(فہد فاروق)
کھلونا پستول کا استعمال ہمارے معاشرے میں جس تیزی سے بڑھ رہا ہے اس کی مثال میں ہم ایک چھوٹا سا سروے دے سکتے ہیں جو اس سال ایک نجی ادارے نے کیا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کھلونا پستول اور اسلحہ کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ ہُوا ہے۔صرف کراچی شہر میں نقلی ہتھیاروں کی فروخت کوئی لگ بھگ ایک ارب روپے کی ہوئی۔اس کی وجہ کوئی بھی ہو مگر اتنا سب جانتے ہیں کہ کھلونا پستول اور اسلحہ کا استعمال بچوں میں ایک خاص قسم کی ذہنیت پیدا کرتا ہے۔یہ ذہنیت اپنے دشمن کو پیدا کرتی ہے اور پھر اُسے ختم کر کے اپنی تئیں سکون حاصل کرتی ہے۔ دنیا بھر میں اسلحہ کی نمائش کی ممانعت ہے۔ اسلحہ کی نمائش ایک قبیح عمل ہے۔ اسلحہ خواہ نقلی ہی کیوں نہ ہو اس سے کھیلنا ، اس کے استعمال کی خواہش پیدا کرتا ہے۔ بچوں میں اس رجحان کاپیدا ہونا ایک منفی عمل ہے۔بچے عموماً ایک ذہنی فضا تیار کرتے ہیں جس میں گولیاں چلانا، خون آلود ہونے کی اداکاری کرنا،قتل کرنا، زخمی کرکے ڈاکٹرز کو بلانا،ایک ڈاکو یا چور اور ایک سپاہی بنانا، جرائم کے مختلف انداز کو عملی صورت میں ادا کرنا وغیرہ اعمال شامل ہوتے ہیں۔
پچھلے سال ایم کیو ایم کے ایک رکن سندھ اسمبلی سیف الدین خالد نے ملک بھر میں کھلونا اسلحہ کی درآمد، تیاری اور فروخت پر پابندی کا بل پیش کیا تھا جس کو بھرپور حمایت کے ساتھ پاس کیا گیا مگر اس کے باوجود کراچی میں ہی اس فعل کی عملی سطح میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔(ایم کیو ایم کانقلی اسلحہ کے خلاف قرارداد لانا بھی ایک واقعہ ہے)
عسکریت اور جنونیت کہاں سے آ رہی ہے؟ کیا ہمیں کھلونا پستول اور گولیاں چلانا یونہی اچھا لگتا ہےَ کیا ہمارے بچے کوئی اور معصوم کھیل، کھیل کے اتنے خوش نہیں ہو سکتے جتنا انھیں ایک دوسرے کو مصنوعی گولیاں مار کے مزہ آتا ہے۔ اصل میں اس ساری فضا کی تخلیق میں جنگی جنونیت کا بہت ہاتھ ہے۔ ہم نے کبھی اپنے بچوں کو جنگی جنونیت سے منع ہی نہیں کیا۔ اسلحہ اور ہتھیاروں کی ایک Fascinationپیدا کر دی جاتی ہے تا کہ بچے اس طرف کھنچے چلے آئیں۔
کچھ سال پہلے امریکہ میں کھلونا اسلحہ کے ساتھ ایک پکنک ڈے منایا گیا خبر کے مطابق:
’’ امریکا میں منچلوں کے بیچ انوکھی جنگ چھڑگئی، جس میں 2289افراد نے شرکت کرکے کھلونا پستولوں کی سب سے بڑی جنگ کا عالمی ریکارڈ قائم کرلیا۔
امریکی ریاست ٹیکساس میں مقامی اسٹیڈیم میں منعقد ہونے والی اس انوکھی جنگ میں بچے،بڑے ،نوجوان اورخواتین نے حصہ لیا اور 4394کھلونا پستولوں کے ذریعے یہ کارنامہ سر انجام دیا۔ بعد ازاں اس لڑائی میں استعمال ہونے والے تمام کھلونا پستولیں بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والی ایک تنظیم کو عطیہ کردی گئیں۔‘‘
آپ اندازہ کریں کہ اگر معاشرتی سطح پر اس طرح کی تربیت دی جائے گی تو بچے کیا سیکھیں گے۔
میں ایک دن ایک کالج کے باہر سے گزر رہا تھا اُس کے باہر ایک دیوار پہ لکھا ہوا تھا کہ
’’ ہولی کے رنگ نہیں چاہیے
انڈیا سے جنگ صرف جنگ چاہیے‘‘
کیا جنگ پھولوں سے ہوتی ہے؟ ظاہری بات ہے اسلحہ مرکزی کردار ادا کرے گا۔ یوں تعلیمی ادارے میں داخلے سے پہلے ہی ان طالب علموں کے ذہنوں میں اسلحہ اور جنگ کا تصور پیدا کیا جا رہا ہے۔ آج کل سوشل میڈیا پہ نہایت جذباتی انداز سے ایک مہم چلائی جا رہی ہے کہ اگر ایٹمی جنگ ہو جائے تو آپ کو کیا کیا کرنا چاہیے اور نیز دشمن سرحد پار کر کے آ جائے تو اسلحہ کیسے استعمال کیا جائے۔
ہمیں افسوس بھی نہیں ہوتا کہ ہم کس قدر جنگی معاشرے کی بنیاد رکھ چکے ہیں۔ ہمارے اوپر مسلط طاقتوں نے نجانے کب اسلحہ اور خون سے نجات حاصل کرنی ہے مگر ہمیں اپنے بچوں کو اس قسم کے شوق سے دور رکھنے کی تلقین کرنی چاہیے اور اُن اداروں اور دوکانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا چاہیے جو کھلونا پستول اور اسلحہ بیچتے ہیں۔ہمیں بچوں کو ان اشیا سے نفرت کا درس دینا چاہیے۔اور انھیں زبردستی ان اشیا سے دور رکھنا چاہیے۔ یوں ایک قسم کی جنگی جنونیت سے نجات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
بہت خوب فہد فاروق صاحب! اس ضمن میں تازہ اضافہ پرتشدد ویڈیو گیمز کا ہے جس میں آپ کو عراق، افغانستان، پاکستان، سومالیہ وغیرہ میں پورے پورے جنگی مشن ملیں گے. ایسے ہی خلائی مخلوق کے خلاف اور گینگسٹرز پر مبنی تشددآمیز گیمز بھی بکثرت ملیں گی جو کہ بچوں میں سفاکی اور بے حسی پیدا کرنے کا اہم زریعہ ہیں.