ہارون عدیم
شائقین موسیقی کو اس بات کا بڑا صدمہ ہے،کہ نہ وہ روائیتی موسیقی رہی اور نہ ہی وہ گانے والے،کہاں ماضی قریب میں ہی فلمی ،اور ٹی وی کے افق پر مہناز،نیرہ نور،ناہید اختر،شازیہ منظوراور غلام عباس،اے نیئر جیسے گانے والے موجود تھے،مگر اب تمام گانے والے کمپیوٹر کے زور پر سنگر ہیں ،آج کل کے گانے والوں میں سے اگر کوئی سریلی آوازیں ہیں جو کسی حد تک پلے بیک سنگنگ کا حق ادا کرتی ہیں تو وہ شبنم مجیداور حمیرا چنا ہیں۔
بات اتنی بھی پرانی نہیں،کل کی بات ہے جب گائیک کی بنیادی پہچان اس کا سریلا پن، اس کی کلاسیکل گائیکی پر عبور،غزل اور گیت پر دسترس ہونا بنیاد تھی،پھر یہ بھی دیکھا جاتا تھا کہ وہ مجلس یا محافل میں کیسا گاتا ہے،گائیکوں کی دواقسام ہوتی تھیں ایک وہ جو پس پردہ گلوکار یا فلمی گلوکار ہوتے تھے ،اور دوسرے وہ جو کلاسیکل یا نیم کلاسیکل ،ٹھمری،دادرا،گیت ،غزل اورلوک گائیکی کے میدان میں اپنا نام رکھتے تھے،فلمی گائیکی بھی اتنی ہی مشکل تصور کی جاتی تھی جتنی کہ غیر فلمی گائیکی ،وہ اس لئے بھی کہ فلمی یا پس پردہ گائیکی میں گائیک کو اپنی آواز سے انسانی جذبات کی تصویر کشی یا شکلیں بنانا ہوتی تھیں،ملکہ ترنم میڈیم نور جہاں اس کی سب سے بڑی مثال ہیں،فلمی ہیروئینوں کا یہ ماننا تھا کہ میڈم کے گائے ہوئے گانوں پر انہیں ایکٹنگ کے وہ جوہر نہیں دکھانے پڑتے کیونکہ میڈم کے گانے میں جذبات پہلے سے موجود ہوتے ہیں،مگر پھر بھی خواتین گانے والیوں میں زبیدہ خانم ،نسیم بیگم ،مالا،آئرین پروین ،رُونا لیلٰی ،تصور خانم ، جیسے نام موجود تھے جبکہ مردوں میںسلیم رضا، احمد رشدی ،منیر حسین ،عنایت حسین بھٹی ،مسعود رانا ،مجیب عالم اور رجب علی جیسے سریلے گانے والے شامل تھے،مگر ان میں سے بیشتر کی ابتداء ریڈیو سے ہی ہو ئی تھی ۔
دوسری جانب غیر فلمی گائیکوں کا میدان ریڈیو،تھیٹر اور نجی محافل ہوتی تھیں،اور انہیں عوام تک پہنچانے کا ذریعہ یا تو ریڈیو ہوتا تھا یا پھر گراموفون کمپنیاں۔ریڈیو پر گانے والے یا ریڈیو پر بجنے والے ریکارڈ کے گائیک کا اپنا ایک علیحدہ مقام ہوتا تھا،تب ریڈیو بھی ایک بہت بڑا پروڈکشن ہاؤس ہوتا تھا،ریڈیو کے کمپوز کئے ہوئے گیت ،غزلیں ،کافیاں ،ٹھمریاں اور قوالیاں فلمی گانوں کے ہم پلہ ہوتی تھیں۔بالخصوص 65اور70کی پاک بھارت جنگوں کے درمیان ریڈیو پاکستان سے پروڈیوس کئے گئے ملی نغموںنے آج تک پوری قوم کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔فریدہ خانم ،اقبال بانو،زاہدہ پروین ،خورشید بیگم، مہدی حسن،غلام علی،شوکت علی،پرویز مہدی،حسین بخش گلو، نذیر بیگم ،ثریا ملتانی گر،شاہدہ پروین ،ریشماں،عابدہ پروین ،آئرین پروین ،افشاں بٹ ،پٹھانے خان،حامد علی بیلا،سائیں اختر،عالم لوہاراور بے شمار گانے والوںکی کہکشاں نے قومی افق پر اپنے فن کی روشنی پھیلائی ہوئی تھی،ریڈیو کی کمپوز یا تخلیق کی ہوئی دھنیں لوک موسیقی کا درجہ دھار چکی تھیں،ریڈیو پاکستان لاہور سے ہر مہینے میں ایک براہ راست محفل موسیقی نشر ہوتی تھی جس میں گانے والے فنکار یا کسی سازندے کو اپنے فن کو پیش کرنے والے کو خوش قسمت اور بڑا فنکار سمجھا جاتا،پھر پاکستان ٹیلی ویژن وجود میں آگیا اور ریڈیو کے بڑے ناموں نے ٹی وی کا رخ کر لیا،مگر تب بھی ریڈیو کے معیار میں کمی نہیں آئی تھی۔ریڈیو نے موسیقی کے میدان میں ٹی وی کا مقابلہ کیا۔
پھر کیا ہوا کہ کیسٹ وجود میں آگئی،جس نے گراموفون کے ریکارڈ کی جگہ لے لی۔ریڈیو نے پہلے تو فلمی گانوں کی کیسٹیں خریدنی شروع کر دیں،پھر پروڈکشن سے بھی ہاتھ کھینچ لیا اور ایسے گائیکوں کی ریکارڈنگ بھی نشر کرنی شروع کر دیں جن کو ریڈیو کے معیار کے مطابق کبھی بھی اڈیشن میں پاس نہیں کیا گیا تھا یا کیاجاسکتا تھا۔جیسے ہی ریڈیو نے پروڈکشن ہاؤس کی بجائے ایجنسی کا رول اپنایا جہاں سنگیت کا معیار بری طرح متاثر ہوا وہاں عوام نے ریڈیو سے بھی منہ موڑ لیا،اور ریڈیو کی جگہ ٹیپ ریکارڈر نے لے لی۔پاکستان ٹیلی ویژن کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا،وہ تخلیقی عنصر یا جوہر جوٹی وی کا طرہء امتیاز تھا اسے بھی ریڈیو کی طرح کسی کی نظر لگ گئی،70 کی دہائی پی ٹی وی کے عروج کی دہائی تھی،مگر 80 کی دہائی کے بعد پی ٹی وی نے ہمیشہ اپنے پرانے گیتوں یا غزلوں کو ہی ری مکس کیایا پھر نئے فنکاروں سے دوبارہ گوایا ہے۔مگر نئے گانے والوں نے ان گانوں کو اس بھونڈے طریقے سے گایا کہ موسیقی کے شائقین اس سے چڑ گئے۔بلکہ یہ کہا جانے لگا کہ نئی گانے والیوں پر میڈم نور جہاں کے گانوںکو گانے پر پابندی عائد کر دی جائے،جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ چاہے ترنم ناز ہو یا شاہدہ منی میڈم نورجہاں کے سْر سے کوئی بھی نہیں گاتی،دوئم میڈم نے گانوں میں جوجذبات کشی کی ہے،وہ ان کے بس کی بات نہیں،لہٰذا میڈم کے گانے کا بگاڑ سننے کو اب لوگ تیار نہیں ۔
موسیقی کی تنزلی میں رہتی سہتی کسر کمپیوٹر اور سی ڈی نے نکال دی،نئی نسل کے فنکار گائیک کی بجائے پرفارمر بن گئے،آج کے بڑے بڑے پرفارمر محفلوں میں سی ڈیز لگا کر صرف (Lip-syncing) یا ہونٹوں کی حرکات ملاتے ہیں۔ یوں گائیکی کا خاتمہ ہو گیا،حد تو یہ ہے کہ یہ پرفارمر ٹی وی شوز میں بھی سی ڈیز لگا کر ہی پرفارم کرتے ہیں،لہٰذا گائیکی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ گائیک یا گویے بھی پیدا ہونے ختم ہو گئے ہیں ،ہم نے پچھلی دو دہائیوں میں کوئی قابل قدر گائیک نہیں پیدا کیا،حتٰی کہ کلاسیکل گھرانوں کے سپوتوں نے بھی بڑے بڑے بال رکھ کر اپنا حلیہ بدلا مگر گائیکی میں کوئی نکھار نہ پیدا کیا،بالخصوص شام چراسی گھرانے کے فرزند شفقت علی خان نے تو بہت مایوس کیا،شام چراسی کا طرہء امتیاز ان کا سریلا رسیلاپن تھا،جناب استاد سلامت علی خان چاہے مرقیاں لے رہے ہوں،تان پلٹا کر رہے ہوںیا لے کاری کر رہے ہوں سْر نہیں چھوٹتا تھا،نغمگی برقرار رہتی تھی ،مگر ان کا بیٹا گانے میں اتنا زیادہ مکینیکل ہو جاتا ہے کہ اس کا گانا سننے والے ڈر جاتے ہیں،وہ تان پلٹا، لے کاری،یا خیال کی شکل تو ہو سکتی ہے گائیکی ہر گز نہیں،کلاسیکل گانے کے سْریلے اور رسیلے پن کے لئے معیار بڑے غلام علی خان صاحب اور خود جناب سلامت علی خان صاحب ہیں، دوسری جانب ان کے تایا جناب استاد نزاکت علی خان کے بیٹے رفاقت علی خان بھی گا رہے ہیں ،مگر وہ بھی ابھی گائیک کا درجہ نہیں بنا پائے ،ہاں! ان میں اپنے والد کا سْریلا پن موجود ہے ،ہمارے موسیقی کے گھرانوں کا ایک طرہء امتیاز یہ بھی تھا کہ ان کی بیٹیاں نہیں گاتی تھیں،مگر نزاکت علی خاں صاحب کی بیٹی نے اسلام آباد پی ٹی وی کے ایک موسیقی کے پروگرام شام دھنک میں گایا،جس کے پروڈیوسر جناب عار رانا تھے ،اور اتفاق سے اس پروگرام کاکمپئیرراقم تھا ،مگر اتنے بڑے باپ کی بیٹی نے بھی میڈم کے گانے گائے ،وہ خاصی سْریلی تھیں مگر اس کے بعد انہیں کہیں گاتے نہیں سنا۔ جبکہ پاکستان کے دوسرے بڑے گھرانے پٹیالہ کی نوجوان نسل نے خیال کی گائیکی کو نغمگی اور سریلے پن سے دور نہیں ہونے دیا،مگر وہ چاہے امانت علی خاں صاحب کے بیٹے ہوں یا استاد فتح علی خان کے بیٹے ہوں اپنے والدین کے پائے کے گائیک نہیں بن پائے،اسد امانت اور شفقت امانت نے شہرت تو حاصل کی مگر وہ جوہر جو جناب امانت علی خاں یا جناب استاد فتح علی خان کا طرہء امتیاز تھا وہ حاصل نہیں کر پائے۔استاد حامد علی خان کے بیٹوں نے عدنان سمیع کے بعد جو ولائیتی سازوں انگلش ردھم اور کلاسیکل موسیقی کا امتزاج کیا تھا ،وہ بھی ان کو صف اول کے گائیکوں میں نہیں لا سکا،اس سارے بحران میںاگر کوئی گائیک سامنے آیا ہے تو جاوید بشیر ہے۔بات اگرموسیقی میں تجربہ کی چھڑگئی ہے تو 70 کی دہائی میں موسیقار خلیل احمد نے غزل کی گائیکی کو ایک نئی شکل دی اور پوپ میوزک میں غزل کو گوایا،”یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے” برصغیر پاک و ہند میں یہ پہلا تجربہ تھا،اس کے بعد عدنان سمیع نے الیکٹرانک کی بورڈ پر کلاسیکل راگ بجا کر دنیا کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا،بعد میں استاد نصرت فتح علی خان نے بھی اپنی قوالی اور گائیکی میں ویسٹرن آرکسٹرا کا استعمال کر کے عطا اللہ عیسٰی خیلوی کی کیسٹ کو اتروایا، ورنہ ہر طرف عیسٰی خیلوی ہی بج رہا ہوتا تھا،سب سے اہم تجربے شام چراسی کے ہی فرزند استاد تصدق علی خان صاحب نے کئے،انہوں نے ایک تو راگوں کے مزاج دریافت کئے،کویت میں1979 میں اپنے دورے کے دوران جب استاد نزاکت علی خاں بھی ان کے ہمراہ تھے،انہوں نے راگوں کو ان کے مزاجوں کو سامنے رکھ کر گایا،مثلاً ان کے مطابق راگ ایمن کا مزاج یہ ہے کہ جب دو پیار کرنے والوں کو یہ پتہ چل جائے کہ وہ بچھڑنے والے ہیں ،یہ جاننے کے بعد جو دکھ اور کرب محسوس ہوتا ہے اور اس کے خلاف جو مدافعت ہوتی ہے وہ ایمن کا مزاج ہے۔ہم نے کچھ ریکارڈنگز بھی کی تھیں ،امید ہے کہ ان کے پاس ابھی تک وہ کیسٹ موجود ہونگی۔انہوں نے ایک اور کام بھی کیا تھا۔خیال گائیکی میں راگ کی پوری شکل کو انہوں نے پانچ منٹ کی ریکارڈنگ میں سمو دیا،90 کی دہائی میں انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہورکے سنٹرل پروڈکشن یونٹ پر خود کئی راگ گا کر یہ ریکارڈنگز کیں۔مگر نہ جانے ان کا کیا ہوا اور ارباب نشاط نے انہیں کیوں پرموٹ نہیں کیا۔
موسیقی کے اس بحران میں مسابقت کا فقدان بھی ہے۔90 کی دہائی تک تمام بڑے گائیکوں کی کہکشاں موجود تھی،ایک سے ایک بڑا نام موجود تھا،لہٰذا ہر گویا اپنا ایک مضبوط پوائنٹ اور منفرد انداز بناتا تھا تا کہ اسے سنا جائے،مگر اب یہ مقابلہ کی فضاء نہیں،لوگ پیسوں کے بل بوتے پر اپنی سی ڈیز بنواتے ہیںاور پھر ان کی ویڈیوز۔جن میں گائیکی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔اوپر سے سب سے بڑا ستم یہ ہوا ہے کہ گھرانوں کی گائیکی بھی ختم ہوتی جاتی ہے،شام چراسی دھرپد گانے والے تھے،جبکہ پٹیالہ گھرانا خیال گائیکی کا گھرانہ تھا،ایک اور گھرانہ تلونڈی گھرانہ تھا،جن کے ایک سپوت استاد حفیظ خان کا دعویٰ تھا کہ شام چراسی گھرانہ ،گھرانہ ہی نہیں کیونکہ ان کے گھرانے میں ایک تو کوئی نائق پیدا نہیں ہوا دوسراشام چراسی تلونڈی گھرانے کے شاگرد ہیں،ایک دفعہ ریڈیو پاکستان اسلام آباد کے لئے ہم نے جب استاد جناب سلامت علی خان کا انٹرویو کیا تو ان سے یہ سوال کیا گیاکہ ان کا گھرانہ تو دھرپد کا گھرانہ ہے مگر وہ خیال گاتے ہیں،پٹیالہ گھرانا بھی خیال گاتا ہے تو آپ سننے والوں کو یہ بتائیں کہ شام چراسی اورپٹیالہ گھرانے کی گائیکی میں بنیادی فرق کیا ہے۔۔۔؟استاد سلامت علی خان نے جواب دیا تھا کہ ”جو وہ گا رہے ہیں یا جو استاد فتح علی خان گا رہے ہیں وہ گھرانوں کی گائیکی نہیں بلکہ پاکستان کی گائیکی ہے۔” ان کی اس بات میں اس لئے بھی وزن تھا کہ جب ان کا اپنے بھائی استاد نزاکت علی خان سے جھگڑا ہو گیا اور دونوں بھائی علیحدہ علیحدہ ہو گئے تو استادسلامت علی خان نے اپنے برادرنسبتی حسین بخش گلو کے ساتھ جوڑی بنا لی،یہ پٹیالہ گھرانے اور شام چراسی کا حسین امتزاج تھا،کیونکہ استاد حسین بخش گلو پٹیالہ گھرانے کے گائیک تھے اور استاد سلامت علی خان شام چراسی گھرانے کے۔ جبکہ حفیظ خاں تلونڈی والے کا کہنا تھاکہ وہ چاہے استاد سلامت علی خان ہوں یا استاد فتح علی خان دونوہی کلاسیکل نہیں گاتے،استاد سلامت علی خان قوالی گا رہے ہیں(مطلب ان کے گانے کا انگ قوالی کا انگ ہے)، اور استاد فتح علی خان ٹھمری،ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کی استاد فتح علی خان کا انگ ”سپر دائی” ہے ۔
تلونڈی گھرانے کے ان اعتراضات کے باوجود استاد سلامت علی خان اور استاد فتح علی خان اس عہد کے بہت بڑے گائیک ہیں،ایک دفعہ راقم استاد حامد علی خان کو پروفیسر راشدحسن رانا کے گھر لے گیا اور وہاں ہم نے پنڈت جس راج اور استاد سلامت علی خان کا گایا ہوا راگ زیلف سنا،استاد حامد علی خان کا دعویٰ تھا کہ پنڈت جس راج گائیکی اور خیال کی بندش میں استاد سلامت علی خان کے قریب بھی نہیں پھٹکے۔ہندوستان میں ہم نے ایک ہندو گھرانے میں ان کے پوجا کے کمرے میںاستاد نزاکت علی خان، استاد سلامت علی خان اوراستاد امانت علی خان اور استاد فتح علی خان کی تصاویر لگی دیکھیں،وہ ان کو ویسے ہی پرنام کرتے ہیں جیسے اپنے بھگوان یا دیوتاؤں کو۔
ان باتوں کا اس مضمون میںدر آنا ایک قدرتی امر ہے ،لیکن جو بات ہم کہنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر ہم پھر سے گائیک پیدا کرنا چاہتے ہیں،ہم چاہتے ہیں کہ وہ موسیقی پیدا کریں جو کہ روح کی غذا ہوتی ہے،جس سے روح کی بالیدگی کا کام لیا جا سکتا ہے،تو پھر ہمیں ریڈیو اور ٹی وی کو دوبارہ پروڈکشن ہاؤسز میں بدلنا ہوگا۔گھرانوں کی گائیکی کو محفوظ کرنے اور آگے بڑھانے کے لئے اداروں کو سامنے آنا ہوگا۔ورنہ یہ بے ہنگم موسیقی جہاں گائیکی کی روائیت کو نگل جائے گی وہاں ہماری مشرقی کلاسیکل سنگیت کو بھی چٹ کر جائے گی۔