(نجیبہ عارف)
اس گوشے میں ہفتہ بھر گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ رات کو جب میں تھکی ماندی کمرے میں پہنچتی تو گردن کا درد اور پٹھوں کا اکڑاؤ بتاتا کہ دن بھر کسی بے آرامی میں گزارا ہے لیکن لائبریری میں پہنچ کر درد یاد رہتا ،نہ وقت گزرنے کا احساس ہوتا۔ کسی ندیدے ،بھوکے کی طرح حریص نظروں سے میں لائبریری کے گوشے گوشے کا جائزہ لیتی رہی۔ کیٹلاگز کے ورق الٹ الٹ کر اپنی تاریخ کے گم شدہ ابواب تلاش کرتی رہی۔ اکثر تو میں بھول ہی جاتی کہ میں کس خاص موضوع پر مواد تلاش کر رہی ہوں۔ یوں بھی لکیر کی طرح سیدھے رستے پر چلنا میری فطرت سے میل نہیں کھاتا۔ مجھے شاہراہیں چھوڑ کر ادھر ادھر کی کچی پکی پگڈنڈیوں پر اترنا زیادہ پسند ہے۔ منزل پر پہنچنے سے زیادہ رستہ ڈھونڈنے کا لطف آتا ہے۔بھٹکنا اچھا لگتا ہے۔سو میں اپنے موضوع سے خوب خوب بھٹکی اور اس بھٹکنے کے دوران کیسی کیسی عجیب و غریب چیزیں دیکھنے میں آئیں۔
سولھویں اور سترھویں صدی میں پہلے پہلے گوا (Goa) آنے والے پادریوں کی ڈائریاں جن میں گوا کی مقامی آبادی کو عیسائی بنانے کی ترکیبیں اور چالیں درج ہیں۔ ان کی آپس کی ملاقاتوں کے احوال لکھے ہیں جن میں ان اقدامات پر بات چیت ہوتی تھی جن کے ذریعے مقامی ہندوؤں اور مسلمانوں کی پوری پوری بستیوں کو لالچ، ترغیب و تحریص اور خوف دلا کر عیسائی بنایا جاتا تھا۔ جو لوگ مذہب تبدیل کر لیتے تھے، ان کا بپتسمہ کرنے کی تقریبات اور نام بدلنے کے مواقع کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ پرانے اور متروک رسم الخط میں لکھی ہوئی پرانی انگریزی ، جس سے مانوس ہونے میں کچھ وقت لگا لیکن ایک بار جب سمجھ میں آنے لگی تو پھر کوئی مشکل نہ ہوئی۔
پھر اٹھارویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم ہو کر ہندوستان آنے والے انگریزوں کی ڈائریاں، بیاضیں اور گل دستے۔ منشیوں سے فارسی اور ہندوستانی زبان سیکھنے کے لیے استعمال کی جانے والی کاپیاں اور موٹے موٹے رجسٹر۔ ان پر لکھی ہوئی ضرب الامثال،کہاوتیں اور اشعار۔
بنگال کے انگریز حاکموں کے نام آنے والی فارسی میں لکھی ہوئی عرضیاں جن میں غریب ہندوستانیوں نے انگریزوں کے انصاف کو پکارا تھا اور اپنے مقامی نوابوں اور راجاؤں کے ظلم و ستم کی دہائی دی تھی۔
کچھ خط ان نوابوں اور راجاؤں کے بھی تھے جن کے کناروں پر چار چار انچ چوڑے سونے کے کام کے خوب صورت حاشیے بنے تھے۔
پرانا طرزِ تحریر، قدیم آداب ، خطوط نویسی کے وہ قرینے جنھیں مرزا غالب نے اپنی شوخی و بذلہ سنجی کی منھ زور لہر میں بہا دیا تھا۔ ۔۔ سب یہاں محفوظ ہیں۔ یہ ہمارا تہذیبی ورثہ ہے لیکن ہماری نئی نسلیں ان سے کس قدر نا آشنا ہیں۔ انھیں اگر یہ خط دکھا ئے جائیں تو وہ کیا کہیں گے؟ ایک لمحے کے لیے میں نے سوچا تو مجھے ان کے تمسخر آمیز قہقہے صاف سنائی دینے لگے۔
’’ہا ہا ہا۔۔۔lols۔۔۔۔ یہ کیا ہے؟ سیدھی طرح کیوں نہیں لکھتے تھے یہ لوگ کہ آخر چاہتے کیا ہیں؟ڈائریکٹ بات کیوں نہیں کرتے تھے؟ اتنے لمبے چوڑے القاب و آداب کیوں لکھتے تھے؟ کاغذ پر ایسے بڑے بڑے حاشیے کیوں بناتے تھے؟ رنگ برنگے پھول بوٹوں سے کیوں سجاتے تھے؟‘‘
میں نے سوچا، اگر میں نے اپنے بچوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ سب باتیں، چیزیں ایک بڑی تہذیب کا عکس ہیں۔ ایسی تہذیب جس میں عمر یا درجے کے مطابق مخاطب کرنے کے آداب متعین تھے۔ بات کرنے کا ایک سلیقہ تھا۔جمالیاتی ذوق کی تسکین کے سامان تھے، آرٹ تھا، رکھ رکھاؤ تھا، وضع داری تھی اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس میں خود اپنا عکس تھا، اپنی مٹی کا رنگ تھا، اپنا چلن تھا۔۔۔ تو وہ کیا سمجھیں گے۔ کیا وہ میری بات کے قائل ہو جائیں گے؟ مجھ سے اتفاق کر لیں گے؟
یا پھر کہیں گے،’’ کیسا عکس؟ کون سی مٹی؟ کس کا چلن؟ یہ سب تو اپنے زمانے کے سامراجیوں کا شیوہ تھا۔ جن کی یہ تہذیب تھی، وہ بھی تو اپنے دور کی استعماری طاقتیں تھیں جو ہندوستان کو اپنی نوآبادیات بنانے آئی تھیں اور اپنی زبان، اپنی تہذیب، اپنا جمالیاتی ذوق بھی ساتھ لائی تھیں‘‘۔
میں کہتی رہ جاؤں گی کہ وہ باہر سے ضرور آئے تھے لیکن اس مٹی میں رچ بس گئے تھے۔ گنگا و جمنا میں نہا کر ان کی کایا کلپ ہو گئی تھی۔ ان کی زبان، ان کی تہذیب، ان کا جمالیاتی ذوق ہندوستان کی فضاؤں کے رنگ میں رنگا گیا تھا۔ انھوں نے اس مٹی میں اپنے بیج ڈال دیے تھے اور یہیں کی آب و ہوا میں پھلے پھولے تھے۔صدیوں اسی آسمان کے نیچے پناہ گیر رہے تھے۔ یہاں اپنے گھر بنا لیے تھے اور ان گھروں سے دل لگا لیے تھے۔ انسان کی پوری تاریخ ایسی ہی ہجرتوں سے بھری ہے۔ انسانی قبیلے ہمیشہ ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرتے رہے ہیں اور ایک وطن سے نکل کر دوسری سرزمینوں کو وطن بناتے رہے ہیں۔ تہذیبیں اسی طرح بنتی، بدلتی اور پھلتی پھولتی رہی ہیں۔
لیکن یہ دوسرے تو یہاں گھر بنانے نہیں آئے تھے۔ وہ اس مٹی میں رل مل نہیں گئے تھے۔وہ تو جلد کی رنگت کے فرق سے ہی رہا نہ ہو پائے۔ نسلوں کا امتیاز ہی نہ بھلا سکے۔ وہ جو مساوات اور جمہوریت کے دعوے دار تھے، خود اپنے رویوں میں عدم مساوات اور غیر جمہوری طرز عمل کی مثال بنے رہے۔ ان کی خوش اخلاقی مصنوعی اور مربیانہ تھی اور ان کا عدل و انصاف صرف دوسرے فریقوں کے لیے تھا۔ جب وہ خود فریق ہوتے تھے تو نہ مساوات کا تصور کام آتا نہ عدل و انصاف بروئے کار آتا۔ انھوں نے یہاں اپنی نمائندگی کرنے والا ایک ایسا خودغرض طبقہ پیدا کر دیا تھا جو ان کے جانے کے بعد بھی ان کے مفادات کے تحفظ میں مصروف ہے۔
میں بار بار خود کو اس ادھیڑ بن سے نکالنے کی کوشش کرتی لیکن تاریخ کے اس مدفن میں ہر طرف سے کوئی نہ کوئی ندا آتی جو مجھے اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی۔ بار بار مجھے یاد دلاتی کہ میں محض ایک فرد نہیں ہوں، جس کا ایک نام اور ایک تاریخ پیدائش ہے، ایک زمانہ ہے۔۔۔ میں ان کتابوں کے بوسیدہ اوراق کے ذرے ذرے سے لپٹے ہوئے زمانوں کی روح ہوں۔ میری زندگی کا دامن ازل کے رستے پر دور تک پھیلا ہوا ہے۔میرے سینے پرہر ہزیمت کا داغ ہے، ہر شکست کا اضمحلال ہے، ہر ہجرت کی تکان ہے اور تمام تر ترک شدہ زمینوں اور زمانوں کی یاد ہے۔
شاید اسی یاد کا بوجھ تھا جو ہر شام کو میری گردن کے پٹھوں کے تناؤ کی صورت میں نمودار ہوتا تھا۔
بودلئین لائبریری میں غیر متعلق چیزیں تو میں نے چھان ماری تھیں لیکن اپنے تحقیقی کام سے متعلق ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔ اردو کے مخطوطات کی تعداد کم تھی اور ان میں میری ضرورت کی چیزیں نہیں تھیں۔ آخر میں نے عملے کے ایک رکن سے پوچھا کہ اردو زبان کے ذخائر کی کوئی اور فہرست بھی ہے یا نہیں؟
’’اردو؟‘‘ اس نے تعجب سے مجھے دیکھا۔ اسے معلوم تک نہیں تھا کہ اردو بھی کوئی زبان ہے۔ اس خیال سے مجھے اس قدر وحشت آمیز حیرت ہوئی کہ خود کو سنبھالنے میں کافی دیر لگی۔
گویا میں جس زبان میں اپنی ذات کے عمیق ترین گوشوں کا اظہار کرنے کی متمنی تھی، جس زبان کے ذریعے ہم اپنی شخصیتوں کا تعین کرنے اور ان کی نمو کا اہتمام کرنے کے عادی ہیں، جس زبان کو ہم اپنی شناخت کا وسیلہ سمجھتے ہیں، یہ شخص اس کے نام سے بھی واقف نہیں۔ اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ اردو کیا ہے؟ کوئی زبان ہے، قوم ہے یا ملک ہے؟ مجھے بے اختیار نکاراگوا کا ایک اجنبی یاد آگیا جو کئی سال پہلے سئیول کے ایک مہمان خانے میں مجھے ملاتھا۔ ہم اکثر ایک ہی وقت پر کمپیوٹر روم میں آکر اپنی ڈاک دیکھا کرتے ۔ ایک روز اس سے تعارف کا مرحلہ آیا تو اس نے بتایا کہ وہ نکارا گوا کا رہنے والا ہے۔ میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔ اس وقت تک مجھے معلوم ہی نہ تھا کہ دنیا میں نکاراگوا نام کا بھی کوئی ملک ہے۔ اس کی آنکھوں کی مایوسی آج میرے اندر اتری تو مجھے احساس ہوا کہ میری کم علمی نے اسے کس کرب میں مبتلا کیا ہوگا۔
اردو سے ناواقف اس شخص نے سوچ سوچ کر بتایا کہ فلاں کونے میں ایک کیٹلاگ موجود ہے جہاں ایسے ذخائر کی فہرست ہے جن کا مکمل تعارف حاصل نہ ہو سکا۔ میں بصد شوق اس طرف لپکی اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئی ہے کہ ان میں سے بیشتر مخطوطات اردو کے تھے۔ اس ذخیرے میں موجود نوادر کا اندراج کسی کیٹلاگ میں نہیں ہے۔ان کی کوئی مطبوعہ فہرست بھی موجود نہیں ہے۔ میں نے سبھی کارڈپڑھ ڈالے اور جہاں جہاں کوئی نشان ملا ، ان کے نمبر نوٹ کر کے عملے کے حوالے کر دیے تاکہ وہ متعلقہ نوادر فراہم کر دیں۔
باری باری یہ نوادر مجھ تک پہنچنے لگے اور پہلا ہی مخطوطہ دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ یہ یوسف خان کمبل پوش کا سفرنامہ تھا جس میں اس کی ایک رنگین روغنی تصویر بھی موجود تھی۔یوسف خان کمبل پوش کا نام اردو دنیا کے لیے نیا نہیں۔ انھیں اردو میں انگلستان کے پہلے سفرنامہ نگار کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ ’’عجائباتِ فرنگ‘‘ کے عنوان سے معروف ہونے والا ان کا سفرنامہ جس کا اصل عنوان ’’تاریخِ یوسفی‘‘ہے، کئی جامعات کے نصاب میں شامل ہے۔اس ایک سفرنامے کے علاوہ کمبل پوش کی اور کوئی تحریر دستیاب نہ تھی اور اکثر محققین اس بات کا گلہ کرتے تھے۔ لیکن یہاں میرے سامنے ان کا ایک دوسرا سفرنامہ مخطوطے کی صورت میں کھلا پڑا تھا جس میں واجد علی شاہ کے لکھنؤ اور اس کے گرد و نواح کے سفر کی کہانی بیان کی گئی تھی۔ کمبل پوش ریاست اودھ کی شاہی فوج کے رسالہ سلیمانیہ میں صوبے دار کے عہدے پر فائز تھے اور اپنے انگریز مربی و محسن کپتان میگنس کی کمان میں اپنے رسالے کے ہمراہ مختلف مہمات پر جاتے رہتے تھے۔ اس سفرنامے میں انھی مہمات کے دوران ہونے والے مشاہدات و تجربات کو بیان کیا گیا تھا۔