ہم اپنی اپاہج سوچوں سے کب نجات پائیں گے؟
از، اسماء حسن
عصرِ حاضر کی بگڑتی ہوئی صورت حال، بربریت اور فسادات دیکھتے ہوئے کچھ سوال ذہن میں ابھرتے ہیں مگر ان کے جواب ڈھونڈنے نکلیں تو سمجھ نہیں آتا کہ کس کا سرا کہاں سے پکڑیں اور پھر جواب ملے بغیر ہی ذہن انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ جو کچھ بھی آج ہو رہا ہے اس کی بنیاد کیا ہے؟ اس کا آغاز کہاں سے ہوا اور اس کا انجام کیا ہو گا؟ کچھ نہ کچھ ایسے محرکات تو ضرور رہے ہوں گے کہ اس دنیا کے انسان بٹتے چلے گئے۔ زندہ رہے تو محض آدمی، گوشت کے لوتھڑے، جو چلتے پھرتے ہیں اور لڑنے جھگڑنے میں جانوروں کو بھی مات دے بیٹھے۔ جو حقوق کی پامالی کو اولین فریضہ سمجھنے لگے اور ظلم و ستم کے وار کر کے اپنے آپ کو طاقت ور ماننے لگے۔ مفادات آڑے آتے رہے اور خوشیاں معدوم ہوتی چلی گئیں۔
آج ہم جس افسوس ناک صورت حال پر احتجاج کر رہے ہیں اس کی جڑیں کتنی مضبوط اور زیر زمین ہیں؟ وہ کون سی ایسی صورتیں ہیں جنہوں نے انسانیت کے چہرے ہی مسخ کر ڈالے، انہیں روند ڈالا اور ایسی قبا اوڑھ لی جو گرگٹ کی طرح اپنا رنگ، روپ بدلتی رہتی ہے۔ کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی سیاست کی آڑ میں کبھی حقوق کی بالا دستی کا نعرہ تو کبھی اقلیتوں کی پاس داری کا ڈرامہ اور ان کے تحفظ کا جال۔
بشریت کا تقاضا کیا ہے؟ چلیں ہم اسے مذہب کی ڈور سے آزاد کرنے کے لئے انسانیت کہہ لیتے ہیں تو ہم کس بنیاد پر انسان ٹھہرے؟ کون سے تیر مار لیے ہم نے؟ بس اپنی لاش اپنے کندھوں پر لیے نکلے ہوئے ہیں اور تعفن پھیلانے کا سبب بنتے جا رہے ہیں۔ پھر خود ہی اپنی ناک پر ھاتھ رکھ کر بدبو سے بچنے کی تدابیرنکالتے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر ہی کہ تعفن تو ہمارے جسم و جان میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ انسان نے اپنے ہی ھاتھوں اپنی ہستی کو نیست و نابود کیا ہے۔
کس کس بات کا رونا روئیں گے ہم؟ کتنے نوحوں پر ماتم کناں ہوں کہ ہر نوحہ کی چار انگلیاں ہماری طرف اٹھیں گی۔ پوری دنیا میں جو انسانی اقدار کی پامالی ہو رہی ہے اس کو زیر بحث لائیں یا پھر دہشت گردی اور مذہبی منافرت کا جو دھندا کیا جارہا ہے اس کو لکھیں؟ قتل کا بازار گرم ہے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ ہندو پاک نفرت پر آنسو بہائیں یا پھر طاقت کے بل بوتے پر، جو ظلم و جبر اقلیتوں پرہورہا ہے اس کا رونا روئیں، وہ سیریا میں ہو یا لیبیا، عراق، فلسطین یا ہمارے ارد گرد؟
اللہ سبحان تعالٰی نےانسان کوعقل دی، شعور دیا، تفکر دیا، سوچنےسمجھنے کی صلاحیت سے نوازا۔ اچھے برے کی تمیز سکھلائی انہی خصوصیات کی بنا پروہ اشرف المخلوقات کے اعلٰی عہدے پر فائز ہوا کہ جوعقل اور شعور انسان کو ودیعت کیا گیا وہ کسی اور مخلوق کا خاصہ نہیں۔ اس نے ہر ایک کو دین فطرت پر پیدا کیا۔ اس نے مذاہب کی بنیادوں پر اصول وضع نہیں کیے تھے کہ صرف کسی خاص مکتبۂِ فکر کے لیے لکھ چھوڑے گئے ہوں، تو دوسرے عمل نہ کریں۔
مگر انسان نےاپنے ڈھنگ سے جینا سیکھ لیا۔ فہم و ادراک کے نئے اصول وضع کیے۔ سوچ بچار کی مختلف راہیں ہموار کیں۔ اپنی عقل کے گھوڑے بے سر و سامان ہی دوڑا دیے۔ تفکر کو کہیں بھٹکا راہی بنا دیا۔ اچھےبرے کی تمیز کو محض دکھاوے کی جھلک بنا ڈالا۔ جو باتیں انسان کو جنم گھُٹی کی صورت میں پلائی گئیں وہ انہیں یکسر بھلا بیٹھا۔ اس کی جگہ اس نےحسد کا ایک بیج بویا۔ غرور و تعصب سےاس کی آبیاری کی وہی حسد اورغرور جس نےابلیس کوعالم سے جاہل بنا ڈالا۔ جس نےفرعون کوبیچ سمندر غرق کروا ڈالا۔ ہوسِ دولت نے قارون کواس کی جاہ وحشمت سمیت زمین بوس کروا دیا۔
لیکن افسوس انسان نے کیا سیکھا؟ وہ اور آگے بڑھتا ہے۔ اسی بیج کو لے کر کینہ پروری کی آمیزش کرتا ہے۔ اسے عداوت کےخون پسینے سےسینچتا ہے۔ رقابت کی مدد سے اسے پروان چڑھاتا ہے۔ اس پر انتقام اور خبث کے پھول کھلتے ہیں جو بظاہرخوشنما لگتے ہیں۔ وہ اسے دیکھ کر پھولے نا سماتا ہے۔ پھر پھل کے انتظار میں بیٹھ جاتا ہے۔ عناد اور گھن کے بڑےبڑے، موٹے تازے پھل لگتے ہیں۔ ان کو توڑتا ہے، کھاتا ہےمگر پھل کا ذائقہ زہر بن کر اگل پڑتا ہے۔ تو حاصل کیا ہوا؟
مزید دیکھیے: میں سوچ سکتا ہوں، پس مفروضے بھی گھڑ سکتا ہوں میں
سوائے اس کے کہ مندرجہ بالا محرکات نے انسان کی سوچ کو مفلوج بنا کر ہی دم لیا۔ نت نئے لباس بدلتی، کھوکھلی روایات نے انسان کو بے لباس کر دیا۔ اس کے شعور کو کہیں ابدی نیند سلا دیا۔ تو جس معاشرے کی سوچ ہی مفلوج ہو گئی ہو، وہاں نظام سیاست اور برابری کی کیا بات کریں گے؟ بنیاد ہی غلط ہو تو تعمیر کا انجام کیا ہو گا ؟ بچہ تھا تو سوچتا تھا۔ جب بڑا ہو جاؤں گا تو ماں کے لیے روٹی کما کر لاؤں گا۔ باپ کے بڑھاپےکی لاٹھی بنوں گا۔ بہن بھائیوں کو علم کے زینے پر چڑھاؤں گا۔ اس خراب معاشرے کی مسخ شدہ صورت کو، اس کی درست حالت میں لے آؤں گا۔ ملک کے فرسودہ نظام کو بدل کر رکھ دوں گا۔ سورج چاند ستاروں کو مسخر کروں گا۔
پھر وقت نے کروٹ لی منظربدلا، زمانے کے تیور بدلے۔ جذبہ گیلی لکڑی کی طرح ناکارہ بن گیا۔ جو سوچ شہد کی طرح میٹھی لگتی تھی اورجن پرعمل کرنا اس کا مطمح نظر تھا وہی شہد کڑواہٹ بن کر زہر اگلنے لگا۔ وہی بچہ بڑا ہوتا ہے ملک کی باگ ڈور سنبھال لیتا ہے مگر اپنی مفلوج سوچ کو پروان چڑھاتے چڑھاتے ملک و قوم کی جڑوں کو کھوکھلا کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کی اس سوچ سے طرح کے طرح کےہزاروں کانٹے دار پھول اگتے ہیں۔ جن کا پیدا کرنے والا بھی وہی ہے باغبان بھی ۔ ہم کہتے ہیں ہم نے جینا سیکھا۔
ہم نے تو مرنا بھی دوبھر کر ڈالا۔ ہماری گدلی، بے لگام اوراپاہج سوچ نےتو ہمیں مار ڈالا۔ جس خطہ زمین پر اتنی ساری گدلی اور اپاہج سوچیں اپنے راستے ہموار کر لیتی ہیں تو وہاں بہتری کی امید ہی کہاں کی جا سکتی ہے؟ کسی نظام میں درستی لانے کے لیے گھر کا سربراہ فعال رہتا ہے اور مثبت اقدام اٹھاتا ہے۔ اور اگر سربراہ ہی منفی رجحانات کا حامل ہو تو گھرکی خوشیاں دروازے پر دستک کیسے دے سکتی ہیں۔
ہر انسان اپنی اچھی، بری سوچ کا سربراہ ہے۔ اگر ہم نے اپنی اپاہج سوچوں کو خود ہی سہارا نہ دیا تو اپنے وطن اور اس کی ضعیف سیاست کو لاٹھی کیسے پکڑائیں گے۔ خود کو گمراہی کے اندھیرے میں رکھیں گے تو قوم کو اجالا کیسے دیں گے۔ ہم خود کو نہیں بدل سکتے تو سیاسی نظام کو دوش کیوں دیتے ہیں؟ کیا محض سیاست اور ملک ہی ذمہ دار ہے؟ کیا ہماری اپنی مفلوج سوچ کا کوئی قصور نہیں؟ کیا ہمیں احتجاج نہیں کرنا چاہیے، سوچ کے ان مفلوج پہلوؤں پر جنہوں نے آج تک ہمیں اپاہج بنائے رکھا ہے؟
ہمیشہ کی طرح بہترین لکھا آپ نے اسماء صاحبہ شکریہ ایسی سوچ پر توجہ دلانے کے لیے