(حنا جمشید)
کسی بھی سماج کو اس کے بنیادی مسائل کی تکرار سے پست ، حقیراور کم تر قرار دینا نہایت آسان امر ہے۔ جبکہ ان مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کے لئے مثبت تجاویز و اقدامات پیش کرنا اتنا ہی دشوار شمار کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی سماج اپنے بنیادی مسائل کے حل کے لئے اپنی افرادی قوت کا محتاج ہوتا ہے۔ یہ فرد ہی ہے جو اپنی سماجی ذمہ داری کے بل بوتے پران بنیادی مسائل کا نہ صرف تعین کر تا ہے بلکہ اپنے سماج کومسائل کی ان عفریتوں سے نجات دلانے میں بھی اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کر تا ہے۔
ہمارے سماج کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟یہاں کچھ بھی کہنے سے قبل اگر ہم چند بنیادی سوالوں کو سامنے رکھیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ پہلا سوال یہ کہ کسی بھی سماج کے بنیادی مسائل میں سے کسی ایک کو بنیادی مسئلہ کہنا کہاں تک درست ہے؟میری ناقص رائے کے مطابق ہمارے معاشرے میں کوئی ایک بنیادی مسئلہ ہے ہی نہیں ۔ یہاں تو مسائل کے اہرام کھڑے ہیں۔ سبھی مسائل پر بنیادی و اساسی ہونے کا سابقہ لگا دیں تو وہی ہمارا بنیادی مسئلہ بن جاتا ہے۔
غربت،بھوک،جہالت، تعلیمی پسماندگی، فکری انحطاط، قدامت پرستی، عدم تحفظ اور زندگی کے دوہرے معیارات سے اگر مسائل کو شروع کیا جائے تو بات دہشت گردی ، فرقہ واریت، عدم برداشت، انتہا پسندی، تشدد، کرپشن، نا انصافی، لوٹ مار، قتل و غارت، انسانی حقوق کی پامالی یہاں تک کہ خود کش بم دھماکوں تک جا پہنچتی ہے۔ ایسے میں ان میں سے کوئی بھی مسئلہ اگر ہمارا بنیادی مسئلہ نہ کہلائے تو یہ بات بذاتِ خود ایک مسئلہ شمارہوگی۔
لیکن ذرا غور کریں تو یہ بات خاطر خواہ عیاں ہوتی ہے کہ ہمارے تمام مسائل ایک دوسرے سے باہم پیوست ہیں۔ یہی نہیں بلکہ مختلف مسائل ایک دوسرے سے تصادم کے نتیجے میں نئے مسائل کو جنم دیتے ہیں۔ کئی مسائل ایسے بھی ہیں جن کی طرف توجہ نہ ہونے کے سبب و ہ ہمارے سماج کا ناسور بن چکے ہیں۔ مثلاََتیزی سے بڑھتی ہوئی غربت اورزمین و آسمان کو چھوتے طبقاتی تفاوت نے بھوک، تعلیمی پسماندگی، بے روزگاری ، تشدد، مہنگائی، افراطِ زراور جرائم کی شرح کو کہاں سے کہاں لے جا کر کھڑا کر دیا ہے۔ اسی طرح سے ریاستی حصار میں چلنے والے مختلف تعلیمی نظاموں کے تحت منجمد ہوئے فکری جمود ہماری اخلاقی و تہذیبی پستی کے ساتھ ساتھ زوال پذیر معاشرتی اقدار کی بھی دھول اڑاتے ہیں۔ یوں یہ طے کر لینا ہمارے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ان بنیادی مسائل کو ڈھونڈا جائے جو اپنی بڑھوتری اور افزائش کے عمل سے ہمارے سماج کونت نئے مسائل کے ثمرات سے نوازتے چلے جارہے ہیں۔
بنیادی مسائل کے تعین کے ساتھ ہی ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ جو مسئلہ کسی ایک شخص کے لئے بنیادی و اساسی ہے تو کیا وہی مسئلہ کسی دوسرے شخص کے لئے بھی ویسا ہی اہم قرار پائے گا؟ اگر نہیں تو پھر ہمیں اس کی وجوہات کو تلاشنا ہوگا۔ اس بات سے چنداں انکار ممکن نہیں کہ ایک شخص جن مسائل سے گزر رہا ہوتا ہے وہ انہی کو ہی بنیادی و اساسی مسائل خیال کرتا ہے۔ جبکہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حسی و بیگانگی کے سبب کئی لو گ سنگین مسائل کے ساتھ بھی اغماض برتتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہم آگ کو آگ جب کہتے ہیں جب اس کے شعلے ہمارے آشیانے کو چھونا شروع کر دیتے ہیں وگرنہ اس منظر نامے میں ہماری حیثیت محض ایک تماشبین کی سی ہوتی ہے۔ یہاں ضرورت اس فکری بصیرت و دیانت کی ہے جس میں ہمیں دوسروں کے مسائل بھی مسائل نظر آئیں۔اس کے لئے ہمیں انفرادی نہیں اجتماعی سطح پہ اپنے بنیادی مسائل کا تعین کرنا ہو گا۔
بنیادی مسائل کی تشخیص و تعین کے ساتھ ہی ہمیں ایک اور اہم مرحلہ درپیش ہوگا جس میں ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہو گاکہ وہ کون سے عوامل ہیں جو ان مسائل کی افزائش ا ور بڑھوتری کے عمل میں ممد و معاون ہیں۔ جن کے سبب یہ مسائل انتہائی سنگین صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ جیسا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ عہد میں میڈیا بھی بطور آلہ استعمال ہوتا ہے جسے طاقتور طبقہ سماج میں مسائل پیدا کرنے اور انھیں مزید پھیلانے یا بسا اوقات مزید بگاڑنے کا کام بھی لیتا ہے۔ اسی طرح سماج کے سطحی دانشورحضرات اور مذہبی فرقہ پرست جماعتیں مسائل کی تخلیق ، ترسیل وترویج میں اپنا فعال کردار ادا کرتی ہیں۔ اس ضمن میں ملکی سطح پہ موجودسیاسی عناصر کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا نیزسماج پر اثرانداز ہونے والی بیرونی طاقتیں بھی اس سے ہر گز مستثنٰی نہیں جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطردوسرے ممالک میں مسائل کے مینار تعمیر کرتی ہیں اور پھر ان کے حل کے لئے اپنی خدمات ایک احسان کی صورت ان کی گردن میں ڈال کر ملکی معاملات میں دخل اندازی کا بہانہ ڈھونڈتی ہیں۔ ملک میں تیزی سے فروغ پاتا کارپوریٹ کلچر اس بات کا واضح ثبوت ہے۔
یہاں ایک آخری سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی بھی سماج کے بنیادی مسائل کی محض نشاندہی سے ہم اس کے معاشرتی زوال پر قابو پا سکتے ہیں؟ یقیناََ نہیں اس کی وجہ یہ ہوگی کہ ہمیں ان بنیادی مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان اصلاحات اور تجاویز کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہو گا جو کسی بھی سماج کوترقی سے ہم کنار کرنے کے لئے ضروری خیال کی جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے لئے ایک با ضابطہ اور مکمل لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔ ہمیں انفرادی و اجتماعی سطح پہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے ہمیں چاہئے کہ اجتماعی سطح پہ فکرو آگہی کے ایسے اقدامات کو فروغ دیں جن سے ہمارا سماج ان بنیادی مسائل سے نکل کر ادراک و شعور کی نئی منزلوں کا متحمل ہو سکے۔