جنیدالدین
معاشرہ تاریخی جدلیات کے باہمی ٹکراؤ کے مجموعہ سے جنم لیتا ہے۔ نظریات کسی معاشرے کی سماجی، سیاسی اور اقتصادی ترقی کی منازل کے زینہ کے استعارے ہیں۔ کوئی معاشرہ جس قدر مضبوط نظریات کی بنیاد پر تعمیر ہوگا افراد کے رویےاسی بنا پر تشکیل پائیں گے۔ کوئی نظریہ جتنا معتدل ہوگا معاشرہ اسی طرح ترقی کرے گا اور اس کی دیوار جس قدر تعصبانہ انداز سے کھڑی کی جائے گی اس کے زمین بوس ہونے کے امکانات اسی قدر شدید ہونگے۔
”ہیگل” کے مطابق یہی مخالف قوتیں، یعنی مخالف نظریات فطری ٹکراؤ کی بدولت تیسرے نظریہ کو جنم دیتی ہیں، اور حال ہمیشہ تیسرا نظریہ اور بیک وقت اس میں موجود نئے نظریات کے تصادم کا اکھاڑہ ہوتا ہے۔
تیسرے نظریہ کے بارے میں سب سے دلچسپ بات اس کا ایک مخصوص زمانے کی نمائندگی کرنا ہے۔ جو چیز اور طریقۂ کار ایک وقت میں رائج ہو، یہ ضروری نہیں کہ اس کو دوام بھی ہو؛ گوکہ بقا ہی موجودہ اور مستقبل میں ہونے والی ترقی کی ضمانت ہے۔ قانون کی زبان میں جو قانون جس قدر غیرلچک دار ہو گا اس کا دورانیہ اتنا ہی کم ہوتا جائے گا۔ برطانوی آئین اسی تیسرے نظریہ کی بنیاد پر پچھلے سات سو سال سے قائم ہے لیکن پہلے نظریات کی قدر بھی اسی کے ہاں موجود ہے۔ برطانیہ کا پرانے نظریات کو ثقافت قرار دینا بھی اہم فیکٹر ہے اور انسانوں کے نزدیک سب سے کم نفرت انگیز رویہ ثقافت کو گلے لگا کر ترقی کرنے کا رہا ہے۔
جمہوریت جسے افلاطون سب سے قابل مذمت نظریہ حکومت خیال کرتا تھا، اگر آج زندہ ہوتا تو شائد اسے اپنے وہ الفاظ واپس لینے پڑ جاتے جو کبھی بادشاہت کے حق اور جمہوریت کے خلاف ادا کئے گئے تھے۔ اس کے باوجود بھی کہ یہ جمہوریت ہی تھی جو وہ ایسا کچھ لکھ اور کہہ سکتا تھا۔ اسے جمہوریت کی عیاری کہہ لیں کہ اس نے ہر دور میں تبدیلی کو خوش آمدید کہا اور سمندر کی طرح ہر جزو کو اپنے کل میں تبدیل کرتی گئی۔ خود یورپ میں اگرچہ جمہوریت ہے لیکن ہر ملک کے سیاسی نظام کا آپس میں کوئی تال میل نظر نہیں آتا۔ اور یہی بقا ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اگر آج کے دور میں مارکس اور لینن زندہ ہوتے تو کیا وہ اپنی تمام تر توانائیاں مزدوروں اور کسانوں پہ صرف کرتے اور ان کو اپنے دھارے میں شامل کر سکتے کہ افراط زر کے اس دور میں کوئی بھی اپنی فصل کی کٹائی یا بوائی چھوڑ کے ان سے آملتا اور مزدور اپنی دیہاڑی تیاگ کر شام کو بچوں کے پاسکیا پمفلٹس کے شاپر لے کر جاتا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے اشتراکیت سے مضبوط کسی اور نظریے کو جنم نہیں دیا۔ دور موسوی سے لیکر تین دہائیاں قبل تک جو عظمت اس نے حاصل کی شاید ہی کوئی اور اس کے پاس سے بھی گزر سکے۔ نظریہ اشتراکیت کا سب سے بنیادی پہلو کسانوں اور مزدوروں کو ان کی محنت کا صلہ دینا تھا۔ ان کے مطابق کسان اور مزدور پیداواری قوتیں ہیں اور ریاست کا پہیہ ان کے خون جگر سے چلتا ہے۔ لیکن سب سے محروم بھی یہی دو طبقات ہیں۔ انہی نظریات کی بنیاد پہ کمیونزم کا پرچم تخلیق کیا گیا جس کے اوپر درانتی اور ہتھوڑے کو کندہ کیا گیا۔ ہتھوڑا مزدور طبقہ اور درانتی کسانوں کی نمائندگی کرتی تھی۔ اس کا مقصد یہ باور کروانا تھا کہ ریاست تب تک ہی وجود رکھ سکتی ہے جب تک اس کے کسان اور مزدور خوشحال ہیں۔ اور زراعت اور صنعت کی خوشحالی انہی دو عناصر کے بل بوتے پہ قائم رہ سکتی ہے۔ اس کا دوسرا پہلو عورتوں کی ریاستی دھارے میں مساوی نمائندگی کا تھا۔ہتھوڑے کو مرد، اور درانتی کو عورت سے تشبیہ دی گئی۔
آج بھی دیہاتوں میں اکثر خواتین ہی کٹائی کرتی ہیں۔ یعنی یہ پرولتاریہ کا نظریہ جنسی مساوات یا تنثیت تھا۔ اسی نشان کو دیگر کمیونسٹ ممالک نے بھی قبول کیا۔1991 ء میں سویت یونین کے تحلیل ہونے کے بعد جب میڈیا نے ترقی کی تب استعمار اور آزاد معیشت کے حامیوں نے اس کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا اور اشتراکیت کو ایک دقیانوسی نظام کی حیثیت دینے کی کوشش کی گئی۔ اس کو کسانوں اور مزدوروں تک محدود ایک ایسے نظام کے طور پر پیش کیا گیا جس کے اندر تعمیری سوچ رکھنے والے افراد کیلئے کوئی جگہ نہیں۔
دوسری طرف نادان دوستوں نے بھی کمیونزم کو مارکس اور لینن کی فکر تک محدود کر کے الہامی نظریہ معیشت بنا ڈالا۔ اس کی بعد سب سے زیادہ زور کامریڈ اسٹالن کے اقدامات کا دفاع کرنے میں صرف کر دیا گیا اور سرمایہ داروں کے دام فریب میں پھنس گئے اور اس بات سے بہرہ ور ہو گئے کہ دور جدید میں کمیونزم کی اصل ضرورت کس کو ہے۔ کون ان کی بات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور مخالف پروپیگنڈہ کا توڑ کس کے پاس ہے۔
پاکستان میں ہر سال تقریباً پانچ لاکھ نوجوان گریجویٹ پیدا ہو رہے ہیں۔ جس کے مقابلے میں 7 فیصد ہی روزگار حاصل کر پاتے ہیں۔ باقی 93 فیصد میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ماسٹر ڈگری کے ساتھ مالی کی نوکری کرتے ہیں، جیسا جون میں چکوال میں ہوا تھا۔ حکومت اس کو بھی روزگار کا درجہ دیتی ہے جبکہ اس کے مقابلے ایک مزدور زیادہ پیسہ کما رہا ہوتا ہے۔ اور یہ 93 فیصد افراد اسی قلیل سے تعلیمی بجٹ پہ مزید بوجھ لگنے لگتے ہیں۔ دوسری طرف یہی بےروزگاری اور کم اجرت معاشرے میں مزید جرائم کا جواز مہیا کرتی ہے۔
حکومت اور موجودہ حزب اختلاف کی اس پہلو کی طرف عدم توجہی سوشلسٹوں کیلئے نوشتہ دیوار ہونی چاہئے کہ پڑھا لکھا نوجوان خود پہ بوجھ بن رہا ہے اور اس کی فلاح و ترقی میں ہی کسان اور مزدور کی فلاح ہے کہ ان نوجوانوں کی اکثریت انہی دو طبقات کی نسل ہے۔ لیکن کمیونسٹ بھی ان نوجوانوں کو ماضی کی طرح کسانوں اور مزدوروں کی فلاح کے بلاواسطہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر حقیقت سے دور کیے جا رہے ہیں۔
وال سٹریٹ جرنل میں چھپنے والی ایک اسٹوری بالکل یہی تاثر دیتی ہے جس کے مطابق کمیونسٹ پارٹی آف روس نے نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کرنے کیلئے جینز میں ملبوس لینن کے اشتہارات لگائے ہوئے ہیں جس کے مطابق ایک پرولتاریہ صرف کسان یا مزدور ہی نہیں ایک کمپیوٹر پروگرامر بھی ہو سکتا ہے، بائیولوجسٹ بھی، آرٹسٹ اور ڈاکٹر بھی، اور نوجوان بھی اس طرف حیران کن حد تک مائل ہو رہے ہیں۔ یہی وہ رگ ہے جس کو پکڑ کر سرمایہ داری کے سرطان کا صفایا کیا جا سکتا ہے۔
ان اشتہارات کے خالق اگور رودیانوف کے مطابق ہمیں اس زبان میں بات کرنی چاہئے جو موجودہ ووٹر اور شہری سمجھ سکیں۔ اور موجودہ زبان حالات کی درست تشخیص، عوامی جھکاؤ اور واضح مستقبل کا تعین ہے۔ دوسری تصاویر میں” اسٹالن” ایک” ای سگار” سلگائے ہوئے ہے، جبکہ ”مارکس” چمڑہ کی جیکٹ پہنے اپنے لوٹنے کی خوشخبری دے رہا ہے۔ پارٹی کے ایک دوسرے عہدیدار الیگزینڈر یوشیچنکو کی مطابق عوام پیوٹن کی ترقی کے چیونگم کو چبا کر تنگ آگئے ہیں اور جان گئے ہیں کہ ان کی فلاح کمیونزم میں ہی ہے اور اسکو جدید کمیونزم کہیں گے۔ یہ امر روس میں تو واقع ہو چکا جہاں نظریات افادیت کی بنیاد پہ ٹھکرائے اور قبول کئے جاتے ہیں لیکن پاکستان جیسی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور نظریاتی طور پر یکسر منقسم عوام کا ایسی کسی نئی تبدیلی کو قبول کرنا اپنی تمام تر پشین گوئیوں کو غلط ہوتے دیکھنے کے مترادف ہے۔