ہندوستانی ٹی وی صحافت کی اہم اور معتبر آواز ابھگیان پرکاش
از، زمرد مغل
صحافت کے معیار اور اس کی سچائی کے حوالے سے گفتگو کرنا اب کوئی اتنی اہم اور ضروری بات نہیں رہ گئی ہے ہم سب جانتے ہیں صحافت جس کا کام اپنے سماج اپنے
معاشرے کو آئینہ دکھانا اور اس سماج کی بہتری اور ایک بہتر مستقبل کے لیے عوام کی تربیت کرنا تھا اپنے راستے سے بھٹک گئی ہے ۔اب اچھے صحافی بھی اس پر کھل کر تنقید کرتے ہیں اسی میں ایک اہم نام ابھگیان پرکاش کا ہے جوکبھی این،ڈی،ٹی وی کے نیوز روم کبھی بہار،یوپی اور گجرات کے کسی گاؤں سے کبھی دلی کی سردی اور گرمی سے بے پرواہ پارلیمنٹ اور گلی محلوں سے ہم تک تازہ ترین خبریں پہنچا رہے ہوتے ہیں ۔اس سب کے علاوہ ایک ابھگیان پرکاش وہ ہیں جن کو ہم فلم ،تھیٹر اور اردو،ہندی زبان و ادب پر گفتگو کرتے ہوئے سنتے اور دیکھتے ہیں ان دنوں ابھگیان ٹی وی پر کم اور ادبی و علمی پروگراموں میں زیادہ نظر آتے ہیں ۔پیش خدمت ہے ہندوستانی ٹی وی جرنلزم کی اہم اور معتبر آوازابھگیان پرکاش سے ڈاکٹر زمرد مغل کی گفتگو۔
ٍزمرد مغل۔ابھگیان جی آپ کا شمار ہندوستان کے اہم صحافیوں میں کیا جاتا ہے۔لیکن اب آپ ٹی وی سے زیادہ ادبی پروگراموں اور سیاست سے زیادہ فلم ،تھیٹر اور شاعری پر بات چیت کرنے لگے ہیں ایسا اچانک تو نہیں ہوسکتا کہ آدمی ایک دم سے فنون لطیفہ پر بات کرنے لگے میں جاننا چاہوں گا کہ کیا بچپن سے آپ کی دلچسپی ان چیزوں میں تھی گھر کا ماحول کیسا تھا ؟
ابھگیان پرکاش۔یہ میری دلچسپی نہیں ہے بلکہ تڑپ ہے تڑپ اس لیے ہے میں نے دو ڈھائی سال کی عمر سے بھارتیہ راشٹریہ سنگیت سیکھنا شروع کیا میں نے زندگی کے سترہ ،اٹھاراں سالوں تک طبلہ سیکھا، بنارس میں میرا جنم ہوا لکھنو میں میرا بچپن گزراساتھ میں میری ماں ایک سنسکرت کی اسکالر تھیں سنسکرت میں ڈرامہ لکھتی تھیں اور ہندی کی شاعرہ تھیں سائتیہ ،ادب کا ماحول تھا میرے گھر میں بڑے بڑے سائتیہ کاروں اور سنگیت کاروں کا آنا جانااٹھنا بیٹھنا تو میری پرورش اسی ماحول میں ہوئی ہے اپنی ماں کے ساتھ کوئی سمیلن اور مشاعروں میں جانااپنے پتا اور استاد کی وجہ سے موسیقی کے بڑے بڑے پروگراموں میں جانا ہمارے استاد آفاق حسین خان صاحب ان کا بہت گہرا اثرا رہا میری زندگی پرتو یہ سب چیزیں تو میری زندگی کاحصہ ہیں ۔دوسری سب سے اہم بات جو بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ میں صحافت کے میدان میں بہت کم عمری میں آیا کوئی بیس سال کی عمر میں بحثیت ایک میوزک کریٹک کے طور پر ٹائمز آف انڈیااور پائنیر جیسے اخباروں کے لیے لکھتا رہا اور پھر آیا دلی میں تو ایک ایڈوائزنگ کمپنی میں کاپی رائٹر بنا پھر میں نے گانے لکھے ۔بیس سال کی عمر میں نے یونیسیف کے لیے اپنا پہلا گانا لکھا اس کے بعد کچھ ایسا ہوا کہ میں نیوز میں آگیااب مجھے ایسا لگتا ہے کہ بھائی انسان کی فطرت اور روح نہیں مرتی، مجھ پر ان سب چیزوں کا قرض ہے اس لیے اب میں زیادہ وقت اپنے شوق کو دے رہا ہوں ۔میں چاہتا ہوں اور میری کوشش ہے میں موسیقی کو شاعری کو اپنی زندگی میں واپس لے کر آؤں۔
زمرد مغل۔ابھگیان جی جیسا آپ نے بتایا کہ یہ سب تو آپ کے خون میں شامل ہے تو کیا ادب ،سائتیہ سے آپ کو اپنے جرنلزم کے کیریر میں کچھ مدد ملی کیا ادب سے صحافت کا کوئی رشتہ ہے ادب کتنا ضروری ہے آج کی صحافتی دنیا کے لیے۔
ابگھیان پرکاش۔کبھی کبھی لیکن بہت زیادہ نہیں بہت پہلے ایک اخبار نے میرے بارے میں لکھا تھا کہ میرے اندر یہ قابلیت ہے کہ جتنی آسانی سے میں کسی پردھان منتری کا انٹرویو کرتا ہوں اتنے ہی اطمینان سے میں کسی سنیما سے یا میوزک سے جڑے ہوئی کسی بڑی شخصیت سے بات کرسکتا ہوں۔سنیما میں ہمارے بہت سے دوست ہیں ممبئی میں ہم نے این،ڈی ،ٹی وی انڈیا کو کھڑا کیا تھایہ فائدہ ضرور رہا اور کم عمری میں اسٹیج مل جانے کی وجہ سے مجھے کیمرہ سے کبھی گھبراہٹ نہیں ہوئی یہ سب فائدہ تو ہوا مجھے ذاتی طور پر مگر اب جس طرح کی صحافت ہورہی اس میں ادب تو ادب اب اچھی صحافت کی بھی جگہ نہیں بچی ہے۔بہت پہلے کی بات ہے میں نے نیانیا این ،ڈی ،ٹی وی جوائن کیا تھا مجھے کیفی آعظمی صاحب کا انٹرویو کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ سی پی آئی کے دفتر میں ،میں بالکل بچہ سا تھا ان کی بیگم شوکت آعظمی بھی ان کے ساتھ تھیں ان سے بات کرتے کرتے ترقی پسند تحریک پر بات ہونے لگی اور منٹو ،عصمت چختائی پر بات ہونے لگی تو کیفی صاحب بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے اتنی کم عمری میں ایک جرنلسٹ اتنی جانکاری رکھتا ہے تو میں نے انہیں بتایا کہ میری ماں شاعرہ ہیں ان سب ناموں کا زکر اکثر میرے گھر میں ہوتا تھا گھر میں محفلیں سجھتی تھیں ان کی کہانیوں کے حصے پڑھے جاتے تھے تو یہ سب میرے گھر کے ماحول نے مجھے دیا ہے۔کیفی صاحب بہت خوش ہوئے اور بہت دیر تک ہم سے باتیں کرتے رہے۔اس طرح کا فائدہ بھی ملا کہ اتنی کم عمری میں اتنے پڑے شاعر کے سامنے بیٹھے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بات کررہے ہیں۔
زمرد مغل ۔ابھگیان بھائی الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیاکی اگر ہم بات کریں تو پرنٹ میڈیا وہ ہندو ہو یاجن ستھا کم سے کم ہفتے میں ایک بار تو آرٹ اور لٹریچر پر ہمیں پڑھنے کو مل جاتا ہے مگر الیکٹرنک میڈیا جس کی آپ ہندوستان کی ایک بڑی آواز ہیں نے ایسا لگتا ہے کہ آرٹ اور لٹریچر سے جڑی چیزوں کو بین کردیا ہے۔
ابھگیان پرکاش۔بین تو نہیں کیا ہے مگر آرتھک دباؤ تو ہے آرتھک دباؤ کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے میں نے ہندوستان کے بڑے سے بڑے میوزیشنز کو لے کر پروگرام کئے ہیں جس جس فارمٹ میں لے کر آسکتا تھا لے کر آیا ،سنیما کے لوگوں کے ساتھ میں نے آر ،جیز کے ساتھ پروگرامز کئیے جب میں ممبئی میں تھا تو اس وقت کا ایک بہت ہی مشہور پروگرام تھا ممبئی سینٹرل جو میں کرتا تھااس میں میں نے لوگوں کو بلایا اپنی طرف سے میں جتنا کرسکتا تھا میں نے کوشش کی بہت چیزیں معاشی دباؤ کی وجہ سے میں نہیں کرپایا لیکن یہ بات سچ ہے کہ نیوز چینلز نے اس پر اتنی توجہ نہیں دی جتنی کہ دی جانی چایئے تھی۔اب بہت اچھا لگتا ہے یہ دیکھ کر کے لٹریری فیسٹیولز ہورہے ہیں ان پر ٹی وی کا کیمرہ گھوم رہا ہے۔یہ بہت اچھا ہے ایسا سنگیت میں بھی ہو شاعری میں بھی ہو اور تھیٹر کی طرف جائے تو یہ ہمارے کل کے لیے بہت اچھا ہوسکتا ہے اگر ایسا ہوجائے۔
زمردمغل۔ابگھیان بھائی ایسا نہیں لگتا کہ ٹی ،وی چینلز چوبیس گھنٹے میں سے اپنا زیادہ وقت سیاسی گفتگو میں گزراتے ہیں ہونا بھی چایئے کہ اس ملک کو سیاست دان ہی تو چلا رہے ہیں تبھی اس دیش کا یہ حال ہے اگر ہماری صحافت اس جانب زیادہ توجہ دینے کے بجائے فنون لطیفہ کی طرف توجہ دیتی شاعری ،موسیقی ،فلم، تھیٹر اور پینٹنگ کی بات کرتی تو شاید حالات کچھ اب سے بہتر ہوتے۔
ابھگیان پرکاش۔دیکھیں میڈیا کا اصل کام تو خبر دکھانا ہے حالانکہ اب تو اس پر یہ الزام بھی لگنے لگا ہے کہ میڈیا خبر کے بجائے ایجینڈے کو فالو کررہا ہے۔بہتر ہوتا اور بھی بہتر ہوتا اگر دونوں کے بیچ میں ایک رشتہ اور بیلنس قائم کیاجاتابجائے یہ کہ خالی سیاست کی طرف زیادہ توجہ ہو دونوں طرف برابر دھیان دینے کی ضرورت تھی اور یہ بھی سچ ہے کہ اب لوگوں کو خبر کے ساتھ ساتھ مسالہ بھی چایئے۔ابھی میں سڈنی میں تھا ایک پروگرام میں ،میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگ کتنا بھی اعتراض کرلو آپ لوگوں کو مزا بھی آتا ہے اسی طرح کی خبریں دیکھنے میں۔لوگ جیسا دیکھنا چاہیں گے اس طرح کا مواد تیار کیا جاتا ہے۔لوگوں کی دلچسپی بھی تو دکھے کہ ان کو آرٹ سے جڑی چیزیں دیکھنی ہیں ۔
زمرد مغل۔ابھگیان بھائی میڈیا کی ایک ذمہ داری ہماری تربیت کرنا بھی ہوناچایئے ایک زمانے میں صحافت نے ایسا کیا بھی ہے۔اب ایسا لگتا ہے اگر ہمیں اپنی زبان خراب کرنی ہے یا ذہن خراب کرنا ہو تو اخبار پڑھیں یا ٹی وی دیکھ لیں ۔
ابھگیان پرکاش۔آپ نے بہت ہی اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے یہ ہم سب کی ذمہ داری تھی اور ایمانداری سے ہم سب کو یہ ماننا چاہیے کہ ہم نہیں کرپائے ایسا کچھ جس پر ہمیں فخر ہو۔میں دیش ودیش جہاں جہاں گیا وہاں ایسے ایسے لوگ ملتے ہیں جنہوں نے سالوں آپ کا پروگرام دیکھا ہے آپ کو بہت پسند کرتے ہیں وہ بھی یہی سوال پوچھتے ہیں ۔ایک سوال یہ پوچھتے کہ میڈیا کہاں جارہا ہے خبر کے بجائے یہ کیا دکھانے لگ گیا ہے اور دوسرا ان کا سوال ہوتا ہے میڈیا کی زبان پر۔وہ آپ کی طرح لٹریری لوگ نہیں کوئی ریستورنٹ چلا رہا ہے کوئی کسی کمپنی میں نوکری کررہا ہے انہیں اپنے ملک سے محبت ہے اپنے ملک کی فکر ہے۔وہ پوچھتے ہیں کہ یہ سب کیا ہے کہ آپ نے نیوز چینل کو ایک ڈرامہ کپمنی میں بدل دیا ہے۔آخر یہ میڈیا کس طرف جا رہا ہے۔یہ ہیں ان کے سوال جن کا جواب ہمارے پاس نہیں ہوتا کم سے کم میرے پاس تو نہیں ہے ۔چیخنا چلانا یہ کہاں کا میڈیا ہے کم سے کم میں نے اپنی صحافتی سفر میں ایسا نہیں کیا کبھی کبھی مجھے بھی بہت غصہ آتا ہے اس کا اظہار بھی کرتا ہوں مگر ایک مہذب طریقہ کے ساتھ یہ آپ کا سوال اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ میڈیا کس دوڑ میں شامل ہے کس سے آگے نکلنا چارہا ہے اس کی کوئی حد بھی ہے کہ نہیں ۔اصل میں میڈیا سے اس طرح کے سوال نہیں پوچھے گئے کہ بھائی کس طرف جارہے ہو کس طرف ہمارے ملک اور سماج کو لے کر جارہے ہو۔ہمارا میڈیا اپنی اس رفتار کے ساتھ کہاں جارہا ہے کہاں تک جائے گا میں نے نہیں جانتا۔میں ٹی وی کی فرسٹ جنریشن کا چاہلڈ ہوں میں نے دیکھا ہے کہ بھائی آپ ایک رپورٹر ہیں اور آپ کو لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے میڈیا کا چہرہ بڑا اینکر بننے کے بعد اب نہیں ملتی اب تو حد یہ ہے کہ مٹھی بھر ہمارے ایسے صحافی اسی بات پر خوشی سے پاگل ہوئے جارہے ہیں لوگ انہیں سب سے زیادہ گالی دیتے ہیں۔کامیابی کے پیمانے کس تیزی سے بدلے ہیں کہ جس بات کو ہمارا معاشرہ اپنے لیے بدنامی اور باعث شرم سمجھتا تھا آج وہی آپ کے لیے قابل زکر اور قابل فخر سمجھا جارہا ہے۔معاف کریئے گا میں اسے صحافت نہیں صحافت کے نام پر اپنی دکان چمکانے کا ذریعہ سمجھتا ہوں یہ سب ڈھونگ ہے غلط ہے اور میں اس طرح کی صحافت کے ہمیشہ مخالف کھڑا رہوں گا۔
زمرد مغل۔کیااس ماحول میں کبھی آپ کو کبھی لگا کہ میں ایک صحافی بننے کے بجائے فلم اور تھیٹر کی دنیا میں چلا جاتا تو اچھا ہوتا۔
ابھگیان پرکاش۔بالکل بارہا میں نے ایسا سوچا کہ میں نے شاید اپنے لیے جس میدان کا استعمال کیا میری وہ چوائس غلط تھی ۔میں بتاؤں کہ ۲۰۰۳ اور ۲۰۰۴ میں دیش کے بہت اہم فلم ڈائریکٹرز نے سمجھایا جس میں گوند نہلانی بھی شامل ہیں وہ مجھے اور اوم پوری جی کو لے کر ایک فلم بنانا چاہتے تھے گجرات رائٹز پہ فلم تھی یہ لوگ میری آرگنائزیشن سے بات کرنے کو تیار تھے کہ مجھے ۴ مہینے کی چھٹی ملے شوٹنگ کے لیے۔میرے بہت سے عزیز دوست جو آج فلمی دنیا کے بڑئے بڑئے اسٹارز ہیں ان کے ساتھ میں سیٹ پر بھی گیا ماحول دیکھا کہ کس طرح سیٹ پر سب لوگ کام کرتے ہیں ۔لیکن اس زمانے میں مجھے لگتا تھا کہ میں فلم سے وہ نہیں کرپاؤ ں گا جو میں میڈیا سے کرپاؤں گا پتا نہیں میں وہ کرپایا کہ نہیں مگر میں میڈیا کے موجودہ رویہ سے بہت خوش نہیں ہوں ۔اب جب پلٹ کے پیچھے کی طرف دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ فلم کہیں بہتر تھی اس میدان سے جسے میں نے اپنے لیے چنا تھا۔
زمرد مغل۔اب بھی بہت وقت ہے آپ اب بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں ۔
ابھگیان پرکاش ۔تھیٹر کے بہت آفر ملے جنہیں میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے قبول نہیں کرسکا۔ایک اور بات جو میں بتانا چاہوں گا۔جب میں دلی آیا تو کام کی تلاش میں ادھر ادھر گھومتے رہتے تھے تو میں نے ریڈیو کا رخ کیا میری آواز وہاں اپرووڈ ہوئی دن میں ایڈوٹائزنگ اور رات میں ریڈیو کے لیے کام کرتے تھے۔تھیٹر میں ہماری بہت اچھی دوست ہیں جوہی ببر جو نادرہ ببر کی بیٹی ہیں جو ہندوستانی تھیٹر کا ایک اہم نام ہیں ۔جوہی ہم سے کہتی تھیں کہ میں ان کے لیے شروع اور آخر کا نریشن کردوں لیکن نہیں کرپایا میرا من تو تھا بس اپنی مصروفیات کی وجہ سے نہیں کرپایا۔
زمرد مغل۔جب لوگ آپ سے کہتے ہی کہ آپ کی آواز اس پوری ٹی وی انڈسٹری میں سب سے الگ ہے تو کیسا لگتاہے۔
ابھگیان پرکاش۔جی بہت لوگ مجھے ملتے ہیں جو مجھے میری آواز کی وجہ سے جانتے اور پہچانتے ہیں ۔اب بھی وقت ہے جیسا آپ نے کہا تو میں آپ کے ذریعے جشن ادب کے ذریعے چاہوں گا کہ اپنی اس آواز کو فنون لطیفہ کے لیے بھی استعمال کروں ۔اب مجھے لگتا ہے کہ پہلے سے بہت زیادہ اچھے حالات ہیں بہت اچھا کیا جاسکتا ہے ۔ہوتا یہ ہے کہ آپ ایک کام سے جڑئے ہیں تو بہت سے کام کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی اور آپ کے پاس وقت بھی نہیں ہوتا لیکن اب مجھے ان سب چیزوں کے لیے وقت نکالنا ہی ہے ۔میں ایڈوٹائزئنگ کے دوست مجھ سے کہا کرتے تھے ابھگیان تمہاری آواز بہت منگی بکے گی بس مجھے بکنا ہی نہیں تھا اس آواز کو کسی کام میں لانا تھا ۔جو میں نے کیا اور آگے بھی میں چاہوں گا کہ کچھ اچھے کے لیے اپنی اس آواز کا استعمال کرسکوں تاکہ میرا کل مجھے میری آواز اور میرے ہنر جو بھی میرے اندر ہے جتنا ہے کی وجہ سے یاد رکھے۔
ابھگیان بھائی آپ کا بہت بہت شکریہ
شکریہ زمرد مغل صاحب آپ کا ،میری باتوں کو میرے خیالات کو ارردو دنیا تک پہنچانے کے لیے۔