(نجیبہ عارف)
ہائیڈل برگ میں مجھے ذرا بھی اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔اس اپنائیت کی وجہ بہت تہ دار اور گہری تھی۔ سامنے کی بات تو یہ تھی کہ یہاں میں کچھ لوگوں کو پہلے سے جانتی تھی، ایک مرتبہ پہلے بھی ہائیڈل برگ آنا ہوا تھا اور میں نے اس کے قدیم قلعے کی گھنٹوں سیر کی تھی، پہاڑی کے ایک سرے پر بیٹھ کر دیر تک ہائیڈل برگ کے عین درمیان میں لیٹے ہوئے دریاے نیکر (Neckar) کی نیلی ، چمک دار لکیر کے ساتھ ساتھ بہہ کر دیکھا تھا اور ایک سڑک کے کنارے نصب اس پتھر کے ساتھ تصویر کھنچوائی تھی جس پر جرمن زبان میں اقبالؔ کا نام لکھا تھا۔لیکن دور کہیں گہرائی میں اس شہر اور اس دریا سے میرا ایک اور رشتہ بھی نکلتا تھا۔مجھے آج بھی یاد ہے ، کہ ہائیڈل برگ اور دریاے نیکر کے الفاظ میں نے پہلی بار تب سنے، بلکہ پڑھے تھے،جب میں چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی۔ یہ بات ہے سنہ ۵۔۱۹۷۴کے گورنمنٹ گرلز ہائی سکول خوشاب کی۔ خوشاب ان دنوں ضلع سرگودھا کی ایک تحصیل ہوا کرتا تھا۔چھوٹا سا گرد آلود قصبہ، مگر اپنے ارد گرد موجود زیادہ چھوٹے اورزیادہ گرد آلود قصبوں کے لیے ایک مرکزی شہر، جس میں ایک بڑا سول ہسپتال، تحصیل، تھانہ اور لڑکیوں اور لڑکوں کے ہائی سکول تھے۔ باقی سرکاری اداروں کی کارکردگی کا تو مجھے علم نہیں لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ خوشاب کا گرلز ہائی سکول ان دنوں پورے ضلع میں اپنی الگ پہچان رکھتا تھا۔ جب اس سکول کی لڑکیاں بین الکلیاتی مقابلوں کے لیے سرگودھا اور کبھی کبھی فیصل آباد جاتیں، تو لوگ دور سے پکارتے،’’لو دیکھو! خوشاب کے جن آگئے۔‘‘
وہ بالکل ٹھیک کہتے تھے، یہ سب کی سب دیہاتی لڑکیاں ہوتیں جو خوشاب کے اردگرد کے دیہات سے پڑھنے کے لیے خوشاب آتی تھیں، صحت مند، جاندار، بے پروا، دیکھنے میں گھاس کھودنے والی لگتیں ، لیکن جب کھیل کے میدان میں اترتیں یا تقریر، بیت بازی اور فی البدیہہ شعر خوانی کے لیے مائک کے سامنے کھڑی ہوتیں تو پنڈال پہلے تو دنگ رہ جاتا، ہر طرف سناٹا چھا جاتا اور پھر تالیوں کی گونج سے چھت اڑنے کا امکان پیدا ہو جاتا۔ سرگودھا بڑا شہر تھا، بڑے بڑے سکول تھے ، بڑے بڑے ہال تھے؛جن میں داخل ہوتے ہی دل پر بوجھ پڑتا تھا،چمکتے ہوئے روسٹرم تھے، سٹیج پر لمبی پشت اور مخملی گدیوں والی تخت نما کرسیاں تھیں اور ساڑھیاں زیب تن کیے ہوئے خوب صورت استانیاں تھیں، جن سے بات کرتے ہوئے حلق میں گولے سے پھنس جاتے تھے۔ خوشاب کی دیہاتی لڑکیاں وہاں کیا رنگ جماتیں۔لیکن یہ ان ہونی بھی ہوئی اور وہ اس لیے کہ خوشاب کے گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کو ایک ایسی ہیڈ مسٹریس مل گئیں، جو شاید اس علاقے کی تقدیر بدلنے پر مامور من اللہ تھیں۔ ان کا پورا نام تو ثریا عنایت تھا، لیکن وہ کہلاتیں مس عنایت تھیں۔سراپا عنایت۔ لیکن ایسی عنایت نہیں جو سامنے دھری ہو، ایسی عنایت جو برسوں بعد اپنا رنگ دکھائے۔جو نسلوں تک کی ہڈیوں میں اترجائے ، جو خاندانوں کی جڑوں میں تہذیب کا رس بن کر دیر تک ٹھہری رہے۔
وہ سرگودھا کی رہنے والی تھیں اور لاہور سے تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔اب سوچتی ہوں تو لگتا ہے کہ شاید وہ ایسی خوب صورت نہیں تھیں لیکن ان کی شخصیت کیا شاندا ر تھی۔ ان کا لباس، ان کا اندازِ گفتگو، ان کی پروقار چال، ان کا بارعب چہرہ جس کی طرف دیکھنے کی تاب نہیں ہوتی تھی۔یہ سب تو تھا ہی لیکن ان کی جس ادا نے خوشاب میں پیدا ہونے والی کئی نسلوں پر اپنے اثرات مرتسم کیے، وہ ان کی اپنے طالب علموں کو دنیا کے سامنے اپنے شہکار کی طرح پیش کرنے کی آرزو تھی۔ انھوں نے اس سکول میں کیا کیا نہ کیا۔تعلیمی میدان میں تو انھوں نے جو اقدامات کیے سو کیے لیکن شخصیتوں کی تعمیر و تہذیب میں جو کمال دکھایا، اس کا قرض ہم کبھی ادا نہیں کر پائیں گے۔ خود لاہور جا کر لائبریری کے لیے ہرطرح کی کتابیں لے کر آتیں،پھرلائبریری کا پیریڈ مقرر کر کے ہر جماعت کو باری باری لائبریری جانے کا پابند کرتیں۔ جب کوئی نئی کتاب آتی تو اچھے طالب علموں سے پوچھتیں کہ انھوں نے وہ کتاب پڑھی یا نہیں۔پروین شاکی کی’’ خوشبو‘‘ انھوں نے ہی مجھے پڑھنے کو دی تھی، حالاں کہ گھر میں ہمیں اخبارِ خواتین میں سے بھی صرف بچوں کا صفحہ پڑھنے کی اجازت ہوتی تھی۔
انھوں نے کھیلوں اور ہم نصابی سرگرمیوں کے لیے ایک ایک استاد کو مقرر کر دیاتھا جو پہلے کچھ لڑکیوں کو، ان کی خفیہ صلاحیتوں کے اشارے پاکر، مختلف مقابلوں کے لیے منتخب کر لیتے، پھر تین ماہ تک مسلسل ان کی تربیت کرتے اور پھر انھیں ضلعی مقابلے میں بھیجتے۔ لیکن صرف یہی نہیں، مقابلے میں بھیجنے سے پہلے وہ لڑکیوں کے لباس پر بھی کڑی نظررکھتیں۔ انھیں پہننے اوڑھنے کا سلیقہ سکھاتیں، بعض اوقات لباس کے معاملے میں مشورے دیتیں، کبھی ہوسٹل میں رہنے والی کھلاڑی لڑکیوں کے لیے اپنی زیر نگرانی لباس تیار کرواتیں، انھیں بالوں کو سلیقے سے باندھنے یا ترشوانے کی ہدایت دیتیں۔ مجھے بھی پہلی بار بال کٹوانے کی شہ انھی سے ملی تھی کیوں کہ انھوں نے دیکھ لیا تھا کہ میں لمبے بالوں کو سلیقے سے سنبھال نہیں سکتی۔بال ہی نہیں، انھوں نے پہلی بارسرگودھا بھیجنے سے پہلے ہماری مباحثے کی ٹیم کے لیے ہماری والدہ سے سلیولیس قمیض اور ٹراؤزر بھی سلوائے تھے۔ سلیو لیس قمیض کے نیچے انگریزی ڈیزائن کی بُنی ہوئیپوری آستین کی لال سویٹربھی انھوں نے ہی ہمیں پہنوائی تھی تاکہ ہمیں کوئی ثقافتی دھچکہ نہ پہنچے۔ اس منفرد یونی فارم نے ہمارے دیہاتی پن کی کم از کم آدھی جھجھک ضرور دور کر دی تھی۔اور بھی کتنی یادیں ہیں، جو مس عنایت کے تصور سے جڑی ہوئی ہیں۔ کتنے احسان ہیں، جو اس روح کو شاداب و سیراب کیے ہوئے ہیں۔
ان کے دفتر کے پیچھے چھاؤں کیے ہوئے انجیر کے گھنے درخت کی طرح، سرسبز اور پھل دار۔
سکول میں جابجا چھوٹے چھوٹے قطعوں پر ،دیسی گلاب کے پھولوں سے لدی ہوئی کیاریوں میں گھرے چمنوں کی طرح، معطر اور خیال انگیز۔
مجھے یاد ہے جب میں نے چھٹی جماعت میں داخلہ لیا تو مس عنایت کو معلوم ہوا کہ میں پرائمری سکول میں تقریریں وغیرہ کرتی رہی ہوں۔ انھوں نے پہلے چند دنوں میں ہی مجھے اپنے دفتر میں بلا بھیجا، بانس کی تیلیوں کی چق اٹھا کر جب میں ان کے کشادہ دفتر میں داخل ہوئی تو میرا حلق سوکھ رہا تھااور ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ ہیڈ مسٹریس کے دفتر میں حاضری دینا ان دنوں آسان نہیں سمجھا جاتا تھا۔انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے تقریریں کرنے کا شوق ہے۔ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ انھوں نے کہا ،
’’اچھا کسی تقریر کا کوئی حصہ یاد ہے تو سناؤ!‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے آغاز کیا لیکن تھوڑی ہی دیر میں تقریر کے بہاؤ میں بہہ گئی اور ڈرنا بھول گئی۔
شاید اسی دن مس عنایت نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مجھ پر اپنا کمالِ فن آزمائیں گی۔اس طرح وہ نجانے کتنوں کو منتخب کر چکی تھیں۔بس پھر انھوں نے مجھے اپنی نگاہ میں رکھ لیا۔میں آج جو کچھ بھی ہوں، جیسی بھی ہوں، ویسا بننے میں،اس نظر کافیضان شامل رہا ہے۔انھوں نے میری امی سمیت ، جو اسی سکول کی استاد تھیں،تین اساتذہ کو بلا کر انھیں تاکید کی کہ مجھے آئندہ آنے والے تین مقابلوں کے لیے تیار کریں۔ ایک تو فی البدیہہ مباحثہ تھا، دوسرا مقابلۂ بیت بازی اور تیسراتحت اللفظ شعر خوانی۔ تینوں اساتذہ نے میرے سکول کے پورے دن کے نو پیریڈز کو برابر برابرتقسیم کیا اور مجھے بتادیا کہ کس کس پیریڈ میں مجھے کس کس استاد کے ساتھ ان کی کلاس میں جانا ہے۔ گھر میں امی کا تدریسی وتربیتی پروگرام پہلے سے جاری تھا۔ اس کے بعدسکول میں بھی تربیت کا ایک متوازی پروگرام شروع ہو گیا اور ایک لمبی کہانی کا آغاز ہوا۔
میرے لیے تو یہ حکایت بہت لذیذ ہے اور میں اسے تا دیر مزے لے لے کر دہرا سکتی ہوں لیکن فی الحال صرف تحت اللفظ شعر خوانی کا ذکر کرنا چاہتی ہوں۔ ان دنوں بین الکلیاتی مقابلۂ شعرخوانی کے لیے باقاعدہ
ایک نصاب مقرر تھا جو ضلعی سطح پر ہر سکول کو بھیج دیا جاتا تھا۔جب میں چھٹی میں تھی تو یہ نصاب تھا، کلیاتِ اقبال( اردو)۔اب سوچتی ہوں تو یقین نہیں آتا کہ ان دنوں ہائی سکول کے طالب علموں سے کیسی توقعات رکھی جاتی تھیں اور وہ طالب علم ان توقعات کو پورا بھی کر گزرتے تھے۔حیرت تو یہ ہے کہ یہ باتیں کسی بڑے شہر کے بڑے اسکول کی نہیں، ایک چھوٹے سے قصبے کے پس ماندہ سے سکول کی ہیں، جہاں پڑھانے والے کم و بیش سبھی استاد مقامی ہوتے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی کسی معروف ادارے سے تعلیم یافتہ نہیں تھا، کسی کے پاس بڑی بڑی ڈگریاں نہیں تھیں؛ زیادہ سے زیادہ بی اے ۔ بی ایڈ۔ اور زیادہ تر تو ایس۔وی۔ یا جے ۔وی۔خود مس عنایت بھی بی اے ۔ بی ایڈ ہی تھیں۔ کوئی غیر معمولی طور پر خوشحال گھرانے سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔کسی کے گھر میں بچوں اورخاندان والوں کی دیکھ بھال کے لیے نوکر چاکر نہیں ہوتے تھے۔ اکثراساتذہ مشترکہ خاندانی نظام کا حصہ تھے جہاں انھیں پورے خاندان کی ذمہ داریاں اٹھانی اور نبھانی پڑتی تھیں۔اس سب رکاوٹوں اور دشواریوں کے باوجود،ان کا وژن، ان کی محنت، ان کی پیشے سے قلبی وابستگی،انھیں مسیحا بنائے دیتی تھی۔
ان تین مہینوں کے دوران، اور اس کے بعد مسلسل پانچ سال تک ہر سال، میں نے مختلف کلاسوں کے سامنے تختۂ سیاہ کی طرف پیٹھ اور لڑکیوں کی طرف منھ کر کے ، زمین پر بیٹھے بیٹھے، پوری کلیات اقبال (اردو) تین تین مرتبہ، لفظ بہ لفظ ،بآوازِ بلند، پڑھی۔ وہیں میں نے پہلی بار بانگِ درا کے حصہ دوم میں نظم ’’ایک شام‘‘ پڑھی تھی جس کا ذیلی عنوان تھا
’’دریاے نیکر (ہائیڈل برگ) کے کنارے پر‘‘۔
خوشاب کے گرلز ہائی سکول کی چھٹی جماعت کی لڑکی ، جس کے پاس صرف ایک ہی شے فراواں تھی، اس کا تخیل،اور جس کے سامنے بڑے شہر کا ایک ہی نقشہ تھا، سرگودھا؛ جب جماعت کے ننگے فرش پر بیٹھ کر ، بآوازِ بلند پڑھتی تھی:
خاموش ہے چاندنی قمر کی شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی
وادی کے نوا فروش خاموش کہسار کے سبز پوش خاموش
فطرت بیہوش ہو گئی ہے آغوش میں شب کے سو گئی ہے
کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے نیکر کا خرام بھی سکوں ہے
تاروں کا خموش کارواں ہے یہ قافلہ بے درا رواں ہے
خاموش ہیں کوہ و دشت و دریا قدرت ہے مراقبے میں گویا
اے دل! تو بھی خموش ہو جا آغوش میں غم کو لے کے سو جا
تو جہاں اس کے تصور کے آسمان پر غم کو آغوش میں لے کے سوجانے والے خموش دل کی راحت کا تصور بیدار ہوتا تھا ،اور جہاں ش۔۔ش۔۔ش کی سرگوشیوں سے ایک ایسے لاانتہاسکوت کا احساس پیدا ہوتا تھا جو زمین و آسمان کی بے کرانی پر محیط ہو، اور جہاں چاندنی میں نہائے ہوئے سبز پوش اشجار ،کہسار اور دشت و دریا سے رشتہ استوار ہوتا تھا، وہیں،اس کے ذہن کے پردوں پر ایک بالکل انجانی تصویر بھی جھلملاتی تھی۔ ’’ دریاے نیکر (ہائیڈل برگ) ‘‘کے کنارے کی تصویر۔
وہ بچی ہائیڈل برگ کا کوئی تصور نہیں کر پاتی تھی۔ دریا البتہ اس نے اچھی طرح دیکھ رکھا تھا۔ کناروں تک بھرا ہوا، کبھی بے نیازی سے اپنی ہی دھن میں مست، چپ چاپ، اور کبھی کسی اندرونی جوش سے سرشار، بپھرا ہوا۔ دریا تو اس کے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر تھا جہاں جانے کا موقع ملتا یا نہ ملتا، اس کے ہونے کے احساس کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ لیکن یہ ہائیڈل برگ کہاں تھا، دنیا کے کس گوشے میں، کرۂ ارض کے نقشے پر جرمنی کی لکیروں کے اندر ایک نقطہ دیکھ کر کیا پتا چلتا کہ ہائیڈل برگ کیساہے اور اس میں بہنے والا دریاے نیکر کس رنگ کاہے، جہاں جا کر اقبال قدرت کے مراقبے کا حصہ بن گئے تھے۔
اس دریاے نیکر اور اس کے ارد گرد کی فضا کے بارے میں اس بچی کے خیال نے کتنے ہی منظر تراشے تھے،اپنے تخیل کی شدت سے اس کی فضا کو اپنے اندر زندہ کیا تھا، اس کے خرام کے فسوں کا حصہ بنی تھی، اس کی خاموشی کی سب آوازیں سنی تھیں، اس کے بہتے ہوئے پانی کی سطح پرجھک کر اپنا عکس دیکھاتھا، اس میں تیرتے ہوئے چاند سے باتیں کی تھیں، شاخوں سے چھنتی ہوئی چاندنی کو سائے کی طرح گلے لگایا تھا۔اقبال کی وہ ایک شام اس کی زندگی کے ہر صفحے پر نقش ہو گئی تھی، اس کے لاشعور کا حصہ بن گئی تھی۔
اسی لیے مجھے ہائیڈل برگ دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ اسی لیے میں نے سیمی نار کا بہانہ ڈھونڈا تھا۔اسی لیے میں نے دو ہفتوں کا پروگرام بنایا تھا۔ سوچا تھا کہ روز شام کواکیلی نیکر کے کنارے جاکر ٹہلا کروں گی، اپنے زمانے میں، اپنے بچپن کے زمانے میں اور اقبال کے زمانے میں جیوں گی۔ ایک ایک لہر کو اپنے تخیل کی موج سے ملا کر دیکھوں گی، کہاں کہاں شباہت ایک سی ہے، کہاں کہاں میرے خیال نے غوطہ کھایا ہے اور کہاں کہاں دریا موڑ مر گیا ہے۔ لیکن یہ خواب بھی ٹوٹ گیا اورٹوٹا بھی ایک دوسرے خواب کے ہاتھوں۔
میں ایک بار بھی اکیلی دریا کے کنارے تک نہ جا سکی۔جتنے دن میں وہاں رہی، روز بارش اور اکثر برف باری ہوتی رہی۔ ہوا اس قدر ٹھنڈی تھی، کہ سارے رومانوی خیالات دھواں بن کر اڑ گئے۔صرف ایک بار میں کرسٹینا کے ساتھ دریا تک گئی۔ لیکن پل پر کھڑے ہونے کی بھی ہمت نہ ہوئی۔ اس قدر سرد ہوا چہرے پر برسنے لگی کہ بے اختیار میں نے منھ موڑ لیا۔
شاید اب بہت دیر ہو چکی تھی۔
شاید اب خواب اور حقیقت کو ایک کردینا ممکن نہیں رہا تھا۔
شاید اب صرف منظرکافی نہیں رہاتھا، دل کے تقاضے بڑھ گئے تھے۔