ہماری سماجی دانش کے بنیادی تقاضے
از، حنا جمشید
سچ دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک بنائے گئے سچ دوسرا چھپائے گئے سچ۔ ایک سماجی دانش ور کی ذمہ داریوں کا تعین کرتے وقت ہم یہ بات فرض کر لیتے ہیں کہ چھپائے گئے سچ کی بازیافت ہی اس کی سماجی دانش کا اولین مقصد ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ ہمارے معاشرے میں صراطِ حق پہ چلنے کی قیمت انسانی جانوں کا نذرانہ ہے۔ صرف یہیں نہیں بل کہ ان تمام ممالک میں بھی جو خود کو بڑے فخر سے فری سوسائٹی گردانتے ہیں حق بات کہنا قطعاََآساں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سماجی دانش اس وقت کی بد ترین ریاکاری اور فکری بد دیانتی کے انتہائی کٹھن دور سے گزر رہی ہے اور ہم اپنی سماجی بصیرت اور وسیع النظری کے تقاضوں سے قطعاََ نا بلد و نا آشنا قوم کا کردار ادا کرتے ہوئے اسے مزید پستی کی اور دھکیل رہے ہیں۔
ہمیں علم ہے کہ دانش ورانہ سوالات کے جوابات ہمیشہ حوصلہ افزاء نہیں ہوتے۔یہ سوالات ہمیں جس ذہنی و قلبی شکست و ریخت کے عمل سے گزارتے ہیں اس کی اذیت زمان و مکاں کی گرفت سے ماورا ہے۔ایک سماجی دانش ور کے لیے بسا اوقات حال کی درست تصویر پیش کرنے سے قبل ماضی سے رجوع کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔یہاں مسخ شدہ تاریخ کو دبانے یا مسترد کرنے سے بہتر ہے کہ اُس کی از سرِ نو بازیافت کی جائے۔ ماضی کی گرد میں چھپے طاقت کے مہا بیانیوں کی کھوج ہی سماجی دانش کا اصل تقاضا ہے۔ کیوں کہ بسا اوقات سامراجی اور استعماری قوتیں خود کو سماجی دانش کے لبادے میں ملفوف کر کے بد دیانتی کے بلند معیارات پر فائز ہو جاتی ہیں اور سماجی استحصال ،تشدد اور بربریت کا وہ طوفان لاتی ہیں جو سماجی اقدار، تہذیب او رثقافت کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔تب یہ نام نہاد سماجی دانش ور طاقت کے مہیب بیانیوں کوایک پُروقار اور غیر جانبدارانہ تقدیر کی شکل میں اس کی موجودگی کا اعتراف کراتے ہوئے اپنے پر شکوہ باطنی تناسب اور جلال کے مناظروں سے انھیں پستی کی اندھی کھائیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ ان حالات میں ایک سماجی دانش ور کے لیے سچ کی بازیافت از حد ضروری ہو جاتی ہے۔
سچ اور حقائق کی تلاش کا یہ عمل قطعاََ آسان نہیں ہوتا۔ ایک سماجی دانش ور ایک اخلاقی کار کن کا روپ اختیار کرتے ہوئے سماجی منافقت کا لبادہ چاک کرتا ہے اور اپنے جانب دارانہ جذبات کی لگامیں کھینچتے ہوئے، سماجی معاملات کی تہہ میں دفن مسخ شدہ حقائق کو ہمارے سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ بسا اوقات سچ کی یہ باز یافت اس کے لیے تعزیراتی قرار پاتی ہے اور صدائے مزاحمت بلند کرنے کے نتیجے میں اسے سر کش قرار دے کر جن پوشیدہ عقوبت خانوں میں غیر مرئی اور نا دیدہ استعماری قوتوں کی جارحیت اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کی اذیتوں کا بیان بذاتِ خود ایک تکلیف دہ امر ہے۔
جب کہ دوسری طرف ہماری بصارت اور بصیرت سے محروم ناقص فہم سماجی دانش کو محض جابر کے سامنے نعرہ حق بلند کرنے کے معیارات پہ پرکھتی ہے۔ کیا اس معیار کو ہم ہو ش مندی اور عقل سے مشروط قرار دے سکتے ہیں؟ یقیناََ نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ اپنی دانش و خرد کے زعم میں نہتے ہو کر کسی درندے کے پنجرے میں جا کھڑے ہوں اور اسے اپنے دلیرانہ نعروں سے للکاریں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس عمل سے ہونے والے نقصان کی صورت میں قصور آپ کی اپنی فہم و دانش کا ہو گا۔ یہاں نسبتاََ بہتر اور مستحسن عمل آگہی اور شعور کی بصیرت کو عام کرنا ہے۔ جس کے ذریعے سے ریاستی عوام کو ان کے نفع و نقصان سے با خبر کیا جائے اور عام فکری مغالطوں سے جنم لینے والے سنگین مسائل کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے تدارک کی حکمت عملی تشکیل دی جائے۔
اکیسویں صدی میں سماجی اور تہذیبی تقاضے یکسر تبدیل ہوئے ہیں۔ عصرِ حاضر کی جدید دنیا کسی بھی قسم کی سادہ تعریف سے بڑھ کر مشکل اور پیچیدہ ہے۔یہی وہ وقت ہے جب ہماری سماجی دانش ہمیں سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ کس طرح ریاستی عہدوں اور اداروں میں نظر آنے والی بد ترین آمریت نے سماجی نظام کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ آج کے عالمی منظر نامے میں بڑی استعماری و سامراجی قوتیں طاقت اور اقتدار کے زعم میں دو ریاستوں کے ما بین معمولی اختلافات کو ہوا دے کران کے ما بین جنگ کا ماحول پیدا کرتی ہیں تاکہ تجارتی اور کار و باری مفادات کی اسناد حاصل کر کے اُن کی تباہی کا تماشا دیکھ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ طاقت کے سبھی مفادات امن کی بجائے جنگ سے مشروط ہوتے ہیں۔ جنھیں طاقت اور اقتدار کے حامی سادہ لوح عوام کے فروعی علم، ادنیٰ فہم اور تعصب آمیزجذبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یوں خود کو برتر سمجھنے والے تہذیب یافتہ دنیا کے نام نہاد مہذب باشندے اپنے اس لقب سے ملقب ہو کرہمارے جیسے ملکوں میں تہذیب اور امن و امان کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور جنگ کا جواز تراشتے ہیں۔
معاشرتی بنت میں دانش ورانہ ذمہ داریوں کا مطلب ایک ایسے شائستہ سماج کی تشکیل ہے جس میں چناؤ، آدرش اور فیصلوں کا اختیار عوام کے ہاتھ میں ہو۔ جہاں با ضمیر لوگوں کی قیادت میں ہر مکروہ فلسفے کی اتباع سے انکار کیا جائے اور جہاں تہذیب کے قافلے پر امن ماحول اور ثقافت کے تحت پروان چڑھائے جا سکیں۔ وگرنہ ریاکارانہ سماجی دانش میں لفاظی پہ مشتمل نظریات سے تشکیل دی گئی روش پہ چل کر منزل کا حصول محض صحرا میں سراب پانے کے سوا کچھ نہیں۔
بہت ہی کمال کا سوشل اکنامک تجزہہ کیا ہے بہت اعلی۔
عمدہ