ہمارا موجودہ معاشرہ منٹو کی تحریروں میں

(افشاں کرن)

سعادت حسن منٹو ایک منفرد افسانہ نگار کی حیثیت سے دنیائے ادب میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ اردو ادب کی افسانہ کی صنف کو انھوں نے جس بلندی و عظمت تک پہنچایا شاید ہی کوئی افسانہ نگار پہنچا سکا ہو۔ موضوعات کے لحاظ سے بھی ان کے افسانے الگ پہچان کے حامل ہیں۔ ان کے افسانوں میں افسانے کے فطری تقاضے پورے ہوتے نظر آتے ہیں۔ تکنیک، ہیئت، موضوع کی باریکیوں اور بے پناہ حقیقت نگاری کی بدولت جب وہ افسانہ تحریر کرتے تو ایک شاہکار قاری کے سامنے آتا۔ ان کا افسانہ نفسیات اور ادب کا حسین امتزاج ہوتاتھا۔
منٹو کے افسانوں میں حقیقت نگاری موجود ہے اور حقیقت نگاری بھی وہ جو منفی رخ رکھتی ہے انھوں نے سماج کی ڈھکی چھپی برائیوں، تہہ در تہہ پڑی ہوئی برائیوں، خرابیوں معاشرے کی تعفن زدہ حقیقتوں کو بیان کیا، بہت زیادہ سچائی اور حقیقت لکھنے کی بدولت ان کی تحریروں میں فحاشی بھی درآئی جس کی وجہ سے ان پر فحش نگاری کا مقدمہ بھی چلا مگروہ مسلسل حقیقت بیان کرتے رہے۔ جب ان سے سوالات پوچھے جاتے کہ وہ سچائی اور حقیقت لکھنے کے نام پر معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی پھیلا رہے ہیں اور تہذیب و تمدن کو ملحوظ رکھ کر افسانے تحریر نہیں کرتے تو انھوں نے ”لذت سنگ” اپنے افسانوں کے مجموعہ کے دیباچے میں بیان کیا:
”لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں لیکن میں تختہ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں لکھتا سفید چاک استعمال کرتا ہوں کہ تختہ سیاہ کی سیاہی اور بھی زیادہ نمایاں ہو جائے”۔
سعادت حسن منٹو نے اپنے افسانوں ”کھول دو”، ”ٹھنڈا گوشت” جیسے افسانوں میں بہت سی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی انسانی نفسیات کی گرہیں کھولی ہیں۔ بنیادی طو ر پر ادب اور نفسیات کے امتزاج سے ہی ایک ادبی شاہکار تخلیق ہوتاہے۔ اس ادب میں نفسیات کا کون سا رخ کتنی گہرائی سے سے بیان کیا گیا ہے اور نفسیات کی کن کن الجھنوں کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ باتیں ادب کو عظیم یا گھٹیا بناتی ہیں۔ اس طرح منٹو ایک عظیم افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات پر عبور رکھنے والا شخص تھا ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ”ٹھنڈا گوشت” جیسا عظیم افسانہ کبھی تخلیق نہ ہوتا۔
ہمارا مقصد منٹو کی تحریروں کو خراج تحسین پیش کرنا نہیں بلکہ ان کی تحریروں کی روشنی میں موجودہ معاشرہ کو دیکھنا ہے۔ منٹو نے جس دور میں افسانہ نگاری کی وہ چالیس اور پچاس کی دہائی تھی۔ اس دور میں وہ تمام معاشرتی برائیاں، طبقاتی اونچ نیچ، مکار اور مجبور، ظالم و مظلوم، رحمدل و انتہائی سنگدل افراد، مجبور و لاچار عورتیں سب اس معاشرے کاحصہ تھے، جہاں کچھ پر ظلم ہو رہا تھا اور جہاں بعض مظلوم مختلف مجبوریوں کی بنا پر وہ ظلم سہہ رہے تھے اور رحمان کے روپ میں شیطان سب افراد موجود تھے۔ منٹو نے ان کے عمدہ اور بہترین خاکے اپنے افسانوں میں پیش کیے۔
منٹو نے اپنے افسانوں میں جس معاشرے کی تصویر صفحہ قرطاس پر لفظوں کی مدد سے بنائی وہ قابل رحم اور عبرت حاصل کرنے والا تھا اس معاشرے میں عورت کی بے بسی، اس کی چھپی ہوئی چالاکی کو بہت ہی بہترین انداز میں بیان کیا۔ اس نے عورت کے بے شمار روپ اور انسانیت کے مکروہ چہرے اتنی تفاوت سے بنائے کہ ہر دیکھنے والے کو اپنا چہرہ اس آئینے میں صاف نظر آنے لگا ۔ وہ مکروہ تھا یا قابل رحم یہ ہر دیکھنے والے کا ضمیر جانتا تھا۔ اس شخص نے ایسے معاشرے کی تصویر پیش کی تھی۔ جہاں مظلوم عورتیں، سنگدل عورتیںنیز دلال، ظالم اور مجبوروفا دار لوگ رہتے تھے۔ منٹو نے جس معاشرے کی تصویر پیش کی یوں محسوس ہوتا ہے وہ پورا معاشرہ اب صفحات سے نکل کر حقیقت میں ہمارے سامنے آ گیا ہے اور ہم بھی اس معاشرے کے فرد کی حیثیت سے وہاں موجود ہیں، جہاں ظلم ہوتے دیکھ رہے ہیں مگر چپ اور لاچار ہیں۔ وہ معاشرہ اندھیرے میں ڈوبی، سیم زدہ کتابوں سے نکل کر ہمارے سامنے آ گیا ہے۔
یہ منٹو کی عظمت ہے یا اس کا جنس سے گہرا لگائو کہ اس نے نہایت ہی اعلیٰ انداز میں اتنے گھناؤنے واقعات، حادثات اور ظالموں کے ظلم کو بیان کیا ہے کہ روح کانپ اٹھتی ہے۔ کوئی سچائی بیان کرنے والا یا تو بہت ہی رحم دل ہوتا ہے یاپھر انتہائی سنگدل۔ر حم دل یوں کہ اس ظلم کا اس سچائی کا ادراک کیا اور سنگدل اس طرح کہ کتنی مضبوطی اور دل کو پتھر بنا کر اس حقیقت کو بیان کر دیا۔ سچائی لکھنے والا ہی جانتا ہے کہ وہ انتہائی حساس ہے اور دوسروں کا احساس کر کے وہ سچائی بیان کر رہا ہے یا انتہائی سخت دل ہے کہ اس سچائی کو جسے جان کر ، پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور روح لرز جائے بیان کر رہاہے۔ ایک مصنف میں جب یہ دونوں چیزیں اکٹھی ہو جاتی ہیں تو وہ ایک مشکل اور معمہ بن جاتا ہے اور منٹو ایک ایسا ہی شخص تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ منٹو اردو ادب کا ایک متنازعہ افسانہ نگار ہے۔
وہ حقیقت جو منٹو نے آج سے ۵۰، ۶۰ سال پہلے بیان کی تھی اس معاشرے کا اب کوئی ڈھکا چھپا سچ نہیں رہا بلکہ نہایت نمایاں ہو چکا ہے اور نمایاں ہونے کے بعد اپنے اندر رکھنے والی عبرت بھی کھو چکا ہے۔ اب ان سچائیوں کا معاشرے کے افراد پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ انھیں عبرت بھی حاصل نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ ان حقیقتوں کا حصہ بننے سے کتراتے ہیں۔ نہ کوئی شرمندہ کرنے والا رہا ، نہ کوئی شرمندہ ہونے والا بشر موجودہے۔ اس سچائیوں کو سر عام ٹی وی چینلوں، اخبارات میں لکھا ، پڑھا اور دیکھا جارہا ہے۔ یہ معاشرے کی تباہی اور تزلزل کی نشانی ہے کہ عبرت حاصل کرنے والی چیزوں کو مزید پرلطف اور پرلذت بنا کر پیش کیا جائے۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا اخلاقیات کے تقاضے بھی بدلتے گئے۔ منٹو کی تحریروں میں جس معاشرے کی عکاسی کی گئی وہ اپنے دور کی انتہائی ڈھکی چھپی برائیاں تھیں مگر موجودہ دور میں وہ برائیاں ڈھکی چھپی نہیں، نہ ہی وہ معاشرے کا ناسور ہیں بلکہ تفریح کی صورت اختیار کر چکی ہیں نہ ان برائیوں کو بیان کرنے سے اب یہ معاشرہ تعفن زدہ ہوتا ہے۔
منٹو نے انتہائی بے باک اور سچائی سے معاشرے کے سات پردوں میں چھپے ہوئے المیوں، گناہوں کو اس وقت بیان کیا جب سب اس کی تحریروں کو فحاشی سمجھنے پر تلے ہوئے تھے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ اس دنیا میں آنے والے صاحب فہم و ادراک وقت سے پہلے حقیقت کو سمجھ کر بیان کر دیتے ہیں۔ جب ان کی بات کو صحیح معنوں میں سمجھنے والا کوئی نہیں ہوتا میری نظر میں منٹو ایک ایسا ہی شاہکار خداوند تھا جس نے معاشرے میں پھیلنے والی گندگی، ناسور کے دھارے کو وقت سے بہت پہلے دیکھ لیا تھا اور جان گیا تھا کہ کچھ سالوں کے بعد یہ ناسور معاشرے میں پھیل کر کیسے مفلوج کر دے گا۔ اس نے سات پردوں میں مرتکب ہونے والے گناہوں اور گنہگاروں کا ادراک کر لیا تھا ۔ یہ اس کی بڑائی تھی کہ اس نے خطرے کی سرخ بتی جلائی کہ سب محتاط ہو جائیں مگر بدقسمتی سے اس نشاندہی کرنے والے کو ہی مجرم سمجھ لیا گیا اور اب چند دہائیوں کے بعد موجودہ معاشرہ مکمل طو رپر منٹو کے بیان کیے ہوئے سیاہ معاشرے کی عمدہ اور کامل مثال بن چکا ہے۔
٭٭٭٭