صفدر رشید
ادبی لحاظ سے قرونِ وسطٰی کی سب سے یادگار چیزیں رومان اور سورماؤں کی کتھائیں تھیں۔ ان میں تخیلاتی کہانیوں میں ہیرو یا سپر مین جیسی بیش بہا صفات کا احاطہ ہوتا تھا یا دوسرے لفظوں میں وہ مکمل مرد کی عکاسی کرتی نظر آتیں۔مہمات کا ایک عنصر رزمیہ(Epic)بھی ہے۔ یہ رومان اصل میں پوری تہذیب کی فکر کا نمائندہ بنا ہُوا تھا جو اُن کے سماجی کردار کو متعین کرتا۔ یہ رومان سولہویں صدی تک جا ری رہا۔رومان میں ایک طرح کی پاپولر اپیل بھی ہے۔جو کلچر کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ عوامی سطح تک اپنی بات کہنے کے تمام لوازمات بھی رکھتا ہے۔نظم اور نثر میں رومان کی بھرپور روایت موجود ہے۔ہیرو شجاعت اور وقار کا پیکر ہوتا تھا اور اپنی منزل حاصل کرنے کے لیے کوئی اوچھا ہتھکنڈا استعمال نہیں کرتا۔ بدروحوں، جنات اور درندوں سے مقابلہ کرتے کرتے بالاخر کسی حسینہ کا دل جیتنے میں کا میاب ہوجاتا۔قدیم یونان بجا طور پر اپنے دو رزمیوں (ایلیڈ اور اوڈیسی) پر فخر کر سکتا ہے۔ ان رزمیوں میں مغربی تہذیب کی تاریخ بند ہے۔ ان داستانوں کو بطور تاریخ بھی پڑھا جاتا ہے۔رزمیہ کسی فردِ واحد کی تخلیق نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ اور بھی تہذیب کے قریب نظر آتا ہے۔ غیر تہذیبی عناصر چھٹ جاتے ہیں اور تہذیب کا نکھرا ہُوا چہرہ عیاں ہو جاتا ہے۔
نشاۃ ثانیہ کی تعقل پسندی کے بعد یورپ نے ایک دم اپنے ورثے کو Dark Ageکہنا شروع کر دیا اور صرف مشین اور عقل کو اپنا آقا مان لیا۔ یورپ کی فکری تشکیل شاید یہ سمجھ رہی تھی کہ انسان کی نجات کا ایک ذریعہ ہاتھ لگ گیا ہے۔ مگر یوٹوپیا قائم کیے بغیر اور خواب دیکھے بغیر کب تک انسان رہ سکتا ہے۔ بیم و رجا کی کشمکش انسان کو عملِ خیر کا پیغام دیتی جاتی ہے۔ ویسے بھی عقل کی حکمرانی نے انسان کی تخلیقی قوت کو نڈھال کر دیا۔ مشین کے ساتھ مشین بننے سے عقل نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے۔ بالاخر لاشعور نے شعور کی کھڑکی سے جھانکنا شروع کر دیا اور اپنی تخیلی دنیا کے خواب آمیز مزے شعور کو دینے لگا۔
یورپ کے ادب کا اگر مطالعہ کریں تو ہم باآسانی رومانیت اور کلاسیکیت ، دو اسکول کو غالب رجحان کہہ سکتے ہیں۔ کبھی کلاسیکل ادب حاوی تھا اور کبھی رومانوی ادب نے ادب کو اپنی تخیلی چاشنی دی۔ بیسویں صدی میں عقل پسندی کے ساتھ ٹیکنالوجی کے سیلاب نے انسان کو مجبور کر دیا۔ وجودی کرب میں چیخنے کی آزادی بھی چھین لی گئی۔ ایمرسن اور کرکیگارڈ جیسے مفکرین اور برگساں جیسے فلسفی نئے سوالات کے ساتھ سامنے آئے جو عقل پسندی کو نئے انداز سے دیکھ رہے تھے۔ یہی صدی ہے جب سائنس فکشن نے تخیلی دنیا میں قدم رکھا اور داستان گوئی کا مزہ لیا جانے لگا۔
ہیری پوٹر یورپ(مغرب) میں کیوں زندہ ہُوا؟ اس کی سب سے بڑی وجہ انسان کی رومانی دنیا کی طرف واپسی ہے۔ہیری پوٹر جادو نگری میں پہنچ جاتا ہے اور ساتھ ہی اپنے قارئین اور ناظرین کی تشدد پسند عقل کو رومانوی دنیا میں پہنچا دیتا ہے۔ہیری پوٹر میں آ پ کوگابلن جوپری زادمرد ہیں بینک چلاتے نظر آتے ہیں اور ڈاک رسانی کی ذمہ داری اُلوپوری کرتے نظر آتے ہے۔ ہیری پوٹر کو اُلو کے توسط سے خط پہنچتا ہے۔ جنگل میں گینڈے اور اژدھا رہتے ہیں۔ گھڑ سوار سپاہی بھی ہیں۔
ہیری پوٹر کے والدین جیمز پوٹر اور للی پوٹر خود بھی جادو گر ہیں اور اُن کا بیٹا بھی جادونگری میں اپنے تحفظ کی جنگ لڑتا ہے۔
ایسا نہیں کہ مغرب باالخصوص امریکہ میں اسے خوش آمدید کہا گیا۔ امریکہ میں تو اس کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی گئی جو ابھی تک جاری ہے کہ اس کتاب کو سکولوں کی لائبریریوں میں نہیں رکھنا چاہیے۔ امریکیوں کا موقف ہے کہ جادو ٹونے، بھٹکی روحیں اور جنتر منتر کم عمر ذہنوں کو آلودہ کر دیتے ہیں۔ بچوں میں تخیلی دنیا غلبہ پا لیتی ہے اور وہ حقیقت سے فرار حاصل کرنے میں سہولت پاتے ہیں۔ حقیقی دنیا اُن کے لیے سود مند نہیں رہتی اور وہ تشدد اور بغاوت پر مائل ہوتے ہیں۔ اس قسم کا رد عمل زیادہ تر کیلی فورنیا اور مشی گن ریاستوں میں سامنے آیا۔ یہاں بھی اُسی عقل پرستی اور ٹیکنالوجی کی بالادستی کا مسئلہ ہے۔ امریکی دانشور خود بھی حیران ہیں کہ اس بڑی تعداد میں ہیری پوٹر نے کس طرح مقبولیت حاصل کر لی۔ کیا یہ کچے ذہنوں کی طرف واپسی ہے یا انسانی لاشعور کی ازسرنَو دریافت؟
ہیری پوٹر کی کروڑوں کے تعداد میں بکنے والے مسودوں نے ان سب سوالات کو ایک دفعہ پھر مرکز پر لا کھڑا کیا ہے۔