(نجیبہ عارف)
ہائیڈل برگ میں ایک جگہ اور بھی ایسی تھی جہاں میرے قلب و نظر کی تسکین کے کئی سامان تھے؛ ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ۔ ایک نسبتاً قدیم عمارت ، جس کے بیچوں بیچ سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ کا مہمان خانہ اسی عمارت کی سب سے بالائی منزل پر واقع ہے لیکن اکثر لوگ وہاں تک پہنچنے کے لیے لفٹ کی بجائے سیڑھیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ لفٹ صرف وہی استعمال کر سکتے ہیں جو اس مہمان خانے میں مقیم ہوں یا جن کے پاس یہاں تک رسائی کی باقاعدہ اجازت ہو۔اس لفٹ کے دروازے بہت بھاری لوہے کے بنے ہوئے ہیں اوربے اختیار جرمن قوم کی ترجیحات کی یاد دلاتے ہیں۔ میں نے اکثر محسوس کیا ہے کہ جرمنی کی مصنوعات میں مضبوطی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ نزاکت اور لطافت کی بجائے قوت اور طاقت سے محبت شاید ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔ مجھے یاد آیا پچھلی مرتبہ جب میں برلن گئی تھی تو ان کی قومی اسمبلی میں بھی جانے کا اتفاق ہوا تھا۔اسمبلی میں مرکزی نشست گاہ کے عین درمیان ایک بہت بڑا عقاب آویزاں تھا۔ یہی عقاب ان کے سرکاری جھنڈے پر بھی نقش ہے۔اقبال اگر جرمن قوم اور اس کے فلسفے سے متاثر تھے تو کوئی عجب نہیں کہ ان کے تصورِ شاہین کا ماخذ بھی یہی عقاب ہو اور پھر نطشے (۱۹۰۰۔ ۱۸۴۴) بھی تو اسی قوم سے تعلق رکھتا تھا ۔
ہائیڈل برگ کی پہلی صبح کرسٹینا کے فون سے آنکھ کھلی تھی جو کہ رہی تھیں کہ وہ میرے لیے ترکی نان لے آئی ہیں اور اب میرے کمرے میں آرہی ہیں تاکہ میں ناشتے میں استعمال کر سکوں۔ پھر وہ تین منزلوں کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئیں تاکہ مجھے نان دے سکیں۔ مجھے سخت ندامت ہوئی، انھوں نے یہ نان اپنے میاں کو بھیج کر منگوائے تھے۔ کرسٹینا کے جانے کے بعدمیں نے کھڑکی کے پردے ہٹائے تو سارا شہر برف کی چادر اوڑھے سامنے آگیا ۔ بہت دلکش منظر تھا۔درختوں سے سفید پتے لٹک رہے تھے،گھاس پر چاندنی بچھی تھی، سڑکوں پر دوڑتی ہوئی کاروں کی چھت پر برف کے گدیلے پڑے تھے۔میں نے بے اختیار بالکونی کا دروازہ کھول دیا۔ کرسی برف سے بھری ہوئی تھی۔ چھوٹی سی گول میز پر برف کا ناشتہ سجا ہوا تھا۔لیکن میں نے اندر آکر ترکی نان کا ناشتہ کرنے کو ترجیح دی۔
ناشتے کے بعد میں نے بیگ اٹھایا اور لائبریری چلی گئی۔سب سے پہلے کرسٹینا کی مدد سے لائبریری کارڈ بنوایا اور پھر کتابیں ڈھونڈنے کی تکنیک سے متعلق رہنمائی حاصل کی۔کرسٹینا کے جانے کے بعد میں وہ کتابیں ڈھونڈنے لگی جو رات کو نوٹ کی تھیں مگر بہت جلد محسوس ہونے لگا کہ اس لائبریری سے مانوس ہونے میں کچھ وقت لگے گا کیوں کہ یہ ویسی صارف دوست نہیں ہے جیسی سوآس کی لائبریری ہے۔ لائبیریری کا سامنے کا حصہ تو جدید اور آرام دہ ہے لیکن جنوبی ایشیا کے لیے مخصوص عمارت قدیم ہے۔ عمارت کا یہ حصہ خاصا پیچیدہ ہے، راہداریاں پیچ دار، گلیاں سنسان، بھاری بھاری دروازے، گھومتی ہوئی سیڑھیاں، ایک طرف سے داخل ہوں تو دوسری طرف سے باہر نکل جاتے ہیں، تاریک تاریک کمرے، جن میں داخل ہوں تو خود بخود روشنی جل اٹھتی ہے مگر تاریکی کا لمس دیر تک محسوس ہوتا رہتا ہے۔پھر اس لائبریری میں وائی فائی کی سہولت نہیں ہے اورلائبریری کمپیوٹر پر بھی انٹر نیٹ استعمال کرنے کے لیے یونیورسٹی کا مستقل ممبر ہونا ضروری ہے لہٰذا مجھے یہ سہولت بھی میسر نہیں آئی۔ حتیٰ کہ کیٹیلاگ دیکھنے کے لیے بھی ایک مخصوص کمرے میں جا کر ، جو نیچے تہ خانے میں ہے، کمپوٹر استعمال کرنا پڑتا ہے۔ کتابیں ڈھونڈنا آسان نہیں ہوتا، پھر کچھ کتابیں جو مجھے درکار تھیں وہ صرف مرکزی لائبریری میں تھیں جو شہر میں ہے، کچھ شیلف پر موجود نہ تھیں، شاید کسی اور کے استعمال میں ہوں اور کچھ جو ہاتھ آئیں انھیں اوپر تک لانا مشکل ہو گیا۔ نیچے ٹھنڈ بھی بہت تھی۔ مجھے دوبارہ اوپر آکر سویٹر پہننا پڑا۔پہلے پہل مزا نہیں آیالیکن آہستہ آہستہ اور کرسٹینا کی مسلسل مدد سے، میں اس لائبریری سے بھی مانوس ہو گئی۔ اس لائبریری کی ایک خاص بات یہ ہے کہ انیسویں صدی کی مطبوعات کے کئی نسخے یہاں موجود ہیں۔ خاص طور پر اردو نصابات کے نمونے بآسانی نظر آتے ہیں۔ ہماری تاریخ کے وہ گوشے جہاں جھانکنے میں ہم خود بھی دلچسپی نہیں رکھتے، یہاں آسانی سے بے نقاب ہو جاتے ہیں۔
ہائیڈل برگ کا قیام رنگ رنگ کی سرگرمیوں کی وجہ سے بہت پر لطف گزرا۔ دوپہر کواکثر میں،کرسٹینا، امۃ المنان، مالا، گوتم اور تامل زبان کے جرمن استادڈاکٹر ٹامس لہمان یونی ورسٹی کے کیفے ٹیریا میں جسے یہ لوگ ’’ مینزا ‘‘ کہتے ہیں، لنچ کیا کرتے تھے۔ لنچ کے دوران جرمن قوم کی معیشت ، یورپی یونین کے مسائل اورتاریخ و معاشرت کے کئی پہلوؤں پر بحث ہوتی۔امۃ المنان طویل مدت سے یہاں اردو پڑھا رہی ہیں۔ بے حد مہربان، بہت خیال رکھنے والی خاتون۔ ایفرٹ میں بھی ان کے ساتھ تین ہفتے گزارنے کا موقع ملا تھا۔ تب سے اب تک کسی نہ کسی طور ان سے رابطہ رہا۔ اب بھی ان کا یہاں ہونا بہت تسلی دیتا تھا۔مالا سے پہلی بار ملاقات ہوئی۔ باوقار شخصیت اور دھیمے مگر مستحکم لہجے کی مالک۔ پورا نام مالا الفاروق تھا۔کلکتہ سے تعلق رکھتی تھیں اوربنگالی کی استاد تھیں۔ ایک روزمالا نے اپنے شوہر سے بھی ملوایاجو یہاں ریڈیو کی اردو سروس میں کام کرتے تھے اور اب ریٹائر ہو چکے تھے۔
یہ تو وہ لوگ تھے جس سے تقریباً روزانہ ملاقات رہتی۔ ان کے علاوہ وقار صاحب اور بلوچ صاحب سے بھی ملاقات کا موقع ملا۔وقار صاحب یہاں اقبال چئیر پر تعینات تھے اور اپنی فیملی کے ساتھ مقیم تھے۔ قائد اعظم یونی ورسٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے بہت خلوص سے کھانے کی دعو ت دی لیکن ایک حادثے کی وجہ سے عین وقت پر یہ دعوت منسوخ کرنا پڑی۔ ایک روز ڈاکٹر عنایت اللہ بلوچ صاحب مجھے ملنے آگئے۔ یہ کئی برس سے یہاں مقیم ہیں۔ان کے ساتھ دو گھنٹے کیفے میں بیٹھی رہی ، کافی پی اور بہت سی باتیں کیں۔ خلافت، جمہوریت، بلوچ مزاحمت، مغرب اور دائیں اور بائیں بازو کی خصوصیات پر بہت عالمانہ گفتگو کی۔ یہ ساری گفتگو ان کے زندگی بھر کے تجربات کا نچوڑ تھی اور اس لائق تھی کہ اسے محفوظ کیا جاتا۔ انھیں شکایت تھی کہ مغربی ممالک اپنے شہریوں کو تو خوش رکھتے ہیں مگر باہرلوٹ مار کرنے سے ذرا نہیں شرماتے۔ ان کی تمام تر ترقی غریب اقوام کے لہو پر منحصر ہے۔
دوسری طرف جرمن لوگ بھی اپنی معیشت اور سرکاری پالیسیوں سے خوش نظر نہیں آئے۔ لنچ پر جب بھی گوتم اورڈاکٹر لہمان سے بات ہوئی تو انھیں جرمن معیشت کی بدحالی سے پریشان ہوتے دیکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت منافع کی شرح روز بروز کم کر رہی ہے اور افراطِ زر بڑھتا جا رہا ہے۔پہلے جرمنی ایک فلاحی مملکت تھا۔ شہریوں کے حقوق کی حفاظت ہوتی تھی۔ انھیں تعلیم، صحت اور رہائش جیسے بنیادی سہولتوں کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری سمجھی جاتی تھی مگر اب یہاں بھی سرمایہ دارممالک کی طرح ہر سہولت ختم ہوتی جارہی ہے۔ دوسری طرف مشرقی جرمنی کے ادغام سے معیشت پر بہت بوجھ پڑ رہا ہے۔ یورپی یونین کے قیام کے بعد بھی جرمنی کی معیشت مندی کی زد میں آگئی ہے۔ رومانیہ، ہنگری جیسے ممالک سے لوگ دھڑادھڑ روزگار کی تلاش میں ترقی یافتہ ممالک میں آ رہے ہیں اور اس کی قیمت ان ممالک کے شہریوں کو اداکرنی پڑ رہی ہے۔
مجھے یاد آیا کہ ۲۰۰۸ میں ایفرٹ میں قیام کے دوران بھی میں نے ایک ایسے سیمی نار میں شرکت کی تھی جس میں مشرقی جرمنی کے ادغام کے بعد مغربی جرمنی کی معیشت پرپڑنے والے اثراتِ بد کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس سیمی نار میں ہونے والی گفتگو کا لب لباب بھی یہی تھا کہ مشرقی جرمنی سے آنے والوں کا تعلیمی معیار کمزور ہے اور ان کی استعدادِ کار بھی نسبتاً کم ہے لیکن انھیں برابری کے حقوق حاصل ہیں ۔ مجھے ان لوگوں کی گفتگو سن کر بار بار یہ خیال آتا تھا کہ ہم ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کے لیے یہ ترقی یافتہ ممالک کسی جنت سے کم نہیں لیکن یہاں کے رہنے والے بھی اپنی زندگیوں سے خوش نہیں ہیں۔ تو پھر خوشی اور اطمینان قلب کہاں ہے؟ کیا صوفیوں کا یہ کہنا درست ہے کہ یہ انسانی کی ذاتی قلبی کیفیت ہے، اسے اجتماعی معاشرتی احوال سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔
ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ میں تقریباً ہر روز ہی شام کو کوئی نہ کوئی تقریب ہوتی رہی۔ ایک شام ، ایک انڈین جوڑے نے انڈیا میں ٹینٹ سینما پر تصویری نمائش کااہتمام کر رکھا تھا۔ کافی لوگ تھے جو شہر سے آئے تھے، جرمن ہندو فاؤنڈیشن اور کئی دوسری تنظیموں کے لوگ بھی تھے۔ یہ لوگ انڈیا میں ٹینٹ سنیما پر فلم بنا رہے تھے جس کی جھلکیاں بھی دکھائی گئیں۔ٹینٹ سینما مہاراشٹر کے دیہی علاقوں میں تھئیٹر سے ملتی جلتی قدیم روایت ہے جو اب بھی قائم ہے۔ اس چلتے پھرتے سینما کے ذریعے بالی وڈ کی مقبول ترین فلموں، مقامی زبان کے ڈراموں اور مزاحیہ، دیومالائی یا تاریخی قصوں کو ڈرامے کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے اور ان علاقوں میں اب بھی خاصا مقبول ہے۔ محققین کا مقصد یہ تھاکہ اس ٹینٹ سینما کو تھئیٹر کی تاریخ اورروایت میں اس کا جائز مقام دلایا جائے اور مقامی سماج پر اس کے اثرات کا مطالعہ کیا جائے۔ نمائش میں جو تصویریں آویزاں کی گئیں ان کے نیچے درج بیانات بھی دلچسپ تھے۔ ایک تصویر کے نیچے لکھا تھا:
یہ ۱۹۵۱ء کی بات ہے، میں نے ایک چلتے پھرتے سینما میں داخل ہونے کی کوشش کی تو اس کے مالک نے مجھے کہنی سے پکڑ کر باہر نکال دیا، حالاں کہ یہ مفت سینما تھا۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ روپیہ میرے پاس موجود تھا سو میں نے اگلے ہی روز ایک ایسا ہی سینما خریدا اوراگلے دن سے شو پیش کرنا شروع کر دیا۔ جلد ہی میں اپنے علاقے میں ]چلتے پھرتے سینما کا[ شہنشاہ بن گیا۔
قادر بھائی منیار۔ مالک جنتا ٹورنگ ٹاکیز، سنگولا۔
ایک اور تصویر کے نیچے لکھا تھا:
میں نیند میں بھی پروجیکٹر ٹھیک کیا کرتا تھا۔ مجھے ان کے خواب آتے تھے۔ پھر میں نے سوچا، ہوں گے ان کے بنانے والے جرمن، امریکی یا کچھ اور، لیکن آخر وہ انسان ہی تو ہیں۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ میں ان غیر ملکی پروجیکٹروں کے قریب جگہ نہیں بنا سکتا۔
پرکاش پھلادی۔ پروجیکٹر مکینک
ایسی ہی چند ایک اور تصویریں بھی تھیں۔یہ تصویری نمائش مختلف شہروں میں پیش کی جانے والی تھی۔ لوگوں نے خاصی دلچسپی سے یہ نمائش دیکھی۔میں سوچ رہی تھی کہ انڈیا محققین کی دلچسپی کا مرکز بن چکا ہے، لوگ وہاں کی چھوٹی چھوٹی بات کو اہمیت دیتے ہیں اور مقامی ثقافت کا اظہار سمجھ کر مرکزی دھارے میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ خود اپنے تہذیبی ورثے سے بے خبر، بے زار اور شرمندہ رہتے ہیں اس لیے کسی اور کی توجہ بھی ادھر نہیں جاتی۔ مجھے روہی کے صحرائی گیت یاد آئے، خود اپنے علاقے انگہ کی میراثنوں کی اونچی پاٹ دار آواز، اور دل سوز بولوں والے شادی بیاہ، پردیس، وچھوڑے اور مسافرت کے ’’گاوَن‘‘ یاد آئے، ڈھولک اور گھڑا بجانے والے گنی فن کار یاد آئے، نمونے کا ٹھپہ لگائے بغیرسفید چادروں کے کنارے پر سندھی ٹانکے کی نیلی بیلیں کاڑھنے والی گھریلو لڑکیاں یاد آئیں، پھلکاریاں بنانے، ہاتھ کے پنکھے اور رنگین چنگیریں سجانے والی ان پڑھ عورتیں یاد آئیں، ہمارے گھر کام کرنے والی حافظ آباد کی نذیراں یاد آئی جو چرخے پر کپاس کات کر دیسی کھیس بنوا سکتی ہے، کروشیے سے ایسے ایسے نمونے بنالیتی ہے کہ انسان دیکھتا رہ جائے، رضائیاں اورگدے سی سکتی ہے، ایک چیز سے دوسری چیز، ایک خیال سے دوسرا خیال۔ دکھ اس بات کا کہ ہم اپنی لوک ثقافت سے کس قدر ناآشناہوتے جا رہے ہیں،کتنے بے نیاز ہیں، کتنے بے قدرے ہیں۔ ہم اپنے تہذیبی ورثے کو کیسے لٹ جانے دے رہے ہیں اور پھر تشخص کے نعرے لگانے سے بھی باز نہیں رہتے۔ ہماری جمالیاتی تاریخ ہماری نفسیات سے کیوں خارج ہو تی جا رہی ہے؟ اس خلا کو بھرنے کے لیے کہیں ہم گھاٹے کا سودا تو نہیں کر رہے؟
ایسی ہی ایک اور شام کو ایک جرمن طالب علم نے کراچی میں رہنے والی ایک ہندو کمیونٹی یعنی کالی کے پجاریوں پر ایک فلم دکھائی جو اس نے خود فلمائی تھی۔ان کے انٹریو سن کر محسوس ہوتا ہے کہ کالی کے پجاریوں کی یہ جماعت کسی سیاسی تنظیم سے وابستہ ہے ۔ ان کی مذہبی رسوم اور ان کے خیالات و نظریات خاصے حیران کن ہیں۔ ہندوستان کی طرف مراجعت ان کا اجتماعی مذہبی خواب ہے جس کی تعبیر پانے کے لیے وہ قربانی کی رسم ادا کرتے ہیں۔یہ رسم ادا کرنے کا طریقہ خاصا قدیم اور اساطیری معلوم ہوتاہے۔ ایک دائرے میں ان کا پیشوا رقص کرتا ہے اور اس کے ساتھ پوری کمیونٹی کے افراد رقص میں شامل ہو جاتے ہیں۔ رقص جوں جوں تیز ہوتا جاتا ہے، پیشوا کے چہرے پراز خود رفتگی کی وحشت کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔اس کے ہاتھمیں ایک لمبی سی خنجر نما چھریہے جو اس رقص کے اختتام پر ایک لمحے کو جھکتی اور پھر خون میں ڈوبی ہوئی ہوا میں بلند ہوتی ہے۔ قربانی ہو جاتی ہے اورسب لوگ خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں۔تعجب ہوا کہ پاکستان میں رہتے ہوئے کبھی ان لوگوں کے بارے میں کوئی خبر سامنے نہیں آتی حالاں کہ وہ یہاں خوب اچھی طرح آباد ہیں۔ ان کی یہاں جائیدادیں ہیں، وہ کراچی سے پشاور تک کاروبار کرتے ہیں،اپنے مذہبی تہوار مناتے ہیں اور اپنے عقائد کے مطابق آزادانہ زندگی گزارتے ہیں۔
سیمیناروں کی نسبت فلموں وغیرہ پر یہاں بھی کافی لوگ آجاتے ہیں اوربہت دلچسپ سوال جواب ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود سیمی نار بھی باقاعدگی سے ہوتے ہیں۔ میرے وہاں ہوتے ہوئے ایک نہایت دلچسپ سیمی نار ہوا۔ ایک خاتون ہندوستان کے فارسی مخطوطات اور مطبوعات کی مدد سے پانچ سو برس پہلے کے ہندوستانی کھانوں کی ترکیبوں پرپی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہی تھیں۔ انھوں نے اپنے موضوع سے متعلق ایک نہایت دلچسپ لیکچر دیا ۔ کون سی سبزی کب اور کہاں سے آئی، کون سا مصالحہ کس دور میں استعمال ہونا شروع ہوا، کون سی ڈش پہلے کس طرح بنائی جاتی تھی، یہ تمام معلومات انھوں نے مختلف قدیم فارسی تصانیف سے اخذ کی تھیں۔
دوسرا سیمینار میرا تھا جو ۱۷۵۷ سے ۱۵۸۷ء تک کے عرصے میں ہندوستان سے یورپ جانے والے سیاحوں کے تجربات و مشاہدات کے تجزیے پر مشتمل تھا۔ کرسٹینا نے تعارف کروایا اورمیں نے اپنے مقالے کا لبِ لباب کچھ تصویری شواہد کی مدد سے پیش کیا۔ لوگوں نے دلچسپی سے سنا اورسوال جواب کا سیشن بھی چلا۔ سیمینار کے اختتام پر پروفیسر ہانس ہارڈر نے، جو وہاں کے جنوب ایشیائی مطالعات کے شعبے کے صدراور ایک تحقیقی مجلے Journal of Indology and South Asian Studies کے مدیر بھی تھے، آگے بڑھ کراپنا تعارف کروایا اور فرمائش کی کہ میں اپنا یہ مقالہ ان کے مجلے کے لیے ارسال کر دوں۔ میں نے وعدہ تو کر لیا مگر یہ وعدہ کہیں سال بھر کے بعد جا کرہی ایفا ہو سکا۔
کرسٹینا کے ساتھ شہر کی سیر کا بھی خوب لطف اٹھایا۔ایک دن کرسٹینا مجھے اولڈ سٹی لے گئیں۔ جاتے ہوئے کافی دیر تک ٹرام کے انتظار میں کھڑے ہونا پڑا۔ کرسٹینا بار بار کہتی رہیں کہ جرمنی اب ویسانہیں رہا۔ کہنے کو ایک امیر ملک ہے مگر اب یہاں ٹرام اور ٹرینیں تک وقت پر نہیں چلتیں،پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔ ٹرام ایک منٹ بھی تاخیر سے نہیں پہنچتی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہاں کوئی بھوک سے نہیں مرتا لیکن امیر اور غریب میں فاصلہ بہت بڑھتا جاتا ہے۔وہ اپنی قومی زندگی سے آزردہ نظر آئیں۔
اس روز ہم شام تک شہر کے قدیم حصے میں گلیوں اور سڑکوں پر گھومتے رہے۔ ٹھنڈ بہت تھی لیکن سیر کا لطف اپنی جگہ تھا۔ہم نے کوٹ اور مفلر خوب اچھی طرح لپیٹ رکھے تھے۔ سب سے پہلے ہم نے یونی ورسٹی کی قدیم عمارت دیکھی۔ اس میں ایک میوزیم بھی تھا جہاں یونی ورسٹی کی تاریخ محفوظ کی گئی تھی، پرانی تصویریں، تحریریں، مجسمے، نشانیاں اور یادگاریں۔ ایک تنگ وتاریک گلی میں پرانا قید خانہ بھی تھا جہاں شرارتی لڑکوں کو، جب ان کی شرارتیں حد سے بڑھ جاتی تھیں، قید کر دیا جاتا تھا۔قید خانے کی کوٹھڑیاں تنگ و تاریک تھیں اوربل کھاتی ہوئی، تنگ سیڑھیوں سے گزر کر ان تک پہنچا جا سکتا تھا ۔قیدی لڑکوں نے وقت گزاری کے لیے جیل کی دیواروں پر فن کے شہکار تخلیق کر رکھے تھے۔ جرمن زبان میں لمبی لمبی ، خوش خط عبارتیں، جن میں سے بعض کا ترجمہ کرسٹینا نے میری خاطر کیا، زیادہ ترتحریریں حب الوطنی کے جذبات سے لبریزتھیں۔کچھ تحریروں میں ذاتی جذبات کی عکاسی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ نہایت عمدہ تصویریں، جن میں سے بیشتر فوجیوں اور لیڈروں کی تھیں۔ ان عبارتوں اور تصویروں سے احساس ہوتا تھا کہ جرمن قوم میں قومیت کا جذبہ کتنا شدیداور قوی رہا ہے۔اکثر عبارتوں اور تصویروں کے ساتھ تاریخ بھی لکھی ہوئی تھی۔ سب سے پرانی تاریخ جو مجھے نظر آئی، ۱۹۰۳ء کی تھی۔
شام کو کرسٹینا کے شوہر اولی بھی آگئے اور ہم نے ایک قدیم کیفے میں بیٹھ کر کافی پی اور بہت سی باتیں کیں۔ زبان کے متعلق، جرمنی اور پاکستان کے متعلق۔ اولی کے انڈیا اور پاکستان کے تجربات سے متعلق اور ان کی اکلوتی بیٹی سے متعلق جو انگلینڈ میں تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ جرمنی چھوڑ کر انگلینڈ کیوں گئی ہے؟ جواب ملا کہ جرمنی میں برطانوی نظام تعلیم کو بہتر سمجھا جاتا ہے۔ امریکی یونی ورسٹیاں بھی اچھی ہیں مگر اندازہ ہوا کہ وہ لوگ امریکہ سے زیادہ خوش نہیں ہیں اور برطانیہ کو خود سے زیادہ ترقی یافتہ سمجھتے ہیں۔اولی اور کرسٹینا نے اگلے روز اپنے گھر کھانے پر بھی مدعو کیا لیکن اگلے روز موسم اس قدر طوفانی رہا کہ میں جا نہیں پائی۔
البتہ واپس آنے سے ایک دن پہلے میں نے اپنے کمرے میں سب دوستوں کی ایک مختصر سی دعوت کر ڈالی۔ بریانی، کباب، پاستا، دال، بھجیا اور انڈوں کا حلوہ ۔ سب نے خوب مزے سے کھانا کھایا۔ اگلے روز میں امۃ المنان کے ساتھ ٹرین میں فرینکفرٹ کے لیے روانہ ہوگئی۔ امۃ المنان ایک شادی میں شرکت کے لیے پاکستان جا رہی تھیں۔ انھیں قلق رہا کہ وہ مجھے اپنے گھر نہیں بلا سکیں ۔ ان کا گھر ہائیڈل برگ اور فرینکفرٹ کے درمیان ایک چھوٹے سے شہر میں ہے۔ اسی لیے ہم نے واپسی کا پروگرام اکٹھے بنایا اور ٹرین میں خوب باتیں کیں۔جرمنی کی ٹرینیں زیادہ مضبوط ہیں۔ یہاں کے لوگ بھی ، لندن کی نسبت زیادہ منظم نظر آئے۔لندن بین الاقوامی شہر ہے۔ بھانت بھانت کے لوگ، قسم قسم کے چہرے،شہریتیں، نسلیں۔ جرمنی میں حالات مختلف ہیں۔ اپنی تہذیب پر نازاں، پرسکون اور بااعتمادجرمن قوم ، سطح پر جینے کے بجائے زندگی پر زیادہ گہری نظر ڈالنے کی عادی ہے۔