(محمد عبدالمنعم)
اگر ہم پاکستانی معاشرے کا تنقیدی جائزہ لیں تو ہمیں حیران کن نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں سماجی سطح پر قانون شکنی ایک عام سی بات تصور کی جاتی ہے۔دفاتر یا بازاروں میں زندگی کا مسخ چہرہ عام دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک مثال ڈرائیونگ کی ہی لے لیں۔سڑکوں پہ سواریاں چلانا ایک جان کنی کا عمل ہے۔
جب آپ ڈرائیونگ کر رہے ہوں تو اس بات کا اطمینان رکھیں کہ آپ دونوں اطراف سے بالکل محفوظ ہیں ایک سامنے سے اور دوسرے پیچھے سے۔ باقی کسی بھی طرف سے کوئی بھی آن ٹپک سکتا ہے چاہے آپ گرین سگنل پر ہی کیوں نہ ہوں بے دھڑک ہو کر ہر گز نہ چلائیں کسی بھی طرف سے کوئی بھی گولی کی طرح آپ کو لگ سکتا ہے۔کیوں کہ یہاں ہر مزاج اور ہر طریقے سے اپنی گاڑیاں چلانے کی اجازت ہے۔
گاڑی کی ہیڈ لائیٹس تو اس طرح اوپر کی طرف جا رہی ہوتی ہیں جیسے گاڑی زمین پر نہیں آسمان پر چلانی ہو اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس کارِ خیر میں عام افراد کے علاوہ پڑھے لکھے لوگ بھی برابر کا ثواب کما رہے ہوتے ہیں- سمجھ نہیں آتا کہ آخر ہم لوگوں کو ہو کیا گیا ہے۔
ہمارے دینی طرف داروں کا حال اور بھی برا ہے وہ قانون شکنی کرتے ہیں اور اس طرح جیسے ان کا “شرعی” حق تھا۔
ایک عام آدمی الٹی سیدھی حرکات کرتے ہوئے اتنا برا نہیں لگتا جتنا ایک دیندار شرعی آدمی ٹریفک کے قوانین کو ہوا میں اڑاتے ہوئے برا لگتا ہے کیونکہ ہمارے نزدیک وہ زیادہ معتبر ہوتا ہے۔ دین کے زیادہ قریب ہوتا ہے جس میں نظم و ضبط بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اگر آپ ایسے لوگوں سے الجھیں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ان لوگوں کے نزدیک صرف نماز روزہ کی پابندی ہی اسلام پر عمل کرنا ہے باقی ٹریفک کے قوانین کا اسلام سے کیا تعلق۔
سورت النسا آیت نمبر ٥٩ میں ارشاد ہوتا ہے کہ حکم مانو اللہ اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکم دینے والے ہیں یعنی علمائے وقت یا صاحبِ حکومت لوگ اگر وقت اور حالات کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی اصول و ضوابط ترتیب دیں جو کہ شریعت کے کسی حکم کے خلاف نہ ہوں تو ان کا حکم مانو۔
ٹریفک کے اصول و قوانین کی پابندی بھی اسی حکم کے تحت آتی ہے- ویسے کسی بات پر عمل کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ شریعت نے اس کا حکم دیا ہو ہاں یہ ضروری ہوتا ہے کہ شریعت نے اس سے منع نہ کیا ہو ورنہ پلاؤ بریانی فاسٹ فوڈز سٹیم روسٹ چکن کا کوئی شرعی حکم نہیں ہے لیکن یہ سب کے نزدیک جائز ہیں اور جب ٹریفک کے قوانین کی پابندی کی بات ہو تو ہم کہیں کہ یہ کوئی شرعی حکم تو ہے نہیں جس پر عمل کیا جائے کتنی عجیب سی بات ہے۔۔۔
وہ واقعہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا ۔ایک بار قائداعظم کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ریلوے پھاٹک آ گیا – ابھی ریلوے پھاٹک کو بند کیا ہی جا رہا تھا کہ آپ کی گاڑی پھاٹک کے سامنے پہنچ گئی- ڈرائیور نے پھاٹک والے سے کہا کہ ہمیں جانے دیا جائے کیونکہ ہمارا وقت بہت قیمتی ہے۔ قائداعظم نے ڈانٹ کر کہا کہ نہیں بلکہ ہم سب کے ساتھ رکیں گے اگر میں پابندی نہیں کروں گا تو باقی لوگ کیوں پابندی کریں گے۔
یہ تو ایک مثال ہے ورنہ دنیا کی ہر ترقی یافتہ قوم کا پہلا اور بنیادی اصول یہی ہوتا ہے کہ وہ قانون کا احترام کرتی ہے وہاں کے لوگ اپنے اندر قانون کی تہذیب پیدا کرتے ہیں۔نظم و ضبط کو اپنا شیوہ بناتے ہیں۔
قانون کا احترام صرف سڑکوں پہ ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں کرنے کی ضرورت ہے۔
ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں ہم کہاں کہاں سے قانون شکن ہیں۔ ہمارے ادارے ہمارے مزاج اور ہماری تاریخ قانون شکنی میں سب کو مات دئے ہوئے ہے۔
ہمارے اساتذہ ہمارے صحافی آفیسرز حتی کہ وکلا اور جج برادری بھی قانون شکنی میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ ہمارا قومی مسئلہ اس ذہنیت سے نکلنا ہے۔ ورنہ احترام آدمیت پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ شاید ہم اگلے سو سال ہی اسی امید پہ بیٹھے رہیں کہ ہم ایک اچھی قوم بن جائیں