(پروفیسر شہباز علی)
اردو ادب کے ممتازمحقق،شاعر اور فنون لطیفہ کا گہرا ادراک رکھنے والی شخصیت ڈاکٹرجواز جعفری کسی تعارف کے محتاج نہیں۔اردو ادب کے نقاد اور استاد کی حیثیت سے آپ ایک بلند درجے پر فائز ہیں۔
ڈاکٹر جواز جعفری کی نئی تصنیف خاک سے اٹھنے والا فن کا میں نے بغور مطالعہ کیا ہے۔ اس کتاب کے عنوان سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اس کا تعلق ہماری کلاسیکی موسیقی جیسے عظیم فن کے ساتھ ہو گا۔لیکن اس کی فہرست دیکھتے ہی یہ تاثر ختم ہو جاتا ہے اور پتا چلتا ہے کہ اس کتاب کے ابتدائی چار مضمون ’’فنِ موسیقی‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان مضامین کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کلاسیکی موسیقی کی تاریخ اور روایات کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں اور انہوں نے ہی مضامین اصول تحقیق کے مطابق بہت سی کتب موسیقی کا مطالعہ کرنے کے بعد تحریر کیے ہیں۔ میرے نزدیک یہی تحقیقی انداز اس کتاب کو موسیقی کی دیگر کتب سے ممتاز درجہ عطا کرتا ہے۔
پاکستان میں کلاسیکی موسیقی پر لکھی جانے والی بیشتر کتب میں تحقیقی انداز اختیار نہیں کیا گیا جس کی بناء پر کتب کی حیثیت مستند قرار نہیں پاتی۔کلاسیکی موسیقی کے جن پیشہ ور استادوں نے موسیقی پر کتابیں لکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کتابوں کے موثر اور مستند ہونے پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ پیشہ ور گھرانے اور استادوں میں چونکہ یہ فن سینہ بہ سینہ منتقل ہوا ہے اور بد قسمتی سے بہت سے گھرانوں کے استاد موسیقی کی علمی حیثیت کو سرے سے مانتے ہی نہیں اور جو الٹی سیدھی بندشیں اور جو قصے کہانیاں انہوں نے اپنے بزرگوں سے سن رکھی ہوتی ہیں۔ اسی پر بزعم خوداپنے علم کی بنیادیں استوار کرتے ہیں۔ایسے استادوں کے اسی غیرذمہ دارانہ روئیے نے کلاسیکی موسیقی جیسے عظیم فن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ڈاکٹر جواز جعفری نے زیر مطالعہ کتاب میں کلاسیکی موسیقی پر مضامین لکھ کر اس فن کی علمی،تاریخی اور تحقیقی حیثیت کو اجاگر کیا ہے۔
زیر مطالعہ کتاب کے پہلے مضمون کا عنوان’’دھُرپد سے خیال تک‘‘ ہے۔ اس مضمون میں ڈاکٹر جواز جعفری نے کلاسیکی موسیقی کی ایک قدیم صنف(جو اب پاکستان میں ناپید ہو چکی ہے)دھُرپد سے خیال گائکی تک کے ارتقائی سفر پر ناقدانہ نظر ڈالی ہے د ھُرپد کی ایجاد کا سہرا موسیقی دان راجہ مان سنگھ والئی گوالیار کے سرباندھتے ہیں لیکن ڈاکٹرصاحب نے اس مضمون میں اختلاف کرتے ہوئے موسیقی کی تین قدیم کتابوں’’بادشاہ نامہ‘‘تخفۃ الہند‘‘ اور’’راگ درپن‘‘ کا حوالہ دیا ہے کہ ان کتابوں کے مصنفین لاہوری،مرزا محمد اور فقیر اللہ راجا مان سنگھ کو دھرپد گائکی کا موجد تسلیم نہیں کرتے۔میرے نزدیک ڈاکٹر صاحب کا یہ اختلاف تاریخی اور استدلالی نوعیت کا حامل ہے اور اس حوالے سے مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔
ہندوستان کے بہت سے بادشاہ اور والیان ریاست موسیقی کے قدردان ضرور تھے لیکن کیا وہ عملی موسیقی پر بھی دسترس رکھتے تھے؟یہ ایک بڑا اہم سوال ہے۔ یہ بات قرین قیاس ہے کہ بادشاہ اور نوابوں کو خوش کرنے کے لئے اس وقت کے درباری گائکوں نے موسیقی کی مختلف اصناف کی ایجاد کو اس وقت کے بادشاہوں اور نوابوں کے نام سے منسوب کر دیا ہو۔۔’ستار اور طبلے‘ کی ایجاد کو گھرانے دار گائک اور بہت سے موسیقی دان حضرات امیرخسرو سے منسوب کرتے ہیں جبکہ موسیقی کے ممتاز محقق رشید ملک نے پاکستان میں پہلی دفعہ اس بات کو چیلنج کیا تھا اور کہا تھا کہ حضرت امیر خسروؒ کی تصانیف میں مذکورہ بالا سازوں کی ایجاد و اختراع کے حوالے سے شواہد نہیں ملتے۔
زیر نظر کتاب کے تین مضامین کلاسیکی موسیقی کے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان مضامین میں ڈاکٹر صاحب نے موسیقی میں گھرانوں کے تصور،موسیقی کے پاکستانی اور ہندوستانی گھرانوں پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے ۔ ان مضامین میں بھی ڈاکٹر صاحب نے اصول تحقیق کے مطابق موسیقی کی جن کتب سے استفادہ کیا ہے۔ ن کے حوالہ جات درج کئے ہیں۔ گھرانوں کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کی بہت سے مقامات پر تنقید بالکل بجا اوردرست ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول موسیقی کے گھرانوں نے جہاں کلاسیکی موسیقی کی ترویج اور ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔وہیں اس علمی اور ثقافتی ورثے کو اپنی نسلوں اور خاندان تک محدود کر کے اسے زوال کا شکار بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اب موسیقی کے گھرانے تقریباً ختم ہونے کے قریب ہیں اور ان گھرانے دار فن کاروں کے بچوں نے موسیقی میں اپنے لئے نئے راستے متعین کر لئے ہیں۔
زیر مطالعہ کتاب کے پانچویں مضمون کا عنوان’’عرب دنیا کا پہلا جنگ مخالف شاعر‘‘ ہے۔ یہ مضمون اپنے عنوان اور موضوع کے لحاظ سے اپنے اندر بڑی جاذبیت اور کشش رکھتا ہے۔ جاہلیت کے زمانے کے عربوں کی جنگ پرستی اور لڑائی جھگڑے کا ذکر مولانا الطاف حسین حالی نے بھی اپنی شہرہ آفاق مسدس’’مدوجزر اسلام ‘‘میں کیا ہے۔۔جنگ عربوں کی تفریح کے ساتھ ان کا مشغلہ اور ضرورت بھی تھی۔ عربوں میں زیادہ تر جنگیں پانی اور خوراک کے حصول کے لئے ہوا کرتی تھیں۔ اس مضمون کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ عرب قبیلوں کی دو شاخیں تھیں۔ ان میں سے ایک قحطانی عرب اور دوسرے عدنانی عرب کہلاتے تھے۔قحطانی عربوں کا مسکن یمن تھا۔ یہ عدنانی عربوں کے مقابلے میں مہذب اور متمدن زندگی گزارتے تھے۔ شہر اور محلے بنا کررہتے تھے اور صنعت وحرفت کے ماہر تھے۔ عدنانی عرب حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے تھے اور ان کا مسکن حجاز کا علاقہ تھا۔ یہ لوگ خانہ بدوشوں جیسی زندگی گزارتے، مویشی پالتے، ان کے دودھ اور گوشت پر گزارا کرتے، انہی کی کھالوں سے اپنے پہننے کے لئے لباس اور رہنے کے لئے خیمے بناتے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ان دنوں عرب قبائل کی آپس میں ازلی دشمنی تھی اور یہ صدیوں سے ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہے۔
قدیم عرب معاشرے میں تلوار اور گھوڑا رکھنے والے شخص کو عزت دی جاتی تھی۔ گھوڑا اور اونٹ عربوں کے پسندیدہ جانور تھے کیونکہ یہ جنگ و جدل میں ان کے معاون اور مددگار ہوتے تھے۔بہادر عرف جنگجووں کے کارناموں کو نہ صرف یاد رکھا جاتا بلکہ ان پر فخر بھی کیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں جنگ کے ساتھ شاعری بھی عروج پر تھی۔ہر قبیلے کا اپنا ایک شاعر ہوتا تھاجو اپنے قبیلے کے بہادروں کے جنگی کارناموں پر قصیدے لکھتا تھا۔ زمانہ جاہلیت کے اس جنگی عرب معاشرے میں ایک انقلابی سوچ رکھنے والا جنگ مخالف شاعر پیدا ہوتا ہے جس کا نام’’زہیر بن ابی سلمیٰ ‘‘تھا۔ اس انقلابی جنگ مخالف شاعر نے اس دور میں جنگ کے خلاف آواز اٹھائی جب کوئی شاعر ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ زہیر ایک پاک باز انسان ہونے کے علاوہ زمانہ جاہلیت کا وہ واحد شاعر تھا جو خدا اور روز آخرت پر بھی یقین رکھتا تھا۔زہیر نے جنگ پرست معاشرے کو اپنی شاعری سے امن و سلامتی کا پیغام دیا۔ میرے نزدیک اس کتاب کا یہ مضمون اردو دان طبقے کو ایک ایسے عظیم شاعر سے متعارف کرواتا ہے جس نے پہلی بار زمانہ جاہلیت کے عرب معاشرے میں جنگ کو ہوا دینے کی بجائے جنگ کو روکنے کا پیغام دیا۔ اس مضمون کے مطالعے سے یہ خاص بات بھی پتا چلتی ہے کہ زہیر عربی زبان کے ان سات لازوال شاعروں میں سے ہے جس کے قصائد سونے کے قلم سے لکھ کر خانہ کعبہ میں آویزاں کئے گئے ہیں۔
زیر مطالعہ کتاب کا چھٹا مضمون یورپ اور امریکا کی اردو غزل سے متعلق ہے۔ یورپ اور امریکا میں مقیم اردو شعراء کی محبوب صنف سخن’’اردوغزل‘‘ ہے۔ وطن سے ہجرت کرنے کا سبب بہتر مستقبل اور روزگار کی تلاش ہوتا ہے۔قیام پاکستان کے بعد بہت سے اردو ادباء اور شعراء آنکھوں میں سہانے مستقبل کے خواب سجائے یورپی ممالک کی طرف ہجرت کر گئے۔ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے مطابق مغرب میں مقیم شعراء کو دو طبقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے طبقے میں وہ شعراء آتے ہیں جو ہجرت سے پہلے پاکستان میں ادب کے حوالے سے اپنی مضبوط شناخت بنا چکے تھے۔ اس طبقے میں ساقی فاروقی(انگلینڈ)،احمد مشتاق(امریکا)، اوربخش لائل پوری(انگلینڈ) کے نام قابل ذکر ہیں۔ دوسرے طبقے میں وہ شعراء آتے ہیں جو ہجرت سے پہلے پاکستان مین شعر وادب سے وابستہ تو تھے لیکن اپنی کوئی پہچان نہ بنا سکے تھے۔ انہیں ان کی ادبی شناخت ہجرت کے بعدمیسر آئی۔ ان شعراء میں اشفاق حسین(کینیڈا)،عدیم ہاشمی (امریکا)، افتخار نسیم(امریکا)،انجم خیالی(انگلینڈ)،عاشور کاظمی(انگلینڈ) اور آفتاب حسین(آسٹریا) کے نام نامی آتے ہیں۔
پہلے طبقے سے تعلق رکھنے والے شعراء ہجرت کے باوجود اپنے ذاتی پختہ نظریات اور تجربات سے جڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ شعراء مغربی معاشرے کی اقدار و ثقافت کو اپنے اندر سمو نہ سکے۔ مغرب میں زندگی گزارنے کے باوجود ان کی معاشی اور تہذیبی اقدار میں اپنے ملک کی ثقافت اور رہن سہن کی جھلک واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ یہی تہذیبی ،ثقافتی اور روایتی رنگ ان کی شاعری میں جگہ پاتا ہے۔ ان شعراء کے حوالے سے اس کتاب کے صفحہ104پر مضمون نگار کا یہ تبصرہ بہت معنی خیز ہے:
’’جسمانی طور پر تو شعراء انیسویں صدی کے جدید طرزِ احساس سے معمور معاشروں میں آباد ہو چکے ہیں مگر ذہنی لحاظ سے وہ اپنے قدیم معاشروں ہی کے شہری ہیں۔‘‘
دوسرے طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان شعراء کی اردو غزل میں نئے علوم و فنون سے دلچسپی،نیا طرزِاحساس اور جدید مغربی معاشرے کے خط و خال نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں:
ہجرت مہاجروں کو جہاں لے کے آئی تھی
بسترنہیں بچھے تھے فقط چارپائی تھی
راشدامین(برمنگھم)
تنہائی کے زخم کو ایسے بھر لیتے ہیں
اس سے انٹرنیٹ پر باتیں کر لیتے ہیں
اشفاق حسین(کینیڈا)
کیا مقدر ہے کہ تو بھی پاس بیٹھا ہے مرے
پھر بھی ڈستا ہے وہی احساس تنہائی مجھے
عزیزالحسن(امریکا)
نئی زمیں پہ کھلاتے رہے شناخت کے پھول
جہاں رہے وہاں اپنی زباں کے ساتھ رہے
اشفاق حسین(کینیڈا)
اک نئے دور کی بنیاد کو رکھا جائے
دورماں باپ سے اولاد کو رکھا جائے
افتخارنسیم(امریکا)
رنجشوں کے درمیاں ہوتے ہوئے
ہم یہاں کب ہیںیہاں ہوتے ہوئے
سعید(آسٹریلیا)
یہ مضمون پڑھنے کے بعد ایک چونکا دینے والا انکشاف ہوتا ہے کہ بیرون ممالک بہت سے ایسے متشاعر(جعلی شاعر) پائے جاتے ہیں جوڈالروں کے عوض ہندوستان اور پاکستان کے کچھ شاعروں سے ان کی شاعری کے مسودے خرید کر شاعر بنے بیٹھے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول انڈین ادیبسنجے غوڈ بھولے اورکشن مہیشوری اسے سر عام ادبی بدکاری قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس عمل سے ایک طرف حقیقی ادیبوں اور شاعروں کی حق تلفی ہو رہی ہے تو دوسری طرف ادب کو جعل سازی کا گودام بنایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک مغرب میں آباد ہونے والے وہ تمام شعراء قابل قدر ہیں جنہوں نے مختلف معاشرتی اور ثقافتی اقدار کے حامل معاشروں میں آباد ہونے کے باوجود اپنی زبان،شاعری اور ثقافت سے رشتہ نہیں توڑا لیکن انہیں اس بات کا بھی دکھ ہے کہ مغرب میں آباد ہونے والے شاعروں میں ابھی تک ایک بھی اجتہادی ذہن رکھنے والا شاعر سامنے نہیں آسکا۔ مغرب کی اردو غزل کسی مسیحا کی منتظر ہے جو اس کے نیم مردہ جسم میں جان ڈال دے۔
زیر مطالعہ کتاب کے ساتوں مضمون کا موضوع’’کہانت کے تاریخی اور تخلیقی زاوئیے‘‘ ہے۔ میں نے جب اس مضمون کا عنوان پڑھا تو مجھے یہ خاصا منفرد نظر آیا لیکن ساتھ ہی یہ الجھن بھی درپیش آئی کہ آخر ’’کہانت‘‘ سے کیا مراد ہے اور اس کے کیا معنی ہیں؟۔ میری یہ الجھن اس مضمون کا تمہیدی پیراگراف پڑھتے ہی دور ہو گٗی۔ اس مضمون کی خوبی یہ ہے کہ یہ مضمون قاری کو اپنے تمہیدی پیراگراف سے ہی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور قاری جب تک اسے پڑھ نہ لے،اسے درمیان میں ادھورا نہیں چھوڑ سکتا ۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ایک تو میرے لئے لفظ ’’کہانت‘‘ بالکل نیا تھا اور جیسے ہی میں نے اس کا مطالعہ شروع کیا تو اس مضمون کی گرفت مجھ پر مضبوط ہوتی چلی گئی اور معلومات کے دروازے مجھ پر وا ہونا شروع ہوگئے۔
کہانت کے معنی نہ صرف مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرناہے بلکہ اس علم کے تحت کاہن ماضی اور حال کے بڑے بڑے سوالوں کے جواب دیا کرتے تھے۔ اس دور کے انسانوں کی سماجی اور نفسیاتی الجھنوں کا حل پیش کرتے تھے اور زندگی کے اہم امور میں ان کی رہنمائی کیا کرتے تھے۔ قدیم دور کے انسان کے پاس صرف ’’کہانت‘‘ ہی ایک ایسا ذریعہ تھا جس کے تحت وہ اپنے سوالات کے جوابات تلاش کرتا تھا۔ کاہنوں کو دیوتاؤکا نمائندہ سمجھ کر قدیم دور کے انسان ان کے فیصلوں کو من و عن تسلیم کیا کرتے تھے۔
زمانہ قدیم میں عرب،یونان،روم اور مصر میں کہانت اپنے عروج پر تھی۔ جاہلیت کے زمانے میں عربوں کی زندگی کا دارومدار’’کہانت‘‘ پرہوا کرتاتھا۔ عرب کاہنوں کو غیب داں اور پیش گو سمجھتے تھے۔ کاہن صاحب کشف نہیں ہوتے تھے بلکہ کوئی جن یا شیطان ان کے اندر بولتا تھا۔ کاہنوں اور انبیاء میں بنیادی فرق یہ تھا کہ کاہن جنات یا شیطان سے رہنمائی حاصل کرتے تھے جبکہ انبیاء تک اللہ تعالی اپنا پیغام’’وحی‘‘ کے ذریعے ۰ہنچاتے تھے۔ عربوں میں بہت سے کاہنوں نے حضرت محمدؐ کی آمد کی پیش گوئی کی تھی۔ عربوں میں رواج تھا کہ ان کے قبیلے کا اپنا ایک شاعر،خطیب اور کاہن ہوا کرتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کہانت کے حوالے سے اس کتاب کے صفحہ128پر ابن خلدون کی رائے کو کچھ اسطرح پیش کرتے ہیں۔۔۔۔۔
’’ابن خلدون کا کہنا ہے کہ کہانت انسانی خصائص میں سے ہے۔انسانی نفس میں بشریت سے اوپر اٹھنے کی صلاحیت موجود ہے اور کہانت اسے عالمِ بشریت سے روحانی سطح پر بلند ہونے میں مدددیتی ہے۔چونکہ یہ صلاحیت انبیاء کی گھٹی میں ہوتی ہے۔اس لئے وہ بغیر جدوجہد کے اس بلندی کو چھو لیتے ہیں۔مگر کاہن عالمِ بشریت اور روحانی بلندی کے درمیان معلق ہو کر رہ جاتا ہے۔‘‘
کہانت کے علم میں صرف مردوں نے ہی شہرت حاصل نہیں کی بلکہ عرب عورتوں نے بھی اس علم میں کمال اور نام وری حاصل کی۔حضور اکرمؐ کے وصال کے بعد جھوٹی نبوت کا دعوی کرنے والے بھی درحقیقت کاہن تھے۔روم اور یونان میں بھی کہانت کی روایت قدیم ہے۔
روم اور یونان کے لوگ اپنی بیماریوں اور درد سے نجات کے لئے کاہنوں سے رجوع کیا کرتے تھے۔ اٹلی میں بھی بہت سے ایسے معبد تھے جہاں کاہن اور کاہنائیں سائلین کے سوالات کے جوابات دیا کرتے تھے۔ عرب اور یورپ کی طرح ہندوستان کے قدیم باشندے بھی کہانت کے بہت زیادہ قائل تھے۔ہندوستان کے بڑے بڑے بادشاہ اور والیان ریاست نے کاہنوں کو اپنے درباروں میں رکھا ہوتا تھا اور اپنے تمام اہم فیصلوں سے پہلے کاہنوں سے مشورہ کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ کہانت کی روایت کے حوالے سے’’مصر‘‘ کو دنیا کی قدیم ترین ریاست سمجھا جاتا ہے جہاں دنیا کے قدیم ترین دارالاستخارہ موجود ہوا کرتے تھے۔
ایک اور اہم پہلو جس کی طرف اس تحقیقی مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے توجہ دلائی ہے۔ وہ ہے کہانت اور شاعری کا تعلق۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول کاہن اشعار کی صورت میں بھی کہانت کرتے تھے۔ کہانتوں میں پائے جانے والے تخلیقی اورشاعرانہ عناصر کی وجہ سے اسے’’ نثری نظم‘‘ کی ذیل میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب اس کتاب کے صفحہ نمبر141 پر اپنی رئے کو کچھ یوں پیش کرتے ہیں:
’’آج کل نثری نظم میں بھی تو بحور،اوزان،ردیف اور قوافی نام کی کوئی شئے نہیں ہوتی۔ایسے میں وہ کون سے عناصر ہیں جو اسے شعری تخلیق کے درجے پر فائز کرتے ہیں؟ یہ عناصر یقیناًشاعر کے غیر معمولی تصورات اورغیر روایتی تخلیقی زبان ہے ،جو نثری نظم کو شہرِ تخلیق کی شہریت عطا کرتی ہے۔ دیکھا جائے تو دنیا بھر ے ملنے والے کہانتی ادب کا ایک قابل ذکر حصہ ایسا ہے جس سے ہم بطور نثری نظم لطف اندوز ہو سکتے ہیں‘‘
مجموعی طور پر میری نظر میں ڈاکٹر صاحب کا یہ مضمون بہت معلومات افزء ہے۔ میں نے اردو ادب کی لاتعداد کتب کا مطالعہ کیا ہے لیکن کہیں بھی کہانت کے حوالے سے میری نظر سے ایک بھی جملہ تک نہیں گزرا۔ تاریخی اورشعری روایات کے ادراک ، آگاہی کے لئے کہانت کے حوالے سے جاننا بے حد ضروری ہے اور یہ تحقیقی مضمون اس کمی کو کما حقہ پورا کرتا ہے۔
زیر مطالعہ کتاب کے آخری اور آٹھویں مضمون کا عنوان ’’خاک سے اٹھنے والا فن‘‘ ہے۔ کتاب کی فہرست میں اس مضمون کا عنوان پڑھنے سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اس مضمون کا تعلق ’’فن پہلوانی‘‘ سے ہو گالیکن مضمون کی پہلی سطر پڑھتے ہی ہی پتا چل جاتا ہے کہ اس فن کا تعلق واقعی خاک سے اٹھنے والے فن کے ساتھ ہے۔ برصغیر میں فنِ موسیقی،فنِ پہلوانی اور فنِ حکمت کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ یہ تینوں فنون اپنے اپنے گھرانوں میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے آئے ہیں۔ گھرانے دارگائک اپنے گھرانے کی خاص بندشیں اور ریاضت کے طریقے کسی صورت میں بھی اپنے گھرانے سے باہر نہیں جانے دیتے تھے۔ کچھ گائک بند کمروں یا ویرانوں میں جا کے ریاض کرتے تھے تاکہ ان کی آواز کوئی نہ سن سکے۔ اسی طرح پہلوانی کا فن بھی پہلوانوں کے گھرانوں میں نسل در نسل منتقل ہوتا تھا اور اس دور کے پہلوان اپنے خاندان کے لئے خاص’’داؤ‘‘ چھپا کے رکھتے تھے۔ فنِ طب میں بھی صورتِ حال اس سے کچھ مختلف نہیں تھی۔
قدیم دور کے حکماء اور سنیاسی اپنے نسخے چھپا کے رکھتے تھے۔برصغیر میں ان تینوں علوم کی بربادی اور زوال کی وجہ بھی ان علوم کے ماہرین کا یہی رویہ تھا کہ اپنا علم اپنے خاندان سے باہر نہیں جانے دینا۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دورمیں ان علوم کے صرف نام ہی زندہ ہیں جبکہ ان علوم کے حقیقی ماہرین اپنا فن سینوں میں چھپائے خاک کا رزق بن چکے ہیں۔
اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے برصغیر میں فن پہلوانی کی تاریخ اور نام ور پہلوانوں کے کارناموں کو موضوع بنایا ہے۔ یہ مضمون اپنے مواد اور سہل انداز تحریر کے باعث فورا قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالیتا ہے۔یونان،مصر،عرب، ایران اور ہندوستان نے بڑے بڑے شہ زور پیدا کئے ہیں۔
۔۔۔۔ سکندرِاعظم،حضرت حمزہ،حضرت علی،حضرت خالد بن ولید،رستم وسہراب،بھیم اور ارجن کی دلیری اور بہادری کے کارناموں سے کون واقف نہیں۔ زمانہ قدیم میں پہلوانی کو ایک مقدس فن سمجھا جاتا تھا اور اس دور کے پہلوان صوفی اور درویش ہوا کرتے تھے۔ وہ باقاعدہ وضو کر کے اکھاڑے میں اترتے تھے۔ لوگ بیماری سے شفا اور بہتر مستقبل کی دعائیں کروانے کے لئے اپنے بچوں کو ان درویش صفت پہلوانوں کے پاس لے کر جایا کرتے تھے۔ فن موسیقی کے گھرانوں کی طرح فن پہلوانی کے بھی کچھ مشہور گھرانے اورخاندان تھے۔ ان خاندانوں میں نون والا،سلطانی والا،بالی وال،بھکھی والا، اور علیا پہلوان کے خاندان بہت مشہور ہوئے۔ رستم زماں،گاما پہلوان اور رستم ہند امام بخش پہلوان کا تعلق ’’نون والا‘‘ خاندان سے تھا۔ رستم زمان گاما پہلوان نے لندن میں منعقدہ عالمی مقابلے میں پولینڈ کے مشہور اسٹینلے زبسکو کو10ستمبر1910کو شکست دے کر ’’رستم زمان‘‘ کا ٹائٹل جیتا تھا۔ برصغیر کے جن شہروں میں ’’فنِ پہلوانی‘‘ کو عروج اور فروغ ملا۔ ان میں امرت سر،لاہور،گوجرانوالہ اور ملتان قابل ذکر ہیں۔ان شہروں میں مشرقی پنجاب کا شہر امرت سر اورمغربی پنجاب کا شہر لاہور پہلوانی اور شعر و ادب کے مراکز رہے ہیں۔ امرت سر کی تہذیبی اور ثقافتی اہمیت کو اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب کے صفحہ نمبر 163پر کچھ یوں اجاگر کیا ہے:
’’انیسوں اور بیسویں صدی کا امرت سر اپنے شاعروں،موسیقاروں،ادیبوں،سیاست دانوں، انقلابیوں اور پہلوانوں کے باعث بڑے بڑے تہذیبی شہروں کی ہمسری کرنے لگا تھا۔ سکھوں کا مذہبی مرکز ہونے کے علاوہ اس شہر کی سیاسی اور ادبی پہچان بھی نہایت مستحکم تھی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں جلیانوالہ باغ کا واقعہ اسی شہر میں ہوا۔جس کے دوررس اثرات مرتب ہوئے۔پھر یہیں ترقی پسند کانفرنس ہوئی۔ اور ایم اے او کالج کے اجراء نے نام ور ادیبوں کی ایک کہکشاں بھی روشن کر دی تھی جس میں ڈاکٹر ایم۔ڈی تاثیر،فیض احمد فیض،محمود الظفر اور رشید جہاں جیسے اہل قلم شامل تھے جن کے فکری نتائج نے پوری نسل کو متاثرکیا۔ امرت سر ایک طرف نام ور شاعر اور ادیب پیدار کر رہا تھاتو دوسری طرف امرت سر کے کئی پہلوان رستم ہند کااعزاز سے سرفراز کئے گئے۔‘‘
امرت سر کے بعد پنجاب کا دوسرا بڑا ثقافتی مرکز لاہور تھا۔ موسیقی،ادب اور پہلوانی کے حوالے سے اس شہر نے دنیا کو بڑے بڑے ناموں سے روشناس کروایا۔ فنِ موسیقی کے حوالے سے یہ جملہ زبان زدِعام تھا کہ جس موسیقار نے پنی فنی عظمت کو لاہوریوں سے تسلیم کروالیا وہ پوری دنیا میں مشہور ہو جاتا ہے اور کہیں مار نہیں کھاتا، لاہور کے حوالے سے یہ روایت آج بھی زندہ ہے کہ جس موسیقار اور فن کار کے فن پر اہل لاہور مستند ہونے کی مہر لگا دیں وہ ’’جگت استاد‘‘ بن جاتا ہے۔ لاہور کی ثقافتی اور تہذیبی عظمت کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی رائے کو اس کتاب کے صفحہ نمبر179 پر کچھ یوں پیش کیا ہے:
’’شاہ حسین سے لے کر علامہ اقبال،استاد بڑے غلام علی خان،عبدالرحمان چغتائی ،خواجہ خورشیدانور،فیض ،منٹو،استاد سلامت علی خان،ملکہ ترنم نور جہاں،مہدی حسن ،مہاراج کتھک،رستم ہند امام بخش،بوٹا لاہوری اور رستم زمان گاما سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے روشن ستاروں کی پوری کہکشاں ہے جن کے فن کو لاہور نے چمکایا اور پوری دنیا سے منوایا۔ جس فنکار کا اہل لاہور نے تسلیم کیا اسے پوری دنیا نے آنکھوں پر بٹھایا۔قدیم لاہور کی ثقافتی زندگی کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اہل لاہور نے دیگر فنون کی طرح پہلوانی کو ہمیشہ سینے سے لگایا اور یہاں کے پہلوانوں نے پوری دنیا سے اپنے فن کا لوہا منوایا۔‘‘
بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد ’’فنِ پہلوانی‘‘ حکومت کی ناقدری اور عدم سرپرستی کے باعث زوال کا شکار ہوگیا۔1947میں برصغیر کی تقسیم کے وقت ہجرت کر کے لاہور میں آباد ہونے والا رستم زمان گاما اور رستم ہند امام بخش پہلوان کا خاندان کچھ عرصے تک تو اس فن سے وابستہ رہا لیکن آج اس خاندان کے افراد حکومتی عدم سرپرستی اورمالی وسائل کی عدم دستیابی کے باعث اس فن کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ چکے ہیں۔ پہلوانی سے وابستہ نام ور خاندانوں کے افراد کے لئے چونکہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے اس لئیے یہ فن،فنِ موسیقی اور فنِ حکمت کی طرح پردہ گمنامی میں چلا گیا ہے۔مجموعی طور پر ڈاکٹر جواز جعفری کی کتاب’’خاک سے اٹھنے والافن‘‘ موسیقی کے شائقین اور عام قارئین کے لئے اپنے اندر معلومات کا خزانہ رکھتی ہے۔ اس کتاب میں شامل تمام مضامین کا مطالعہ قارئین کو متعلقہ فنون کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی فکری صلاحیتوں کو بھی جلا بخشتاہے۔