور روسی افواج کی افغانستان میں دراندازی کو مخالفت کے باوجود امریکہ کی بھی شدید مخالفت کر رہا تھا۔ایسے گروہ اسٹیبلشمنٹ کی ’پرو امریکہ پالیسی‘ کے باعث زیرِ عتاب آئے اور ہزاروں کارکنوں کو امریکہ مخالف بیانات پر گرفتار کر لیا گیا۔دوسرا طبقہ مذہبی جذبات سے مملو قائدین کا تھاجو روسی افواج کے انخلا کا مذہبی بنیادوں پر تجزیہ کرتے ہوئے نجانے واقعات کی کڑیاں احادیث مبارکہ تک ملاتے ہوئے جنت، دوزخ کے معاملات میں اُلجھے ہوئے تھے۔اس مذہبی گروہ کی امریکہ نواز پالیسی کے باعث اس جنگ کو’’افغان جہاد‘‘ کا نام دیا گیا۔معصوم اور شیر جوانوں کو شہید ہونے اور جنت کے حصول کے لالچ میں دھڑا دھڑ کچّی پکی ٹرینگ دے کر روسی افواج کے خلاف کسی محاذ پر بھیج دیا جاتا جہاں سے اُن کے لاشے وطن واپس آتے جن کو بڑے مذہبی جذبات کے ساتھ شہدا کا خراج تحسین دے کر دفن کیا جاتا۔
اُردو شاعری پرو امریکہ پالیسی‘ کے حمایت یافتہ طبقے کے اثرات بہت زیادہ رہے۔اس سلسلے میں ایک کتابچہ شائع کیا گیا جس میں امرکی حمایت کے لیے راہ ہموار کی گئی۔اور اس پوری جنگ کو اسلامی جنگ بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ہمارے شعرا نے اپنے ’’اسلامی جذبات‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے زندہ و تابندہ نظمیں کہیں۔یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ’’پاک افغان اسلامی محاذ‘‘ کی جانب سے مذہبی جذبات کی آبیاری کے لیے ایک سیل بھی بنایا گیا۔اس سیل کے ذمے جہاں اور کام تھے وہاں دانش ور طبقے کو بھی تربیت دینے یا انھیں Dictate کرنے کا کام کیا جاتا۔اس ادارے کی طرف سے ایک کتاب شائع کی گئی جس میں افغانوں کی فتح کے لیے جنگی نظمیں شامل تھیں۔۱۹۸۱ء میں شائع ہوئے اس مجموعے کانام’’ کربلا سے کابل تک‘‘تھا جو تحیسن فراقی اور غافل کرنالی نے مرتب کیا۔کتاب کی نظموں کا انتخاب کا کیا پیمانہ ہوگا،کتاب کے عنوان سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے۔اس میں کل ۴۸ نظمیں شامل تھیں۔لکھنے والوں میں ملک کے معروف شاعر نعیم صدیقی،حفیظ تائب،طفیل ہوشیارپوری،مظفر وارثی،عطاء الحق قاسمی،جلیل عالی،غافل کرنالی،انور مسعود اور تحسین فراقی بھی شامل تھے۔
ڈاکٹر خواجہ زکریا نے کتاب کے آغاز میں ’’حرفِ چند‘‘ کے طور پر اس جنگ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مجموعے میں شامل نظموں کو تاریخ کا کبھی نہ فراموش کیا جانے والے واقعہ قرار دیا۔وہ لکھتے ہیں:
’’افغانستان میں ہجرت کرنے والے لوگ مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ یقیناً انسان بھی ہیں لیکن’’سُرخ سامراج‘‘ ان کے ملک کو ٹینکوں سے روند کر اور بموں سے تباہ کر کے نہ جانے انسانی اقدار کو تحفظ دینے میں مصروف ہے۔ان گھمبیر حالات کے باوجود ہمارے بعض تخلیقی فن کار ایسے ہیں جنھیں ان خونی سانحات نے اب تک متاثر نہیں کیا،تاہم متعدد ’’دیوانے‘‘ ایسے بھی ہیں جنھوں نے افغانستان کے عوام کا دُکھ اپنے دلوں ہی میں محسوس نہیں کیا بلکہ اس دُکھ کو تخلیق کا پیکر عطا کر کے ملتِ بیضا کے مجاہدین کو غیر مبہم الفاظ میں خراجِ تحسین بھی پیش کیا ہے۔ ملت کے دیوانوں ‘‘ میں معروف شعرا کے اسماء بھی موجود ہیں اور نسبتاً کم معروف شعرا کے نام بھی شامل ہیں۔ان سب حضرات کی پابند یا آزاد نظمیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارے ہاں تخلیقی فن کار بے حس نہیں ہیں بلکہ وہ ظلم کے خلاف اظہارِ نفرت اور مظلوموں کے حق میں اعلان محبت کو اپنا فریضہ تصور کرتے ہیں۔‘‘
(خواجہ زکریا،ڈاکٹر:’’کربلا سے کابل تک‘‘،پاک افغان اسلامی محاذ،۱۹۸۱ء ص ۴)
خواجہ صاحب نے مجموعے میں شامل شعرا کے بارے میں لکھا ہے کہ خوش قسمتی سے یہ شاعر کسی ایک سیاسی نظریے کے حامل نہیں مگر ظلم و بربریت کے خلاف ان سب کا نظریہ ایک ہے۔حالاں کہ دیکھا جائے تو یہ سب شعرا کم از کم مذہبی حوالے سے کسی گروہ میں تقسیم نہیں تھے۔کتاب کے مرتبین غافل کرنالی اور تحسین فراقی (جو خود بھی اس مجموعے میں تھے)نے اس جنگ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے روسی ظلم کو انسانیت کش قرار دیتے ہوئے افغانوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جو اس جہاد میں اپنا لہو پیش کر رہے ہیں:
’’افغانستان میں ہزاروں لاکھوں انسان قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔سینکڑوں گاؤں زمین بوس ہو چکے ہیں۔معصوم بچے اور عورتیں تک اشتراکی کوچہ گردوں کی دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔ا فغان مجاہدین جب کچھ عرصہ بعد اس علاقے پر قبضہ کرتے ہیں تو ان بد نصیبوں کی لاشیں ان گڑھوں سے نکالتے ہیں۔ان میں سے ایک لاش ایک نوجوان خاتون کی بھی ہے جس کی گردن میں قرآن حمائل ہے۔۔۔۔۔۔لیکن حرفِ حق ان تمام بہیمتوں ،ان تمام وحشتوں،ان تمام چنگیز صفتیوں،ان تما م ظلم شعاریوں اور سیہ کاریوں کے باوجود بلند ہو رہا ہے۔کابل یونیورسٹی کے طلباء نے ۱۹۶۰ء کے آواخر میں جس تحریکِ اسلامی کی بنیاد رکھی تھی اب اُس کے بطن سے کئی اور زندہ تحریکیں جنم لے چکی ہیں،کئی گلبدین حکمت یار پیدا ہو رہے ہیں،کئی برہان الدین ربّانی جنم لے رہے ہیں۔کئی مولوی نصراللہ اور محمد یونس خالص،انگڑائی لے کر بیدارہو رہے ہیں۔کئی پروفیسر سیاف سیف بکف میدان جہاد میں کفر اور شَر کی قوتوں سے بر سرِ پیکار ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔جہاد اپنی تمام تر سچائیوں کے ساتھ جاری ہے۔۔۔۔۔۔یہ وہ انتقام ہے جو ایک دفعہ تاریخ کے باطن میں نفوذ کر جائے تو پھر کوئی ماں کا لال اسے اس کے اوراق سے نوچ نہیں سکتا۔بعض افراد اور اقوام قیامت تک دشنام ہو جاتے ہیں،اشتراکی روس بھی انھی میں سے ایک ہے۔ذلّت اور شکست اس کا مقدر بن چکا ہے۔‘‘
(ایضاً،ص۳)
مجموعے میں شامل شعرا کی نظموں کا زیادہ تر فکری محور حق و باطل کے درمیان بنتا ہے۔کسی شاعر نے بھی اس جنگ کا سیاسی یا انسانی بنیادوں پر تجزیہ نہیں کیا۔اس جنگ کو مکمل طور پر جہاد کے رنگ میں دیکھا گیا۔نظموں کا مزاج ایک سا ہونے کی وجہ سے گمان ہوتا ہے کہ ان کے انتخاب کے وقت کسی خاص نقطۂ نظر اور کسی خاص ہدایت کو مدِّ نظر رکھا گیا۔