ہمارے اندر ثقافتی گھٹن کیسے پیدا ہوتی ہے!

ہمارے اندر ثقافتی گھٹن کیسے پیدا ہوتی ہے!

از، ارشد محمود

ثقافتی گھٹن ہماری ذہنی کشادگی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ذہنی کشادگی نہیں ہو گی تو ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اس طرح غیر عقلی رویوں کو فروغ ملتا ہے اور عوام کی سوچ ایک محدود دائرے میں بند ہو کر رہ جاتی ہے۔ ماضی کی اقدار اب نہ فنکشنل ہو سکتی ہیں اور نہ ان سے مثبت نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ مردہ چیزیں واپس نہیں آیا کرتیں۔ جہاں جس کسی نے مذہب کا انتہا پسند انہ نظام قائم کرنے کی کوشش کی ہے، اسے منفی نتائج اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ حالیہ تاریخ میں ہمارے سامنے ایران نے یہ تجربہ کیا اور اسے آخر کار لبرل اِزم کی طرف واپس آنا پڑا۔ اسی طرح افغانستان کی مثال سامنے ہے۔ وہاں بنیاد پر ست جو کچھ کرتے رہے اسے وحشت اور بربریت کے سوا کچھ اور نام نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بات طے ہے کہ ہزاروں سال پرانے قاعدے قانون بستیوں کو کھنڈرات میں بدل کر ہی نافذ ہوسکتے ہیں۔

انسانی زندگی سے ترقی، مسرت اور خو شحالی کے عوامل نکال دیے جائیں تو اس کی زندگی جانوروں سے بدتر ہو جاتی ہے۔ جانور پھر بھی فطری تقاضوں کے مطابق زندگی گزارتا ہے۔ مذہبی انتہاپسند انسان کو نہ صرف غیر مہذب ہونے پر مجبور کرتا ہے بلکہ خود ساختہ اور تنگ نظر اخلاقی نظام رائج کرکے جبلّی خوشیوں کو بھی برباد کر دیتا ہے۔ اَب ہم مختصر اًثقافتی گھٹن کے ان مظاہر پر بات کریں گے جو ہماری سوسائٹی میں عام ہیں :

کھل کر بات نہ کرسکنا:

اس طرح کی سوسائٹی میں انسان بچپن سے ہی والدین، عزیز و اقارب، مولوی اور اساتذہ کے ’’یہ نہ کرو، وہ نہ کرو‘‘ کے ماحول میں پرورش پاتا ہے۔ جھوٹ سچ، اچھے بُرے، گناہ ثواب اور پاک ناپاک کے ایسے جامد معیار دیے جاتے ہیں جن میں کس طرح کی ترمیم کا کوئی سوال نہیں ہوتا، اور ان پر مزید غور فکر کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ چنانچہ یہ سوسائٹی انسان کی اظہار کی جبلّت کو دبا دیتی ہے۔ ایک ایسا کلچر پیدا ہو جاتا ہے کہ ہر شخص جو سوچتا ہے، جو محسوس کرتا ہے اور جو چاہتا ہے، اسے دوسروں کے سامنے کھل کر بیان نہیں کرتا۔ اور جواظہار کرتا ہے اسے بدل کر اور ماحول سے مطابقت پیدا کرکے پیش کرتا ہے، یا پھر اپنے خیالات کو اپنے اندر ہی محفوظ رکھتا ہے۔ اس طرح سوسائٹی میں جھوٹ اور منافقت کا ماحول چلتا رہتا ہے۔ یہاں انسانی اظہار پر ’’دنیا کیا کہے گی‘‘ کا ایک مضبوط سنسر عائد ہو تا ہے۔ کھل کر بات نہ کرسکنے سے افراد کے اندر فکری اور تخلیقی صلاحیتیں بھی دب جاتی ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ نسل در نسل، بغیر کسی سماجی ارتقا کے، اندھوں کی قطار کی طرح چلتے ہیں۔

خوشی کا اظہار نہ کرسکنا:

ثقافتی پسماندگی کا ایک اور مظہر انسان کو خوشی کے اظہار سے روکنا ہے۔ تمام تر سائنسی و مادی حقائق اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ انسان طبعی قوتوں کی تخلیق کردہ مخلوق ہے۔ خوشی زندگی کا اظہار ہے۔ خوشیاں ہی انسان کو زندگی کی قدر کرنے اور اس سے محبت کرنے کی طرف مائل کرسکتی ہیں۔ ظاہر ہے اگر زندگی میں خوشی نہیں ہے یا خوش ہونے کی اجازت نہیں ہے تو زندگی کے ساتھ دلچسپی بھی واجبی رہ جائے گی۔ خوشی تجریدی عمل نہیں ہے۔ فطرت نے اس کے جسمانی اظہار مقرر کررکھے ہیں۔ انسان خوشی سے تالی بجاتا ہے، ناچتا ہے، گاتا ہے، جھومتا ہے، کسی اپنے کو چومتا ہے، گلے لگاتا ہے، ترنگ اور مستی میں آنا چاہتا ہے۔ یہ وہ سب اظہار ہیں جن سے انسان زندگی کی خوبصورتی کو خراج پیش کرتا

ہے۔ لیکن اخلاقیات اور ایمان کے نام نہاد محافظ خوشی کے اظہار سے الرجک ہیں، اس لیے کہ انھیں زندگی سے دشمنی ہے۔ ان کی ساری دلچسپی بعد ازموت کی خیالی زندگی سے ہے۔ جو حقیقت سامنے ہے اس سے انکار ہے، جو سامنے نہیں ہے اسے حقیقت مانا جاتا ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے جو قومیں خوشی کا اظہار نہیں کرسکتیں، خوشیاں ان کی زندگیوں میں آتی بھی نہیں ہیں۔ زندگی کو بھی ان لوگوں سے کوئی پیار نہیں ہوتا۔ ان کا شمار مُردہ اور غلام قوموں میں ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے انسان ہونے کا اعلان کرنا ہو گا۔ خوشی ہمارا حق ہے۔ زندگی خوبصورتی کا نام ہے۔ اسے ہم نے اور خوبصورت بنانا ہے۔

فطری تقاضے پورے نہ کرسکنا:

انسان پہلے حیوان ہے بعد میں انسان۔ وہ گوشت پوست اور خون کا بنا ہے۔ یہ محض ایک ترقی یافتہ حیوان ہے جس میں ذہانت، تخلیقی جو ہر اور جمالیاتی حس درآئی ہے، ورنہ نچلی سطح پر، جسمانی اور جبلتی لحاظ سے، اس کے بھی وہی تقاضے ہیں جو حیوانوں کے ہوتے ہیں۔ اور اس پر ہمیں شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نہ ہی یہ تقاضے گندے، پلید اور گناہ ہیں۔ زندگی کی ساری اُٹھان انھی سے ہے۔ اگر یہ نہ ہوتے تو دیگر انسانی پہلوؤں کا بھی کوئی وجود نہ ہوتا۔ لیکن خود ساختہ تہذیب اور ثقافت نے ان فطری تقاضوں کی تسکین کی راہ میں ایسی پابندیاں لگا رکھی ہیں کہ انسان کو حیوان سے بدتر اور محروم کردیا ہے۔ یاد رکھیے کہ یورپ نے فطری تقاضوں کی راہ سے جو پابندیاں اٹھائی ہیں، ان کی مادی ترقی کا اس سے گہرا تعلق ہے۔ فطری تقاضوں کو دبائے رکھنے والی قوم ذہنی مریض ہوتی ہے، اور ذہنی مریض معاشی اور سائنسی ترقی میں کمال حاصل نہیں کرسکتے۔ مکمل انسان بننے کے لیے سوسائٹی کو کھلا رکھنا اور انسان کو اس بات کی آزادی دینا بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے فطری تقاضے اپنی مرضی اور خوشی کے مطابق پورا کرسکے۔ تبھی وہ ذہنی اور جسمانی تناؤ سے آزاد ہو کر تخلیقی کام کرسکے گا۔ سوسائٹی کے اندر ڈسپلن قائم کرنا اور چیز ہے، جسمانی مطالبوں کی فطری تسکین نہ ہونے دینا اور بات ہے۔ فطری تقاضوں کے ساتھ گناہ، عریانی اور بے حیائی کا تصور، سب غیر سائنسی باتیں ہیں اور انسان پر بہت بڑا ظلم ہیں۔

حسن کی تلاش نہ کرسکنا:

پس ماندہ معاشرے حسن کے دشمن ہوتے ہیں۔ یہاں خوبصورتی جُرم ہے۔ گلیمر سے انھیں تکلیف ہوتی ہے۔ حسن کی تلاش اور اس کا اظہار سب بُری باتیں ہیں۔ یہاں ہر خوبصورت جذبے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ حسن ایک وسیع المفہوم لفظ ہے۔ اس پر زیرِ نظر کتاب میں الگ سے مضمون موجود ہے۔ یہاں پر ہم مختصر اً یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ثقافتی لحاظ سے پس ماندہ قومیں غلاظت پسند ہوتی ہیں۔ نہ ان کا اندر خوبصورت ہوتا ہے نہ باہر۔ انکساری، پاکدامنی، خاکساری، اعتدال اور حیا کے نام پر اپنے کو بدصورت کرنا ان کا شیوہ ہوتا ہے۔ حسن کی جستجو ہی انسان کو تخلیق پر مجبور کرتی ہے، جو کسی ایک حالت پر مطمئن نہیں ہونے دیتی، بلند سے بلند تر خوبصورتی کا تقاضا کرتی ہے۔ جب کہ پس ماندہ قومیں صدیوں سے ایک ہی حالت میں پڑی رہتی ہیں اور انھیں کچھ خبر نہیں ہوتی کہ زمانہ کہاں جا چکا ہے۔ یہ لوگ مسائل کا حل مزید تاریکی میں تلاش کرتے ہیں۔ انھیں پہلے سے زیادہ گندگی کی طرف جانے کی خواہش ہوتی ہے۔ ان کا فلسفۂ حیات انھیں زندگی سے دشمنی سکھلاتا ہے۔ انھیں بتایا جاتا ہے کہ یہ زندگی عارضی ہے، امتحان ہے، کسی اولین گناہ کی سزا ہے۔ اصل زندگی موت کے بعد ہے جو تمام ریڈی میڈ عیاشیوں اور آسائشات سے پُر ہے۔ لہٰذا ہر وہ چیز جو زندگی کی طرف لے جائے اور زندگی کو اور خوبصورت کردے وہ انھیں بُری لگتی ہے۔

سائنسی روّیہ نہ اپنا سکنا:

یہ دنیا مادی دنیا ہے جو طبعی اصولوں، قاعدوں اور قوانین کے مطابق چل رہی ہے، اور تمام مظاہر کی تخلیق انھی کے باہمی عمل واشتراک کا نتیجہ ہے

جن کو صرف عقل اور تجربے سے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ لیکن ثقافتی پسماندگی ہمیں عقل دشمن بناتی ہے، یہاں عقل کا استعمال جُرم ہوتا ہے۔ اس سوسائٹی کا سنہرا اصول یہ ہوتا ہے کہ سنی سنائی باتوں پر بغیر سوچے سمجھے ایمان لیتے آئیے، اور پھر انھیں دنیا کی آخری حقیقت قرار دے کر دہراتے جائیے۔ کسی کوجرأت نہ ہونے دیجیے کہ وہ ان کی تردید کر سکے، اور جو ایسا کرے، اسے مذہب کا باغی اور وطن دشمن قرار دے کر ٹھکانے لگا دیجئے۔ چنانچہ پس ماندگی ہمارا مقدر بن گئی ہے، ہم ترقی یافتہ قوموں سے بہت دور رہ گئے ہیں۔ جن لوگوں نے سائنسی رویے اپنا کر زندگی کے تمام فیصلے کیے ہیں، زندگی کی راہیں ان کے لیے قابلِ رشک ہوگئی ہیں۔ اور ہم لوگ، جو عقل سے عاری اور ایمان سے لبریز ہیں، محتاجی اور ذلت کی زندگی گزاررہے ہیں۔ کوئی فرد اپنے نجی فیصلے عقل اور سائنسی روّیے سے کرتا نظر نہیں آتا، چنانچہ اس کے مسائل پہلے سے دو چند ہوتے چلے جاتے ہیں، اور یہی حال ساری سوسائٹی،قوم اور ملک کا ہے۔ سب جذبات اور حماقت سے فیصلے کرتے نظر آئیں گے۔ نجات ان کا مقدر کیوں کر ہو سکتی ہے؟

نئے نظریات نہ اپنا سکنا:

ثقافتی پسماندگی لوگوں کو ضدی اور جذباتی بنانے میں مدد کرتی ہے۔ یہ نئے نظریات کو اپنانے سے ہچکچاتے ہیں۔ سارا معاشرہ قدیم، متروک اور کہنہ خیالات کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جس سے نئے خیالات کو اپنا نے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ وقت اور حالات کے نئے تقاضے ہوتے ہیں، لیکن یہ ان کا ساتھ نہیں دے پاتے۔چنانچہ ان کے سب فیصلوں کے نتائج ان کی اپنی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن یہ نہ سیکھتے ہیں اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آگے دیکھنے اور آگے جانے کی بجائے اور پیچھے کو جائیں گے۔ متروک کو مقدس اور نئی کو بدعت سمجھتے ہیں، لہٰذا وقت انھیں پیچھے پھینکتا چلا جاتا ہے۔

تہواروں کا نہ ہونا:

ثقافتی پابندیوں اور سخت اخلاقی کنٹرول ہونے کی وجہ سے قوم کی سماجی زندگی بوریت اور یکسانیت کا شکار ہو جاتی ہے۔ انسانی تہذیب کا خاصہ رہا ہے کہ عوامی سطح پر لوگ سال میں کچھ دن کسی نہ کسی بہانے خوشیوں کے میلے لگاتے ہیں، مل کر ناچتے ہیں، گاتے ہیں، کھیلتے ہیں، بھیس بدلتے ہیں، تاکہ سارے سال کی محنت مشقت اور ذہنی تناؤ کے بعد ایک یا چند دن ایسے گزارے جائیں جو صرف اپنی خوشی، مستی اور تفریح کے لیے ہوں۔ یہ وہ دن ہوتے ہیں جب قومیں روٹین کے ساجی ضوابط نرم کردیتی ہیں۔ لیکن ہمارا حال اس سے بر عکس ہے۔ ہمارے ہاں کسی کارنیوال (carnival) کا کوئی تصور نہیں۔ سخت سماجی کو ڈ کی وجہ سے خوشی کے نام نہاد تہوار عام دنوں سے زیادہ بوریت کا سبب ہوتے ہیں۔ مجبور کیا جاتاہے کہ خوشی غیر متحرک اور مجہول بن کر منائی جائے۔ مسرت و انبساط کا بے ساختہ (spontaneous) اور فزیکل اظہار ممنوع ہے۔ تہواروں پر بھی انھی ضابطوں کے اندر رکھا جاتا ہے جن میں سال بھر رہ رہے ہوتے ہیں۔ خوشیوں پر پابندیوں کی وجہ سے یہ قوم ذہنی مریض بن جاتی ہے۔ ایسی قوموں میں بنیاد پرستی اور جہادی تحریکیں فروغ پاتی ہیں جو امن کی دشمن ہوتی ہیں اور جن کے لیے اس دنیا کو تہہِ تیغ کرکے مالِ غنیمت سمیٹنا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔

فنونِ لطیفہ کا محدودرہ جانا:

ثقافتی پابندیاں وہی قوم لگاتی ہے جس کی حسِ لطافت مرچکی ہوتی ہے اور جس کی نگاہ میں حسن کی بجائے خون اترا ہوتا ہے۔ ہم موت پسند قوم ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تا تو ہمارے شہروں کی گزرگاہوں کو مزائلوں، توپوں اور ٹینکوں کے نمونوں سے نہ سجایا جاتا۔ ہمیں تباہی کی ان علامتوں سے اس قدر محبت نہ ہوتی۔ یورپی شہروں کی طرح ہمارے شہر بھی خوبصورت مجسموں اور عمارتیں مصوری کے شاہکار نمونوں سے مزین ہوتیں۔

ہمارے ہاں فنونِ لطیفہ کو یا تو بُت پرستی کا نام دے کر مٹایا گیا یا پھر اسے فحاشی اور لہو و لعب قرار دیا گیا۔ حالانکہ فنونِ لطیفہ کے بغیر انسان انسان نہیں۔ انسان ماحول کو حسین تر کرنے والی مخلوق ہے۔ جتنا ماحول حسین ہوتا ہے انسان کی اندرونی نظر اسے اور زیادہ خوبصورت بنانے کے خواب دیکھتی اور تصور بناتی ہے۔ فنونِ لطیفہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسان محض گوشت پوست کا پُتلا نہیں، وہ مادے کی نہایت اعلیٰ تخلیقی اور لطیف ترین خصوصیات کاحامل ہے۔ رقص، موسیقی، شعروادب، مصوری، مجسمہ سازی اور فلم سازی سب رُوبہ زوال اور سخت کو ڈ کے اندر جاں بلب ہیں۔ ہمارے ہاں جہالت اور تاریکی کو کُھلی چھوٹ ہے۔ اس پر کوئی سنسر نہیں۔معاشرے کو بدنما اور تباہ کرنا کوئی مسئلہ نہیں۔ ہم وہ قوم ہیں جسے جنگ سے کوئی نفرت نہیں۔ دشمن کو مٹانے کے لیے جنگ کی خواہش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی اور اس کی خوبصورتیوں سے ہماری محبت مٹ چکی ہے۔

About ارشد محمود 14 Articles
asif