(اصغر بشیر)
میریان ولف کہتی ہے کہ ہم مطالعہ کے لیے پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ مطالعہ ایک سماجی ضرورت ہے جس کی اہمیت کے پیش نظر اس پر اتنا زور دیا جاتا ہے کہ یہ ہماری فطرت کا حصہ محسوس ہوتا ہے حالانکہ یہ ہماری فطرت میں شامل نہیں ہے۔ جو شخص الفاظ کی تحریری علامتوں کو جانتا ہے وہ ایک تحریر سے مطلوبہ معلومات اخذ کر سکتا ہے۔ لیکن کیا مطالعہ کو ایک بازار سے سبزی لانے کے عمل کی طرح سوچنا ہمارے لیے بطور قوم ایک سود مند سوچ ہے؟ کیا ہم علوم ِ عالم سے اسی طرح مستفید ہوسکتے ہیں جس طرح کہ ترقی یافتہ اقوام ہو رہی ہیں؟ کیا ایک آدمی جس کو مطالعہ ظاہری طور پر کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا ، اپنے روز مزہ زندگی سے وقت نکال کر مطالعہ پر وقت صرف کرئے گا؟ یہی وہ مسائل ہیں جو مطالعہ کے متعلق ہماری روایتی سوچ پر سوالیہ نشان ہیں۔
تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ اقوام ِ عالم میں ترقی یافتہ اقوام مطالعہ کو صرف معلومات اخذ کرنے کا ذریعہ ہی نہیں سمجھتیں بلکہ اس کو بطور فن لیتی ہیں جس سے نہ صرف معلومات جمع کی جا سکتی ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس عمل سے قاری حظ بھی اٹھا تا ہے۔مطالعہ کو مطالعہ برائے مطالعہ لینا اس عمل کو معلومات کے حصول سے بہت اعلیٰ و ارفع چیز بنا دیتا ہے۔ ایک ایسی چیز جو کہ اپنے اندر فن کے تمام لوازمات بدرجہ اتم لیے ہوئے ہے۔ یہ ایک فن ہے جس کو سیکھا اور سیکھایا جا سکتا ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جس پر ہماری محکمہ تعلیم کی انتظامیہ کو سوچنے کی ضرورت ہے۔
مطالعہ کے متعلق ہماری روایتی سوچ مصنفین کو مذہبی عقیدت کے طور پر لیتی ہے ۔ ان کے لکھے ہوئے کو تعویز بنا کر گلے میں ڈالتی ہے یا پھر کفر کا فتویٰ لگا کر جلا کر دیتی ہے۔ فنی مطالعہ کہتا ہے کہ مصنف کی ذات اور کتاب کا نریٹر (narrator) دو الگ اشخاص ہیں۔ نریٹر تو دراصل کتاب کا ہی ایک کردار ہوتا ہے۔ اس کو مصنف کے ساتھ جو ڑ کر اس کے لکھے ہوئے الفاظ کو یک جنبش ِ قلم قبول یا رد کر دینا دراصل ہمارے لیے سوچ کے نئے دروازے بند کر دیتا ہے۔ نریٹر کا بنیادی مقصد قاری کو کتاب سے جوڑے رکھنا ہوتا ہے تا کہ وہ اس کو پڑھتا رہےاور صفحات پلٹتا رہے۔ اس سلسلے میں وہ قاری کے ذہن سے کھیلتا ہے۔ فنی مطالعہ کا حامل قاری نریٹر کے ساتھ مکالمہ کرتا ہے۔ وہ سوال کرتا رہتا ہے نریٹرگھما پھرا کر جواب دیتا ہے ؛ کبھی قاری کی امیدوں کو توڑکر اسے غمگین کرتا ہے تو کبھی اس کی امیدوں کو پورا کرکے اس کو دلی تسلی دیتا ہے۔
ہر انسان کا نقطہ نظر مختلف ہونے کی وجہ سے ہر شخص کی حقیقتیں مختلف ہوتی ہیں روایتی مطالعہ اس پہلو کو یکسر مسترد کرتے ہوئے مطالعہ اس نظر سے کرتا ہے کہ اسے اس سے کوئی کام کی بات ملے گی یا پھر مصنف نے لازمی طور پرالفاظ کے چنگل میں کسی راز کو چھپایا ہوا ہے جس کو آزاد کروانے کی ذمہ داری قاری نے اپنے سر ہے۔ حالانکہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔ پیرس ریویو اپنے ہر شمارے میں کسی مستند لکھاری سے ‘‘فکشن کا فن’’ کے موضوع پر انٹرویو شائع کرتا ہے ۔ ان کی ویب سائٹ پر موجود انٹرویوز سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ منجھے ہوئے لکھاری کسی خاص نقطہ نظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے لکھنا شروع نہیں کرتے بلکہ وہ کرداروں کو آزادانہ عمل کا موقع دیتے ہیں ۔ یوں کتاب کا ہر ہر صفحہ انسانی تعامل کی نئی نئی امثال لیے ہوتا ہے۔
المختصر ، کتاب ایک دوست ہے جس کے ساتھ دوستی کے اپنے اصول ہیں جس طرح ہم زندگی گزارنے کے طریقے سیکھتے ہیں بالکل اسی طرح کتاب کے ساتھ میل ملاپ کے طریقے بھی ہمیں سیکھنے ہونگے ۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا اگر ہم اپنے بچوں کو مطالعہ کا فن سیکھائیں گے اور بڑوں کو اس کی عادت ڈالیں گے۔