(پروفیسر شہباز علی)
قیام پاکستان کے بعد غزل گائکی کے حوالے سے فریدہ خانم ایک ایسی مغنیہ ہیں جنھوں نے اپنی جدا گانہ طرز ادا سے اس صنفِ موسیقی کو آبرو بخشی ہے۔ فریدہ خانم کو خدا وند کریم نے پاٹ دار آواز سے متصف کیا ہے اور وہ آکار کا گانا گاتی ہیں۔ فریدہ خانم نے اپنی آواز میں ٹھمری انگ کے الاپ، بہلاؤں ، اور چھوٹی چھوٹی تانوں کی آمیزش سے اس صنف کو کمال تک پہنچایا ہے۔
فریدہ خانم ۱۹۳۳ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد میاں غلام محمد کو موسیقی سے شغف تھا۔ آپ کی بڑی بہن مختار بیگم کا برصغیر کے طول و عرض میں شہرہ تھا۔ موسیقی سے رچے بسے اس ماحول میں آپ کا موسیقی کی طرف میلان ایک فطری امر تھا۔ اس ضمن میں آپ کے والد نے بھی آپ کی بھرپور حوصلہ افزائی کی اور آپ کے لیے موسیقی کی تعلیم کا انتظام کیا۔
ان دنوں کلکتے کا ماحول موسیقی کے لیے بے حد ساز گار تھا۔ انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا میں فریدہ خانم پر لکھی گئی ایک تحریر میں اس پہلو کی طرف کچھ یوں اشارہ کیا گیا ہے:
’’اس وقت ہندوستان بھر کے صاحب طرز شعراء، ماہرین ، موسیقار، اہل قلم کلکتہ میں جمع تھے۔ خود ان کی بڑی بہن مختار بیگم کی آواز کی دھوم پورے ہندستان میں مچی ہوئی تھی۔ وہ غزل کی گائکی کا ایسا منفرد اور خوب صورت انداز رکھتی تھیں کہ نقادان فن نے انھیں ’’بلبلِ پنجاب‘‘ کا خطاب دیا۔ فریدہ خانم نے بچپن میں مختار بیگم، اختری بائی فیض آبادی اور اُستادبرکت علی خاں کی گائکی کا انداز سُنا تو کان سُروں سے آشنا ہوئے‘‘۔ ۱
فریدہ خانم نے سات آٹھ برس کی عمر میں اُستاد عاشق علی خاں پٹیالہ والے سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی تھی۔ اُستاد عاشق علی خاں صاحب نے ان کی تعلیم کا آغاز خیال گائکی سے کیا۔ فریدہ خانم کے بیان کے مطابق انھیں راگ ’’ایمن‘‘ کا بہت ریاض کروایا گیا اور بعد میں یہی راگ ان کا پسندیدہ راگ بن گیا۔ انھیں روزانہ چھے سات گھنٹے ریاض کروایا جاتا تھا۔ خیال گائکی کی تربیت کے بعد اُستاد عاشق علی خاں صاحب نے فریدہ خانم کو ٹھمری کی تعلیم دینا شروع کر دی۔ ٹھمری کی تربیت کے دوران فریدہ خانم نے بول کہنے کے انداز، بول کی بڑھت اور تال کے اندر رہتے ہوئے بول بانٹ کے رموز سے آشنائی حاصل کی۔
اُس دور میں خیال کے بعد ٹھمری شائقینِ موسیقی کی سب سے پسندیدہ صنف کے طور پر مقبول تھی۔ ٹھمری کے ضمن میں پنجاب کا ایک اپنا اسلوب تھا جسے برصغیر میں بے حد پسند کیا جاتا تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اُستاد بڑے غلام علی خاں صاحب اور اُستادبرکت علی خاں صاحب ٹھمری کے ’’پنجاب انگ‘‘ کے بانی تھے۔ ان دونوں اُستادوں کے بعد بہت سے فن کاروں نے ان کے انداز کو اپنانے کی کوشش کی لیکن ان کے جیسا نہ گا سکے۔ فریدہ خانم نے بھی اپنے اُستاد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ابتداء میں ٹھمری اور دادرا بہت مہارت سے گایا۔
فریدہ خانم نے باقاعدہ طور پر اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو لاہور سے کیا۔ ۱۹۴۹ء میں لاہور ریڈیو پر آڈیشن میں کام یابی کے بعد انھوں نے نیم کلاسیکی مغنیہ کی حیثیت سے ٹھمری، دادرا، غزل اور گیت کے پروگراموں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ انھیں سب سے پہلے ۱۹۵۰ء میں لاہور ریڈیو کے ’’جشن بہاراں‘‘ میں عوامی سطح پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا۔ اس محفل میں زینت بیگم، دلشاد بیگم، اُستاد بڑے غلام علی خاں صاحب، اُستاد برکت علی خاں صاحب اور طبلہ نواز میاں قادر بخش بھی شریک تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ انھیں اتنے بڑے بڑے فن کاروں کے سامنے گانا پڑا۔ ان تمام فن کاروں نے ان کے فن کو سراہا۔
فریدہ خانم ۱۹۵۰ء میں رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئیں۔ ازدواجی زندگی اور گھریلو مصروفیات نے اُن کے فنی سفر میں کوئی رکاوٹ تو پیدا نہ کی البتہ ان کی ریاضت کا سلسلہ ضرور رُک گیا۔ فریدہ خانم کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ان کے یہ چاروں بچے موسیقی کی طرف رجحان نہیں رکھتے۔ معلوم نہیں ان کے بچوں میں فطری طور پر موسیقی سے کوئی رغبت نہ تھی یا فریدہ خانم نے دانستہ اپنے بچوں کو موسیقی سے دور رکھا۔ حالانکہ فن کار کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد میں سے سب نہیں تو کوئی ایک بچہ ضرور اس کے فنی ورثے کا امین ہو۔
فریدہ خانم نے حساس اور درد مند دل پایا ہے۔ محمد اسلام شاہ ان کے اس وصف کے متعلق لکھتے ہیں:
’’فریدہ خانم انتہائی ہمدرد اور نرم دل فن کار ہے۔ میں نے بہت کم فن کار ایسے دیکھے ہیں جو کسی کے درد میں اس انداز سے شریک ہوں جس انداز سے یہ شریک ہوتی ہیں۔ فن کاروں، شاعروں، ادیبوں کے ساتھ ان کے دُکھ سُکھ میں شریک ہونا، کوئی بیمار ہو جائے تو اس کی تیمار داری کرنا یہ اس کی فطرت میں شامل ہے۔ نام ور شاعر اور ریڈیو موسیقی کے پروگراموں کے انچارج شاد امرت سری کی میت پر جنازہ گاہ میں دیکھا۔ ساڑھی کے دونوں پلو دانتوں میں دبائے، ننگے پاؤں ہاتھوں میں پھول اور سوجھی ہوئی آنکھوں میں سیز لیے ایک پجارن کی طرح وہ سنگیت کے اس رسیا کے دوارے موجود تھی۔ اُسے دیکھ کر یوں محسوس ہوا جیسے شاد کے دوست نام ور مصور موجد نے شاد کے دیوان ’’داغِ فراق‘‘ کے سرورق کے لیے ایک تصویر بنا دی ہے۔ اسی طرح ایک بار میں بہاول پور روڈ سے گزر رہا تھا، میں نے دیکھا کہ جنازہ گاہ کے قریب ان کی گاڑی کھڑی ہے۔ میں رُک گیا، دائیں طرف نگاہ ڈالی تو چند لوگ جمع تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ لوگ نور جہاں بیگم کو دفنانے آئے ہیں۔ یہاں بھی ان پر عجیب رقت طاری تھی۔ اُستاد محمد شریف خاں بھی اس وجہ سے ان کی عزت کرتے ہیں کہ وہ فن کار ہونے کے ساتھ ساتھ انسان دوست بھی ہیں۔ سب سے یکساں سلوک کرتی ہیں‘‘۔ ۲
اُستادِ محترم قاضی ظہور الحق صاحب فریدہ خانم کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ان کے گانے کا انداز جُداگانہ ہے۔ ان کو خدا نے ظاہری و باطنی حسن سے نوازا ہے۔ آواز بڑی دِل کش ہے۔ انھوں نے اکتساب علم عاشق علی مرحوم سے کیا ہے۔ یہ مشہور مغنیہ مختار بیگم داری کی بہن ہیں۔ ایک زمانے میں انھوں نے راول پنڈی میں بھی سکونت اختیار کی ہوئی تھی اور ریڈیو سے پروگرام کرتی تھیں۔ مشہورپکھاوجی میاں قادر بخش آخیر وقت میں انھی کے یہاں مقیم رہے ہیں۔ فریدہ خانم کے بیان کے مطابق فریدہ خانم نے غزل گائکی میں اپنی بہن مرحومہ مختار بیگم سے اکتساب کیا ہے۔ ۳
۱۹۷۱ء میں حکومت پاکستان نے فریدہ خانم کو حسنِ کارکردگی کا صدارتی ایوارڈ دیا تھا۔ حکومت پاکستان نے انھیں بہت سے ثقافتی طائفوں کے ہمراہ پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لیے بیرونی ملکوں میں بھی بھیجا ہے۔ فریدہ خانم کو سب سے پہلے روس جانے کا اتفاق ہوا۔ افغانستان کے’’ جشن کابل‘‘ میں بھی وہ باقاعدگی سے شرکت کیا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ امریکا، بنگلا دیش، کوریا اور چین میں بھی وہ اپنے فن کا مظاہرہ کر چکی ہیں۔ ان ملکوں میں انھیں بیش قیمت انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا ہے۔
گانے کے علاوہ فریدہ خانم کو کار چلانے کا بہت شوق تھا۔ کھانا پکانا بھی جانتی ہیں۔ پالک گوشت اور بھنڈی گوشت مہارت سے بنا لیتی ہیں۔ پلاؤ اور شامی کباب انھیں بہت مرغوب ہیں۔ فریدہ خانم نے زیادہ تر ریڈیو کے لیے گایا ہے۔ سنٹرل پروڈکشن یونٹ لاہور میں ان کی گائی ہوئی بہت سی غزلوں اور گیتوں کی ریکارڈنگ موجود ہے جو وقتاً فوقتاً ریڈیو پاکستان کے مختلف ا سٹیشنوں سے سنوائی جاتی ہے۔ ذیل میں ان کی گائی ہوئی کچھ مشہور غزلوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
ناروا کہیے نا سزا کہیے
کہیے کہیے مجھے بُرا کہیے
داغ دہلوی
میرے قابو میں نہ پہروں دِل ناشاد آیا
وہ مرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا
داغ دہلوی
وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ
کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ
صوفی تبسم
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال سنائیں کیا
کوئی قہر نہیں، کوئی مہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا
اطہر نفیس
یارب غمِ ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پر ہے وہ دستِ دُعا ہوتا
چراغ حسن حسرت
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
خاطر غزنوی
فریدہ خانم نے لاہور ریڈیو کے مایۂ ناز کمپوزر نیاز حسین شامی کی ترتیب دی ہوئی دھنوں میں متعدد غزلیں اور گیت گائے ہیں، ذیل میں چند کا ذکر کیا جا رہا ہے:
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
داغ دہلوی
تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر، بار بار گزری ہے
فیض احمد فیض
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
علامہ اقبال
یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو
صوفی تبسم
شامِ فراق اب نہ پوچھ آئی اور آ کے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیا، جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی
فیض احمد فیض
نیاز حسین شامی کی ترتیب دی ہوئی دھنوں میں گائے ہوئے کچھ پنجابی گیتوں کے بول ملاحظہ ہوں:
دل تیرے پیار دیاں پاندا اے کہانیاں
حزیں قادری
اج مُک گئی اے اُڈیکاں والی رات
فیاض امید
آجا چن ماہی وے
طالب جالندھری
تیریاں اُڈیکاں وچ دل ایسا جا لیا
اعظم چشتی
ان گیتوں کے علاوہ فریدہ خانم کے کچھ اور مشہور گیت یہ ہیں:
میں نے پیروں میں پائل تو باندھی نہیں
کیوں صدا آ رہی ہے چھنن نن چھن
بلے بلے نی ٹور پنجابن دی
جُتی کَھل دی مروڑا نیءں او جھل دی
ٹور پنجابن دی
امبو تلے سیاں کب سے اکیلی
میں البیلی نار رے
نیناں رے نیناں کیسے بیتے ریناں
پیا بن مجھ کو آئے نہ ہی چیناں
ادارۂ ثقافت پاکستان نے ’’معیاری موسیقی‘‘ کے عنوان کے تحت فریدہ خانم کا ایک آڈیو کیسٹ ریلیز کیا ہے۔ اس کیسٹ میں فریدہ خانم نے اپنی مشہور غزلوں کے علاوہ ’’کامود‘‘، ’’درگا‘‘ اور ’’نٹ نارائنی‘‘ کے خیال نہایت عمدگی سے گائے ہیں۔ ان کا کلاسیکی گانا سُن کر محسوس ہوتا ہے کہ اگر وہ غزل گیت کی بجائے صرف کلاسیکی موسیقی کا انتخاب کرتیں تو بھی ایک نام ور مغنیہ ہوتیں۔
فریدہ خانم نے باقاعدہ طور پر کسی کو موسیقی کی تعلیم نہیں دی۔ میرے نزدیک اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ یا تو انھیں کوئی ثابت قدم شاگرد نہیں ملا جو ان کے جتنی محنت کر سکتا اور حق شاگردی ادا کر سکتا یا ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ کسی کو سکھا سکتیں یا انھوں نے دانستہ سکھانے سے احتراز کیا۔ وجوہات کچھ بھی ہوں یہ بات یقیناًافسوس ناک ہے کہ آج ان کے فنی اثاثے کا رکھوالا کوئی نہیں۔ محمد اسلام شاہ اس حوالے سے گلہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’عوام کا ایک گلہ اور بھی ہے، ملکہ پکھراج نے اپنی صاحب زادی طاہرہ سیّد کو اپنا مخصوص انداز سکھا دیا ہے۔ مہدی حسن نے پرویز مہدی کو تیار کیا ہے۔ زاہدہ پروین نے شاہدہ پروین کو رنگ دیا ہے۔ اُستاد نزاکت علی خاں، سلامت علی خاں نے اختر علی اور ذاکر علی کو شام چوراسی کی گائکی سکھائی۔ اُستاد امانت علی خاں اور فتح علی خاں نے اسد امانت علی خاں اور حامد علی خاں کو پٹیالہ گائکی بخشی۔ اُستاد شوکت حسین نے تاری کو طبلہ سکھایا۔ اُستاد صادق علی خاں مانڈو نے اقبال حیدر اور غلام حیدرکو کلاسیکل موسیقی سے روشناس کرایا۔ اُستاد کریم بخش پیرنے کا فن بشیر اور نذیر کی صورت میں زندہ ہے۔ نیاز حسین شامی نے غلام شبیر اور غلام جعفر کو سبق دیا۔ اُستاد جی۔اے فاروق نے نذیر بٹ اور عزیز دین کو کیرانہ گائکی کا علم پڑھایا۔ مختار بیگم نے فریدہ خانم کو اپنا فن دیا مگر فریدہ خانم نے اس سلسلے میں کیوں بخل سے کام لیا۔ تاریخ انھیں اس معاملے میں ہرگز معاف نہ کرے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فریدہ خانم کی گائکی سے بے شمار غزل گانے والے فن کار متاثر ہیں۔ گھر گھر اس کا انگ اپنایا جا رہا ہے۔ نسیم بیگم تو اس گھرانے کی شاگرد بھی ہوئیں مگر فلمی دُنیا میں مصروفیت کی وجہ سے ادھر نہ آ سکیں۔ زاہدہ سلطانہ عمر کے آخری حصے میں اس رنگ میں پختہ ہونا شروع ہو گئیں تھیں۔ نور جہاں بیگم نے بھی اس کی گائکی کو اپنی ہمت تک خوب اپنایا تھا۔ نسرین گیلانی نے ان کی دھنوں کا خاکہ نقل کیا ہے۔ بلقیس خانم، ثمر اقبال، ساجدہ فیروز اور دیگر فن کاروں نے بھی اپنی اپنی کوشش کے مطابق اس گائکی سے پھول چُنے ہیں۔
نہ دانم آں گل رعنا چہ رَنگ و بو دارد
کہ مرغ ہر چمنے گفتگوئے اُو دارد
ان تمام فن کاروں نے اس کی گائکی سے اپنی ہمت کے مطابق تاثر لیا ہے۔ مگر یہ رنگ اپنے پورے بانکپن میں کہیں نہیں ملتا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ فریدہ خانم نے کسی کو باقاعدہ تعلیم نہیں دی۔ اُستاد عاشق علی خاں کا فن، مختار بیگم کی تعلیم اور آغا حشر کا ڈرامائی تاثر آئندہ نسل کو بھی ملنا چاہیے۔ انھیں جو کچھ ورثے میں ملا ہے۔ انھوں نے جو کچھ اپنی محنت سے اس میں اضافہ کیا ہے انھیں یہ رنگ پھیلانے کی پوری پوری کوشش کرنی چاہیے۔ ۴
فریدہ خانم کے اپنے بیان کے مطابق انھیں بچپن میں گانا سیکھنے کا شوق نہیں تھا۔ جب اُن کے اُستاد عاشق علی خاں صاحب انھیں سکھانے آتے تو وہ باتھ روم جانے کا بہانہ بنا کر چھُپ جاتی تھیں کیونکہ کلاسیکی موسیقی سیکھنا انتہائی مشکل اور صبر آزما کام تھا۔ فریدہ خانم کو تعلیم حاصل کرنے کا بھی شوق تھا لیکن اس شوق کو وہ پاےۂ تکمیل تک نہ پہنچا سکیں او ر بمشکل پانچویں چھٹی جماعت تک ہی تعلیم حاصل کر سکیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر میں مغنیہ نہ ہوتی تو ایک تعلیم یافتہ خاتون ہوتی ۔ فریدہ خانم کلاسیکی موسیقی اور غزل گائکی کی ترویج کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہیں تاکہ نئے گانے والے کلاسیکی اور غزل گائکی میں اپنا مقام بنا سکیں لیکن اس کے لیے انھیں کوئی مددگار چاہیے۔
کراچی میں میرے ایک مہربان دوست ریاض احمد برنی صاحب ہیں جو کلاسیکی موسیقی سے والہانہ شغف رکھتے ہیں۔ برنی صاحب کی شخصیت خلوص، محبت اور ایثار کا پیکر ہے۔ وہ کلاسیکی موسیقی کی ترویج اور فروغ کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل رہتے ہیں ۔ برنی صاحب کی معرفت مجھے فریدہ خانم صاحبہ سے لاہور میں ان کے گھر پر ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔
اس ملاقات کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ لاہور میں موسیقی کی ایک تنظیم ’’ لاہور میوزک فورم ‘‘ (LMF) کے روح رواں ذوالقرنین اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر فریدہ خانم صاحبہ پر ایک دست آویزی فلم بنا رہے ہیں۔ اس دست آویزی فلم میں فریدہ خانم صاحبہ کی شخصیت اور فن کے حوالے سے اُن سے گفتگو کی جائے گی تا کہ ان کے فنی سفر کی داستان کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا جائے۔ یہ ایک بہت ہی اچھا اقدام ہے اور میری دعا ہے کہ یہ منصوبہ جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچے۔
برنی صاحب کی یہ خواہش تھی کہ میں فریدہ خانم صاحبہ کو اپنا ہارمونیم سناؤں اور اس دست آویزی فلم کے حوالے سے جو ان کا گانا ریکارڈ کیا جانا ہے، اس کے ساتھ ہارمونیم پر سنگت بھی کروں۔ چنانچہ اس مقصد کے تحت میں ۱۰؍اپریل ۲۰۱۲ء کو مع اپنے ہارمونیم لاہور کے لیے عازم سفر ہوا۔ لاہو ر ریلوے اسٹیشن سے ذوالقرنین نے مجھے اپنی گاڑی پر بٹھایا اور ہم سیدھا فریدہ خانم صاحبہ کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ ہم مقررہ وقت پر ان کے گھر پہنچے تو وہ اپنی کوٹھی کے مرکزی دروازے پر آئیں اور ہمیں خوش آمدید کہا۔ میری فریدہ خانم صاحبہ سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ میں اگرچہ ان سے بہت پہلے سے ملنے کا متمنی تھا لیکن میرے پاس کوئی ایسا حوالہ یا ذریعہ نہیں تھاکہ میں اتنی بڑی مغنیہ سے ذاتی حیثیت سے مل سکتا۔ بہرحال اس ملاقات کا باعث اور اہتمام کرنے والے ریاض برنی صاحب ہیں۔ فریدہ خانم صاحبہ سے اتنی خوب صورت ملاقات کروانے پر میں تمام عمران کا شکر گزار ہوں گا۔
خیر دوپہر کے کھانے کا اہتمام فریدہ خانم صاحبہ کے گھر پر تھا اور انھوں نے بہت ہی پر تکلف کھانے کا انتظام کر رکھا تھا۔ انواع و اقسام کے کھانے اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔ اتنی متواضع اور شفیق خاتون فن کار میں نے زندگی میں کم ہی دیکھی ہے۔ ان کی مشفقانہ شخصیت کا یہ پہلو نہایت ہی قابل تعریف ہے۔۔۔۔ کھانے سے فراغت کے بعد میں نے اپنا ہارمونیم نکالا اور وقت کی مناسبت سے انھیں راگ ’’ پوریا دھناسری‘‘ کا الاپ اور بڑھت، اس کے بعد راگ ’’ چند رکونس ‘‘ میں گمک تان کے کچھ نمونے اور آخر میں راگ ’’ پیلو‘‘کی ایک ٹھمری سنائی ۔ میرا ہارمونیم سُن کر وہ بہت محظوظ ہوئیں اور میری بہت ہمت افزائی کی۔ فریدہ خانم صاحبہ کی یہ داد اور ان کا شفقت آمیز سلوک میری زندگی کا سرمایہ ہے۔ وہ خود اتنی بڑی مغنیہ ہیں کہ میرے جیسے کم مایہ شخص سے ملنا اور اس کی پذیرائی کرنا، ان کی شخصی اور فنی عظمت کو آشکار کرتا ہے۔ اس سارے سفر میں ذوالقرنین نے میری میزبانی کی اور میرا ہر طرح سے خیال رکھا۔ اگر کلاسیکی موسیقی کو کچھ ایسے ہی شیدائی میسر رہے توان شاء اللہ پاکستان میں یہ فن کبھی نہیں مرے گا۔
فریدہ خانم اپنے ہم عصر فن کاروں میں بہت بلند مقام پر فائز ہیں اور ان کا فن پاکستان کے لیے ایک اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اگرچہ کلاسیکی اور نیم کلاسیکی موسیقی کی تمام اصناف پر یکساں مہارت رکھتی ہیں لیکن غزل سرائی اُن کا خاص میدان ہے۔ وہ غزل گاتے ہوئے راگ کی بڑھت کمال خوبی سے کرتی ہیں۔ انھیں تال پر مکمل عبور حاصل ہے اور مدھ لَے میں بے باکی سے بول کہنا انھی کا خاصہ ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دُنیا میں جہاں جہاں ہماری موسیقی سُنی اور سمجھی جاتی ہے فریدہ خانم کے پرستار موجود ہیں۔ بھارت کی صفِ اول کی پلے بیک سنگر لتا منگیشکر فریدہ خانم کے فن کی بہت معترف ہیں اور ان کا بے حد احترام کرتی ہیں۔ آج ہمیں نئے فن کاروں کی ایک کھیپ تو نظر آتی ہے لیکن ان میں فریدہ خانم کے پائے کا ایک بھی نہیں۔
حوالہ جات:۔
۱ انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا، ص ۷۱۲
۲ محمد اسلام شاہ، نام ور فن کار، حوالہ مذکور،ص ۸۱
۳ قاضی ظہور الحق ، معلم النغمات، حوالہ مذکور، ص ۱۰۵
۴ محمد اسلام شاہ، حوالہ مذکور، ص ۸۷، ۸۶، ۸۵
دلچسپ اور معلوماتی۔ خاص طور پر اس تناظر میں کہ یہ آرا ایک موسیقار اور استاد کی جانب سے دی گئی ہیں۔
اس محققانہ مقالے کے لیے پروفیسر صاحب کا بےحد شکریہ۔