نوید نسیم
متحدہ قومی موومنٹ کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے الطاف حسین کی تقریر کے بعد متحدہ لندن اور الطاف حسین سے علےیحدگی کا اعلان تو کردیا۔ مگر کسی نے سوچا کہ وہ لوگ کون ہیں جو قائد تحریک الطاف حسین کی ایک آواز پر تین نیوز چینلز کے دفاتر پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہوگئے تھے۔ کون ہیں وہ لوگ جو الطاف حسین جو کہ تئیس سالوں سے لندن میں مقیم ہے۔ اس کی آواز بزریعہ فون سننے کے لئے گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔
یہ لوگ ہندوستان سے علیحدگی کے 69 سالوں بعد آج بھی مہاجر ہیں اور جنھیں اب تک اپنے حقوق نہیں ملے۔ الطاف حسین وہ واحد لیڈر ہے۔ جو 1984 سے ان مظلوم مہاجروں کے لئے تحریک چلا رہا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ مہاجروں کو 69 سالوں بعد بھی اپنے حقوق کے لئے لڑنا پڑ رہا ہے۔ وہ کیا وعدے ہیں جوکہ الطاف حسین اپنی مہاجر قوم سے کرتا آرہا ہے۔ جس کی وجہ سے آج تک الطاف حسین کی ایک آواز پر پورا کراچی بند ہوجاتا ہے۔
سندھ جہاں مہاجر 1947 میں آکر آباد ہوئے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ ملک کے ہر شہر سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی آکر بسنے لگے اور کراچی میں بسنے والے مہاجروں کے حقوق سلب ہونے لگے۔ ملک کی واحد کارآمد پورٹ کراچی میں ہونے کی وجہ سے ہر پورے ملک سے لوگ کراچی میں بسنے لگے اور کراچی پھیلتا گیا۔ مگر مہاجر سکڑتے گئے۔
اس پسی ہوئی اور ٹھکرائی مہاجر قوم کے لئے آواز اٹھانے اور حقوق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنے کا ٹھیکہ 1984 میں الطاف حسین نے مہاجر قومی موومنٹ بناکر اٹھایا۔ جوبعد ازاں متحدہ قومی موومنٹ بن گئی۔
کراچی کے مہاجروں کو باخوبی اندازہ ہے کہ اگر الطاف بھائی کی متحدہ کراچی اور سندھ کے چند دیگر شہروں میں حکومت کرتی ہے تو کراچی اور دیگر شہروں میں بسنے والے مہاجروں کو نوکریاں ملیں گی۔ بچے اچھے سکوں میں پڑھیں گے۔ بہتر طبی سہولیات میسر آئے گی۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے آج بھی مہاجر قوم الطاف بھائی کی ایک آواز پر لبیک کہتی ہے۔
حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ متحدہ پاکستان کی الطاف حسین سے علیحدگی اور الطاف حسین کے پوسٹرز اتروانے سے الطاف حسین کے کارکن اور ووٹ بینک متاثر نہیں ہوگا۔ نائن زیرو پر تالے لگانے اور متحدہ کے دفاتر مسمار کرنے سے مہاجر قوم الطاف حسین کو بھولے گی نہیں۔ بلکہ ان کے دلوں میں بدلہ لینے کا لاوا پکنے لگے گا۔ جوکہ خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
مہاجر قوم کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ الطاف بھائی نے پاکستان کے بارے میں کیا کہا اور اس کی وجہ یہ کہ مہاجر قوم کو اس پاکستان سے کیا لینا دینا۔ جس نے مہاجروں کو 69 سالوں میں کچھ دیا ہی نہیں۔ اگر مہاجر قوم آج بھی الطاف حسین اور متحدہ کے ساتھ ہے تو وہ صرف اور صرف اس لئے کہ الطاف حسین مہاجروں کی ضروریات زندگی کو سمجھتا اور انھیں فراہم کرنے کی کوشیش کرتا ہے۔
سندھ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کئے جانے والے حالیہ فیصلوں کا ابھی تک کوئی رد عمل الطاف حسین کے کارکنوں کی طرف سے سامنے نہیں آیا۔ لیکن اگر متحدہ کے دفاتر یونہی مسمار ہوتے رہے اور رہنما گرفتار ہوتے رہے تو کسی بھی وقت کراچی کے حالات خراب ہوسکتے ہیں۔
حکومت وقت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو چاہیئے کہ وہ مہاجر قوم کے مسائل کو سمجھے اور الطاف حسین یا متحدہ پر پابندی لگانے کی بجائے ایسے اقدامات کرے۔ جن سے مہاجر قوم کے مسائل حل کئے جاسکے۔ اگر حکومت مہاجر قوم کی مشکلات کو سمجھتے ہوئے ان کا تدارک کرتی ہے تو یقیناً نا تو حکومت کو متحدہ کے دفاتر بند کروانے کی ضرورت ہوگی اور ناہی الطاف حسین پر پابندی لگانا پڑیگی۔ بصورت دیگر ممکن ہے کہ جو غلطیاں حکومتوں نے فاٹا اور بلوچستان میں کیں اور ان کا خمیازہ آج ساری قوم بگھت رہی ہے۔ کہیں ویسے ہی نتائج مہاجر قوم سے بھی حاصل ناہونے لگیں۔