(توقیر ساجد کھرل)
سائبر کرائم ایکٹ کے بعد سوشل میڈیا پر اشرافیہ کی پابندیوں کے بعد اظہار آزادی کا حق تو چھین ہی لیا گیا ہے ساتھ ساتھ اب ایک صوبہ کے وزیر اعلیٰ نے ایک اجلاس طلب کیا اور یہ فیصلہ کیا ہے کہ سوشل میڈیا حکومتی کارکردگی کو غلط تاثر دینے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا ان کا یہ رد عمل اس وقت آیا ہے کہ جب صوبے کے دارلحکومت میں شدید ترین بارشوں کے بعد شہر نے دریا کی شکل اختیا رکر لی تھی ۔حکومت اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت ترقیاتی کاموں میں مگن ہے مگر عوام سیوریج کے نظام کی بہتری ،صحت کی بنیادی سہولتوں اور تعلیمی نظام میں تبدیلی کی خواہش مند ہے ،اس گھمبیر صورتحال میں اگر عوام اپنا بنیادی حق یعنی احتجاج کرتی ہے تو اس کا یہ حق بھی چھین لیا جاتا ہے یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں کر ہوتا ہے ؟آخر عوام نے ایسا رویہ کیوں اپنا یا لیا ہے ؟یا حکومت عوام کو آزادی اظہار کا حق کیوں نہیں دینا چاہتی ؟ ا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے ہمارے سماج میں آزاد خیالی کے نظریہ کو منفی معنوں میں استعمال کیا جانے لگا ہے آپ کسی بھی سیاست کی تصویر کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کریں ان میں90% افراد کا تاثر منفی ہوگا اگر چہ تصویر میں کوئی مثبت پیغام بھی ہوگا ایسا حکمرانوں کے آفیشل پیج پر بھی دیکھنے کو ملتا ہے یعنی ہمارے سماج میں آزادی خیالی کو قدامت پرست طبقے کی جانب سے اس اصلاح کو بطورِ طنز استعمال کیا جانے لگا مثلا اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے آزاد خیال انسان ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کی روایات سے منکر ہیں اور ان سے بغاوت کر کے حالات کے مطابق نئی روایات کی داغ بیل ڈالنا چاہتے ہیں۔دوسری جانب حکومتیں اگر سماج کی ضرورت کے برعکس اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنائے گی تو ردعمل لازمی ہوگا جس کوروکنا ممکن نہیں ہے ۔جان سٹیورٹ مل نے اپنی کتاب اون لبرٹی میں اس کو فلسفیانہ شکل دی ہے کہ سماج میں دو قسم کی آمریت ہوتی ہیں، ایک اوپر والی جس میں ریاست اس کے ادارے اور حکمراں طبقے پابندیاں عائد کر کے فرد کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھرنے نہیں دیتے ہیں، مثلا ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں کہ جو اہم شخصیتوں یا اداروں پر تنقید نہیں کرنے دیتے۔ دوسری جانب معاشرے میں اکثریت کی آمریت ہوتی ہے۔ جس میں اکثریت اپنے نظریات کے خلاف کسی تنقید کو برداشت نہیں کرتے ہیں اور آزادئ رائے کو خوف اور دہشت کے ذریعہ ختم دوسری جانب معاشرے میں اکثریت کی آمریت ہوتی ہے۔ جس میں اکثریت اپنے نظریات کے خلاف کسی تنقید کو برداشت نہیں کرتے ہیں اور آزادئ رائے کو خوف اور دہشت کے ذریعہ ختم کر دیتے ہیں۔ مل کا خیال تھا کہ جب تک فرد ان دونوں آمریتوں سے آزاد نہیں ہو گا اس وقت تک اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ وہ اس کا بھی حامی تھا کہ تعلیم کو ریاست سے آزاد کرایا جائے کیونکہ ریاست تعلیم کے ذریعہ نوجوان نسلوں پر اپنے خیالات مسلط کرتی ہے۔ وہ ایسا نصاب تیار کرتی ہے جو حکمراں طبقوں کے مفادات میں ہوتا ہے۔ یہ آنے والی نسلوں کو ذہنی طور پر مفلوج بنا دیتا ہے. ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق پا کستانی معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ اس میں اکثریتی آمریت ریاستی آمریت سے زیادہ طاقت ور ہے۔ ریاستی آمریت کا تعلق قوانین سے ہوتا ہے کہ جن کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے مگر اکثریتی آمریت کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے اس لئے جب وہ کسی تحریر یا تقریر کو اپنے خیالات کے منافی سمجھتی ہے تو خوف اور دہشت کا سہارا لے کر اسے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لئے اکثریتی آمریت معاشرے کے لئے زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہے کیونکہ یہ نہ تو کسی تنقید کو برداشت کرتی ہے اور نہ ہی کسی نئی فکر اور نظریہ کو۔ ہمارے سماج کا مسئلہ ذہنی طور پر پس ماندگی ہے اس لئے ذہنی پسماندگی کے شکا ر لوگ دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے بیگانہ ہو کر تنہائی کی حالت میں زندگی گزارنا چاہتا ہے۔