(حمیرا جبیں )
وہ کافی دنوں سے گم صم تھی. کسی گہری سوچ میں گم،کسی ایک نکتے پہ مرکوز. آج جب ملنے آئی تو میں نے اسے روک لیا. “رمزہ کلیم!میں دیکھ رہی ہوں تمہاری سوچ اور کھوج مسلسل ایک ہی نکتے پر مرتکز ہے.بتاؤ کیا بات ہے ؟میں نے پوچھا.” ہم مکالمہ کی ضرورت و اہمیت سے بے بہرہ لوگ ہیں. ہم انا کے مارے ہوئے لوگ ہیں. وہ یکدم گویا ہوئی. “رمزہ کلیم یہ تم کیا کہہ رہی ہو مکالمہ،بے بہرہ لوگ، اناپرست…….کس کے باے میں سوچ رہی ہو؟میں نے حیرانی پوچھا.”سوشل میڈیا………….. کے بارے میں سوچ رہی تھی میڈم”اس نے اپنی نظریں پہلی بار میرے چہرے پہ گاڑتے ہوئے کہا.”کیا سوچ رہی تھی تم ؟ کیا ہوا سوشل میڈیا کو ؟؟”میرے دلچسپی سے استفسار پر وہ کچھ یوں گویا ہوئی. “میڈم!سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں پر ایک روح کا دوسری روح کے ساتھ باہمی تعامل ہوتا ہے نفسیات کی رو سے ہر انسان میں انفرادی اختلافات موجود ہیں اور جب تمام لوگ گفتگو کرتے ہیں تو ایک ذہن مختلف اذہان سے فائدہ اٹھاتا ہے. ایک موضوع پر بہت سی آراء دیکھنے کو ملتی ہیں. لوگ مختلف موضوعات کی بابت اپنی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اور کمنٹس کے ذریعے ہم اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں.ہونا تو یہی چاہیے کہ کسی موضوع پر گفتگوکا انداز صحت مندانہ ہو سوشل میڈیا پر پوسٹ اور کمنٹس کے ذریعے ایک مکالمہ چل رہا ہوتا ہے لیکن پھر وہی بات نظر آتی ہے کہ ہم مکالمہ کے ضمن میں غیرمتوازن لوگ ہیں. وہ اس طرح کہ کسی پوسٹ کو مکمل پڑھے اورلکھنے والے کا موقف سمجھے بغیر ہم کسی ایک لفظ ،کسی ایک پہلو یا کسی ایک بات کو پکڑ کر بلاجواز و دلیل گھسیٹتے چلے جاتے ہیں. تعارض کی شاندار مثال قائم کر رہے ہوتے ہیں. بعض اوقات اپنے “لینگ “کے خزانے سے ایسے ایسے ایسے الفاظ والقاب کو ” پیرول” بناتے ہیں کہ (لینگ اور پیرول کا تصور دینے والا مفکر) سوسئیر بھی شرمندہ ہوجائے.. جب میں شروع سے آخر تک تمام کمنٹس پڑھتی ہوں تو بالکل نہیں لگتا کہ یہ کسی مہذب قوم کے درمیان ہونے والا مکالمہ نہیں ہے.”لیکن رمزہ سبھی لوگ تو ایک جیسے نہیں ہوتے نا.”میں نےاپنی رائے دی. “جی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں تمام افراد ایک جیسے نہیں ہیں کئ تو بہت مہذبانہ انداز میں اپنی سوچیں لکھ رہے ہوتے ہیں لیکن یہ تعداد میں بہت کم ہیں. میں اس فروعی گفتگو سے نالاں ہوں.بہت ناشائستہ گفتگو کی جاتی ہے کسی کے جذبات کا لحاظ نہ کسی بڑے چھوٹے کا فرق رکھا جاتا ہے. کسی کو کافر ٹھہرایا جارہا ہوتا ہے تو کسی کو ملحد. کسی کے قصیدے پڑھے جارہے ہوتے ہیں تو کسی کی عیب جوئی کی جاتی ہے.کسی کو کم فہم گردانا جاتا ہے تو کسی صاحب علم کے علم پر شک کیا جاتا ہے کسی کو جنتی ٹھہرایا جاتا ہے تو کہیں پہ پوسٹ یا کوئی تصویر شئیر کرنے کا ثواب بتایا جاتا ہے .یعنی ہمیں اپنے آنے والے پل کی تو خبر نہیں لیکن یہ معلوم ہے کہ کون جنتی ہے کون ملحد ہے اور کہاں کتنا ثواب ملنا ہے. اور پھر “ہم کی تو وہ درگت بنائی جاتی یے کہ اردو زبان و ادب پہ زندگیاں صرف کرنے والوں کی روحیں تڑپ کر رہ جائیں. اگر کوئی اصلاح کے لیے درست تلفظ یا املا بتا دے تو ایک ہی گھڑا گھڑایا جملہ سننے کو ملے گا کہ جی یہ ٹائپنگ کی غلطی ہے. بندہ پوچھے کہ” صدا سلامت رہو “لکھتے وقت صدا کی جگہ سدا کیوں ٹائپ نہیں ہو سکتا..اختلاف رائے اچھی بات ہے اسی سے ہی تو گفتگو کے پہلو سامنے آتے ہیں اور یہ گفتگو کا حسن یے اگر آپ کو کسی بات سے شدید اختلاف ہے تو بھی اپنی ناپسندیدگی اور اختلاف کو احسن طریقے سے مہذب انداز میں دوسروں تک پہنچائیں نہ کہ بحث “ہم سوشل میڈیا پر کیا کر رہے ہیں؟؟؟