نوید نسیم
ہمارے سماج کی تباہی کی وجہ وہ سماج ہے۔ جس میں سماج کو سمجھنے والے اور سمجھانے والے دونوں ہی ایک اسلامی ریاست کے طرزِ سماج کو سمجھنے اور سمجھانے میں ناکام ہیں۔ کوئی اس 69 سالہ ریاست کو فلاحی ریاست بنانا چاہتا ہے اور کوئی سیکولر ریاست اور کسی نے شریعت نافز کرنے کا ٹھیکہ لے کھا ہے۔ بدقسمتی سے مذہب کے نام پر بننے والی ریاست، آج مذہب کو ہی سنبھالنے سے قاصر ہے۔
آج ہم سائنسی ترقی اور جدید علوم کی موجودگی میں ایک ایسے مذہب کے پیروکار ہیں۔ جو ان تمام جدید ایجادات کی صدیوں پہلے ہی شنید دے چکا ہے۔ اس کے باوجود آج ہمارا سماج تمام اسلامی روایات، خدمات اور ایجادات کو بُھلا کر ایسی دلدل میں پھنس چکا ہے۔ جہاں نا تو وہ مذہب کو سنبھال پارہا ہے اور ناہی جدید دنیا کے تقاضوں کو۔
بدقسمتی سے سماج کے سمجھنے والوں اور سمجھانے والوں دونوں نے ہی مذہب کا ٹھیکہ رنگ برنگی ٹوپیوں والوں کے سپرد کردیا ہے۔ جنھوں نے اپنے تعلیم گاہوں کو دنیاوی تعلیم سے مکمل دور رکھا اور دورِ جدید کی ضروریات کو بذریعہ مذہبی حاکمیت رد کردیا۔
ان تعلیم گاہوں یا مدارس کی چار دیواری میں ان رنگ برنگی ٹوپی والوں کو مذہبی احساسِ برتری کا احساس دلا کر انھیں باور کروایا گیا کہ یہ سماج جتنا مرضی جدید ہوجائے۔ اسے اپنے پیدا ہونے والے بچے اور وفات پانے والے مردے کو دفنانے کے لئے ایک مولوی کی ضرورت ہوگی۔ یہی نہیں بلکہ خوشی کے مواقع جیسے نکاح کی تقریب اور بچوں کو قرآن پڑھانے کے لئے بھی ایک مولوی درکار ہوگا۔ لہذا اس سماج میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند اپنی اہمیت کو سمجھو اور داڑھی دار ہوکر اس سماج میں مذہب کو، ضرورت مندوں کے نظریہ ضرورت کے مطابق ڈھال کر پیش کرتے رہو۔
اس سماج کے ساتھ ایک زیادتی یہ بھی ہوئی کہ برصغیر کی تقسیم کی وجہ دوقومی نظریہ بنی۔ جس کو استعمال کرکے مفاد پرست ٹوپی والوں نے سماج کا استحصال کیا۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ پاکستان بنانے والوں نے ایک علیحدہ ملک بنایا تو مسلمانوں کے لئے تھا۔ مگر اس کی پس پردہ محرکات، مطلبی مولویوں کے لئے ایک علیحدہ ریاست کا قیام تھا۔ جہاں وہ اپنی حاصل کردہ دینی تعلیم کے ذریعے سماج کا استحصال کرسکیں۔ جوکہ مسلمانوں اور ہندوؤں کی مشترکہ ریاست میں ممکن نہیں تھا۔
پاکستان کے علیحدہ ہونے کے بعد کبھی جمہوری اور کبھی آمری طرز حکومت کو اس نئی تشکیل کردہ ریاست پر تھونپا گیا۔ جب جمہوریت برسر اقتدار ہوتی تو آمریت کے چاہنے والوں کو مروڑ اُٹھنے لگتے اور جب آمریت ہوتی تو جمہوری جڑی بوٹیاں بنا ضرورت کے پیدا ہوکر کھجلی کرنے لگتی اور یہ سلسلہ ستر کی دہائی تک چلتا رہا۔ جب جمہور پر مذہبی آمریت بذریعہ ضیاالحق مسلط کردی گئی۔ جس نے آئین میں بذریعہ ترمیم احمدیوں کو اقلیت قرار دلوا کر مذہبی انتہا پسندی کی طرف پہلا قدم اٹھایا۔
آمریت کے ساتھ جب مذہب ملا تو دو دھاری تلوار کی مانند زیادہ کاٹ دار تھا۔ چنانچہ جمہوری جڑی بوٹیاں جہاں اُگتیں، وہاں مساجد اور مدرسوں کی پنیری لگا دی گئی۔ جمہوری جڑی بوٹیوں کو مونچھوں نما تسموں والے بوٹوں سے روند دیا گیا۔ جمہوری آمر بھٹو کو پھانسی لگانے کے بعد گیارہ سالوں میں مذہبی بوٹیاں پورے ملک میں سرطان کی طرح پھیل گئیں اور آج بھی کومبنگ آپریشن انھی مذہبی بوٹیوں کو ختم کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔
ضیا کی آمریت میں آمر ایک تھا اور ٹوپی والے ہزاروں۔ اس لئے مذہب کے تمام ٹھیکے دار ضیاالحق کے بوٹوں تلے یکجا رہے۔ مگر اس کی فضائی موت کے بعد مذہبی بوٹیاں تناور درخت بن گئیں۔ جو بعد ازاں ریاستی سرپرست کی غیر موجودگی میں مختلف گروہ/مسالک سرگرم ہوگئےاور یوں پوشیدہ مسالک، اپنی رنگ برنگی ٹوپیاں سرعام بیچنے لگے۔ جن کی سیل آج تک جاری ہے۔
لہذا اگر یہ کہا جائے کہ سماج کو سمجھنے والے اور سمجھانے والے رنگ برنگی ٹوپی والوں کی مذہبی تشریح میں الجھ گئے تو غلط نہیں ہوگا۔ حتٰی کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہر رنگ کی ٹوپی والے نے مزہب کا ٹھیکہ اُٹھا لیا۔ جس کی وجہ سے سماج مذہب کو تو بھول گیا اور ٹوپی کے رنگوں میں فرق ڈھونڈنے لگا۔
اب اس سماج کی بھلائی اسی میں ہے کہ سماج رنگ برنگی ٹوپیوں والوں کی رنگ برنگی مذہبی تشریحات کو چھوڑ کر دنیا کے آسان ترین اور جامع مذہب کو سمجھے اور ریاست پر مذہب مسلط کرنے کی بجائے سماج پر مذہبی اصولوں کو نافذ کرے۔ تاکہ دنیا والے مذہبی سماج کو دیکھ کر پاکستان کو مذہبی ریاست کی عملی مثال کہیں۔