شیخ محمد ہاشم
“اے بابو تیرے بچوں کی خیر۔” “اللہ تیری روزی میں برکت” دے۔ اس قسم کی صدائیں پورے پاکستان میں گونج رہی ہیں۔ اس وقت جہاں کراچی پر ہر قسم کی مافیاز راج کر رہی ہیں، وہیں گداگر مافیاز نے بھی شہریوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ اس مافیا کا تشویش ناک حد تک اضافہ لمحہ فکریہ ہے۔ کراچی آپریشن میں کئی سو کے کالے دھن کی پیدا گیری ٹرانسپورٹ، انکروچمنٹ، ممنوعہ اشیاء کی فروخت، مختلف نوعیت کے نا جائز کاروبارسے بھتہ وصولی، چنگ چی رکشوں سے کروڑوں روپے بھتہ اور چائنا کٹنگ وغیرہ وغیرہ سے دہشت گردی کی سہولت کاری کے تدارک کے دعوے تو بہت کئے گئے، لیکن درست سمت یعنی کراچی سمیت ملک بھر میں گداگری جیسے منعفت بخش اور ناجائز کاروبار اور ایک اچھے معاشرے کے بد نما داغ پر کبھی نوٹس لینے کی جسارت نہیں کی گئی۔ جس کے باعث ہر گلی،چوراہا ،شاپنگ مال، بازار،ٹریفک سیگنلز پر ان کی اجارہ داری ہے۔
گدا گری اب مجبوری کے نام سے نکل کر سو فیصد منافع بخش کاروبار میں تبدیل ہو گیا ہے۔ گدا گری کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر دروازے پر پہنچنے کی آزادی فراہم کرتا ہے۔ بد قسمتی سے اس مکروہ اور فریب کے کاروبار کی بیخ کنی کے لئے قانون تو موجود ہے ،لیکن اس سے پہلو تہی اُس سے بھی بڑھ کر تشویش ناک پہلو ہے۔
کراچی اور اندرون سندھ میں بھکاریوں کی بہتات کا یہ عالم ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ نصف آبادی بھیک مانگنے جیسے منافع بخش کاروبار میں ملوث ہے۔ مجھ پر حیرت کے پہاڑ اس وقت ٹوٹے جب میں نے ایک جواں سال بھکارن کو منی بس سے بھیک مانگ کر اترتے دیکھا جو قریبی وائن شاپ میں داخل ہوئی، شراب کی بوتل خریدی، بوتل کو پرس میں رکھا اور نزدیکی گلیوں میں گُم ہو گئی۔ کھوجی طبع نے معلومات کے لئے اُکسایا تو پتہ چلا کہ یہ لڑکی بھیک، شراب پینے کے لئے مانگتی ہے۔
ایک نجی ٹی وی چینل نے لاہور کی ایک بد بخت ماں سے روشناس کرایا، جس نے اپنی نصیبوں جلی بیٹی کے سر اور ہاتھ پر مصنوعی خون آلود پٹیاں باندھ کر مشہور شاہراہ پر بھیک مانگنے کے لئے بیٹھا دیا تھا ۔ اس ماں کو پیسے کی لالچ نے اتنا اندھا کر دیا ہے کہ وہ اس معصوم بچی کے مستقبل کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ کیونکہ پیسوں کے حصول نے اُس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ہاتھ پھیلانے تک محدود کردیا ہے۔ اس بچی کی ذہنی نشوونما جس انداز میں وہ کر رہی ہے اور جس ماحول میں اس کو جھونک دیا گیا ہے، کیا وہ معاشرے کے لئے مفید ہے؟ پھر یہ سوال بھی اُبھرتا ہے کہ اُس معصوم بچی کو معاشرے کے لئے کارآمد بنانے کی ذمہ داری اس کے والدین کے بعد کس پر عائد ہوتی ہے؟
بھیک مانگنے کے اس بھیانک روپ اور معاشرے کے ماتھے پر بدنما داغ سے بھی آپ اچھی طرح واقف ہوں گے، کہ معصوم بچوں کو اغوا کر کے اُنھیں معذور بنا کر بھیک منگوایا جاتا ہے۔ آپ روزآنہ یہ بھی مشاہدہ کرتے ہوں گے کہ بسوں اور ویگنوں میں اکثر نو عمر بچے اور بچیاں سیٹ پر بیٹھے افراد میں ایک کارڈ جس میں اُن کی روداد درج ہوتی ہے تقسیم کرتے ہیں،اس کے بعد بھیک دینے کی اپیل کرتے ہیں ۔اکثر بھکاری ٹریفک کے ہجوم میں گھس کر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں، میلے کچلے بچے گاڑیوں کی ونڈ اسکرین کو زبردستی صاف کر رہے ہوتے۔ یہ مختلف طور طریقے ہیں جن کا مقصد بھیک مانگنا ہی ہوتا ہے۔ خواجہ سرا بھیک مانگتے ہوئے عجیب غیر اخلاقی حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ تمام بھیک مانگنے کے حربے پہلے مرحلے کے ہوتے ہیں۔
اگلا مرحلہ منشیات کی فروخت چوری چکاری، لوٹ مار،موبائل اسنیچنگ،وغیرہ ہوتا ہے۔ پھر یہ ہی بھیک مانگنے والے تیسرے مرحلے میں داخل ہوتے ہیں، تو وہ دہشت گرد کا روپ دھار چکے ہوتے ہیں۔ گداگر کے روپ میں دہشت گرد ہونے کا شک وشبہ کم ہی پایا جاتا ہے۔ راولپنڈی میں ایک سرجن پر خود کش حملہ کرنے والا دہشت گرد گداگر کے روپ میں ہی تھا۔ جس میں وہ سرجن جو ملک کا اثاثہ تھے جاں بحق ہو گئے تھے ۔
اس قسم کے دہشت گرد ملک کے کونے کونے میں پھر رہے ہیں، جن کی ابتدا کم عمری میں بھیک مانگنے سے ہوتی ہے۔ لیکن افسوس قا نون نافذ کرنے والے تماش بین بنے بیٹھے ہیں، یا اس منعفت بخش لیکن بد نما کاروبار سے حصہ وصول کر کے ملک کو مسلسل غیر محفوظ بنا رہے ہیں۔ کیوں اس کا ادراک آج تک کسی بھی حکومت کو نہیں ہو سکا؟ کیونکہ کوئی بھی حکومتی اہلکار اتنی اہلیت نہیں رکھتا،کہ وہ اتنی باریک بینی سے کسی بھی معاملے کا مشاہدہ کر سکتا ہو۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا واسطہ ایسے طبقے سے نہیں پڑتا یا پھر وہ جان بوجھ کر ایسے طبقے سے دور رہنا چاہتے ہیں، کیونکہ حکومتی اراکین، قانون بنانے اور قانون کے رکھوالے تیز رفتارمہنگی گاڑیوں، ہیلی کاپٹر اور ہوائی جہاز کے ذریعے ہواؤں میں اُڑنے والی مخلوق ہیں۔
دور حاضر میں ایک بہت بڑی تعداد پیشہ ور گداگروں کی جرائم پیشہ افراد میں شامل ہوگئی ہے۔ جس کا خمیازہ مظلوم،بے بس و بے کس عوام کو بھگتنا پڑ رہاہے۔ بھیک مانگنا سماج ،اخلاق اور اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے، بلکہ گناہ ہے، اور اس کا تدارک نہ کرنا اس بھی بڑھ کر گناہ اور گناہ میں شراکت داری ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کا اہم مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ اگر حکومتی ذمہ داران دہشت گردی کی عفریت کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں تو اُنھیں اس اہم پہلو پر بھی غور کرنا ہوگا۔ میں وزیر اعظم، چیف جسٹس آف پاکستان ،چیف آف آرمی اسٹاف اور چاروں وزرائے اعلیٰ سے دردمندآنہ اپیل کرتا ہوں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی نرسری “گداگری” کا بھی خاتمہ کرنے کا حکم صادر فرمائیں ورنہ یہ امن وامان کی کار گزاری دھری کی دھری رہ جائے گی۔