’’آئی ایم ملالہ‘‘ اور کرسٹینا لیمب کا صحافیانہ بغض
از، قاسم یعقوب
کرسٹینا لیمب کا نام پاکستانی صحافت میں نیا نہیں۔ برطانیہ کی یہ خاتون صحافی بہت چھوٹی عمر میں پاکستان میں ’’فنانشل ٹائمز‘‘ کی نمائند ہ بن کر آئی۔ یہ دور بے نظیر بھٹو کا پہلا دورِ حکومت تھا جب ضیا الحق سلطنت اپنی مطلق العنانی کا خود کش اختتام کر چکی تھی۔ یہ دور ابھی جمہوریت اور مارشلائی رویوں کا ملا جلا دور تھا جس میں سماجی سطح پر جمہوری رویوں پر سوالات اُٹھ رہے تھے اور کہیں جمہوریت کو ہی ایک طاقت تصور کر لیا گیا تھا۔ ضیا باقیات پوری طرح سرگرم تھی۔ کرسٹینا اس دور میں بے نظیر کی حکومت کی کارکردگی سے زیادہ اُس وقت کے سیاسی حالات کے لیے رپورٹنگ کرتی رہی۔ وہ ہمسائیہ ملک افغانستان میں بھی سرگرم رہی۔ وہ افغان وار میں ملوث مجاہدین سے بھی ملتی رہی اور اُن کے ساتھ اندرونِ افغانستان کے دورے بھی کئے۔ ایک دفعہ اُسے ملک بدر کر دیا گیا مگر اُس وقت کے برطانوی ہائی کمشنر سرنکولس بیرنگٹن نے کرسٹینا کو ملک بدرہونے سے بچایا۔کرسٹینا کو فنانشل ٹائمز (جو پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے رپورٹنگ پر مشتمل تھا)، کی بنیاد پر نوجوان صحافی کا ’’خطاب برائے1989‘‘ دیا گیا۔ کرسٹینا لیمب نے فلسفہ اور سیاسیات میں آکسفورڈ سے ڈگریاں لے رکھی ہیں۔
کرسٹینا کو اُس وقت شہرت ملی جب وہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت کے دوران پاکستان کا سیاسی نقشہ کھینچتی ہوئی ایک کتاب ’’اللہ کا انتظار‘‘Waiting for Allah لکھتی ہے۔ اس کتاب سے کرسٹینا نے بہت شہرت کمائی اور وہ دنیا بھر میں ’’مشکل حالات‘‘ کی صحافی بن کر سامنے آئی۔’’اللہ کا انتظار‘‘ مکمل طور پر سیاسی منظر نامے پر لکھی ہوئی کتاب ہے۔ یہ منظر نامہ افغانستان کو بھی سمیٹے ہوئے ہے۔ انغانستان کی حکومت بھی روس کے انخلاکے بعد شدید مشکلات کا شکار اور ایک نئے دور کا آغاز کرر ہی تھی۔ پاکستان میں سیاسی بساط اب بظاہر جمہوری مہروں کی حرکات سے مشروط کر دی گئی تھی مگر ابھی بھی ڈکٹیٹر اور غیر جمہوری ادارے اپنی ان دیکھی طاقتوں کا اظہار کر رہے تھے۔ بعد میں آگے جا کر یہی سول اور فوجی قوتیں کبھی نواز شریف اور کبھی بے نظیر کو اپنے مذمو م ارادوں کا مرکز بناتی رہیں۔
کرسٹنا ایک دفعہ پھر پاکستان کے صحافتی حلقوں میں اہمیت اختیار کر گئی ہے اس دفعہ اُس کی وجہ شہرت سیاسی میدان نہیں بلکہ ملالہ یوسف زئی پر لکھی ہوئی کتاب ہے۔ ملالہ کی کتاب ’’میں ملالہ ہوں‘‘کا موضوع ’’طالبان مخالف فکر‘‘ پر مبنی ہے۔ملالہ یوسف زئی اتنی متنازعہ نہیں تھی جتنی کرسٹنا لیمب نے بنا دیا۔ ملالہ کی کتاب کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ اُس کو کرسٹنانے لکھا جس کو پاکستان کے صحافتی حلقوں میں شدید ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ گو کہ وہ ’’اللہ کا انتظار‘‘ میں پاکستانی معروف صحافیوں عارف نظامی، برگیڈےئر سالک، نصرت جاوید اور نجم سیٹھی کا نام بھی شکریہ کے لیے لیتی ہے جن کی شہرت متنازیہ نہیں مگر زیادہ تر اُس کو مغربی اسٹیبلشمنٹ کے لیے کام کرنے والی صحافی ہی سمجھا جاتا ہے۔
میں نے ملالہ کی کتاب کوتنقیدی نگاہ سے پڑھا اوراس کتاب کو طالبان کے’’ تعلیم مخالف جہاد‘‘پر ایک کڑی تنقید ہی پایا۔ میں شروع دن سے ملالہ یوسف زئی کے تعلیم کے لیے اٹھنے والے اس جرات مندانہ اقدام کا حامی رہا ہوں مگر ملالہ کی کتاب کے مصنف کے طور پرکرسٹینا کا نام سنتے ہی میں چونگ گیا تھا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ملالہ سے اس طرح چیزیں منسوب بھی کی جا سکتی ہیں جس طرح کرسٹینا نے ملالہ کی کتاب میں جگہ جگہ اپنا مقدمہ پیش کیا ہے۔ خیر یہ بھی کوئی بری بات نہیں ایک صحافی زیادہ بہتر انداز سے انٹرویو لینے والے کے خیالات کو سمجھ سکتا اور اپنی زبان میں بیان کر سکتا ہے مگر معاملہ کچھ اور بھی ہے۔ کرسٹینا نے زبان کی حد تک (جس پر اعتراض کرنا حماقت ہی ہو سکتی ہے) ہی اپنا ورژن نہیں رکھا بلکہ سوالات کی تقسیم بھی کچھ جگہوں پر غیر مناسب اور بے جا طرز کی رکھی ہے۔ ملالہ کی کتاب پر جتنا بھی اعتراض کیا گیا وہ اینٹی طالبان فکر کا ’’طالبان حمایت‘‘ ردعمل زیادہ ہے چوں کہ کرسٹینا کا پس منظر امریکی اسٹیبلشمنٹ کا حمایتی رہا ہے اس لیے ’’ آئی ایم ملالہ‘‘ بھی تنقید کا نشانہ بن گئی۔
کرسٹینا لیمب پاکستان کے متعلق کس طرح کے خیالات رکھتی ہے اس کا اندازہ ’’اللہ کا انتظار‘‘پڑھتے ہوئے زیادہ ہوتا ہے۔ Waiting for Allahمیں سیاسی منظر کو جس ڈھب پر دکھایا گیا ہے اُس کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں میں آغاز ہی میں موجود چند پیرہ گراف پیش کرتا ہوں جس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے:
’’برطانیہ سے پاکستان روانہ ہونے کے بعد مجھے کچھ دیر دوبئی میں رکنا پڑا اور مجھے عجیب سا محسوس ہوا کہ خلیج میں پاکستان محنت کش بدنما لباس، پاجامے پہنے ہاتھوں میں انتہائی ترقی یافتہ الیکٹرانک اشیا پکڑے ہوئے جہاز میں داخل ہو رہے ہیں۔ وہ اتنے جاہل تھے کہ جہاز میں اپنی نشست کا نمبر تک نہیں پڑھ سکتے تھے۔ میں نے 20ماہ پہلے پاکستان میں گزارے لیکن مجھے یہ احساس رہے گا کہ بجائے زمانے کے ساتھ ساتھ چلنے کے میں کئی صدیاں پیچھے کے لوگوں کے ساتھ زندگی گزار رہی ہوں۔کراچی اےئر پورٹ سے باہر نکلتے ہی مجھے قلیوں کی ایک فوج نے گھیرے میں لے لیا ابھی میں ان سے چھٹکارا حاصل کرنے نہ پائی تھی کہ گداگر میرا راستہ روک کر کھڑے ہو گئے۔ بڑی مشکل سے جان بچا کر نکلی کہ ٹیکسی ڈرائیوروں سے ہتھے چڑھ گئی اور ایک ہوٹل میں آ کر دم لیا۔ لیکن یہاں بھی سکون حاصل نہ ہوا۔ جونہی میں اپنے کمرے سے نکل کر سڑک پر آئی ۔ گلوبند پہنے آنکھوں پر گہرے رنگ کے شیشے لگائے خفیہ ایجنسی کا یجنٹ میرا پیچھا کرنے لگا۔ آگے چل کر مجھے ایک سفید اور سبز رنگ کا دربار نظر آیا۔ جہاں گندے کپڑوں میں ملبوس ریڑھی والے نظر آرہے تھے اور لوگ ان ہاروں کو خرید کر اس دربار پر چڑھا رہے تھے۔ اسی دوران ایک شخص بندر کو نچاتا ہوا میرے پیچھے پیچھے آنے لگا۔ ابھی تھوڑی دور ہی گئی تھی کہ ایک طوطا کارڈ اٹھا اٹھا کر لوگوں کی قسمت کا حال بتا رہا تھا۔کچھ عرصہ یہاں رہنے کے بعد میں فناشل ٹائمز کے ایشائی ایڈیٹر کے مشورہ پر پشاور پہنچ گئی۔‘‘Waiting for Allah (page 11)
اب آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ کرسٹینا کا سارا صحافیانہ بغض ان چند سطروں میں نظر گیا ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے تمام سیاسی واقعات کی تصدیق کے باوجود آپ کہیں نہ کہیں پاکستان کے خلاف نفرت کا آتشیں لاوا ابلتا ہوا محسوس کر سکتے ہیں۔بھلا قلی، طوطے، دربار___کیا یہ جہالت ہے، یہی تو وہ کلچر ہے جس کو ہندوستان سے جا کر یورپی ،تاریخی ورثہ قرار دیتے ہیں۔
ملالہ یوسف زئی کی کتاب پڑھتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ کرسٹنا پاکستان دشمن جذبات کی حامی صحافی ہے۔ ملالہ کو بہت بری طرح اس صحافی نے اپنی شہرت کے لیے استعمال کیا۔ ملالہ کی کتاب میں ایسا کوئی مواد نہیں جس کی بنیاد پر ملالہ یا اُس کے کاز کو پاکستان دشمن کہا جائے بلکہ کرسٹنا کے اندازِ تحریرنے ان تمام غلطیوں کو زیادہ واضح کر دیا جو اُس کتاب میں موضوعاتی سطح پر موضوعِ بحث بنایا گیا۔مثلاً رشدی، یا اس سے پہلے والا سیاسی منظر نامہ پر(ملالہ پر اٹھائے جانے والے )اعتراضات بہت حد تک کرسٹینا کے ہیں۔ حامد میر کے ایک کالم کے جواب میں ملالہ کے والد نے اُن تمام ایسے رجحانات و واقعات کو ختم کرنے یا تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا جس کی وجہ سے ملالہ کی کتاب اور ملالہ کی تعلیم حمایت مہم کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہمیں کتاب کے ترجمے اور اُس کے دوسرے ایڈیشن کا انتظار کرنا چاہیے۔