گل جی کی زندگی اور اُس کا فن
(ترجمہ: رابی وحید)
مرجوری حسین
۲۰۰۰ء میں گل جی میوزیم کے افتتاح کے موقع پر، اپنی بیماری کو بڑی خوبصورتی سے پسِ پشت ڈالتے ہوئے گل جی نے زارو اور اپنے بیٹے امین (جو ساری تقریب میں اپنے باپ کے کندھوں کے گرد بازو ڈالے اُسے سہارا دیے رہا) کی کوششوں کو سراہا۔ ہر شخص گل جی کو ہمیشہ یاد رکھے گا، جس طرح وہ اُس شام کو تھا۔
’’عبدالمحمد اسماعیل‘‘، جسے دنیا نے ’’گل جی‘‘ کے نام سے پہچانا، ایک مشہور بین الاقوامی فنکار تھا۔ وہ ایسا شخص تھا جس نے اپنی ذہانت کے بل بوتے پر اپنے ملک کے لیے عزت اور امتیاز حاصل کیا۔ ترکی میں کچھ سال قبل گل جی کو مسلم دنیا میں ’’احیائے فن‘‘ کی علامت کے طور پر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ گل جی کا کام رنگ اور روشنی سے اختراع کی گئی حیران کن تبدیلیوں کے ساتھ فنّی تاریخ میں اُس دَور کا نچوڑ مجسّم شکل میں پیش کرتا ہے۔
روحانی افکار کے اظہار کی خواہش میں جذبے سے بھرپور پاکستانی گل جی نے اپنے عہد کے فنکاروں کی فنّی قابلیت میں بھی اپنا حصہ ڈالا۔ اُس کا کام پوری دنیا کے دارالحکومتوں میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ بین الاقوامی اخبارات میں اُس کے فن کا جائزہ لیا گیا اور سراہا گیا۔ پاکستان میں اُس کو اعلیٰ ترین قومی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اگرچہ اُس نے پاکستان میں نسبتاً کم نمائشیں منعقد کیں، لیکن وہ بہت زیادہ جانا جاتا تھا اور اُس سے بہت زیادہ محبت کی گئی۔
گل جی ۱۹۲۶ء میں پشاور میں پیدا ہوا۔ اُس کا باپ ایک انجینئر تھا۔ گل جی فن سے اپنی محبت اور لگاؤ اور اپنی فنّی قابلیت کو اپنے دادا سے منسلک کرتا ہے، جو بڑی خوبصورتی سے واٹر کلرز کو پینٹ کر لیتے تھے۔ اُس کا دادا اُس کا رہنما تھا، جس نے اپنے تجربات کی روشنی میں اُس کی رہنمائی کی۔ وہ ایک ایسا شخص تھا جس نے گل جی کو فطرت کی رعنائیوں اور رنگوں کی قوسِ قزح سے لطف اندوز ہونا سکھایا۔ ابتدائی عمر میں گل جی کے مستقبل کی ایک انجینئر کی حیثیت سے منصوبہ بندی کی گئی۔
علی گڑھ یونیورسٹی سے گل جی نے بی ایس سی کی۔ لیکن اُس کی دلچسپی کا مرکز ’’فن‘‘ تھا۔ وہ ایم ایس (ہائیڈرالکس‘‘ کے لیے کولمبیا یونیورسٹی گیا اور ۱۹۴۸ء میں اُس نے سائل میکینکس میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ایم ایس کیا۔ لیکن اِس سب کے باوجود فن کے لیے اُس کی خواہش کم نہیں ہوئی۔ رات کی تاریکی میں گل جی بحیثیت انجینئر غائب ہو جاتا/ کہیں پس منظر میں چلا جاتا اور گل جی کے اندر کا فنکار اُبھر کر سامنے آ جاتا۔
۱۹۵۰ء کے اوائل میں اُس نے ’’سٹاک ہوم‘‘ میں ڈیزائن انجینئر کی حیثیت سے تجربہ حاصل کیا۔ جہاں اس نے ۱۹۵۳ء میں، کراچی آنے سے پہلے، سنٹرل انجینئرنگ اتھارٹی گورنمنٹ آف پاکستان میں ڈپٹی ڈائریکٹر کا عہد سنبھالنے سے قبل، اپنی تصاویر کی پہلی نمائش منعقد کی۔ وہ منگلا اور وارسک ڈیم پر کنسلٹنٹ تھا، لیکن اُس کا دل فن کی آماجگاہ تھا۔
اُن دنوں کراچی میں فنّی سہولتیں کم تھیں ،کوئی آرٹ سکولز یا گیلریز نہیں تھیں اور فنکار اپنے کام کی نمائش YMCA پر یا نجی رہائش گاہوں پر کرتے تھے۔ اُس وقت کے وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی سرپرستی میں متعلقہ شہریوں نے آرٹ کونسل کراچی کے لیے فنڈ ریزنگ تقریبات منظم کرنا شروع کیں۔ ۱۹۵۷ء میں کراچی میں فن پاروں کی نیلامی منعقد ہوئی اور وزیر اعظم نے اُن فن پاروں کی بولی لگائی۔ گل جی نے آغا خان اور سر سلطان محمد شاہ کی تصاویر بنائیں جو بہت زیادہ توجہ کا مرکز بنیں۔
افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ نے، جو اُس وقت کراچی کے دورے پر تھے، گل جی کو اپنا پورٹریٹ پینٹ کرنے کو کہا۔ گل جی کہتا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں پہلی دفعہ اولیو گرین (جو اُس کا پسندیدہ رنگ تھا) سِلک کی جیکٹ پہن کر پورٹریٹ بنانے کے لیے ماڈل کی حیثیت سے تیار ہوا۔ اپنے پورٹریٹ سے مسحور ہو کر شاہِ افغانستان نے گل جی کو شاہی خاندان کے پورٹریٹ پینڈ کرنے کے لیے افغانستان آنے کی دعوت دی۔
کابل میں گل جی نے اپنی Non Figurative Art کی پہلی نمائش منعقد کی۔ یہ نمائش ۱۹۵۹ء میں USIS سنٹر میں منعقد کی گئی، جس کی صدارت امریکی سفیر نے کی۔ ۱۹۶۰ء میں ایک امریکی فنکارہ ’’علین ہملٹن‘‘ نے پاکستان کا دورہ کیاا ور تصاویر کی سٹیج ڈیمانسٹریشن میں اپنے ساتھ شمولیت اختیار کرنے کا کہا۔ یہ بات گل جی کے لیے ہمیشہ تکلیف کا باعث بنی جب اُس کے بارے میں کہا جاتا کہ وہ علین سے متاثر تھا۔ اُس نے ۱۹۵۹ء میں تجریدی فن میں اپنی ابتدائی کاوشوں کے ثبوت کے طور پر اپنا تصویری ’’کابل بروشر‘‘ دکھایا۔ لیکن گل جی بہت عرصہ پہلے سے ہی اس قابل تھا کہ وہ اپنی تمام تر توانائی طاقتور تاثراتی کام کے لیے وقف کر سکے، جو اُس کے بقول، ’’اُس کی نفسیات کی گہرائیوں سے اُبھرتا تھا۔‘‘
کابل میں اُس نے اپنا شاندار موزیک (مختلف رنگوں کے شیشے اور پتھر جوڑ کر تصویر بنانا) آرٹ ورک ڈیزائن کرنا شروع کیا۔ ایک اونکس ماربل پلانٹ دیکھتے ہوئے اس نے فرش پر غور کیا جو سنگِ مر مر کے ٹکڑوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ سورج کی روشنی میں چمکتے ہوئے ان ٹکڑوں نے گل جی کی نگاہوں اور سوچ کا رُخ اسلامی روایات اور سطحِ زمین کے سجاوٹی پہلوؤں کی طرف موڑ دیا، جو پتھر یا شیشے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے جوڑ کر بنائے جاتے تھے یا جن پر پتھر اور شیشے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے مینا کاری کی جاتی تھی۔
ممکنات سے پُرجوش ہو کر گل جی نے اپنا پہلا موزیک پورٹریٹ تخلیق کیا اور اُس نے موزیک کی تکنیک کو اُس درجۂ کمال تک پہنچا دیا جہاں وہ پہلے کبھی نہیں تھا۔
بادشاہ ظاہر شاہ اُس کے پورٹریٹ سے اتنا متاثر ہوا کہ اُس نے گل جی کو موزیک سٹائل میں ایک قدرتی منظر کا پورٹریٹ بنانے کے لیے کہا جو وہ امریکی صدر کو بطور تحفہ پیش کرنا چاہتا تھا۔ یہ اس فنکار کے بین الاقوامی شہرت یافتہ آرٹ ورک کے سلسلے کی پہلی تصاویر تھیں جو موزیک سٹائل میں فیروزہ، زمرد اور سنگِ مرمر کے ٹکڑوں سے بنائی گئی تھیں۔ اُس نے ایچ ایچ، آغا خان، سرسلطان محمد شاہ کے شاندار پورٹریٹ تخلیق کیے اور اُس نے سعود عرب کے شاہ فیصل، صدر رونلڈ ریگن اور ذوالفقار علی بھٹو جیسی نمایاں شخصیات کے شاندار پورٹریٹ تخلیق کیے اور ہر پورٹریٹ پر اُسے مہینوں کام کرنا پڑتا تھا۔
علی امام کا ہمیشہ یہ کہنا تھا کہ یہ موزیک سٹائل میں کیا گیا گل جی کا کام تھا، جس نے دنیا کی فنّی تاریخ میں گل جی کے باعزت مقام کو یقینی بنایا۔ ایک انجینئر کے طور پر اپنے کیرئیر کو ترک کر کے گل جی نے اپنے آپ کو مکمل طور پر فن کے لیے مختص کر دیا اور وہ بلاتوقف متاثر کن قوت کے ساتھ گھنٹوں پینٹنگ کرتا رہتا۔
۱۹۶۰ء میں گل جی آغا خان کے ساتھ ڈھاکہ گیا۔ وہاں اُس نے پہلی دفعہ سمارٹ سی، زندہ دل اور پُرکشش شخصیت رکھنے والی ’’زریں مالادوالا‘‘ کو دیکھا، جو اپنے والدین کے ساتھ ڈھاکہ کی سیر کے لیے آئی ہوئی تھی۔ وہ کیمسٹری میجر تھی جو پیار سے ’’زارو‘‘ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ گل جی موقع پر ہی اُس کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ ۱۹۶۲ء میں دونوں بڑے رومانوی انداز میں پیرس میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ زارو سفید سِلکی ساڑھی پہنے ہوئے تھی۔ کئی سالوں بعد گل جی نے مجھے بتایا:
’’وہ بہت زیادہ خوبصورت تھی۔‘‘
اور یہ کہتے ہوئے اُس نے بہت ہی باریکی سے پنسل سے بنائے گئے زارو کے پورٹریٹ کی طرف اشارہ کیا جو گل جی نے ۱۹۶۴ء میں بنایا تھا۔
زارو شروع سے ہی اپنے شوہر کے کام کی اہمیت سے آگاہ تھی اور تاحیات اُس نے اپنے شوہر کے لیے اُس کے کام کے سلسلے میں آسانیاں پیدا کرنے کی ہرممکن کوشش کی۔ دو بچوں، ’’امین‘‘ جو قومی ایوارڈ یافتہ مجسمہ ساز اور ’’زرمین‘‘ اُن کی بیٹی، جس نے گل جی کو دو نواسوں سے نوازا، نے اُن کے فیملی سرکل کو مکمل کر دیا۔
گل جی نے اسلامی فنِ خطاطی میں کام ۱۹۶۹ء میں شروع کیا، جب اُسے تانبے کی شیلڈ، جو اپنے ڈایامیٹر میں چھ فٹ تھی، اور ایکسپوٹوکیو کے لیے اُس پر خطاطی کا کام کیا گیا تھا۔ اُس نے ایک اور شاندار کام برونز میں تخلیق کیا مسلم وزرائے خارجہ کی کانفرنس کے لیے۔ لیکن گل جی کہا کرتے تھے کہ انہوں نے صحیح معنوں میں ۱۹۷۰ء میں کیلی گرافی میں دلچسپی لینا شروع کی۔ انہوں نے ریاض میں شاہ فیصل ہسپتال میں مسلم اتحاد کے موضوع پر ایک دیوار گیر پینٹنگ تیا ر کی اور اِسی موضوع پر اسلامی سربراہی کانفرنس کے لیے ایک اور پینٹنگ بنائی، جو ۱۹۷۴ء میں لاہور میں منعقد ہوئی۔ اُس وقت کیا گیا گل جی کا کام فن کی دنیا میں خطاطی کو معروف بنانے کی صادقین کی تحریک کے لیے بہت زیادہ معاون ثابت ہوا اور دوسرے فنکاروں کو صادقین اور گل جی کے کام کی پیروی کرنے کے لیے متاثر کیا۔
گل جی کے نزدیک تخلیقی عمل روحانی انسپریشن کا نتیجہ تھا۔ وہ بیان کرتا ہے کہ کس طرح ۱۹۷۴ء میں عمرہ اُس کی زندگی میں ایک تبدیلی لانے والا موڑ ثابت ہوا۔ جب اُس نے کعبہ میں موجود مقدس پتھر حجر اسود کو دیکھا تو وہ بہت زیادہ متاثر ہوا۔ گل جی کہتا ہے کہ اگرچہ وہ سالہا سال سے فنِ خطاطی میں کام کر رہا تھا لیکن اُس لمحے کے بعد اُس نے اپنے کام میں ایک نئی آزادی، تازگی اور بے تکلّفی کو نمودار ہوتے محسوس کیا۔ اُس نے خود کو اظہار کی ایک نئی جہت میں داخل ہوتے محسوس کیا۔ گل جی کا کہنا ہے:
’’ایسا لگتا تھا جیسے خدا میرے دل کی ضرورت/ خواہش کو سمجھ گیا ہے اور میرے لیے اُس نے اپنی بانہیں کھول دی ہیں ۔‘‘
اُس نے ’’نقطہ‘‘ کے نام سے پینٹنگز کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ کئی سالوں تک گل جی نے بہت کم پورٹریٹ بنانے کا کام لیا۔ ۱۹۹۸ء میں اس نے پُروقار شہزادی حُسنہ بنتِ خالد کا موزیک سٹائل میں زمرد سے بنایا گیا پورٹریٹ مکمل کیا۔ یہ دو سالہ پروجیکٹ تھا جو اپنی قسم کا آخری پروجیکٹ بھی تھا۔ میں نے اُس سے پوچھا، کیا وہ موزیک سٹائل میں کوئی اور پورٹریٹ بنانے کے بارے میں سوچ رہا ہے؟ تو اُس نے جواب دیا کہ صرف ایک پورٹریٹ جو وہ بنانا پسند کرے گا وہ ’’قائداعظم‘‘ کا ہے۔ ’’میں اس شخص سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ اُس نے کہا۔
گل جی میوزیم میں بڑے بڑے کینوسسز کا مشاہدہ کرتے ہوئے سنہرے، نارنجی، سبز اور پیلے رنگ کے Txtured Areas میں روشنی کو منعکس ہوتے دیکھتا تھا۔ رنگ میں ڈوبے، غیرمتوقع زاویے میں چمکتے ہوئے شیشے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے گل جی کے کام کی خوبصورتی کو مزید اُجاگر کرتے/ اُبھارتے ہیں۔ گل جی اپنے کام میں خوشی محسوس کرتا تھا اور ابتداء میں اُس کو کینوس پر کام کرتے ہوئے دیکھنا بہت دلچسپ تجربہ تھا۔ وہ وجدانی کیفیت کے زیرِاثر کام کرتا تھا۔ اُس کا پورا وجود اپنی روحانی خوشی کے جذبات کو خوبصورتی سے بیان کرنے کے اس عمل میں پوری طرح محو ہوتا تھا۔
بیرونِ ممالک گل جی کے کام کی نمائشیں کابل، سٹاک ہوم، بنگلہ دیش، بمبئی، لندن، واشنگٹن، نیویارک، جاپان اور انڈیا میں منعقد کی گئیں۔ میں نے ایک دفعہ اُس سے پوچھا کہ پاکستان میں اُس کے کام کی نمائشیں اتنی کم منعقد کیوں کی گئیں؟ اُس نے کہا، پاکستان میں بہت کم مقامات ایسے تھے جہاں اُس کی تصاویر کی نمائش کے لیے Hanging Space تھی۔ ڈیفنس اتھارٹی لائبریری اور کراچی میں آغا خان ہسپتال میں گل جی کے کام کی شاندار مثال ملتی ہے۔
۱۹۸۸ء میں گل جی نے انڈس گیلری، کراچی میں پندرہ سال کے وقفہ کے بعد اپنے کام کی نمائش منعقد کی۔ اس موقع پر فن کے نقاد ’’گری گوری منی سالے‘‘ نے بہت خوبصورت انداز میں نمائش میں رکھی گئی تصاویر کے بارے میںیوں جامع انداز میں تبصرہ کیا:
’’فنکار کی طرح وہ (تصاویر) خوشی اور توانائی سے بھرپور ہیں۔ وہ زندگی کے مثبت پہلوؤں کی تائید کرتی ہیں جب کہ اُس کی تصاویر کی پیچیدگی اور روحانیت ایک ایسے وژن کا عکس ہیں جو تخلیقی لاشعور کے بے چین سمندر سے اُبھرتا ہے۔‘‘
۱۹۹۴ء میں اسلام آباد میں نیشنل اسمبلی میں گل جی کے ماضی میں کیے گئے کام کی نمائش منعقد کی گئی۔ ۱۹۹۵ء میں اُس نے لندن میں Common Wealth Institute میں اپنے کام کی نمائش کی۔
گل جی کو ملک میں آرٹ میوزیمز کی کمی پر بہت تشویش تھی اور وہ نوجوان فنکاروں کے کام سے بہت زیادہ خوش تھے۔ وہ پوچھا کرتے تھے:
’’لیکن کیا اِن میوزیم کے معیار کو بہتر بنایا جائے گا اور آئندہ نسلوں کے لطف اندوز ہونے کے لیے کچھ باقی رہے گا یا یہ پوری دنیا میں منتشر ہو جائے گا۔ غیرملکی سیاح یہ سب لے جائیں گیا ور آخر کار یہ سب لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو جائے گا؟‘‘
ملک کے بہت سے دوسرے مایہ ناز فنکاروں کی طرح گل جی بھی آنے والے وقت/ مستقبل میں اپنے فن کے حوالے سے تشویش کا شکار تھے۔ ۲۰۰۰ء میں اُس نے ’’گل جی میوزیم‘‘ قائم کر کے آئندہ نسلوں کے لیے اپنے کام کی کولیکشن ہمیشہ کے لیے محفوظ کرنے کی دیرینہ خواہش پوری کر لی۔
گل جی صحت کے حوالے سے سنگین مسائل کا شکار رہے تھے ۔لیکن اُس رات وہ اپنی بیماری کو ایک طرف دیکھتے ہوئے خوشی سے چمک رہے تھے اور بڑی خوبصورتی سے اپنی بیماری کو نظرانداز کرتے ہوئے انہوں نے زارو اور اپنے بیٹے، امین گل جی، کی کوششوں کو سراہا جو پوری تقریب میں اپنے باپ کے کندھوں کے گرد بازو ڈالے اُسے سہارا دیے ہوئے تھا۔ ایک شخص گل جی کو ہمیشہ یاد رکھے گا جیسا وہ اُس رات نظر آ رہا تھا۔
۲۰۰۴ء میں اُس کا کام جنوبی ایشیا کے نمایاں فنکاروں کی نمائش میں پیش کیا گیا ۔’’اولڈ ماسٹر/ ینگ وائسز‘‘ یہ نمائش لاہور میں الحمرا میں منعقد ہوئی۔ یہ گل جی کی میوزیم سے باہر پاکستان میں آخری نمائش تھی۔
زارو کی ہمراہی میں گل جی نے سفر کرنا جاری رکھا۔ موسمِ گرما نتھیا گلی میں گزارا جاتا، جہاں وہ گھر سے باہر جا کر پینٹ کرنا بہت پسند کرتا تھے۔ جہاں ملاقاتی مسلسل آتے جاتے رہتے تھے اور وہ اس توجہ پر جی اُٹھتا اور اپنے دوستوں کے ساتھ فن کے موضوع پر مباحثہ سے لطف اندوز ہوتے۔ اپنی زندگی کے اختتام تک گل جی نے ایک جذبے کے ساتھ کام کیا۔ اُس کی زندگی ایک فنکار ہونے کی خوشی سے تاباں تھی۔