(ذوالفقارعلی )
برفیلی پہاڑیوں کی برف پوش وادیوں میں یخ سردیوں کی چاندنی راتوں میں تیرے بازو کے سرھانے سر رکھا تواپنے ہونے کے یقین میں دلگدازی ایسی کہ من میت میت ہووے۔ دھڑکنوں کا ردھم سُروں میں ناچے تو دھمال محبت میں ندیاں بل کھا کے سُر بکھیرتی چلیں اور چہار سو منظر جھومنے لگیں۔
حد اور انحد کی گانٹھوں میں بندھا خیال پھیلے تو تیری آنکھوں کے سمندر میں جا کر ڈوبے۔ تیری زلفوں میں انگلیوں کواٹکھیلی سوجھے تو یوں لگے جیسے میری روح سارنگی کے تاروں میں اُلجھ کر وہ سُر بکھیرے کہ کائنات علی علی پُکارے اور وجود کے انگ انگ سے ایسے سُر بکھریں کہ من مست جھومتے جھومتے اناالحق کی صدائیں لگائے۔میری پکار مکاں اور لا مکاں کی وسعتوں میں بھی نہ سمائے۔
تیری آنکھوں میں جھانکوں تو لفظ ساتھ نہ دیں بس حیرانی کا سمندر اُمڈ آئے اور میں اس عالم میں بے خود ہو کر دم مست ہو جاوں۔ میرے ذہن کے اُفق پر محبتوں کے جھولے جھولیں اور میں تصور جاناں کئے ڈولتا رہوں ۔ اس تصور میں کبیر کی شاعری میں تشنگی لگے تو شاہ حُسین میرے یاداشتوں کو اپنی حفظ میں لے لے، پھر بھی پیاس نہ بجھے تو رومی میرے وجدان کو دو بالا کرے ۔ ہائےمگر تیرے ہوتے ہوئے کون کم بخت کہیں ٹھرپائے۔
اس مسافت میں فرید کی شاعری، میرا جی کے بند اور بُلھے شاہ کی کافی ہم سفر ہوتے ہوئے بھی یہ راہی تیرے وجود کی نظم میں گُم رہا ۔ پار اُروار کے تصور سے بے نیاز ان انجانے راستوں کے راہی کو بھلا کون سمبھالے، یہ تو وہ سمجھ سکے جو پندھ کرنے کا عادی ہو۔ پندھ کہانی میں امرت کے جام پینے کی جستجو میں ساری دھرتی کو چھانوں مگر تو کہیں کسی کہانی میں کسی شاعری میں کسی آرٹ میں کسی فکشن میں سما نہ پائے ۔ تیری تعریف ہمیشہ ادھوری ہی رہے اُف یہ کیسی یاترا ہے جہاں سچ اور جھوٹ کی بندشوں سے آزاد ہو کر میں تجھے پُکاروں اور وہ مہادن مجھ پے ہنسے تو یوں لگے جیسے گُھنگرو کی کھنکار، وہ بولے تو جیسے بانسری کا سُر وہ پلٹ کر دیکھے تو جیسے ساون کی بدلیوں میں رنگوں کا امتزاج، آئے جان جاں تو موم بھی نہیں کہ بس جدھر چاہو بل دے دو، تو نور بھی نہیں جسے چھوا نہ جائے ، تو سراپا وجود ہوتے ہوے بھی پھسل جائے ، واللہ نہ تو ادھر آئے نہ اُدھر جائے۔
ہائے یہ کیسی کرنی ہے جسمیں برہا کے رنگ ہیں ، آس ہے پر اُمید نہیں، یاس ہے پر خوشی نہیں، لگن ہے پر لگاو نہیں، دھیرج ہے پر رفتار نہیں، تپش ہے پر آگ نہیں، جلوہ ہے پر چُندہیاہٹ نہیں، خدوخال ہیں پر زاویوں کی پیمائش سے مُبرا، کانچ کی مانند مگر ٹوٹنے سے ماورا۔۔کچھ کچھ وحید احمد کی اس نظم کی طرح۔۔
اس نے مٹھی کے گلداں میں ٹہنی رکھی
پتیوں کے کنارے چمکنے لگے
پھول بھرنے لگے اور چھلکنے لگے
اس نے پاوں دھرے گھاس کے فرش پر
پاوں کا دودھیا پن سوا ہوگیا
سبزہ پہلے سے زیادہ ہرا ہوگیا
اس نے دیکھا اماوس بھری رات کو
رات کے سنگ خارا میں روزن ہوا
نور جوبن ہوا چاند روشن ہوا
اس نے اک بیضوی سا اشارہ کیا
سوچ کی مستطیلیں پگھلنے لگیں
خواہشوں کی تکونیں بھڑکنے لگیں
جب سلیٹ آسماں کی تپکنے لگی
اس نے بارش لکھی پور کے چاک سے
دست نمناک سے لمس بے باک سے
اس نے رحل دہن پر سخن جو رکھا
ہر سماعت کے پردے کو جزداں کیا
شامل جاں کیا جزو ایماں کیا
اس کو چھو کر ہوا جو مسافر ہوئی
بانس بن سارا مرلی منوہر کیا
سیپ گوپی ہوئی رقص جوہر ہوا
وقت تہہ دار کاغذ کا پتلا ہوا
برج اس کے اشاروں پہ چلنے لگے
رات دن انگلیوں پہ نکلنے لگے
گیلے ساحل نے جب اس کے پاوں چکھے
اس کے نمکیں لبوں میں فتور آگیا
بحر کو ذائقے کا شعور آگیا
اس نے بھادوں کے ابٹن سے چہرہ رنگا
قوس رنگیں کو گردن پہ زیبا کیا
نرم سورج کی بندیا کو ٹکیا کیا
میں نے چٹکی سفوف شفق سے بھری
پھر پڑھا اس کی آنکھوں کی تحریر کو
بھر دیا کامنی مانگ کے چیر کو
ہم نے شاخ شبستاں سے لمحے چنے
اس نے اجلی کلائی کو گجرا دیا
میں نے بحر تمنا کو بجرا دیا۔۔
آئے میری سوچوں کو معنی دینے والی روح تُجھے بچھڑے تین سال ہو گئے مگر آج بھی دروازے پے تیری آہٹ دھری ہے ، آج بھی بستر کی سلوٹوں میں تیری یادیں لپٹی پڑی ہیں، آج بھی تیری خوشبو سے آشنائی کا رشتہ بر قرار ہے، آج بھی آنکھیں تاک پے رکھی ہیں، آج بھی تیرے آنے کی اُمید میں من پگھلتا ہے، آج بھی دم بخود ہو کر ساقط گھڑی کے لمحوں کو گھنٹوں تکتا رہتا ہوں، آج بھی دسمبر کی شاموں میں وہ جگہ آباد ہے جہاں ہم نے بیٹھ کے کافی پی تھی، آج بھی چاکلیٹ کا وہ ڈبہ ادھر ہی پڑا ہے جس پےہاتھ رکھ کے ہم نے قسم کھائی تھی ، آج بھی دیوان غالب کا صفحہ ویسے کُھلا پڑا ہے جس کو پڑھتے پڑھتے ہم سو گئے تھے، آج بھی دیواروں پے میں نے کاغز کی تتلیاں سجا رکھی ہیں۔۔ہر چیز اپنی جگہ مگر اُن چیزوں کو معنی اور خوشی بخشنے والی گُڑیا کہیں کھو گئی ہے۔
تیرا زُلفی