کھلکھلاتا بوُدھ :عطاء الحق قاسمی کاشخصی خاکہ (حصہ دوم)

(عرفان جاوید)

 

یہ المیہ تمام بڑے تخلیق کاروں ،مزاح نگاروں کے ساتھ رہا کہ دنیا اُن کی باتوں پر تالیاں بجا کر اپنے گھروں کو لوٹ جاتی ہے، آخرمیں اسٹیج کی چکا چوند میں وہی نابغہ تنہا کھڑا رہ جاتا ہے۔اسی طرح قاسمی صاحب کی زندگی میں چند حادثات ایسے ہیں جن کی یادیں لوٹ لوٹ آتی ہیں اور انھیں رنجورکرتی ہیں۔
قاسمی صاحب کی ادب پر گہری نظر ہے۔ان کے والد ادب کا عمدہ ذوق رکھتے تھے ، اپنے بچوں میں بھی یہی ذوق پیدا کرنے کے لیے گھر میں رسالے، کتابیں لے آتے تھے۔وہ کہتے تھے ’’صحتِ زبان کا خیال رکھو، جو بھی زبان بولو درست بولو، وگرنہ زبان بددعا دیتی ہے۔‘‘
ادب کچھ ایسے ان کے مزاج کا حصہ بنا کہ اکثرکہتے ہیں کہ انھوں نے کبھی کسی صنف میں ارادی محنت نہیں کی بلکہ کوئی غیبی ہاتھ ہے جو ان سے یہ سب کراتا ہے۔بلکہ یہ ایسا کام ہے جو وہ اپنی خوشی کے لیے کرتے ہیں اور اس حصولِ مسرت کا انھیں معاوضہ بھی مل جاتا ہے۔
کنفیوشس نے کیاخوب کہا تھا۔’’کوئی ایسا کام تلاش کرو جس سے تمھیں عشق ہو، تمھیں ساری زندگی کام نہیں کرنا پڑے گا۔‘‘
ایک زمانے میں قرۃ العین حیدر کے ناول ’’آگ کا دریا‘‘ کے بارے میں یہ متنازع بات مختلف مکتبہ ہائے فکر میں وجہ بحث بنی کہ یہ ناول نہیں بلکہ تاریخ کو خوب صورت نثر میں دستاویز کیا گیا ہے۔اس حوالے سے بات ہوئی تو میں نے شکیل عادل زادہ اور دیگر چند بڑے ادیبوں کا حوالہ دیا جو اس تبصرے کو درست مانتے ہیں۔ اس پر قاسمی صاحب نے بھی اتفاق کیااور اضافہ کیا۔ ’’ اردو ناول میں قرۃ العین حیدر سے بڑا کوئی نام نہیں۔وہی یقیناًسب سے قدآور ادیبہ ہیں۔ ’’آخرشب کے ہم سفر‘‘ نے تو مجھے بے اختیار کردیا۔’’چاندنی بیگم‘‘ بھی بہت بڑا ناول تھا۔اس کا نام کچھ اور ہونا چاہیے تھا کیوں کہ قاری اِسے چاندنی بیگم کے گرد بُنا گیا ناول سمجھ کر پڑھنا شروع کرتا ہے،جب چاندنی بیگم ابتدائی صفحات میں فوت ہوجاتی ہے تو قاری اس میں اپنی دلچسپی کھوبیٹھتا ہے۔
قرۃ العین حیدر کی نثر نے جہاں ان کی روح کوبالیدگی عطا کی وہیں اقبال کی شاعری نے دم بخود کردیا۔
ان دو بڑے ناموں کو دیگر سے ممتاز اور قدآورقرار دیتے ہیں۔ عظیم ادیب کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہی تخلیق کار عظمت کے درجے پر فائز ہوسکتا ہے جسے عوام و خواص دونوں پسند کریں۔اس خیال کی دلیل کے طور پر وہ ٹیگور،غالب،شیکسپیئر،رومی سعدی اورمیرکا حوالہ دیتے ہیں۔
’’کوئی باصلاحیت تخلیق کار نظر انداز نہیں ہوتا۔ہمارے ہاں ایک شعر تو چھوڑو، ایک مصرع والے شاعر بھی موجود ہیں جنھیں شہرت ملی۔‘‘دو ٹوک انداز میں قاسمی صاحب نے ایک روز میرے ساتھ گاڑی میں سفر کرتے ہوئے گویا فیصلہ سنادیا۔پھر ٹی ایس ایلیٹ کا قول سنایا۔’’جب کوئی کلاسیک پیدا ہوتاہے تو وہ اپنے سے پہلے اور بعد کے سو سال کھا جاتا ہے۔یہاں اقبال سب پربازی لے گیا۔اُس خورشید کی آب وتاب کے سامنے سب ستارے ماند ہوئے۔خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا۔‘‘
غالبؔ بھی انھیں پسند ہے ۔ایک مرتبہ کہنے لگے ’’غالب کی واحد مشکل یہ ہے کہ اُس کے کئی اشعار کی تشریح کے لیے باقاعدہ ’’کمیشن‘‘ بٹھانا پڑتا ہے۔‘‘
ایک روزمیں نے اُنھیں اپنا ایک تجربہ سنایا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ اسلام آباد کے ہوٹل میں ایک امریکی سے میری کافی اچھی گپ شپ اوردوستی ہوگئی۔یہ بہت پہلے کا واقعہ ہے۔
وہ امریکی کوہ نوردی کاشوق رکھتاتھا اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں کوہ پیمائی کے ارادے سے آیا تھا۔ بہ ظاہر ایک معصوم اور بے ضرر جوان تھا۔اس کے ہاں مخصوص امریکی بے تکلفی اور مزاح بدرجۂ اتم موجود تھا۔
ہوٹل میں اُس کا قیام چند روزہ تھا۔
یہ چند روز گزرے تو روانگی کی صبح آن پہنچی۔میں نے ناشتے کے بعد اُسے نیک خواہشات سے رخصت کیا اور اپنے معمول کے کام سے نکل پڑا۔
اگلی صبح میں ناشتے کے کمرے میں پہنچا تو اُسے وہاں پاکر حیرت کا شکار ہوگیا۔
مجھے اپنی جانب دیکھتا پاکر وہ جھینپ گیا۔میں اُس کی میز پرآن بیٹھا تو وہ ہکلاتے ہوئے بولا۔’’میں نے اپنا ارادہ ملتوی کردیا ہے۔‘‘
’’تمھارا ذاتی معاملہ ہے،یقیناًتم نے سوچ کر فیصلہ کیا ہوگا۔‘‘
’’نہیں یار، تمھارا ملک یقیناًایک خطرناک ملک ہے۔‘‘
’’وہ کیسے، کیا ہوا؟‘‘
’’بات یوں ہے کہ میں نے یہاں سے اپنی منزل کا قصد کیا۔اس کے لیے جب میں بس اسٹینڈ پہنچا تو وہاں ایک بس تیار کھڑی تھی۔ میں وہاں واحد غیرملکی تھا۔ مجھے بہت عزت دی گئی اور سب سے اگلی نشست خالی کروا کر ڈرائیور کے برابر میں بٹھا دیا گیا۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھریہ کہ جب میں نے ڈرائیور کی جانب دیکھا تو مجھ پر انکشاف ہواکہ وہ بھینگا تھا۔ڈرائیور مجھے دیکھ کر مسکرایا، اور دو انگلیوں سے فتح کا نشان بنا کر اُس نے بس کو ایک جھٹکے سے اسٹارٹ کیا اور یوں مرکزی شاہ راہ کی راہ لی جیسے گھوڑے کو ریس کے لیے ایڑلگاتے ہیں۔‘‘
’’واقعی؟‘‘
’’کرائسٹ کی قسم۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ تمھارے ملک کی سڑکیں یک رویہ ہیں۔چناں چہ جب ہم روانہ ہوئے تو سامنے سے ٹریفک آرہی تھی۔یہاں تک توخیر تھی۔لیکن اُس نے بس کا پریشر ہارن آن کیا،اونچے گانے لگائے اور ریس دے دی۔کچھ دیر تو خیریت سے گزری۔پھر اُس نے ایک گاڑی کو اس طرح سے اوورٹیک کیا کہ ہم سامنے سے آتی ہوئی بس کو گولی کی طرح چھوتے ہوئے گزرگئے۔جب میں نے ڈرائیور کی جانب دیکھا تو وہ میری جانب دیکھ رہا تھا اور مسکرا رہا تھا۔بس اس کے بعد تو حد ہوگئی۔یک رویہ سڑک،ریس لگاتی جھومتی بس،مخالف سمت سے آتی بھاری گاڑیاں اور ان سے چھو کر بچتی ہماری بس۔اس دوران جب بھی ہم کسی بڑے حادثے سے بچتے تو میں ڈرائیور کی جانب دیکھتا ، وہ بدستور میری جانب دیکھتے ہوئے مسکرا رہا ہوتا۔ پس ایک ہی بات میرے لیے تسلی کا باعث تھی۔‘‘
’’وہ کیا ؟‘‘
’’وہ یہ کہ چوں کہ ڈرائیور بھینگا تھا،سو میں نے سوچا کہ یہ میری غلط فہمی ہے ، وہ میری جانب دیکھ رہا ہے شاید وہ سامنے ہی دیکھ رہا ہو۔ مگر اُس کا مسکرانا میری سمجھ سے باہر تھا۔‘‘
’’شاید نسوار کھا رہا ہو، اس لیے مسکراتا دکھتا ہو۔‘‘
’’بہرحال جب ہم منزل پر پہنچے تو میں سب سواریوں کے بعد آخر میں بس سے اُترااور اس ارادے سے اُترا کہ۔‘‘
’’کہ؟‘‘
’’کہ لعنت ہے کوہ پیمائی پر،زندگی ہے تو سب کچھ ہے۔‘‘
میں نے قاسمی صاحب کو یہ واقعہ سنایا تو بولے کہ وہ خود پانچ چھے مرتبہ موت کے منہ سے نکلے ہیں۔
’’ایک مرتبہ ہم لوگ فیصل آباد کے ایک مشاعرے سے لاہور لوٹ رہے تھے۔گاڑی کی اگلی نشست پر میں بیٹھا تھا اور پچھلی نشستوں پر احمدندیم قاسمی اورڈاکٹر سلیم اختر بیٹھے تھے۔ہم نیم غنودگی میں تھے۔اتنے میں مَیں نے نیم وا نظروں سے سامنے سے آتی دو بسوں کو دیکھا۔سڑک پر ہمارے لیے بچنے کا کوئی رستہ نہ تھا۔ہڑبڑا کر میں نے ڈرائیور کو جھنجوڑااور اسٹیئرنگ موڑدیا۔ہماری گاڑی کچے میں اُترگئی اور بسیں فراٹے بھرتی قریب سے گزر گئیں۔ میں نے ڈرائیور کی سرزنش کی تو وہ نابکار بولا۔’ سامنے سے آتی بسیں تو میں بڑی دیر سے دیکھ رہا تھا۔میں ٹھیک جارہا تھا اور وہ غلط آرہے تھے ۔میں نے اپنے رستے پر رہنے کا فیصلہ کیا۔اصول بھی کوئی چیز ہوتی ہے جناب!میں اصولی آدمی ہوں‘۔‘‘
یہ واقعہ سنا کر قاسمی صاحب ہنسے اور کہنے لگے کہ سفر سے متعلق اُن کے پاس واقعات کا ایسا ذخیرہ ہے کہ وہ ’’شوق آوارگی‘‘جیسی کئی کتابوں کے لیے کافی مواد رکھتا ہے۔پھر گویا ہوئے۔’’میرا ایک دوست تھا، سید محمود علی۔انتہا کا ذہین اور بَلاکاخبطی۔یہ اُس دور کی بات ہے جب لوگ براستہ ایران، ترکی اور یورپ جایا کرتے تھے۔چناں چہ ہمارا بھی اسی طرح کا پروگرام بن گیا۔ہم لاہور سے کوئٹہ کے لیے بس پربیٹھے اور روانہ ہوگئے۔سفر کے دوران مجھ پر منکشف ہوا کہ محمود موسیقی کا رسیا تھا۔اُس نے ایک ٹیپ ریکارڈر نکالا اور اُس میں کیسٹ لگا دی۔اتنی واہیات آواز میں نے زندگی میں نہیں سنی۔ دراصل اُس نے اپنے ایک دوست کی آواز ریکارڈ کی ہوئی تھی جو منہ سے طبلہ بجا رہا تھا۔چناں چہ سفر کا آغاز منہ سے نکالی گئی طبلے کی آواز سے ہوا اور سارے رستے یہ منحوس آواز میرے کانوں میں بجتی رہی۔وقفے وقفے سے محمود میری جانب داد طلب نظروں سے دیکھتا اور میں دل پر جبر کرکے مسکرادیتا۔بہرحال یہ سفر بہت مشکل سے کٹا۔‘‘
قاسمی صاحب نے بات جاری رکھی۔
’’ہم نے وہاں پہنچتے ہی ایرپورٹ کا رخ کیا اور فلائٹ لی۔اُس زمانے میں فلائٹ کے دوران مسافروں کو شراب پیش کی جاتی تھی۔چناں چہ ایرہوسٹس ہر کسی سے اُس کا پسندیدہ مشروب، جوس یا دیگر لوازم کا پوچھتی ہوئی ہم تک پہنچی تو میں نے مالٹے کے جوس کی خواہش ظاہر کی۔محمود میرے ہم راہ تھا اور بازو کی نشست پربیٹھا ہوا تھا۔جب ایرہوسٹس نے اُس کی پسند کا پوچھی تو محمود نے مسکرا کر اُس کی آنکھوں میں جھانکا ، توقف کیا اور بولا۔’’آپ جو محبت سے پلائیں گی، ہم پی لیں گے۔‘‘
یہ سن کر ایرہوسٹس نے برُا سا منہ بنایا اور وہاں سے چلی گئی اور واپس ہماری نشست پر نہ لوٹی۔چناں چہ مجھے بھی سارے سفر میں پیاسا رہنا پڑا۔
قاسمی صاحب یادوں کی زنبیل کھولتے ہیں تو اندر سے بے شمار کردار اورواقعات نکلتے آتے ہیں ۔ دلچسپ وعجیب لوگوں کا تذکرہ ہوا تو اپنی زنبیل کا منہ ذرا سا کھول کر ترچھا کیا ، کئی کردار لڑھکتے ہوئے باہر آگئے۔
’’ایک صاحب ہوا کرتے تھے نواب ناطق دہلوی۔اکثر لاہور کے پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھے چھت گھورتے پائے جاتے۔شاعر تھے اور عروض کے فن میں یکتا۔کبھی مصرع گرنے نہ دیتے ،اوزان کا بھرپور خیال کرتے تھے۔اُن کا ایک شعر ہے۔
ناطق کہ سخن تیرا ہے تریاق تریہا
زمباق تریہا لقا زمباق تریہا
اس غزل کے بیشتر الفاظ انھی کی ایجاد کردہ زبان میں ہیں۔
اِسی طرح اُن کا شعر ہے۔
میں نہ سمجھا ہوں نہ سمجھوں گا نہ سمجھاؤ مجھے
بس خدا کے لیے آگے سے سرک جاؤ’ مجھے‘
اُن سے گزارش کی گئی کہ دوسرے مصرعے کے آخر میں لفظ’’مجھے‘‘ کی کیا تو جیہ ہے تو فرمانے لگے۔’’مجھے‘‘ردیف ہے اور اس کا یہاں آنا برمحل اور لازم ہے۔‘‘
قاسمی صاحب مسکراتے ہوئے اپنے الحمرا کے دفتر کی کھڑکی سے باہر سرسبز درخت دیکھ رہے تھے۔
’’ایک افسانہ نگار تھے فضل الرحمن خان۔مذہب کی جانب میلان تھا۔چناں چہ حلقۂ اربابِ ذوق میں تشریف لاتے۔افسانے کا آغاز کرتے اور بیچ میں ایسی فحش نگاری ہوتی کہ مردوں تک کے کانوں کی لویں شرم کے مارے سرخ ہوجاتیں۔ افسانے کے دوران جب نماز کا وقت آتا تو وہیں جا نماز بچھا لیتے اور نیت باندھ لیتے۔ کئی مرتبہ نشست کے دوران ان کی بیگم وہیں تشریف لے آتیں اور ان کو سب کے بیچ گالیوں سے نوازتیں۔یہ خاموشی سے سنتے رہتے اور چھت گھورتے رہتے۔
ادیبوں میں جہاں منفرد شخصیت کے حامل لوگوں کی کوئی کمی نہیں وہیں حاضر جوابی بھی عام ہے۔بندہ ضائع ہوتا ہو تو ہوجائے ،جملہ ضائع نہیں ہونا چاہیے۔
خاطرغزنوی کی بیجنگ یونی ورسٹی میں پروفیسر شپ ہوئی تو کسی نے پوچھا ،بیوی بچوں کا کیا انتظام کریں گے۔اس پر فراز نے جملہ کسا۔ ’بیوی کو میکے بھیج دیجیے اور بچے جس جس کے ہیں اُسے واپس کردیجیے۔‘
اس کے علاوہ ایک اورتخلیق کار الف المحراث سے ملاقات رہی۔
اُن کی ہیئت کچھ ایسی تھی کہ شیو بڑھی ہوئی ہوتی اور پاجامہ پیچھے سے پھٹا ہوتا۔زُبان دان تھے اور اس میں کئی اختراعات کے موجد۔مثال کے طور پر یہ انھی کی دریافت تھی کہ ’’بلی دودھ پیتی ہے‘‘کی زُبان گِری ہوئی ہے۔اس کے بجائے فرماتے ’’بلی دودھ لِبڑتی ہے‘‘زُبان کے حوالے سے درست ہے۔بلی کے دودھ لِبڑنے کے علاوہ بھی جانوروں کے مختلف افعال کی زبان کی کچھ ایسی تصحیح فرمائی کہ یہ تحقیق انھی سے شروع اور انھی پرتمام ہوئی۔‘‘
ان کے حلقۂ احباب میں ڈاکٹر فضل الرحمان لاہوری بھی رہے جنھوں نے اپنے لیے ’’مجاہدِ اُردو‘‘ کا خطاب تجویز کررکھا تھا۔
برسبیل تذکرہ جب قاسمی صاحب ڈاکٹر صاحب کو یاد کررہے تھے تو مجھے وہ بات یاد آگئی کہ ایک موصوف بوجہ عجز اپنے نام کے ساتھ ’ننگِ اسلاف‘ لکھتے تھے۔اُن کی پیروی میں احباب نے بھی اُن کے نام کے ساتھ ’’ننگِ اسلاف‘‘ لکھنا شروع کردیا۔
خیر یہ تو جملہ ہائے معترضہ تھے۔ ڈاکٹر فضل الرحمان کی تصانیف میں نمایاں ترین ’’سکھوں کے لطیفے‘‘تھے۔اُن کی خواہش صدارتی انتخاب لڑنے کی تھی اور انھوں نے اپنی کابینہ بھی سوچ رکھی تھی جس میں منو بھائی کو وزارتِ اطلاعات اورعطا ء صاحب کو وزارتِ تعلیم سونپنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
مونچھیں قاسمی صاحب کی کم زوری ہیں۔ایک مرتبہ حنیف رامے مرحوم نے دل برداشتہ ہوکر پیپلزپارٹی چھوڑی تو اعلان کردیا کہ وہ پارٹی میں کبھی واپس نہ آئیں گے اور لوٹ آئے تو اپنی مونچھیں کٹوادیں گے۔شومئی قسمت کہ انھیں کچھ ہی عرصے میں پارٹی میں لوٹ آنا پڑا۔اس پر قاسمی صاحب نے ایک لطیف کالم لکھا۔’’رامے صاحب مونچھوں سمیت‘‘اسی طرح ایک مرتبہ انھوں نے وزیرمعاشیات نوید قمر صاحب جو اپنی نوابی طرز کی نوک دار مونچھوں کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے ،کومشورہ دیا۔’’نوید قمر صاحب جتنی محنت اپنی مونچھوں پر کرتے ہیں اگر اتنی پاکستان کی معیشت پر کریں تو ہم نہ جانے کتنی ترقی کر جائیں۔‘‘
ایک شام ہم دونوں ایک ریستوران میں سیاست پر سنجیدہ گفتگو کررہے تھے۔سامنے کی میز پر ایک صاحب سرجھکائے کھانے میں مصروف تھے۔ان صاحب کے چہرے کی خاص بات ان کے نمایاں کان تھے۔قاسمی صاحب گفتگو کے دوران خاموش ہو کر ان صاحب کوغور سے دیکھنے لگے۔میں نے جانا کہ شاید پرانے شناسا ہیں، سو پہچاننے کی کوشش کررہے ہیں۔تھوڑی دیر بعد میرے کان میں سرگوشی میں استفسار کیا۔’’اِن صاحب کے کان یہیں کے بنے ہوئے ہیں یا درآمد شدہ ہیں؟‘‘
ایک مرتبہ میں اور قاسمی صاحب کراچی کے میریٹ ہوٹل میں سردیوں کی رات میں کافی سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ ہوٹل کے ریستوران کے جگمگاتے ماحول میں پسِ منظر میں گھلتی،سازِ دِل کے تاروں کو چھیڑتی موسیقی اور پرانی فلموں کے حسین گانے ایک خواب ناک اورکیف آگیں ماحول بُن رہے تھے۔ اندر کا گرم ماحول ہوٹل کے شیشوں کودُھندآلود کررہا تھا۔اس دھند کے پار اوس میں نہائے سرسبز پودے روشنیوں میں جھلملا رہے تھے۔ ہم پرانی فلموں کی بات کررہے تھے ۔ پسِ منظر میں محمد رفیع اور لتا منگیشکر کا ڈوئٹ ماحول کورنگین کررہاتھا۔یکدم قاسمی صاحب کی آنکھیں ایک جانب مرکوز ہوگئیں۔اُنھوں نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اورمسکراتے ہوئے ایک جانب اشارہ کیا۔جب میں نے اُس جانب دیکھا تو ایک نوجوان مرد گلوکار پہلے رفیع کی آواز میں گاتا تھا اور پھر وہی گلوکار لتا کی نسوانی آواز میں کمالِ مہارت سے گاتا تھا۔میں اس سے پہلے کئی مرتبہ وہاں کافی پی چکا تھا مگر اُس گلوکار کی اس حیران کن مہارت کا مشاہدہ نہ کرپایا تھا جسے قاسمی صاحب نے چند لمحوں میں نوٹ کرلیا تھا۔یہ دیکھ کرکچھ ستائش اور کچھ حیرانی سے میرے چہرے پر بھی مسکراہٹ اُبھرآئی۔ قاسمی صاحب نے پنجابی میں سرگوشی کی ’’خدا کے رنگ نرالے ہیں۔‘‘
ہم دونوں کو اپنی جانب ستائشی نظروں سے مسکراتا دیکھ کر نوجوان گلوکار کچھ بھٹک گیا اور رفیع،لتا کی جگہ اس کی آواز پٹھانے خان سے مماثل ہوگئی۔
میں ایک عشائیے میں مدعو تھا۔اس کھانے میں عمائدین شہر کے علاوہ نمایاں ادیب اور دانشور بھی مدعو تھے۔ قاسمی صاحب کو بھی دعوت تھی لیکن چند دیگر مصروفیات کی بنا پر وہ نہ آپائے۔
عشائیہ جاری تھا کہ ایک خوش شکل خاتون ہماری میز پر تشریف فرما ایک نام ور ادیب کے پاس چلی آئیں اور ان کی قربت میں مچل کر اُن کا بوسہ لے لیا۔
اگلی صبح میں اورقاسمی صاحب ایک جگہ ناشتے پر مدعو تھے۔ناشتے کے بعد واپسی کے لیے میری گاڑی میں بیٹھنے لگے تو میں نے گزشتہ رات کا ماجرا سناڈالا۔قاسمی صاحب یہ سُن کر خاموش ہوگئے۔ہمارا واپسی کا سفر شروع ہوا تو موضوعِ گفتگو شہری سیاست اور تہذیبی ارتقاء ٹھیرا۔
سفر طویل تھا چناں چہ خوب سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ابھی بات کسی سنجیدہ موڑ پر تھی کہ قاسمی صاحب خاموش ہوگئے، پھر گویاہوئے۔’’بوسہ چہرے پر لیا تھا؟‘‘
میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
کچھ توقف کے بعد گفتگو جہاں سے ٹوٹی تھی وہیں سے جڑگئی، سفر نصف سے زیادہ طے ہوگیا تو قاسمی صاحب دوبارہ خاموش ہوگئے۔پھر اچانک سوال کیا۔
’’خاتون خوش شکل تھی؟‘‘
میں نے اثبات میں سرہلا دیا۔قاسمی صاحب نے لمبی سانس بھری اور عصری ادب پر دانشورانہ تبصرہ شروع کردیا۔
بحث نثری انحطاط سے ہوتی ہوئی عمومی معاشرتی تنزل تک آن پہنچی، یہاں تک کہ سفر اختتام پذیر ہوا۔گاڑی سے اُتر کر میں الوداعی معانقے کے لیے اُن کی جانب بڑھا تو گلے ملتے ہوئے انھوں نے سرگوشی کی’’آج کل کی خواتین کا کوئی حال نہیں۔ انھیں مستحق اورغیرمستحق کی کوئی پہچان ہی نہیں‘‘اور چل دیے۔
ایک مرتبہ قاسمی صاحب ایک ادبی میلے میں شرکت کے لیے کراچی تشریف لائے۔ہرجانب سے دعوت نامے تھے۔پرانے شناساؤں کا میلہ تھا اور بیچ میں ان کی باغ و بہار شخصیت۔
پرانے شناساؤں کے حوالے سے ایک قصّہ ہے۔
ایک خاتون پالتو جانور خریدنے کے لیے ایک دکان پر پہنچیں۔دکان پر ہر طرح کا جانور تھا۔انھی میں ایک بولنے والا توتا بھی تھا۔ دکان دار نے ایک اچھے سیلز مین کی طرح توتے کی خوبیاں بیان کیں۔
’’یہ توتا پرُذہانت گفتگو میں مہارت رکھتا ہے۔کم جگہ گھیرتا ہے۔خوراک کا خرچہ کم ہے اور اس کی باتوں سے دِل بھی بہلا رہتا ہے۔‘‘
’’اس کی قیمت کیا ہے؟‘‘خاتون نے دریافت کیا۔
’’فقط ایک سو روپے۔‘‘
’’وہ کیوں؟اتنی کم کس لیے؟‘‘ خاتون نے حیرت سے پوچھا۔
دکان دار نے جھجکتے ہوئے جواب دیا۔’’دراصل یہ اس سے پہلے ایک قحبہ خانے میں رہا ہے اس لیے کبھی کبھار ناپسندیدہ جملے بھی بول جاتا ہے۔‘‘
یہ سن کر خاتون نے تذبذب سے توتے کو دیکھا جو انتہائی سعادت مندی سے سرجھکائے کن اکھیوں سے خاتون کو تک رہا تھا۔
’’آپ کا جی بہلا رہے گا اور اچھی تربیت سے اس کی یہ خامی بھی دور ہوجائے گی۔‘‘دکان دار نے خاتون کو تسلی دی۔
خاتون نے پرس سے سو روپے نکالے اور توتے کو پنجرے سمیت گھر لے آئیں۔
نئے گھر آکر توتاکچھ دیر تو خاموش رہا لیکن خاتون کی جانب سے ناز برداری کرنے پر اِٹھلا کر بولا۔’’واہ بھئی نیا گھر، نئے کمرے اور نئی نایکا!‘‘
یہ سن کر خاتون چونک گئیں۔پھر دکان دار کی اچھی تربیت والی بات کا سوچ کر خاموش ہوگئیں۔
پورا دن گزر گیا یہاں تک کہ شام کو خاتون کی دونوں بیٹیاں گھرلوٹیں تواُن کو دیکھ کر توتا بے اختیار بول اُٹھا۔
’’واہ بھئی ،نیا گھر، نئے کمرے،نئی نایکا اور نئی بیسوائیں۔‘‘
یہ سن کر خاتون اور ان کی بیٹیاں سٹ پٹا کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں اورخاموش ہوگئیں۔
اتنے میں خاتون کے شوہر تھکے ہارے گھر لوٹے تو اُن کو دیکھ کر توتا چہک اُٹھا۔
’’واہ بھئی نیا گھر، نئے کمرے، نئی نائکہ، نئی بیسوائیں اورآہا !وہی پرانے چہرے۔آداب بشیر صاحب!‘‘
تفنن برطرف،قاسمی صاحب سے میں نے اگلی دوپہر کھانے کے لیے اصرار کیا تو وہ بہت شفقت سے میری دعوت پرآمادہ ہوگئے۔
کراچی پر بے امنی کا بھوت سوار تھا۔ابھی پچھلے روز ہی قاسمی صاحب نے اپنے کالم میں کراچی آمد سے پہلے اپنی تیاری کا تذکرہ کیا تھا جس میں نیا سستا بٹوا اورموبائل فون خریدنا بھی شامل تھا۔
میں انھیں لینے کے لیے پہنچا تو وہ ہوٹل کے پائیں باغ میں سمندر کے کنارے رنگا رنگ لوگوں میں گھرے سگریٹ سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ مجھے دیکھ کر اُن کی آنکھوں میں نرم اپنائیت بھری محبت عود کرآئی۔
انھوں نے سگریٹ کے چند کش لیے اور جیب سے بٹوا نکال کر اس میں سے کرنسی نوٹ اور ضروری کاغذات علیحدہ کرکے کوٹ کی اندرونی جیب میں ڈالنے لگے۔ پھر کوٹ اُتار کر اپنے ایک عزیز کے حوالے کیا کہ وہ اسے کمرے میں چھوڑآئے۔اِس دوران مسکراتے ہوئے کہنے لگے۔’’باہر ہم نے لُٹ تو جانا ہے ہی، تو کیوں نہ ضروری چیزیں ہوٹل میں چھوڑجائیں۔‘‘
میں نے ان سے کُلّی اتفاق کرتے ہوئے بات میں استفہامیہ طور پر اضافہ کیا۔’’ آپ نے کل رات فائرنگ کی آواز سنی تھی؟‘‘
’’یہ شادی والوں کو فائرنگ نہیں کرنا چاہیے‘‘وہ تاسف سے بولے۔
’’وہ شادی کی نہیں، دہشت گردی کی فائرنگ تھی‘‘ میں نے وضاحت کی۔
’’ہاں۔لیکن یہاں تو ٹارگٹ کلنگ ہی ہوتی ہے نا؟‘‘
’’ضروری نہیں۔حال ہی میں کچھ قاتل پکڑے گئے ہیں جنھوں نے اپنے اعترافی بیان میں انکشاف کیا ہے کہ انھیں کوٹہ دیا جاتاتھا، ایک مخصوص تعداد میں لوگوں کو قتل کرنا ہے تاکہ شہر میں بے چینی اور خوف پھیلے۔پس وہ اسلحہ لے کر نکلتے اور جو راہ میں نظرآتا، اسے گولی مار دیتے۔‘‘
قاسمی صاحب کی آنکھیں پھیل گئیں اور انھوں نے تشویش سے پوچھا۔’’واقعی؟‘‘
’’جی‘‘ میں نے یقین دہانی کروائی۔
اتنا سن کر انھوں نے ٹھنڈی سانس بھری اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے۔’’لعنت بھیجو باہر کھانے پر، یہیں کھانا کھاتے ہیں۔مریں گے تو اسی گولی سے جس پرہمارا نام لکھا ہوگا۔ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں ہیں کہ To whom it may concernکے زمرے میں شامل کیے جائیں۔‘‘
یادوں کی زنبیل ہے جس میں سے واقعات نکلے چلے آتے ہیں مگر بیش تر قطعی ذاتی اورامانت۔
وہ ٹکسال سے نکلے سِکے کی طرح کھرے اور قرونِ وسطیٰ کے اساتذہ کی طرح شفیق ہیں۔
اُن کے اندر عجب طرز کی ایک قلندری ہے۔شہرت کی برف پوش چوٹیوں کو چھو کر،ادب وصحافت کے خورشیدِ تاب ناک کی طلائی کرنوں میں دمک کر، سفارت و ملازمت کے اقالیم چوم کر بھی اُن کے اندر حد درجہ انکساری ہے۔ایک خاص طرح کی بے نیازی ہے۔وہ چینی دیومالاکے شہرۂ آفاق کردار کی طرح ہیں۔وہی داستانوی کردار جو چینی، جاپانی، ویت نامی تاریخ میں امرہوچکا ہے، ایک بھکشو، ہروقت شفیق مسکراہٹ چہرے پر روشن کیے اساطیری روایات میں مسرت، قناعت، شفقت، قلندری اور اُمید کی علامت بھکشو کھلکھلاتا بُودھ۔
ان کا مزاح دوسروں کے لیے ہوتا ہے۔وہ اپنے احباب کو ہنسا کر معصوم بچے کی طرح خوش ہوتے ہیں۔ظرافت کے اس خول کے اندر ایک سنجیدہ، ہم درد اور وضع دارشخص،ایک بڑا اِنسان،ایک بیش بہا تخلیق کار۔
لاہور ان کے اندر اس طرح رچا بسا ہے جس طرح صندل کے اندر مہک۔
ان سے ملاقات گویا ایامِ رفتہ کے اصل لاہور سے ملاقات ہے۔اس میں نسبت روڈ اور اُس کا ہریسہ، بھاٹی گیٹ کی قدیم چھوٹی اینٹیں، لوہاری کے مغلیہ جھروکے، انارکلی کے رنگ ساز، قلعے کے پچھواڑے میں قمیصیں اتار کر ریوڑیاں بنانے والے،لسّی بلوتے پہلوان، دیسی گھی سے خستہ باقر خوانیاں اُتارتے نان بائی، ٹھنڈی سڑک پر دُلکی چال چلتے گھوڑے، رائل پارک کی نکڑ پر پنواڑی سے پان لگواتے ہیرو، ایبٹ اور میکلوڈ روڈ کے سینما گھروں سے نکلتے تماشائی ، موتیے کے ہار بیچتے لڑکے بالے، چائے خانوں میں بحث کرتے ادیب،اندھیری منڈیروں پر سرگوشیاں کرتے محبوب، سبز چادروں میں لپٹی قبروں اور سنگِ مرمر کے مزاروں کے مجاور، اگربتیاں سُلگاتے اورگلاب کی پتیاں بکھیرتے سوگ وار اور دھمال ڈالتے حال وقال کرتے سائیں لوگ سبھی شامل ہیں۔سبھی مختلف بھی ہیں، منفرد بھی اور ایک بھی روزالست کو پھونکی گئی روحِ مقدس اور لباسِ خاک سبھی کو ایک کرتا ہے۔
پرانے لاہوریوں کی بے نیازی، خوش خوراکی، بذلہ سنجی، بے ریا فلک بوس قہقہے اور وفاداری کی اگر تجسیم کردی جائے تو عطاء الحق قاسمی کہلائے۔
اپنی طرز کا آخری آدمی،آخری لہوری!
قاسمی صاحب ایک بھرے پرُے گھر کے سربراہ ہیں۔انھوں نے کبھی تخلیقی تلّون کی آڑ میں اپنی اولاد کو نظرانداز نہیں کیا۔انھوں نے اپنے وطن کے بچوں کو اپنے ہی بچے سمجھا ہے۔یہ حقیقت آشکارا کردینے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ جس طرح وہ امریکی پرُآسایش زندگی چھوڑ کر وطن لوٹ آئے ،اسی طرح انھوں نے اپنی اولاد کو یہیں پر جینے اور مرنے کا عزم پاک عطا کیا ہے۔
اپنے وطن اورمٹی کے لیے میں نے بے شمار دفعہ انھیں بے چین ہوتے دیکھا ہے۔جو بہتر جانا، اس کا اظہار کیا ہے۔کبھی مزاح کے لبادے میں تو کبھی بین السطور اظہارِ خیال کیا ہے۔کبھی نہ تو دورِ جدید کی روایت کے مطابق سربازارِ برہنہ کیا ہے اور نہ ہی لفظ کا تقدس بازارِ حیات میں نیلا م کیا ہے۔
بیرونی ممالک میں سفارت سے لے کر ملکی اداروں کی کام یاب سربراہی کے باوجود ان میں اتنی عاجزی ہے کہ جن سے محبت کرتے ہیں، اُن کے لیے ننگے پیر لپکتے چلے آتے ہیں اور جس سے اختلاف کرتے یادکھی ہوتے ہیں منافقانہ ریاکاری سے کام نہیں لیتے۔
وہ ایک چھوٹا، ننھا سا بچہ جو چناب میں اپنے باباکے کندھوں پر بیٹھا ہنستے ہنستے بے حال ہوجاتا تھا۔اتنا ہنستا تھا کہ اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے،اب بڑا ہوچکا ہے۔وہ آج بھی ہنستے ہنساتے بے حال ہوجاتا ہے،اتنا بے حال ہوجاتا ہے کہ اُس کی آنکھوں کی نمی میں چاندنی، پاک چاندنی جھلملانے لگتی ہے۔ وہی چاند جس کی وہ بچپن میں ضد کرتا تھا۔آج بھی وہ اسی چاند کی ضد کررہا ہے۔
میں عطاء الحق قاسمی نامی شخص کی ارضِ مقدس سے پرُخلوص وابستگی اور والہانہ محبت کی گواہی دیتا ہوں۔ میں اُس کے کھرے اور بہادر ہونے کی گواہی دیتا ہوں۔ میں اُس کے سینے میں دھڑکتے نرم وگداز دل کے گواہی دیتا ہوں۔میں بے نام چہرہ ہوں اورغبارِ راہ سے بڑھ کر کچھ نہیں، اپنی حقیقت سے واقف ہوں۔واقفِ حقیقت ہوں،اسی لیے گواہی دیتا ہوں۔