(شاہد اشرف)
قوموں کی تاریخ میں سیاست ہمیشہ مفادات ، وسائل ، زمین اور طاقت کے حصول کا ذریعہ رہی ہے ۔ اس حوا لے سے قبل از مسیح کی سیا ست اور لمحۂ موجود کی سیا ست میں کوئی بنیا دی فرق نہیں ہے ۔ مثلاً یو نان کے بادشاہ نے سپہ سالار کو بلا کر کہا کہ ہمسا یہ ریاست کار تھیج پر حملہ کردیا جائے ۔ سپہ سا لا ر نے کہا کارتھیج پُر امن ریا ست ہے اور ہمیں اُس سے کو ئی شکا یت نہیں ہے ۔ بادشاہ نے جیب سے نا شپا تی کا پھل میز پر رکھتے ہو ئے کہا کہ،’’ یہ پھل جس علا قے میں پیدا ہوتا ہے ۔ اُسے میری ریا ست کا حصہ ہو نا چاہیے ‘‘۔
موجودہ دورمیں امریکہ کی جا نب سے تیل کے لئے عرب مما لک پر لشکر کشی سے یونان پر کارتھیج کے حملے کا واقعہ یا د آتا ہے ۔ گما ن غا لب ہے یونان کے بادشاہ کی اُس عہد کے شاعروں اور دا نشوروں نے ظاہری یا با طنی سطح پر مذ مت کی ہو گی ۔ جیسے موجودہ دور میں دنیا کے تمام ملکوں میں امر یکہ مخالف جذ بات پیدا ہو ئے ہیں اور شاعروں نے اپنی تخلیقا ت میں امریکی اقدامات کی مذ مت کی ہے ۔
موجودہ گھنا ؤنی سیاست کے نتیجے میں امنِ عا لم کو شدید خطرہ لا حق ہے ۔ ان حالات میں شاعروں کی ذ مہ دا ری بڑھ جاتی ہے ۔ یہ پندو نصائح ، تصوف اور قصائص پر مشتمل شاعری کا ز مانہ نہیں ہے ۔ شاعر کو عصری تقاضوں کے مطا بق جبر، جا رحیت اور جرا ئم کے خلا ف آواز اُٹھا نی ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوا تو سیا ست کا گھنا ؤنا کھیل دنیا کی تبا ہی و بر با دی پر منتج ہوگا ۔
سوال یہ ہے کیا شاعری کے ذریعے سیاست پر غلبہ ممکن ہے ؟ اور کیا شاعری حقیقی معنوں میں بڑے فکری انقلا ب کا پیش خیمہ بن سکتی ہے؟ یقیناً موافق حالات اور ساز گار فضاسے شاعری لوگوں کے خیالات بدلنے کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔ یہ عمل آہستہ آہستہ پروا ن چڑھتا ہے اور دہا ئیوں کے بعد اثر اندا ز ہوتا ہے ۔ معاشرہ اپنے فکری ارتقأ میں خا رجی حالات کا پا بند ہو تا ہے۔ جوں جوں حا لات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے توں توں مزاحمت کا رجحان غالب آتا ہے ۔ اس رجحان کے نتیجے میں حریتِ فکر جنم لیتی ہے ۔ جیسے پا نی اپنا را ستہ خو بنا لیتا ہے ۔ حریت فکر کو بھی راستہ مل جا تا ہے ۔
ہما رے معا شرے میں تشد د اور انتشار سیاست کا لازمی جزو ہیں ۔شاعری امن وانتظام کا پیغام ہو تی ہے ۔ دونوں کی حدو د اور دا ئر ہ کار بظا ہر مختلف ہو نے کے با و جود یکسا نیت کی صو رتیں ملتی ہیں ۔مثلاً سیا ست انقلاب جنم دیتی ہے ۔شا عری بھی انقلاب کا ذریعہ ہو تی ہے ۔ سیا ست فر د سے معا شرے تک وا ضح طو ر پر اثر اندا ز ہو تی ہے ۔ شاعری انفرا دی اور اجتما عی زند گی کو غیر محسو س انداز میں متا ثر کر تی ہے ۔جہاں دونو ں آپس میں مل جا تی ہیں وہا ں پر تحرّ ک اور تبدّل کے امکا نات بڑ ھ جا تے ہیں ۔ مثلاً قیام پا کستان کے بعد ایک بار پھر ایر ان انقلاب کے پس منظر میں اقبا ل کی شا عری نے فکر ی سطح پر ایرانی عوام کی رہنما ئی کی ہے ۔ دنیا کے کئی اور مما لک میں بھی شعرا نے سیا سی محاذ پر شا عری کے ذریعے عوام کی بیدا ری کا فریضہ انجام دیا ہے ۔شا عری محض حظ اٹھانے کا کام ہے تو اُسے نَے نواز کی مثل قرا ر دیا جا سکتا ہے جو محض تفریح فراہم کر تا ہے ۔’’ایک با نسری بجا نے والا جو کسی سنسان ٹیکرے پرتن تنہا با نسری کی لے سے اپنا دل بہلا تا اور شا ید کبھی کبھی سننے والے کے دل بھی اپنی طر ف کھینچتا ہے ‘‘ کا عمل رو حا نی سطح پر قا بل قد ر گر دانا جا سکتا ہے اور اِ سے سو د مند بھی سمجھنا چا ہیے ۔البتہ فکر ی سطح پر اس سے کو ئی مد د نہیں ملتی ہے ۔اس اعتبا ر سے فنون لطیفہ میں شا عری انقلا ب بر پا کر نے کی حد درجہ صلا حیت رکھتی ہے ۔
معا شرے میں نا ہموا ری اور عد م مسا وات عوام کی بے چینی کا سبب ہو تے ہیں ۔شا عر عوام کی آواز بن جا تا ہے ’’سکون اور آسو دگی کیلئے وہ قو می مسا ئل کو جب اپنے ادب کا مو ضوع بنا تا ہے تو تبدیلی کا مطا لبہ کر تاہے ۔جو تبدیلی نہیں چا ہتے ان سے اس کا اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔ ‘‘شعرا کے دو گروہ ہیں ایک جو طا قت ور اور مو جود نظام کے تحفظ و بقا کیلئے کام کر تا ہے دو سرا جو تبدیلی کیلئے جد و جہد کر تاہے۔ واضح طور پر ایک گروہ ادب کو سیا ست سے الگ اور جدا دیکھنے کا خوا ہاں ہے ۔ ادب سے سما جی تبدیلی اور سیا سی محر کات کا تصور اُس کے ہاں نا پید ہے ۔’’جو لو گ اد ب کو سیا ست سے الگ رکھنا چا ہتا ہے ۔وہ یاتو سیا ست کو زندگی سے علیحد ہ سمجھتے ہیں یا ادب کوزند گی کا تر جمان نہیں سمجھتے ۔یا پھر زند گی کا مقصد صرف گانا بجا نا اور تفر یح خیا ل کر تے ہیں یا زندگی کو صر ف رو ما نی تصورات تک محدود سمجھتے ہیں ۔گو یا ادب کا مفہوم ان کے یہاں ذہنی تعیّش کے سوا کچھ اور نہیں ‘‘۔
شعرا کا جو طبقہ ادب کو محض تفریح ااور ذہنی تعیّش خیا ل کر تا ہے وہ جما لیات کو مقد م رکھتا ہے اور ان کے نز دیک شا عری کا بنیا دی مقصد یہی ہے۔ مزید یہ کے وہ معا شرے کے سما جی اور سیا سی ڈھا نچے میں کسی بھی تغیر کا خواب نہیں رکھتے۔ اس بنا پر وہ عصری مسا ئل اور مو ضو عا ت سے لا تعلق رہ کر شا عری کر تے ہیں ۔جو کسی اعتبا ر سے درست نہیں ہے ۔شا عر اگر سیا ست سے علاقہ نہیں رکھتا تو سا رتر اور قیوم نظر کے ما بین ہو نے والے مکالمے کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ زند گی کے اصل حقا ئق کا ادراک ہی نہیں رکھتا ہے ۔تر قی پسند شعرا کا ایک شکو ہ سننے میں آتا ہے کہ تر قی پسند ادب کو سیا سی بنیا د پر اعلیٰ ادب میں شما ر نہیں کیا جاتا اور یہ محض پرو پیگنڈا کہلا تا ہے ۔’’سیا ست ہر جگہ ہے ،ہر طر ف ہے،فن اور ادب کی ہر تخلیق میں ہے ،فرق صرف یہ ہے کہ کہیں سیاست تر قی پسند ہے اور کہیں رجعت پرست ۔جب فن پا رے میں تر قی پسند سیا ست ہو تی ہے تو فو راً انگلیاں اٹھتی ہے ۔یہ فن نہیں یہ سیاست ہے اور اگر سیا ست رجعت پسند ہے تو وہ اعلیٰ درجے کا فن ہے ‘‘۔
ٍ علی سر دار جعفری کی اس رائے سے جزوی اختلاف کی گنجا ئش مو جود ہے ۔فیض ،جو ش اوراحمد ندیم قا سمی ایسے شعرا کی سیاسی شاعری کو ہر مکتبہ فکرنے سرا ہا ہے اور نظریا تی بُعد کے با وجود قا بل قد ر جا نا ہے ۔ہاں بعض تر قی پسند شعرا نے شعریت سے قطع نظر محض نعرہ گو ئی سے کام لیا ہے اور ان کے ہاں جذ ب کیے بغیر خیا لات کو بیان کر نے سے معنویت اور شعری زیبا ئش میں فقدان نظر آتا ہے ۔اسی طر ح رجعت پسند شعرا کی کثیر تعدا د بھی اعلیٰ شعری معیارا ت پر بھی پو را نہیں اتر تی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ شا عری کا یہ پہلو خوا ہ تر قی پسند انہ ہو یا رجعت پرستا نہ، کیا اعلیٰ شعری معیارات پر پو را تر تا ہے؟
شا عری کو سیا سی اور غیر سیا سی خا نوں میں تقسیم کر نا تر قی پسندا نہ تقاضا ہے ۔سیا سی جبر کے نتیجے میں جوفکری مزاحمت کی شکل بنتی ہے اسے مز احمتی شا عری کا نا م دیا جا تا ہے ۔شا عر کا اصل امتحان اس وقت شروع ہو تا ہے جب وہ اپنی پسندیدہ سیا سی جماعت کے ظلم پر تما شا ئی اور دو سری سیا سی جما عت کے ظلم پر مزا حمت کر تا نظر آتا ہے ۔سیا ست سے مفا د کی وا بستگی شا عر ی سے منا فقت کا سبب بنتی ہے ۔حقا ئق سے چشم پو شی با طنی سطح پر شا عر کو متا ثر کر تی ہے اور تخلیقی عمل کو سچا ئی سے دو ر کر دیتی ہے ۔یو ں تخلیق کی زند گی کم اور اثر ز ائل ہو جا تا ہے ۔البتہ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ شا عر کی منشاکے ناموافق اسے لکھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے۔اگر وہ کسی معاملہ پر خا موش ہے تو اسے آما دہ سخن کر نا مشکل امر ہے ۔’’ ہم کسی شا عر پر اس وجہ سے لعنت ملا مت نہیں کر سکتے کہ وہ ایک شا عر کی حیثیت سے اپنی انسا ن وا لی ذمہ دا ری سے منکر ہو جاتا ہے ۔ہم اس پر لعن طعن تو کر سکتے ہیں کہ وہ نر ا شا عر ہے یعنی اسے انسان کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کا پاس نہیں ہے لیکن ہم اسے یہ طعنہ نہیں دے سکتے کہ وہ ایک شا عر کی حیثیت سے کسی سما جی قضیے میں نہیں پڑایا کسی تعمیری تحریک میں شامل نہیں ہو ا‘‘
سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ آخر ادب یا شا عری کے سیا ست سے تعلق کی با ز گشت بار بار کیوں سنا ئی دیتی ہے ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیا ست دان محض اقتدا ر چا ہتا ہے اور اسے حا صل کر کے خود غر ضی کا لحا ف اوڑھ لیتا ہے۔ اسے جگا نے کیلئے شاعر کا م آتا ہے ۔اگر ایسا نہ ہو تو ’’ہما ری تہذیب کی بقا ان لو گوں کے ہا تھوں میں چلی جا ئے گی جو سیا ست کو اپنی مفادات کے تحفظ اور بقا ء کیلئے ایک ایسے عمل میں تبدیل کر چکے ہیں جس میں کمزور طا قت ور کیلئے آسان غذا بن جا ئے ‘‘
دو سرے لفظوں میں شا عر ایک مصلح کے طور پر بھی کام کر تا ہے ۔یہ عمل ہر دو ر میں جا ری رہتا ہے ۔شا عر کو حکو مت کا حصہ نہیں بننا چاہیے اگر ایسا ہو تو وہ عوام کا اعتماد کھو دیتا ہے ۔کیوں کہ اسے حکو مت کی خو بیوں کے سا تھ سا تھ خا میاں بھی قبول کر نا پڑ تی ہے اور کا میا بیوں کے سا تھ ساتھ نا کامیوں میں بھی حصہ دار بننا پڑ تا ہے ۔غیر جا نب دا ری کی کو ئی حیثیت نہیں ہو تی ہے اور شاعر کا غیر جا نب دار ہو نا گو یا غیر محسوس انداز میں جبر کا ساتھ دینا ہے ۔
شا عری میں کو مٹ منٹ کا تصور تر قی پسند تحریک کے ذریعے سا منے آیا ۔تر قی پسندوں نے جھوٹ اور سچ یا نیکی اور بدی کی طر ح ظا لم اور مظلوم کے دو طبقات میں ادیبوں سے اپنی کو مٹ منٹ کی نشا ند ہی کاسوال اٹھا یا ۔تر قی پسند تحریک سے با ہر شعرا کی حقیقت نگا ری بھی انہیں قا بل قبول نہ ٹھہری ۔اس سے مرا د ہر گز یہ نہیں ہے کہ ’’ہر ادیب اور فنکار کسی وا حد نقطہ نظر کا پا بند ہو کر رہ جائے‘‘
جس طر ح زند گی متحر ک اور رواں دواں ہے اِسی طر ح نظریات کے تغیر و تبدل کا امکان مو جود رہتا ہے ۔کسی کو زبر دستی ہم خیال نہیں بنایا جا سکتا ہے ۔تجر بے اور مشا ہدے انسان کو سیکھنے اور جاننے میں مد د دیتے ہیں ۔شا عری میں بھی ارتقا کا عمل جا ری رہتا ہے ۔ہم دیکھتے ہیں اوّل اوّل رومان پر ور شعر اارتقا ئی عمل کے بعد انقلا بی بن گئے ۔’’بہتر بننے کی تحریک ہر انسان میں مو جود ہو تی ہے ‘‘ کو ئی آدمی بھی جان بو جھ کر کم تر ادنیٰ اور ہیچ لو گوں میں شما ر ہو نا نہیں چا ہتا ہے ۔وہ اپنی سو چ،قوت عمل اور حالا ت کے تا بع ہو تا ہے ۔نتیجتاً موافق صو رت پیدا ہو تے ہی اس کے ارتقا ئی عمل کو مہمیز لگ جا تی ہے ۔ شاعر کا کو ئی نظر یہ، کو ئی کومٹ منٹ واضح ہو یا نہ ہو شا عری کسی نظر یہ یا کو مٹ منٹ کے ضرو ر تا بع ہو نی چاہیے ۔
سیاست اور شاعری کے پس منظر میں ایک اہم سوا ل یہ بھی ہے کہ شاعری کی زبان کیسی ہو نی چاہیے ؟ شاعری عا م آدمی کی زندگی سے متعلق بحث کرتی ہے ۔ مگر عا م آدمی کے فہم و ادراک سے بالا ہوتی ہے ۔ تہذیبی اعتبار سے عوا می مزاج عام لب و لہجے کا حا مل ہو تا ہے اور یہ سچ ہے کہ ،’’ کسی تہذیب کا عکس اُس تہذیب کی حا مل قوم کے لسا نی رویوں میں سب سے زیادہ جھلکتا ہے ‘‘ اس پہلو سے ہر زبا ن کو خاص قرینہ اور ضابطہ اُسے دوسری زبا نوں سے مختلف بنا تا ہے ۔ سیاست کا لب ولہجہ اور شاعری کی زبا ن کا بُعد خاص امتزاج کا متقاضی ہوتا ہے ۔ جسے شاعر بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ وہ اقدار و روایات کا نما ئندہ بھی ہوتا ہے ۔ لسا نی ضا بطے اور اقدار کی آمیزش فن پا رے کو جلا بخشتی ہے ۔ یوں ’’شا عری میں سما جی اقدار کے در آنے سے سما جی اقدار ،شعری اقدارکا درجہ حاصل کر لیتی ہیں‘‘ اور یہی ہر عہد کے شاعر کا مطمح نظر ہوتا ہے ۔
یہ شاعری اور سیاست کے موضوع پر ایک اچھی تحریر محسوس ہوتی ہے۔ اگر ایسی تحریریں درسی اور نصابی پہلوؤں کی بجائے اطلاقی نکتہ نظر کو سامنے رکھ کر لکھی جائیں تو ان کی افادیت میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ کوٹیشنز کا حوالہ نہیں دیا گیا کہ وہ کس شخصیت سے سرزد ہوئیں ہیں۔