ہمارے سماج کا بنیادی مسئلہ : تعلیمی فقدان اور اس کی ذیلیات

نعیم بیگ

بادی النظر میں یہ عنوان جتنا آسان اور سہل نظر آتا ہے میرا خیال ہے کہ جب ہم اس مباحث میں تفصیلاً داخل ہونگے تو ہمیں کئی ایک بنیادی پیچیدگیاں بھی نظر آئیں گی۔ جنہیں ہم اپنے مکالمے میں سلجھاتے جائیں گے ۔ تاہم ہمیں اس تھیسس یا دعویٰ کی زیریں سطح پر جانے سے پہلے اس کی بالائی سطح کو بھی باریک بینی سے جانچنا ہوگا۔

لیکن اس سب سے پہلے تو دیکھنا یہ ہے کہ سماج ہے کیا؟ وہ کس طرح سے اپنے ارتقائی اور تخلیقی مراحل سے گزر کر اپنی مسلمہ حیثیت کو اپنانے میں کامیاب ہوا ہے جہاں اسے کسی بھی قوم کا سماج یا معاشرہ کہا جا سکے۔ اس کا احاطہ کرتے ہوئے ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ جب ہم کسی معاشرے کی حدود کا تعین کر تے ہیں تب اس اصطلاح اور اس سے منسلک اجزا ء و عناصر پر بھی بات کرتے ہیں اور ان معروضی پہلوؤں بھی کو دائرہ گفتگو میں لایا جا تا ہے جس سے سماج کے ان مسائل کو پرکھا جا سکے جو فوری ضرورت یا دیرپا حل کے تناظر میں دیکھے جاتے ہیں۔

بیسویں صدی کے وسط میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کی صورتِ حال اور بعد ازاں نو آبادیت کے خاتمہ کا اعلان جہاں عالمی امپیریلسٹ کو یک و تنہا کرتا ہے وہیں برآعظموں میں جغرافیائی تقسیم نئی ریاستوں اور ان کے معاشروں کو جنم دیتی ہے۔ ایک طرف امریکہ میں لاطینی ریاستوں کا قیام ، دوسری جنگِ عظیم کے بعد مشرقی و مغربی یورپ کا بٹوارہ اور اس میں نئی ریاستوں کا قیام، برلن کی تقسیم وغیرہ اپنے جغرافیائی تقسیم کے ساتھ اپنے الگ نظریاتی وجود اور تشخص کا احساس دینے لگتے ہیں تو دوسری طرف مکمل آزادی اور نوآبادیت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ عالمی منظر پر افریقہ اور ایشیا میں دنیا نے نئے ملک جنم لیتے ہوئے دیکھے ، جہاں نئے معاشروں نے اپنے قیام کے قانونی اور اخلاقی جواز کے پیشِ نظر اپنی تاریخی ، لسانی و ثقافتی روایات کو ساتھ لے کر اپنی آزادی کے نئے آغاز کی شروعات کیں۔ اب وہ کس حد تک اپنے انٹرنل مسائل اور ایکسٹرنل مداخلت سے اپنے آپ کو بچا سکے ہیں یہ پہلو اس وقت ہماری گفتگو کا محور نہیں ہیں لیکن جب ہم اپنے معاشرے کی بات کریں گے تو ان تمام جزیات کو مدِ نظر رکھنا ہوگا ۔ تاکہ آج کے سماجی مسائل کو علمی و فکری طور پر سمجھا جا سکے۔

تاریخی طور پر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ بیسویں صدی کی پانچویں دھائی میں دو ممالک پاکستان اور اسرائیل کا جنم لینا ان کی نظریاتی اور مذہبی بنیادوں پر تجسیم ہے۔ بظاہر یہ دعوی اپنے اندر ایک مکمل فلاسفی رکھتا ہے اور ان ملکوں کے قیام کی وجوہات میں اس تھیسس کو جلاِ بھی بخشتا ہے کیونکہ عوامی سطح پر ہر دو ریاستوں میں مذہبی بنیاد کو ہی مقامی ووٹر اور عالمی منظر نامے کے تخلیق کاروں کے سامنے لایا گیا تاکہ اسے خصوصی عالمی مقبولیت سے نوازا جائے لیکن حقیقی طور پر ان ممالک کے قیام کے مقاصد اور بعد ازاں ہونے والے تاریخی عوامل اور حالات و واقعات کی روشنی میں انہیں حقیقت نفس الامری کے مصداق مقبولیت کا وہ مطلوب رتبہ نا مل سکا ،بلکہ بعض نظریاتی و واقعاتی مناظر میں انہیں یکسر مسترد بھی کر دیا گیا۔ تاہم اس سلسلے میں دونوں طرف کے دلائل ہیں لیکن یہاں موقع نہیں کہ ہم اس پر گفتگو کریں۔

تاہم راقم کی رائے میں ان دو نئے معاشروں (برصغیر ہند میں پاکستان اور مشرقِ وسطی میں اسرائیل ) کا قیام ، قطع نظر اس کے کہ ان کی آزادی میں مقامی سیاسی ، جانی و مالی اور نظریاتی قربانیوں کی ایک طویل داستان موجود ہے، دراصل مذہبی عقائد کی آڑ میں ایسی ریاستوں کا قیام مقصود تھا جہاں استعماریت اپنے بورژوائی مقاصد کو درونِ خانہ اپنے طور پر بروئے کار لا سکتی ہو۔ بظاہر ان ریاستوں کو ان کی فطری آزادی بشمول اسکے اعلیٰ و ارفع مقاصد کے حصول کی خاطر نئے وجود سے آشنا کیا گیا تھا جبکہ درحقیقت انہیں سرمایہ دارانہ ذہنیت کے جبر کی زنجیر میں پرو دیا گیا۔ جسے آج ہم صارفیت اور مارکیٹ اکانومی کی صورت میں روبہ عمل اور ترقی یافتہ دیکھتے ہیں۔

میں اپنے تیٗں یہ سمجھتا ہوں کہ اسرائیل کی حد تو وہ ایک خاص مقصد کے حصول میں کامیاب رہے، کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں مارکیٹ اکانومی اور صارفیت کے فلسفہِ حیات میں ان کا کردار آجر کا تھا۔ تاہم ایشیا میں ابھرنے والی نئی ریاست جسے پاکستان کہا گیا ۔ گو یہاں بھی تاریخی طور پر متحدہ ہندوستان کی بات کہی جا رہی تھی اور اس پر کسی حد تک ہمارے مسلم لیگی لیڈرز بھی اپنی آمادگی دکھاتے رہے لیکن برِ صغیر میں ہندو سیاسی پنڈتوں کے زیر اہتمام ہندو ازم کے اٹھتے ہوئے بے جا طوفان کو ہماری لیڈر شپ اور ملک کو آزادی بخشنے والے امپیرئیلسٹ اربابِ اختیار دیکھ چکے تھے، چونکہ سلطنتِ برطانیہ کو خود اپنی اکانومی کو جنگِ عظیم دوئم کے بعد قدموں پر کھڑا کرنا ایک چیلنج تھا۔ لہذا انہوں نے کیبنٹ مشن کے فیل ہوتے ہی ایک علیحدہ ریاست کو وجود میں لانے کا فوری فیصلہ کر لیا ۔ یوں ریاست کا قیام تو وجود میں آ گیا لیکن اس سے منسلک بہت سے مسائل وراثت میں نومولود کی جھولی میں ڈال دیئے گئے۔

اس ضمن میں آزادی اور بعد از تقسیم بھارت کو صرف ایک بڑے سماج کی پرورش کا مسئلہ درپیش تھا ، عقائد کی بنیاد پر مبنی ہندو تحریک وہاں بھی عروج پر تھی لیکن ان کی لیڈرشپ نے’’ مبینہ طور ‘‘ پر( ایک مخصوص پیرائے میں ) سیکولرازم کا سہارا لیکر اپنی معاشی حالت کو پنپنے دیا اور ساتھ ہی اس نے سماجی ارتقا اور معاشرتی بڑھوتری کو پہلے وار میں ہی جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کر کے ایک سمت دے دی۔ انہیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ انہیں گھربیٹھے سکون سے آزاد ی مل گئی ہے لہذا انہوں نے اپنے معاشرے کی زمین میں اس فخر کو ایک پنیری کی طرح بو دیا

ہمیں پہلے دن سے ہی اپنی جغرافیائی حدود کے تنازعے ، اس میں شامل ہونے والی طے شدہ ریاستوں میں ہندو جبر ، نئے معاشرہ کی تشکیل ، اعلیحدہ سماجی وراثت کا انتقال ، معاشی بدحالی ، ہجرت کا غم ، ماس لیول پر مہاجروں کی زبوں حالی اور اسکے نفسیاتی اثرات اور مغرب و مشرق میں دو حصوں پر مشتمل ومنقسم ریاست میں لسانی مسائل سے دوچار ہونا پڑ گیا۔ ہم بدقسمتی سے اپنے ابتدائی دنوں میں لیڈروں سے محروم ہونے اور آ ئین کے نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی و سماجی ارتکازِ عمل کے بحران ، ملٹیپل عقائد ، فقہی و لسانی تقسیم کا شکار ہو گئے۔

یہی وہ بڑے چیلنجز تھے جن سے اُس عہد کی لیڈر شپ (کسی حد تک گوارا) کو واسطہ پڑا۔ بدقسمتی یہ رہی کہ پاکستان بننے کے بعد کا اولین دور سیاسی ابتری کا دور رہا ۔ سیاسی لیڈر شپ منقسم رہی اور آئین سازی کا کام ہو نہ سکا ۔ جس کی وجہ سے معاشرتی اٹھان اور اسکے سٹرٹیجک و اخلاقی و عمرانی جوہر کی طرف کوئی توجہ ہی نہ دے سکا۔ ایسے میں بجائے اس کے کہ سیاسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے معاشرے کے عمرانی اصول وضع کئے جاتے آئین بن جانے کے بعد اداروں کو مضبوط بنایا جاتا، اقتدارکی اندرونی جنگ میں معاشی بدحالی کے پیشِ نظر ہم نے ایسے فیصلے کئے جو پے در پے قومی اجتماعی مزاج پر بار ثابت ہوئے۔ ایسے میں مشرقی پاکستان میں سیاسی سازشوں کے الزامات سامنے آنے لگے ۔ یہی وہ پسِ منظر تھا جس کی وجہ سے ہم بجائے معروف جمہوری طریقے اور عمرانی اصولوں پر مبنی سماجی تشکیل کرتے ہم خود رو معاشرتی و سماجی و مذہبی بگاڑ کی طرف نکل پڑے۔

اتفاق یہ ہوا کہ ابھی ہم ۶۵ کی جنگ کے اثرات سے ہی نہیں نکلے تھے کہ ایک اور سیاسی غلغلہ مچا اور مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔ بعد ازاں نئے پاکستان کی آئینی حدود تو متعین ہو گئیں لیکن مسائل وہی رہے اور پھرسرد جنگ کے بعد یو ایس ایس آر افغانستان میں اتر آیا ۔ ان حالات میں ملکی سطح پر ظلم و جبر اور انتہاپسندی کا پہلے سے رائج استبدادی رویہ مزید توانا ہوگیا ۔ جس کے منفی اور دیرپا اثرات نے پہلے سے منقسم سماج میں عوامی سطح پر اپنی جڑیں مزید مضبوط کر لیں۔ ان دگرگوں حالات میں تیزی کے ساتھ بدلتے سماج میں معاشی خود غرضی، منافقت اورایسی پیچیدہ اجتماعی نفسیات نے جنم لینا شروع کیا، جس کے نتیجے میں غیر ملکیوں کی درآمد ، اسلحہ کے انبار ، ہیروئن و دیگر ڈرگز کا کاروبار اور استعمال سماج کے نئے کلچر کے طور پر نظر آنے لگا ۔ جس نسل نے مشترکہ ہندوستان میں ثقافتی طور پر ملٹی لنگوئل اور ملٹی کلچر سماج میں متوازن رہنا سیکھ لیا تھا وہ نسل فال آف ڈھاکہ تک ختم ہو چکی تھی ابھرنے والی نئی نسل کے لئے تو نصاب تک بدل چکے تھے۔ تاریخ کو سرے سے تعلیم سے نکال دیا گیا اور مسخ کرکے معاشرتی علوم کے نام نئی نسل کے بگاڑ کا سبب بنی۔  مملکت اور ریاست کی کمزوری کو اساطیری داستانوں سے کشید کر کے جھوٹ کی بنیاد پرایسے ادب کو تخلیق کیا گیا جہاں خطے کی پر امن تہذیبی و ثقافتی روایات کے برعکس تلوار بردار ہیرو ورشپ تھا۔

اسی سیاہ دور میں گیارہ برس تک معاشرتی علوم کے نام سے بنیادی جغرافیہ اور شہریت شامل کر دی گئی۔ کالجز میں البتہ مطالعہ پاکستان کا مضمون بعد میں رائج ہوا۔ اس بنیادی تعلیمی نصاب کے تبدیل ہونے سے طلبہ کی فکری روش ابتدائی دور ہی میں جھوٹ کی بنیادوں پر استوار کر دی گئی ۔ اس کے ساتھ ہی فرقہ وارانہ مذہبی عقائد اور انتہا پسندی کو ریاستی سطح پر اس قدر قوت بخش دی اور حاصل کر دہ طاغوتی قوتوں کے اثر میں ہم نے طارمِ اعلیٰ کو نہ صرف چھو لینے کا اہتمام کر لیا بلکہ ہم نے اپنے تخلیق کردہ خداؤں کی شبیہ تک طشت از بام کردی۔ ہم نے مخلوق ہوتے ہوئے اپنے خالق کو بیچ دیا اور اس سے کئی ایک نئے خدا خرید کر اپنی اپنی چاندنی بچھائے سِکوں کی بارش کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ منافقت کے بازار سرگرم کر دیے۔ سستے داموں کی آڑ میں جھوٹ سے لبریز تھیلے بانٹے جانے لگے ۔ بوجہ سنسر شپ اور ریاستی جبر و استبداد، کوڑوں کی سزا ، صحافیوں کو جیلیں ، بڑے دانشور طبقے کا ملکی انخلاء ، یہیں سے نئے تخلیق کردہ نظریہ پاکستان کی رو سے شعر و ادب او ر میڈیا پروپیگنڈا کے نام پر کمزور اور پلپلاتی تحاریر ہمارا خاصہ بنیں اور منقسم فقہی عقیدوں کے کوئلوں پر بھُنی ہوئی لاشیں ہمارا کاروبار بنیں۔ اور ہم نے طے کر دیا کہ اب کوئی بھی مر سکتا ہے۔

لیکن اس سارے عرصے میں خوش قسمتی سے انفرادی سطح پر مزاحمت کی شمعیں بہر طور جلتی رہیں، ایک بڑی اکثریت ان کہی مزاحمت کا علم بلند کئے سماج کی متوازن، غیر جانبدار ، سچ پر مبنی بنت میں مصروف رہا جس کے اثرات تلے ایک نئی نسل جوان ہو گئی۔ یوں قیاس و امکان سے گمان اور پھر گمان سے یقین تک کا سفر جاری رہا اور پھر بنیادی مسائل کی نشاندہی ہو گئی جس پر ریاستی سطح پر سوچی سمجھی سکیم کے تحت چشم پوشی کی گئی اور اسکی وجہ صرف صرف وہی وجوہات ہیں جن پر راقم اس مضمون کے اولین حصہ میں روشنی ڈال چکا ہے۔

ذیل میں درج ان تین بڑے مسائل کو اپنی گفتگو کے دائرے میں لاتے ہیں تاکہ طے ہو سکے کہ حقیقت میں یہ ایک ہی مسئلہ ہے جو اپنے وسیع اور ڈائیورسیفایڈ پھیلاؤ کی وجہ سے اپنے جوہر میں تقسیم ہو کر تین بڑے مسائل میں تبدیل چکا ہے۔ جس نے فی الوقت سماج کے پورے ڈھانچے کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے تاکہ پاکستانی سماج حقیقی طور پر عالمی سطح پر غیرفعال اور اُسی ایجنڈے کی اکائی بن کر رہے جو اس ریاست کے قیام پر عالمی سطح پر طے کیا گیا تھا۔
۱۔ ریاستی سطح پر تعلیمی نظام کا دیدہ دانستہ انہدام، جس نے گزشتہ چالیس برسوں میں مذہبی،نظریاتی اور معاشی کلاس سسٹم کی بنیادیں نہ صرف مہیا بلکہ مستحکم کر دیں۔ ریاستی سطح پر اس کلاس سسٹم کو دو متوازی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ وسائل کا ایک بڑا حصہ با احسن و اسلوبی اشرافیہ کے اس مختصر ٹکڑے کے لئے مختص کر دیا گیا اور باقی ماندہ حصے کو پورے ملک کے عوام الناس کے لئے ۔ راقم اپنے دعویٰ کی سچائی کے لئے گزشتہ ستر برسوں کی تاریخی اور شرمناک اعداد و شمار سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف ۱۶۔۲۰۱۷ کے شماریات کا ایک مختصر نمونہ پیش کر دیتا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے اس بار فیڈرل بجٹ میں صرف ۵.۷۹ ارب روپیہ مختص کیا گیا ہے جو پورے بجٹ کا ۲.۲ فیصد ہے۔ ہمارے پڑوسی ملکوں کے بجٹ کے اعداد بھی دیکھ لیجیئے ۔ انڈیا ۸.۳ فیصد ، افغانستان ۶.۴ فیصد ، ایران ۱.۳ فیصد اور مالدیپ ۱۲.۵ فیصد ۔ گوصوبائی حکومتیں اپنا الگ بجٹ بھی مختص کرتی ہیں لیکن یہ کہہ دینا کافی ہے کہ ان بجٹس میں ایک بڑا حصہ صرف تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے وہ بھی گھوسٹ ملازمین پر۔۔۔ یہ سبھی جانتے ہیں، ان اعداد کا اگر میں دیگر اداروں کے بجٹ سے تقابلی جائزہ لوں تو حیران کن نتائج سامنے آئیں گے ۔ تاہم فی الوقت یہ عرض کرونگا کہ ریاستی تعلیمی دلچسپی کا اندازہ آپ ان اعداد سے لگا سکتے ہیں۔ جس ریاست میں ملک کے مجموعی تقریباً تین کروڑ بچوں کو ابتدائی تعلیم سے باہر رکھا جائے وہاں معاشرہ کن راہوں پر چلے گا ۔ یہ سوچنے کا مقام ہے۔

۲۔ ریاستی سطح پر تیزی سے بڑھتی ہوئی ملکی آبادی سے اغماض برتا گیا، جس کے نتیجے میں نیشنل جی۔ڈی۔پی کی شرح گزشتہ پچاس برسوں میں کسی صورت مثبت نہ رہی ( کسی ایک آدھ برس کا استثنا بہرحال موجود ہے ) ۔ یہ اکانومکس کا بنیادی اصول ہے کہ میسر وسائل کی تقسیم افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد میں کم ہوتی جائے گی۔چنانچہ آبادی کا طوفان اپنے تمامتر تباہیوں اور حشر سامانی کے ساتھ ملک میں ہوتی ہوئی ہر ترقی کو معکوس کر رہا ہے، جس کے منفی اثرات پورے سماج پر نمایاں نظر آ رہے ہیں۔ حکومتی سطح پربے روزگاری گزشتہ برسوں میں کہیں آٹھ فیصد تھی جس پر یہ کہا جا رہا ہے کہ اب سات فیصد ہو گئی ہے ۔۔۔ سات فیصد کا مطلب ایک کروڑ چالیس لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں ، اسکا مطلب یہ ہوا کہ اس قدر وسیع پیمانے پر وہ تمام گھرانے بدقسمتی کا شکار ہیں ۔۔۔ یہ وہ کم تر حکومتی اعداد و شمار ہیں جن پر اعتبار کرنا گو مشکل ہے جبکہ حقیقی طور پر یہ اعداد و شمار کہیں زیادہ ہیں، لیکن ہمیں اس پر اکتفاء کرنا ہوگا۔

طرہ یہ ہے کہ اس بے روزگاری میں ہر سال مزید ساٹھ سے ستر لاکھ ان پڑھ بچے جو لڑکپن کی حدود سے نکل کر نوجوانی میں شامل ہو رہے ہیں وہ بھی اس ’’کروڈ اور جاہل بے روزگار جھتے ‘‘ میں شامل ہو رہا ہے ۔ اگر دہشتگردی کے یہ اوپریٹر نہیں بنیں گے تو پھر کون بنے گا؟ اگر یہ ڈاکو چور یا کسی اور جرم میں شامل نہیں ہونگے تو پیٹ کیسے پالیں گے؟ کیا کسی حکومتی ادارے یا ریاستی تھنک ٹینک نے یہ سوچا ہے؟ میں عرض کر رہاہوں نا کہ اسی لئے مردم شماری نہیں کروائی جا رہی ہے حیلے بہانے سے بارہ برسوں سے تعطل کا شکار ہے۔ یہ وہ وجوہات ہیں جو بظاہر ہیں لیکن باطنی وجوہات یہ کہی جا سکتی ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں افرادی قوت بہرحال صارف ہوتی ہے ۔۔۔ صارفیت کے فلسفہ کو مہمیز دینے کے واسطے جتنا بڑا صارفی نِش موجود ہوگا ، وہی حقیقی کمائی ہے۔ ماضی میں انڈیا میں جب پے در پے’ مس ورلڈ‘ اور’ مس یونیورس‘ کے ایوارڈ بٹنے لگے تو عالمی مقتدر حلقوں سے یہ اعتراض آیا کہ کیا اب خوبصورتی صرف انڈیا میں پنپ رہی ہے؟ تو کہا گیا ان ایوارڈ یافتہ لڑکیوں کو جب کسی لپ اسٹکس کے اشتہار میں لایا جاتا ہے تو انڈیا میں ستر کروڑ عورتوں میں سے اگر تیس کروڑ عورتوں نے بھی ایک لپ اسٹک بعوض ۱۰۰ روپیہ خرید لی تو رقم اور منافع کا اندازہ خود کر لیجیئے ۔ یہ مثال اس لئے پیش کی کہ صارفیت کے فلسفے کی عملی وضاحت ہوسکے۔

چونکہ ہمارا اس وقت گفتگو کا محور آبادی کا بے تحاشا بڑھنا ہے۔ اگر اس عفریت کو نا روکا گیا تو آنے والے دنوں میں کس قیامت کے نامے ہمارے نام آئیں گے اسکا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں اور بہتر سماجی ارتقاء کو جو نقصان پہنچے گا وہ اپنی جگہ۔

۳۔ ان مندرجہ بالا دو بنیادی مسائل سے مسلسل اغماض برتنے کے لئے مستحکم سیاسی جمہوری نظام اور لیڈر شپ کو پنپنے نہ دیا گیا۔اگر آپ بغور ان تین نکات کی گہرائی میں جائیں تو بقیہ سارے مسائل انہی مسائل کے جوہر میں موجود ہیں جو ان دیکھے طور پر خود بخود جنم لے رہے ہیں اور پورے سماج کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر رہے ہیں ۔ ایسے ریاستی ڈھانچے کو جسے باامر مجبوری برداشت کیا گیا ہو اور اسکی پیدائش میں ایسے سقم رکھ دئیے گئے ہوں کہ کسی صورت سماجیت کا ارتقاء نہ ہو پائے اور ریاست اور اسکے عوام عالمی سرمایہ دارانہ مارکیٹ اکانومی میں صرف صارفیت کی حد تک میسر رہیں تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کس قدر بہیمانہ سلوک اس ملک و قوم کے ساتھ کیا گیا ہے جبکہ یہی صاحب اقتدار طبقہ اپنے وجودکی سالمیت کے اقتدار سے چپکا رہنے کو ہر قیمت پر ممکن رکھے۔

یہ حقیقت ہے کہ اہل ارباب و اقتدار یا وہ اشرافیہ جو اس وقت اور بیشتر وقت ملک پر قابض رہی ہے ان میں دیانتدارانہ قیادت عنقا ہے ۔۔۔ دیانتدارانہ قیادت ہی نہیں بلکہ سیاسی سوجھ بوجھ بھی ناپید ہے۔ ہمارے ہاں جیسا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں منافقت ، جھوٹ، بے ایمان عمل اور فہم کو یہاں سیاست کا نام سمجھ لیا گیا ہے۔’’ عوام کی خدمت ، عوام کے لئے ، عوام کے ذریعے ‘‘ کا جو مقولہ ابراہیم لنکن نے سیاست کے بارے میں دیا تھا اسے یہاں دفن کر دیا گیا ہے۔ جو لوگ ماضی میں دیہی آبادیوں میں ناظم یا کونسلر کے اہل تھے ، نالیاں اور کھمبوں کے نگران تھے، آج مقننہ کے ممبر کی حیثیت سے قانون بنانے میں مصروف ہیں۔ اگر ہم یہاں انکی تعلیمی قابلیت کا اندازہ کرنا چاہیں تو گریجوئیٹ کی شرط پر اکثر کی بے اے کی ڈگریاں جعلی نکل آئیں تھیں۔ سچ یہ ہے کہ یہ آج کے سیاست دانوں کی بات نہیں ۔ قائد آعظم کی وفات کے بعد اکثر محب الوطن سیاسی لیڈران لیڈر شپ کی کوالٹی سے محروم تھے ۔ ہاں اس وقت وہ لوگ کرپٹ نہیں ہوا کرتے تھے لیکن باقی سب بیماریاں موجود تھیں۔ قائد آعظم کا یہ قول کہ میری جیب میں سب کھوٹے سکے ہیں اور دوسرا قول کہ پاکستان میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا ہے کسی حد تک درست ہے اور اسکی ایک بڑی وجہ خود قائدآعظم کا مینوفیسٹو تھا جو امپیرئلزم کے نظریات پر مبنی تھا۔ انہوں نے ترقی پسند خیالات کی وجہ سے ابتدا میں کانگرس جائن کی تھی لیکن رفتہ رفتہ کچھ ہندوؤں کے برتاؤ ، گاندھی کے نامساعد گجراتی عمل اور کچھ نظریاتی عمل دخل کی وجہ سے انہوں نے بنگال کے مسلمانوں کی بنائی ہوئی جماعت مسل لیگ میں شمولیت کر لی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ راقم لیڈر شپ کے فقدان اور قحط کو اس وقت پاکستان کا بنیادی مسلہ سمجھتا ہے اگر ایسا ہو کہ کوئی ایماندار لیڈر سٹیٹسمین شپ کے ساتھ برآمد ہو جائے تو دل پر ہاتھ رکھ کر کہیئے کہ کیا پاکستان کے نوے فیصد مسائل حال نہیں ہو جائیں گے ۔ تعلیم کا فقدان اور سماجیت کاانحطاط خود بخود ختم نہ ہوگا جب حقیقی سیاسی عمل وقوع پذیر ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آرٹیکل کی تیاری میں مندرجہ ذیل عالمی میڈیا ، اخبارات و جرائد سے مدد لی گئی ہے۔
الف۔ بی۔بی۔سی یونائٹڈ کنگڈم
ب۔ روزنامہ جنگ لاہور، کراچی پاکستان
ج۔وال سٹریٹ جرنل ۔ نیویارک امریکہ
د۔ پروپاکستانی، آن لائن میگزین (بلاگ) آرٹیکل امین یوسفزئی ۔
ح۔آن لائن میگزین (بلاگ) ورلڈ و میٹر ، پاپولیشن آرٹیکل۔

 

 

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔