(ناصر عباس نیرّ )
اوکسفرڈ، لاہور، فیض اور خیال لٹریری فیسٹول کے بعد بیکن ہاؤس نے بھی ایک فیسٹول کا ڈول ڈالا ہے ،جسے خیالات کا فیسٹول ‘ کا نام دیا ہے۔اس کے مرکزی خیال کو ’سکولِ آئندہ ‘ کانام دیا گیاہے۔اگرچہ اس فیسٹول کو تعلیم سے متعلق رکھنے کی کوشش کی گئی ،مگر پھر بھی ثقافتی اورسیاسی پہلو اس پر حاوی رہا۔ شاید یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ شہری زندگی کے یہ بڑے بڑے میلے اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں، جب ان میں فلم ،کھیل اور سیاست کی نامور شخصیات آئیں، خواہ ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ نیانہ ہو۔ آئرنی یہ ہے کہ ان میلوں کی کامیابی کا پیمانہ وہاں پیش کیے جانے والے خیالات سے زیادہ،وہاں آنے والوں کی تعداد ہے ۔بہ ہرکیف یہ فیسٹول لاہور کے رائل پام گولف اینڈ کنٹری کلب میں ۵تا ۶ نومبر کو منعقد ہوا۔اس میں دوتین سیشنوں کے سوا،باقی سب انگریزی میں تھے ۔
ایک سیشن ’زبان اور شناخت: ہماری زبان، ہماری پہچان ‘کے عنوان سے تھا۔یہ سیشن بیکن ہاؤس کے پلیٹ فارم سے اس وقت ہورہاتھا ،جب یہ ادارہ ،پنجابی زبان کے حوالے سے ایک بڑے تنازع سے بہ مشکل سنبھلا تھا۔اس کی ہلکی سی گونج ’سپیکر لاؤنج ‘ میں ذرا دیر کو سنائی دی تھی ،اور بیکن ہاؤس کے اساتذہ اور انتظامیہ کا لہجہ معذرت خواہانہ تھا۔اس سیشن کے ماڈریٹر قاسم جعفری تھے، جب کہ شرکاے گفتگو میں امجد اسلام امجد، ڈاکٹر شیر شاہ سید، واجد جواد اور راقم تھے۔ سیشن کے آغاز میں قاسم جعفری نے ایک رپورٹ (پاور پوائنٹ پریزینٹیشن) دکھائی،جس میں مادری زبان،خصوصاًاردو اور شخصیت کی نشوونما سے متعلق کچھ خیال انگیز باتیں کہی گئی تھیں۔ایک بین السطور مضحکہ خیز ی بہ ہر حال محسوس کی جاسکتی تھی کہ اردو اور دوسری مادری زبانوں کی وکالت،اس زبانِ غیر میں کی جارہی تھی،جس کی وجہ سے یہ سب کہنے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔ یعنی یہ ساری رپورٹ انگریزی میں تھی،مگر مضحکہ خیزی یا پیراڈاکس کو وہاں کم لوگ ہی محسوس کرنے والے تھے ۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ رائل پام اینڈ گولف کلب کی شاہانہ عمارت کے ایک ہال میں بیٹھے ھاضرین کے لیے یہ بات ’معقول ‘ تھی، یعنی وہاں موجود حاضرین کو انگریزی ہی میں قائل کیا جاسکتا تھا۔کم ازکم جنوبی ایشیا میں انگریزی محض ایک زبان نہیں، ترسیل و اظہار کا ذریعہ نہیں، ’طاقت، توقیر،برتری، دلیل، جدیدیت‘ کی علامت بھی ہے۔یہاں انگریزی ’زبان ‘ سے بڑھ کر ہے۔ بہ ہرکیف قاسم جعفری نے پہلے حاضرین سے باقاعدہ اجازت لینا مناسب معلوم ہوا کہ وہ اس سیشن کو اردو میں چلانا چاہتے ہیں۔
انھوں نے پہلے امجد اسلام امجدکو کچھ کہنے کی دعوت دی۔ امجد صاحب نے کہا کہ برصغیر میں تین سو سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔پاکستان میں بھی خاصی(بہتر ۷۲)زبانیں بولی جاتی ہیں۔انھوں نے اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں کی مماثلتوں کا ذکرکیا کہ یہ سب دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہیں۔سب میں کم وبیش ایک ہی رسم الخط استعمال کیا جاتاہے۔ان سب زبانوں کو یکساں حقوق ملنے چاہییں۔
شیر شاہ سید جو میڈیکل ڈاکٹر اور افسانہ نگار ہیں۔انھیں پہلی مرتبہ کسی کانفرنس میں سننے کا موقع ملا۔ان کے خیالات کا حاصل یہ نکتہ تھا کہ اگر بچوں کو ریاضی اور مادری زبان میں طاق کردیا جائے تو کچھ معجزے ہوسکتے ہیں۔ ریاضی انھیں سائنسی فکر سکھاتی ہے، جب کہ مادری زبان انھیں علم حاصل کرنے میں آسانی بہم پہنچاتی ہے۔ ٹھیک ٹھیک ،اور سائنسی انداز میں سمجھنے کی صلاحیتیں اگر ترقی پاجائیں تو لوگ ملاؤں اور سیاست دانوں کے ہاتھوں یر غمال نہیں ہوں گے۔اگر ہمارے نوجوان ملاؤں اور سیاست دانوں(اب ان میں ٹی وی کے اینکروں کو بھی شامل کرنے کی ضرورت ہے) کے اثر سے بچ سکیں،اور قومی وسماجی مسائل کے سلسلے میں اپنی تنقیدی رائے سے کام لے سکیں تو یہ واقعی معجزہ ہوگا۔ میراخیال ہے کہ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جسے بہت سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے،اور بچوں کو شروع میں بس دوہی چیزیں پڑھائی جانی چاہییں: ان کی اپنی زبان میں لکھا گیا اعلیٰ ادب،جس کی تلخیص بچوں کے لیے خاص طور پر کی گئی ہو،اور ریاضی ۔ریاضی بچوں کو سائنسی ،منظم ، واضح وقطعی انداز فکر سکھائے گی ،جب کہ ان کی اپنی زبان انھیں حقیقی دنیا اور اس کی عکاسی کرنے والی ثقافت و تاریخ اور جمالیات سے وابستہ کرے گی۔ان دونوں کے اجتماع سے ،بچوں کی ذہنی صلاحیت فطری انداز میں نشوونما پائے گی، اور وہ کچھ عرصے بعد اس قابل ہوجائیں گے کہ باقی زبانیں،اور باقی علوم آسانی سے سیکھ سکیں۔ہمارا نظام تعلیم بچوں کو پریشاں خیالی دیتا ہے، خیالات کو وضاحت سے سمجھنے اور خود خیالات تخلیق کرنے کے قابل نہیں بناتا۔پریشاں خیال آدمی کو کسی بھی راہ پر لگانا یعنی گمراہ کرنا بے حد آسان ہوتاہے۔
مجھے بھی کچھ کہنے کی دعوت دی گئی۔ میں نے گفتگو کا آغاز اس بات سے کیا کہ اس وقت دنیا میں دوچیزوں کی بقا کوخطرہ لاحق ہے۔ فطرت اور زبانوں کو۔دونوں کو خطرہ ہماری ہوس اور لاپروائی اور بے حسی سے ہے۔صنعتی عہد سے فطرت کی تسخیر کے نام پر اس کی تباہی وتحقیر کا وہ عمل جاری ہے ، جس کے مہلک اثرات واضح نظر آنے لگے ہیں۔ آج کل لاہور میں ایک نئی چیز اچانک درآئی ہے، جس نے ہمیں ایک عجب بے بسی ،تکلیف اورکنفیوژن میں مبتلا کیا ہے۔ یعنی سموگ جو فوگ اور سموک سے مل کر بنی ہے ۔پہلے دن کسی کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ سموگ یا دخانی دھند آخر کیا ہے اور کیوں ہے،جس نے آنکھوں میں جلن اور سانس میں دشواری پیدا کی ہے؟ پھر جب اس پر تحریریں سامنے آئیں تو معلوم ہوا کہ یہ فطرت کے خلاف ہمارے ہی جرائم کی سزا ہے ۔اسی سے ملتی جلتی صورت زبانوں اور ان کے ذریعے شناخت کے عمل کی بھی ہے۔یہ عمل بھی ایک طرح کی نفسیاتی دخانی دھند کا شکار ہے ۔فطرت نے ہمیں زبانیں ایجاد کرنے کی صلاحیت دی ،ہم نے زبانوں کے ذریعے دوسروں کو تسخیر کرنا شروع کیا۔زبان کے ذریعے شناخت کی سیاست شروع کی۔جس طرح فطرت کی تسخیر سے ایک چھوٹا سا طبقہ نفع کما تا ہے، اور باقی لوگ تکلیف اٹھاتے ہیں۔یہی صورت لسانی سیاست کی ہے ؛چند لوگوں کو اختیار اورطاقت ملتی ہے،اور باقیوں کے حصے میں مسخ شدہ ،الجھے ہوئے ذہن ،اور دوسرے لسانی گروہوں کے خلاف نفرت آتی ہے۔
میں نے یہ بھی عرض کیا کہ ہمیں مسائل کی صحیح تشخیص کرنی چاہیے،اور انھیں تاریخی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔سوال یہ ہے کہ جب کہا جاتا ہے کہ ‘ہماری پہچان اردو ہے تو ’ہم‘ سے مراد کیا ہے ؟ ہم کا صیغہ کس کی نمائندگی کرتا ہے؟ کیا کوئی شخص اس سوال پر غور کرتا ہے کہ وہ ان لوگوں اور طبقوں کی نمائندگی کا واقعی جائز حق رکھتا ہے،جن کی بزعم خود ترجمانی کے لیے وہ ’ہم ‘ کا صیغہ استعمال کرتا ہے؟ ہمیں یہ بہت کم معلوم ہوپاتا ہے کہ ’ہم ‘ کے ذریعے،اور ’ہم ‘کے پردے میں سیاست کی جاتی ہے،یعنی محدودشخصی و گروہی مفادات حاصل کیے جاتے ہیں۔قصہ یہ ہے کہ پاکستانی تناظر میں ’ہم ‘ ایک تاریخی تشکیل ہے جو تین ادوار سے گزری ہے: قبل نو آبادیاتی، نو آبادیاتی ،اور مابعد نو آبادیاتی۔ قبل نو آبادیاتی عہد میں ’ہم ‘ سے مراد ذات ، قبیلے اور پیشے کی بنیادپر قائم کی گئی شناختیں تھیں۔’ہم ‘ پٹھان ، سید، شیخ ، مغل تھے ،حجام ،کنجڑے ،کمھاراور دیگر اہل حرفہ تھے،راجپوت، برہمن ،کھتری ،ویش تھے ۔یہ سارے ’ہم ‘ اس کے بعد مسلمان ،ہندو، سکھ ،پارسی وغیرہ تھے۔ زبان ،اس شناخت میں شامل نہیں تھی۔ہمیں اس امر کی شہادتیں نہیں ملتیں کہ قبل نو آبادیاتی عہد میں کبھی زبان کے نام پر دو گرہوں میں باقاعدہ جھگڑے ہوئے ہوں،یا کسی گروہ کو محض زبان کی وجہ سے اپنی شناخت خطرے میں محسوس ہوئی ہو۔ یہ نو آبادیاتی عہد تھا ،جب شناخت کے مسائل پیدا ہوئے ۔اس عہد میں مذہب پہلی شناخت بنا، اور اس کے ساتھ ہی زبان۔ برصغیر کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ انیسویں صدی میں ’ہم ‘ نے مذہب اور زبان کو اپنی شناخت کی اوّلین شرائط ٹھہرائیں۔’ہم ‘ نے اپنے اندر بالکل نئے جذبات محسوس کیے۔تشدد تو پہلے بھی ہوتا تھا ،لسانی ومذہبی شناخت کے نام پر تشدد کا آغاز انیسویں صدی سے شروع ہوا۔ قوم کی بقا کا اصول مذہب اور زبان سمجھے گئے۔
اہم بات یہ تھی کہ نو آبادیاتی عہد کا’ہم ‘ایک وحدانی یعنیMonolithic تصورنہیں تھا۔یہ ’ہم‘اگرہندوہوتا توہندی سے عبارت تھا؛’ہم ‘،مسلمان ہوتا تو اردو سے عبارت تھا؛یہی’ہم ‘ سکھ ہوتا تو پنجابی سے عبارت تھا۔ انگریزمشنری ،یہاں کی بڑی آبادی کو عیسائی تو نہ بناسکے، مگرانگریز حکمران اردو، ہندی ،پنجابی کو مسلمان، ہندواور سکھ ضرور بنا گئے۔جیمز مل نے برصغیر کی تاریخ کو ہندو عہد ، مسلم عہد اور برطانوی عہد میں تقسیم کیا، یعنی برصغیر کی قدیم اور عہد وسطیٰ کی تاریخ کو تو مذہبی شناخت دی ،لیکن اپنے ہم وطنوں کے عہدِ حکمرانی کو غیر مذہبی قومی نام دیا۔ تاریخ کے اسی بیانیے کو زبانوں کے سلسلے میں دہرایا گیا۔ یہاں کی چند زبانوں پر چند بڑی قومی اکائیوں کی نسبت سے مذہبی شناخت مسلط کی ،مگر اپنی زبان انگریزی کو عیسائی زبان نہیں کہا،بلکہ اسے ’جدیدیت، ترقی پسندانہ، روشن خیالی‘ کی علامت بنا کر پیش کیا۔ بہ ہر کیف انیسویں صدی کے بعد اس کے بعد یہاں کے لوگوں کی لسانی شناخت ،ا ن کی مذہبی شناخت سے یوں وابستہ ہوگئی ،جیسے ناخن سے گوشت۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن زبانوں کو مذہب مل گیا، انھیں وہ بڑے بڑے سرپرست مل گئے جنھوں نے نئے ملک ’ایک قوم ،ایک مذہب ،ایک زبان ‘ کے بیانیے کے تحت قائم کیے، لیکن جن زبانوں کو مذہب نہیں ملا، وہ حاشیے پر چلی گئیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال پاکستانی پنجابی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی تناظر میں ’ہم ‘ ایک مخروطہ یعنی Coneہے۔ سب سے اوپر کا نوک داراور مختصر حصہ ’انگریزی و جدیدیت‘ کی نمائندگی کرتا ہے، اس سے ذرا نیچے کا نسبتاً بڑا حصہ ’اردو واسلام ونظریہ ء پاکستان‘کا علمبردار ہے ،اور سب سے نیچے کا بڑا حصہ’پنجابی ،سرائیکی ،سندھی ،پشتو، بلوچی، براہوی، گوجری، شینا، کھوار،بلتی اور دیگر پاکستانی زبانوں اور ان کی ثقافت ‘ کا ترجمان کہا جاسکتا ہے۔ سب سے مختصر حصہ بلندی وطاقت رکھتا ہے ،اور اپنے نچلے حصوں کو دبانے ،حاشیے پر دھکیلنے کی جادوئی صلاحیت کا حامل ہے۔یہ کڑوی حقیقت تسلیم کیے بنا چارہ نہیں کہ مذکورہ مخروطے کے وسطی اور زیریں حصے حجم میں بڑے ہونے کے باوجود ، بالائی قلیل حصے کو حاصل مرتبے سے محروم کرنے سے قاصر ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ وسطی اور زیریں حصوں نے اپنی حاشیائی حیثیتوں کو تسلیم کرلیا ہے۔جب کبھی انھیں اپنے حاشیائی مقام کی گالی دی جاتی ہے تو یہ کچھ دیر کے لیے اپنی حاشیائی حیثیت کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، پھر ان پر غنودگی طاری ہوجاتی ہے۔ جیسے گزشتہ دنوں بیکن ہاؤس نے پنجابی کے بے ہودہ زبان ہونے کا ذکر اپنے ایک ہدایت نامے میں کیا تو اس کا شدید ردّ عمل ہوا،اور بالکل بجا ہوا، مگر اس ردّ عمل کو ایک ایسی تحریک میں تبدیل نہ کیا جاسکا ،جس سے پنجابی کے ‘جاٹوں ،بھانڈوں، گنواروں،نوکروں‘ کی زبان ہونے کی نوآبادیاتی شناخت کی تحلیل ہوسکے۔واضح رہے کہ جاٹ ، بھانڈ ، گنوار،نوکر ہر زبان کے بولنے والوں میں ہوتے ہیں، اور ان کے لسانی حقوق ،اشرافیہ کے برابر ہیں۔اصل مسئلہ ایک زبان کومحض ایک طبقے سے حقارت آمیز انداز میں منسوب کیے جانے کا خاتمہ ہے ۔سب سے بڑا پیر اڈاکس یہ ہے کہ مذکورہ مخروطے ‘ہم ‘ کے نچلے حصوں کی جدوجہد بھی زیادہ تر اوپرجاکر یعنی انگریزی سیکھ کر ،نچلے حصوں کی ترجمانی کرنے تک محدود ہوگئی ہے۔صاف لفظوں میں اردو اور دوسری زبانوں کے لوگ اس درجہ بندی کو چیلنج نہیں کرتے ،جو نو آبادیاتی عہد سے چلی آرہی ہے۔جہاں تک حکومت کا تعلق ہے، اسے ان مسائل سے کچھ لینا دینا نہیں۔اسے اپنی بقا کی جنگ نے اس قدر تنگ نظر بنادیا ہے کہ اسے سماجی ، تعلیمی ، ثقافتی مسائل سرے سے دکھائی ہی نہیں دیتے۔
اس حقیقت کا ادراک بہت کم کیا جاتا ہے کہ کسی زبان کی سب سے بڑی طاقت ،اس کے بولنے والوں کی تعداد ہے ،نہ اس کی قدامت۔ کسی زبان کی طاقت دو باتوں میں ہے،اس کا مسلسل عام بول چال میں استعمال اور اس میں تخلیق ہونے والا اوّل درجے کاوہ علم اور ادب ہے،جس کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے ہو…..اور ان کی تخلیق کا لامتناہی سلسلہ ہے۔عوام کسی زبان کو زندہ رکھتے ہیں ،اور اس کی ثقافتی شناخت میں تسلسل پیدا کرکے اسے طاقت دیتے ہیں،اور خواص یعنی اہل علم وفن کا طبقہ اسے ’اندر‘ سے طاقت ور بناتے ہیں۔ ہمارے یہاں زبان کے ذریعے شناخت پر جس قدر اصرار ہے، اس قدر زبان کو عملی وعلمی و تخلیقی سطحوں پر طاقت سے ہمکنار کرنے پر نہیں۔