کیا حال سناواں دل دا : ملکۂ کافی زاہدہ پروین

مصنف: پروفیسر شہباز علی

(پروفیسر شہباز علی)

نیم کلاسیکی موسیقی اور بالخصوص سرائیکی کا فیاں گانے کے حوالے سے جوشہرت پاکستان کی معروف مغنیہ زاہدہ پروین کو نصیب ہوئی وہ کسی اور خاتون فن کار کے حصے میں نہ آسکی۔ یوں تو پاکستان کے تقریباً تمام کلاسیکی و نیم کلاسیکی گائکوں نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے لیکن زاہدہ پروین نے اپنے جدا گانہ اسلوب، اُپج اور قرینے کے سبب اس صنفِ موسیقی کو بام ثریا تک پہنچا دیا۔
زاہدہ پروین امرت سر میں پیدا ہوئیں۔ ان کے فنی سفر کا آغاز اسی شہر سے ہوا اور انھوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام بھی وہیں گزارے۔ زاہدہ پروین کی پیدائش کا درست سنہ معلوم نہیں ہو سکا۔ میوزک ریسرچ سیل ریڈیو پاکستان لاہورمیں زاہدہ پروین کی تاریخ وفات تو موجود ہے لیکن پیدائش کا سنہ موجود نہیں۔ عارف جعفری نے اپنی کتاب “Who is who in music” میں زاہدہ پروین کی پیدائش ۱۹۲۰ء لکھی ہے جبکہ ان کی بیٹی شاہدہ پروین کے بیان کے مطابق ان کی والدہ نے بیالیس برس کی عمر میں وفات پائی۔ اس اعتبار سے زاہدہ پروین کی پیدائش کا سال ۱۹۳۳ء بنتا ہے۔
زاہدہ پروین کو بچپن ہی سے گانے کا شوق تھا۔ خوب صورت اور سریلی آواز خدا کا عطیہ ہوتی ہے اور یہ عطیۂ خدا وندی ہر انسان کو نصیب نہیں ہوتا۔ زاہدہ پروین کو بھی خدانے مرکیوں اور زمزموں سے مزیّن خوب صورت آواز عطا کی تھی۔ بچپن میں وہ راگ داری اور لَے کاری کے اصول و ضوابط سے نا بلد ہونے کے باوجود لوک گیت بہت خوب صورتی سے گالیا کرتی تھیں۔
زاہدہ پروین نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم بابا تاج کپور تھلہ والے سارنگی نواز سے حاصل کی۔ بعد ازاں وہ اُستادحسین بخش خاں امرت سر والے سارنگی نواز کی شاگرد ہوئیں۔ اُستادحسین بخش نے تقریباً سات سال تک زاہدہ پروین کو گائکی کے رموز سکھائے۔ ان دونوں استادوں کے بعد وہ جگت گائک اُستادعاشق علی خاں پٹیالہ والے کی شاگرد بنیں۔ یہ وہ دور تھاجب پورے ہند میں اُستادعاشق علی خاں صاحب کے فن کا طوطی بول رہا تھا اوران کی لاجواب گائکی کے ہر سُو چرچے تھے۔ یہ زاہدہ پروین کی خوش بختی تھی کہ انھیں اُستادعاشق علی خاں صاحب جیسے گُنی جَن گائک کی رہنمائی اور سر پرستی نصیب ہوئی۔
زاہدہ پروین کی بیٹی شاہدہ پروین نے مجھے بتایا:
’’ملکۂ غزل فریدہ خانم بھی اُستادعاشق علی خاں صاحب کی شاگرد تھیں۔ اُستادعاشق علی خاں صاحب فریدہ خانم اور میری والدہ کو اکٹھے موسیقی کی تعلیم دیا کرتے تھے مگر فریدہ خانم کو اُستادعاشق علی خاں صاحب سے مستفید ہونے کے بہتر مواقع میسر آئے جبکہ میری والدہ ان سے زیادہ اکتساب نہ کر سکیں۔ اس بات کا اُستادعاشق علی خاں صاحب کو بھی بہت قلق تھا لیکن خاں صاحب نے میری والدہ کے متعلق ابتداء ہی میں یہ پیش گوئی کر دی تھی کہ زاہدہ مجھے دکھ ہے کہ میں تمھیں کچھ زیادہ نہیں سکھا سکا لیکن ایک وقت آئے گا کہ دنیا تمھارا گانا سُن سُن کر روئے گی‘‘ ۔ ۱؂
آخری عمر میں اُستادعاشق علی خاں صاحب کی بینائی زائل ہو چکی تھی لیکن اس کے باوجود زاہدہ پروین نے اپنے اُستادکا پنڈ نہ چھوڑا اور ان سے فیض یاب ہونے کا سلسلہ جاری رکھا۔
زاہدہ پروین کو بچپن میں پتنگ بازی سے بہت شغف تھا۔ بچپن کی حدیں پار کرنے کے بعد انھیں انگریزی فلمیں دیکھنے کا شوق پیدا ہو گیا۔ جو بھی نئی انگریزی فلم سینما میں نمائش کے لیے پیش ہوتی وہ اسے دیکھنے سینما ضرور جاتی تھیں۔
قیام پاکستان کے بعد زاہدہ پروین مستقل طور پر لاہور میں سکونت پذیر ہو گئیں۔ انھوں نے لاہور ریڈیو اسٹیشن سے کلاسیکی و نیم کلاسیکی موسیقی کے پروگراموں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ ان کی گائی ہوئی کافیاں اور غزلیں جب ریڈیو کی نشریات کے ذریعے شائقین موسیقی تک پہنچیں تو پورے پاکستان میں ان کے نام کا ڈنکا بجنے لگا اور ان کے پرستاروں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
پنجابی اور سرائیکی کافیوں اور غزل گیت کے علاوہ زاہدہ پروین نے ریڈیو پر خیال اور ٹھمریاں بھی گائیں۔ انھیں کافی کے علاوہ خیال گائکی پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔ وہ خیال گائکی کے تمام رموزیعنی الاپ، سروں کی بڑھت، تان، پلٹا، گمک اور مینڈھ پر یکساں قدرت رکھتی تھیں۔ عام طور پر زاہدہ پروین کی گائی ہوئی کافیوں کی ریکارڈنگ مل جاتی ہے۔ لوک ورثے کے قومی ادارے نے ان کی کافیوں، غزلوں اور گیتوں پر مشتمل ایک آڈیو کیسٹ ترتیب دیا ہے جو مارکیٹ میں دستیاب ہے لیکن زاہدہ پروین کے گائے ہوئے خیال اور ٹھمریاں ناپید ہیں۔ زاہدہ پروین کی بیٹی شاہدہ پروین نے مجھے بتایا کہ سندھ میں کو ئی شاہ صاحب ہیں جن کے پاس ان کی والدہ کی گائی ہوئی ٹھمریوں اور کچھ راگوں کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ یہ ریکارڈنگ کسی نجی محفل کی ہے اور بقول شاہدہ پروین وہ یہ ریکارڈنگ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں شاہدہ پروین کو چاہیے کہ وہ اپنی والدہ کی نایاب ریکارڈنگ اکٹھی کر کے لوک ورثے کے قومی ادارے کو دیں تا کہ یہ ادارہ اسے آڈیو کیسٹ کی صورت میں موسیقی کے رسیا احباب اور زاہدہ پروین کے فن کے شیدائیوں تک پہنچا سکے۔
’’جہانِ فن ‘‘ (مطبوعہ فکشن ہاؤس لاہور۲۰۰۵ء ) کے مصنف ظہور چودھری کے مطابق ریڈیو پاکستان لاہور کی میوزک لائبریری میں زاہدہ پروین کے گائے ہوئے چند راگوں یعنی دُرگا ، کوشک دُھن ، پٹ دیپ اور مالکونس کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ مجھے ان راگوں کے علاوہ ان کا گایا ہوا راگ درباری اور راگ میاں کی ٹوڑی بھی سننے کا اتفاق ہوا ہے۔ کچھ احباب کی کوششوں سے اب ان کے گائے ہوئے کچھ راگ CD کی صورت میں بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
میرے خیال میں اُستاد عاشق علی خاں صاحب کی خاتون شاگردوں میں زاہدہ پروین نے سب سے عمدہ کلاسیکل گایا ہے۔ ان کی گائی ہوئی بندشوں کے بول زیادہ تر وہی ہیں جو ’’پٹیالہ گھرانے ‘‘ کے گائکوں نے گائے ہیں۔ وہ راگ کی بندش یعنی استھائی اور انترے کو نہایت رچاؤ اور قرینے سے پیش کرتی ہیں مجھے ذاتی طور پر ان کا گا یا ہوا راگ دُرگا بہت پسند ہے۔ زاہدہ پروین اگر صرف کلاسیکل گاتیں تو ملکۂ موسیقی روشن آراء بیگم کے بعد پاکستان میں ان کا نام بہت معتبر گردانا جاتا مگر انھوں نے اپنے آپ کو ’’کافی‘‘ اور غزل گیت کی طرف راغب کر لیا اور بعد ازاں ’’سرائیکی کافی‘‘ ہی ان کی پہچان بنی۔
زاہدہ پروین کو بزرگ صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے کلام سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ اپنے اس والہانہ لگاؤ اور عشق کے پیشِ نظر انھوں نے حضرت خواجہ غلام فریدؒ کا کم و بیش سارا دیوان گایا۔ ان کی گائی ہوئی کچھ کافیوں کی ریکارڈنگ آج بھی ریڈیو سے وقتاً فوقتاً نشر ہوتی رہتی ہے۔
زاہدہ پروین درویشانہ مزاج کی حامل خاتون تھیں۔ انھیں منافقت، ریا کاری اور جھو ٹ سے نفرت تھی اور ان کا ظاہر و باطن ایک تھا ۔ اپنی انھی قلندرانہ اور فقیرانہ صفات کے باعث ان کی دعا میں بھی تاثیر تھی۔ وہ جس کسی کے لیے بھی دعائیہ کلمات منہ سے نکالتیں اس کی مراد بر آتی۔ میرے نزدیک زاہدہ پروین کے فن میں تاثیر کی وجہ ان کی یہی صفات تھیں۔ خدا نے ان کی گائکی میں ایسی تاثیر پیدا کر دی تھی جو لوگوں کو رلا دیتی تھی۔ یہ صفت صرف ان فن کاروں کے حصے میں آتی ہے جن کی زندگیاں منافقت اور ریا کاری سے پاک ہوتی ہیں ورنہ سُر لگا کے کسی کو رلانا معمولی بات نہیں۔ اس کے بر عکس جن فن کاروں کی زندگیاں مذکورہ بالا صفات سے عاری ہوتی ہیں اور جو صرف حصول جاہ و منصب کے لیے سُر کا سہارا لیتے ہیں ان کا فن بے تاثیر رہتا ہے۔
زاہدہ پروین روز مرہ کے معاملات میں بہت سادگی پسند تھیں۔ بالخصوص کھانے پینے اور لباس کے معاملے میں وہ بے حد سادہ تھیں۔ انھوں نے بناؤ سنگھار پر بھی کبھی کوئی خاص توجہ نہ دی تھی اور نہ ہی انھیں زیور پہننے کا شوق تھا۔ بچپن ہی سے ان کا میلان صرف موسیقی کی طرف تھا اور اپنے اسی میلانِ طبع کے باعث وہ ساری زندگی سادگی پسند رہیں۔
معروف صحافی اور شاعر افضل پرویز صاحب کو موسیقی سے گہری دل چسپی تھی اور وہ ایک زمانے میں ریڈیو راول پنڈی کے موسیقی کے پروگراموں میں بھی حصہ لیا کرتے تھے۔ انھوں نے موسیقی کی تعلیم اُستادعاشق علی خاں صاحب پٹیالہ والے کے شاگرد نواب علی خاں سے حاصل کی تھی جو قیام پاکستان سے قبل راول پنڈی کے موسیقی دان حلقوں میں خاصے معروف تھے۔ افضل پرویز صاحب اور ان کی بیگم زاہدہ پروین کی کافیوں کے شیدائی تھے۔ ایک دفعہ ان کی راول پنڈی ریڈیو اسٹیشن پر زاہدہ پروین سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے زاہدہ پروین کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا اور ان سے کہا کہ میری بیوی آپ کی پر ستار ہیں اور آپ کا گانا سننا چاہتی ہیں۔ اس موقع پر افضل پرویز صاحب نے ایک خوب صورت جملہ کہا کہ آپ جانتی ہیں کہ میرا اور آپ کا کیا رشتہ ہے؟ زاہدہ پروین نے جواب دیا! جی نہیں؟ افضل پرویز صاحب نے کہا کہ آپ رشتے میں میری ’’اُستادپھوپھی‘‘ لگتی ہیں اور وہ اس طرح کہ میں اُستادعاشق علی خاں صاحب کے شاگرد نواب علی خاں کا شاگرد ہوں اس اعتبار سے آپ میرے اُستادکی بہن اور میری اُستادپھوپھی ہوئیں۔ افضل پرویز صاحب کی اس بات سے زاہدہ پروین بہت محظوظ ہوئیں اور انھوں نے افضل پرویز صاحب کی دعوت بخوشی قبول کر لی۔
اس دعوت میں افضل پرویز صاحب کی بیگم نے بڑی محنت سے زاہدہ پروین کے لیے کھانا تیار کیا جسے زاہدہ پروین نے بہت پسند کیا اور کہا کہ بڑی مدت بعد گھر کا کھانا نصیب ہوا ہے۔ کھانے کے بعد محفل شروع ہوئی۔ سارنگی پر اُستادنذیر احمد نے ان کے ساتھ سنگت کی جو لاہور سے ان کے ساتھ آئے تھے۔ زاہدہ پروین نے اس محفل میں اپنی کچھ مشہور کافیاں اور راگ درباری کا خیال ’’نین سُوں نین ملائے رکھنے کو‘‘ گایا۔ زاہدہ پروین افضل پرویز صاحب اور ان کی بیگم کی قدر دانی اور مہما ن نوازی سے بہت خوش ہوئیں اور کہا کہ اب جب بھی میں پنڈی آؤں گی تو ہوٹل میں ٹھہرنے کی بجائے آپ کے گھر پر قیام کیا کروں گی۔
وکٹری بک سٹور صدر کے مالک ماسٹر اِبّو کے پاس کبھی کبھار زاہد میر صاحب آیا کرتے تھے جو موسیقی کے دل دادہ اور فن کار نواز تھے۔ وہ زاہدہ پروین کے شاگرد تھے اور ان کے انداز میں کافی گایا کرتے تھے۔ میری ان سے اس دکان پر اکثر ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ زاہد میر لاہور میں عرصہ دراز تک زاہدہ پروین کے نیاز مندوں کے حلقے میں نمایاں رہے۔ مدت ہوئی میری ان سے ملاقات نہیں ہوئی آج کل معلوم نہیں کہاں ہیں۔
کشمیر روڈ صدر پر راول پنڈی کی ایک مشہور موسیقی نواز شخصیت زیڈ۔ اے ہمدانی کا گھر تھا۔ یہ گھر راول پنڈی کے موسیقی نواز گھرانوں میں نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔ زیڈ۔ اے ہمدانی نہ صرف موسیقی نواز تھے بلکہ خود بھی کافیاں گاتے تھے۔ ان کے گھر پر پاکستان کے باکمال گلو کار موسیقی کی محفلیں سجایا کرتے تھے۔ ان کے گھر پر منعقدہ موسیقی کی محفلوں میں شرکت کرنے والوں میں مہدی حسن اور زاہدہ پروین نمایاں تھے۔ زیڈ۔ اے ہمدانی زاہدہ پروین کی گائکی پر فدا تھے اور ان کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ وہ تمام عمر مجرّد رہے اور موسیقی کا شغل کرتے رہے۔
لاہور ریڈیو پر ’’جشن بہاراں‘‘ کے عنوان سے ایک سالانہ محفل موسیقی منعقد ہوا کرتی تھی۔ اس محفل موسیقی میں اُستادامانت علی خاں، اُستادفتح علی خاں، اُستادسلامت علی خاں، نزاکت علی خاں، ملکہ موسیقی روشن آراء بیگم، فریدہ خانم، زاہدہ پروین ، اقبال بانو اور مہدی حسن شرکت کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ’’جشن بہاراں‘‘ کی محفل میں اُستادسلامت علی اور نزاکت علی خاں نے اس قدر رچاؤ سے گایا کہ سماں بندھ گیا اور ان کے گانے کے بعد کوئی دوسرا فن کار سٹیج پر آنے کے لیے آمادہ نہ ہوا۔ کش مکش کی اس فضا میں منتظمین نے زاہدہ پروین سے گانے کی درخواست کی جو انھوں نے قبول کر لی ۔ ہمارے غزل گیت گانے والے بیشتر فن کار آمد کا گانا نہیں گاتے بلکہ ان کا گانا گِنے چُنے بہلاؤں اور الاپ پر مبنی ہوتا ہے مگر زاہدہ پروین کا گانا کسی قید یا بندش کا پابند نہ تھا بلکہ وہ آمد کا گانا گاتی تھیں اور یہ حوصلہ انھیں کلاسیکل گانے میں عبور کی وجہ سے حاصل ہوا تھا۔ اسی حوصلے کے سبب انھوں نے اُستادسلامت علی خاں اور نزاکت علی خاں کے جمائے ہوئے رنگ کے بعد گانے کی دعوت قبول کر لی۔
زاہدہ پروین کی گائی ہوئی بہت سی کافیاں ریڈیو پاکستان کے مختلف مراکز سے نشر ہوتی رہتی ہیں۔ ان کی گائی ہوئی حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی یہ سرائیکی کا فیاں بہت مشہور ہوئیں :

کیا حال سناواں دل دا

کوئی محرم راز نہ مل دا

سب صورت وچ ذات سیانی

نہ کوئی آدم، نہ کوئی شیطاں

بن گئی اے کل کُوڑ کہانی

دکھی دلڑی درداں ماری

ہر ویلے آزاری

دم مست قلندر، مست قلندر

مست و مست الست

سوہنے یار باہجوں میری نئیں سردی
زاہدہ پروین کے گائے ہوئے یہ گیت بھی اکثر ریڈیو سے نشر ہوتے رہتے ہیں:
رُوٹھی رُت نہ مانی عمر یا بیت گئی
دوپیاسے نیناں ہار گئے
ساون کی بدلی روٹھ گئی

جی ہے سکھی اداس نہیں ہو پاس
یہ رت مجھے نہ آئے راس
برکھا رُت متواری او راجا
برکھا رت متواری

زاہدہ پروین کی گائی ہوئی یہ غزلیں بھی بہت مقبول ہوئیں:
گرمئی حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں

ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
قتیل شفائی
مری داستانِ حسرت وہ سُنا سُنا کے روئے

مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے
سیف الدین سیف
زاہدہ پروین کی آواز میں قدرتی طور پر زمزمہ ، پھندے اور ارادے موجود تھے۔ ان کی آواز میں مزید نکھار اُستادعاشق علی خاں صاحب جیسے گُنی جَن گائک کی رہنمائی اور ریاضت سے پیدا ہو گیا۔ کافی گاتے ہوئے وہ مشرمیل انداز کو مد نظر رکھتی تھیں اور راگ کے قریب کے سروں کو خوب صورتی سے چھوتی ہوئی تینوں سپتکوں پر آسانی سے گا سکتیں تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے بارہ کے بارہ سر ان کے تابع تھے اور ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔ گاتے ہوئے جب وہ تار سپتک کے کسی سر پر قیام کرتیں تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اب انھیں واپسی کا راستہ نہیں ملے گا لیکن یہ تاثر اس وقت ختم ہو جاتا تھا جب وہ با آسانی سروں کو ادا کرتے ہوئے واپس اپنے کھرج اور استھائی کے بولو ں پرآجاتی تھیں۔

یوں تو حکومتِ پاکستان نے بہت سے کلاسیکی، نیم کلاسیکی اور لوک گلوکاروں کو ان کی فنی خدمات کے اعتراف کے صلے میں حسن کارکردگی کے صدارتی تمغے عطا کیے ہیں مگر افسوس کہ آج تک ثقافتی اداروں کے ارباب بست و کشاد کو زاہدہ پروین جیسی نادر و یگانہ مغنیہ کا خیال نہ آیا۔ پاکستان کے ایسے بہت سے فن کار ہیں جنھیں ان کی وفات کے بعدبھی حسنِ کارکردگی کا صدارتی تمغا دیا گیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فی الفور زاہدہ پروین کے لیے صدارتی ایوارڈ کا اعلان کرے۔ حکومت اگر کراچی کے نوخیز گلوکار امجد حسین کو یہ اعزاز دے سکتی ہے تو زاہدہ پروین کو کیوں نہیں؟
زاہدہ پروین کے بعد ان کی بیٹی شاہدہ پروین ان کے فنی اثاثے کی وارث ہیں۔ وہ مستقل طور پر لاہور میں سکونت پذیر ہیں اور لاہور ریڈیو اور ٹی۔ وی کے موسیقی کے پروگراموں میں حصہ لیتی رہتی ہیں۔ شاہدہ پروین نے اپنی ماں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بارہ تیرہ سال کی عمر میں گانا شروع کیا تھا اور ابتداء میں اپنی والدہ سے ’’کافی‘‘ گانے کی تربیت حاصل کی تھی۔
زاہدہ پروین نے اپنے علاوہ شاہدہ پروین کو موسیقی کی تعلیم دلوانے کے لیے اُستادامانت علی خاں کے والد اُستاداختر حسین خاں کی خدمات حاصل کی تھیں۔ اختر حسین خاں کی وفات کے بعد شاہدہ پروین نے ان کے دوسرے بیٹے اُستادفتح علی خاں کی شاگردی کی لیکن وہ اپنی مصروفیات کے باعث شاہدہ پروین کو کچھ زیادہ وقت نہ دے سکے۔ اُستادفتح علی خاں کے بعد شاہدہ پروین نے اُستادچھوٹے غلام علی خاں کی شاگردی کی۔ شاہدہ پروین بھی اپنی والدہ کی طرح سادگی پسند، خوش اخلاق اور متواضع واقع ہوئی ہیں۔
شاہدہ پروین پاکستان میں کلاسیکی موسیقی کے مستقبل سے مایوس ہیں اور اپنے بچوں کو موسیقی سے دور رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی توجہ اپنے بچوں کی تعلیم پر ہے تا کہ وہ موسیقی سے ہٹ کر کوئی دوسرا پیشہ اپنا سکیں۔
کوئل جیسی مدھر آواز رکھنے والی مغنیہ زاہدہ پروین صرف ۴۲ سال کی عمرمیں ۷؍ مئی ۱۹۷۵ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ ان کی وفات کے ساتھ ان کی گائکی کا اچھوتا انداز بھی ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا لیکن جب تک یہ دنیا قائم ہے اس وقت تک ان کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہے گا۔

زاہدہ پروین میانی صاحب کے قبرستان میں دفن ہیں۔ پروفیسر محمد اسلم نے اپنی تحقیقی کتاب ’’خفتگانِ خاکِ لاہور‘‘ میں لاہور کے مشاہیر کی قبروں کی نشاندہی کی ہے ، ہر قبر کا کتبہ نقل کیا ہے اور ساتھ ہی مدفون کے مختصر حالات بھی درج کیے ہیں وہ زاہدہ پروین کے متعلق لکھتے ہیں:
’’فیروز نظامی کے مرقد سے متصل جانبِ شمال زاہدہ پروین کی آخری آرام گاہ ہے۔ وہ ’’کافی‘‘ گانے میں اپنی مثال آپ تھیں۔ مرحومہ لاہور اسٹیشن سے اپنے نغمات فضا میں بکھیرا کرتی تھیں۔ جن لوگوں نے انھیں سنا ہے ان کا کہنا ہے کہ ان سے بہتر خواجہ غلام فرید کی کافی کسی مغنیہ نے نہیں گائی۔ ان کے لوح مزار پر یہ عبارت منقوش ہے‘‘۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ
ملکۂ کافی
زاہد ہ پروین
مری داستانِ حسرت وہ سُنا سُنا کے روئے
مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے
تاریخ وفات ۷؍مئی ۱۹۷۵ء بروز بدھ وار ۲؂
محمد اسلام شاہ زاہدہ پروین کی وفات کے متعلق لکھتے ہیں:
’’معروف مغنیہ زاہدہ پروین کا جنازہ ساڑھے نو بجے اس بازار سے روانہ ہوا تو حسبِ معمول یہ بازار اُس وقت جگمگا رہا تھا۔ سجے بنے جسم سولہ سنگھار کیے بالا خانوں میں محوِ رقص و سرور تھے۔ کہتے ہیں کہ اُس بازار کی ایک روایت ہے کہ جب کوئی بڑا فن کار انتقال کر جائے تو یہ بازار مکمل سوگ مناتا ہے۔ روشنیاں مدہم پڑ جاتی ہیں۔ رقص رک جاتا ہے۔ نغمے تھم جاتے ہیں مگر کوچۂ شہباز شیخوپوریاں اور چیت رام روڈ والوں کے نزدیک غالباً یہ مغنیہ اس قابل نہ تھی کہ اس کا سوگ ہو۔ اہل ذوق اور ماہرین موسیقی کا کہنا ہے کہ اس بازار نے اس دور میں اس سے بڑی مغنیہ پیدا نہیں کی۔ وہ گیت سے خیال تک موسیقی کی ہر صنف پر پورا پورا عبور رکھتی تھی‘‘۔ ۳؂

 

حوالہ جات:۔
۱؂ شاہدہ پروین سے راقم کی گفتگو، لاہور، بتاریخ ۲۷ ؍اگست ۱۹۹۷ء
۲؂ پروفیسر محمد اسلم، خفتگانِ خاکِ لاہور، ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان، پنجاب یونی ورسٹی لاہور، ۱۹۹۳ء، ص ۶۱
۳؂ محمد اسلام شاہ، نام ور فن کار، مکتبہ اعظم ۵۴ شاہراہ قائد اعظم لاہور، ۱۹۸۴ء ،ص ۱۱۱

About پروفیسر شہباز علی 12 Articles
پروفیسر شہباز علی گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں اردو زبان و ادب کے مدرس ہیں۔ ان کا شمار نامور موسیقاروں میں ہوتا ہے۔ وہ PNCA اور ہنر کدہ سمیت بہت سے اداروں میں موسیقی کی تعلیم دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے قاضی ظہور الحق اور ماسٹر محمد صادق پنڈی والے سے کسب فیض کیا اور بعد ازاں مہدی حسن خان صاحب کی شاگردی بھی اختیار کی۔ ٹی وی سے موسیقی کے تین سو سے زائد لائیو پروگراموں بطور ماہر۔موسیقی شرکت کر چکے ہیں۔