یونان کی شاعرہ سیفو اور جنس بازی

یونان کی شاعرہ سیفو اور جنس بازی

از، پروفیسر ڈاکٹرسعید احمد

سرزمینِ یونان شعر و ادب، عشق و رومان اور رزم و بزم کے قصوں کے لیے مشہور ہے۔ یونانی تہذیب و ثقافت نے تاریخِ عالم پر گہرے اثرات مرتسم کیے ہیں۔ مغربی تہذیب و تمدّن تو یونان کی شاعرہ سیفو اور جنس بازییونان ہی کے گہوارۂ حکمت میں پروان چڑھے ہیں۔ مشرقی طرزِ فکر و عمل پر بھی یونانی اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہومر، ہسیوڈ، افلاطون، ارسطو اور سکندرِ اعظم جیسے مشاہیرِ یونان سے کون واقف نہیں۔ شہرت کے آسمان پر چمکنے والے ان ستاروں کے جھرمٹ میں ایک تابندہ ستارے کا نام سیفو یا ساپفو (Sappho) ہے۔ سیفو یونان کی ممتاز ترین اور متنازعہ ترین شاعرہ ہے۔
سیفو کی زندگی اور موت۔۔۔ دونوں حیرت و حسرت کی داستان ہیں۔

سیفو کا دَور ساتویں صدی قبل مسیح کے اواخر سے چھٹی صدی کے آغاز تک کا دَور ہے۔ وہ ۶۱۲ ق م کو شمالی یونان کے ایک خوبصورت جزیرے لیسبوس کے علاقے ایریسوس میں پیدا ہوئی۔ زندگی کا بیشتر حصہ مٹیالین (مٹی لین یا موتی لینے) میں بسر کیا۔ ا س زمانے میں یونان کے بیشتر علاقوں میں عورتوں کو زیادہ آزادی حاصل نہ تھی لیکن جزیرہ لیسبوس میں آزادئ نسواں کا چرچا تھا۔ سیفو لیسبوس کی عورتوں کو شاعری اور موسیقی کی تعلیم دیتی تھی۔ سیفو جنس اور حسن و عشق کی دیوی افرودیتی کی پجارن تھی اور اس کی منڈلی میں کنواری دوشیزاؤں کی خاصی بڑی تعداد تھی۔ لیسبوس میں نوجوان لڑکیوں کو موسیقی اور شعر و ادب کی تعلیم کے لیے سیفو، گورگو اور اندرومیدا کے حلقے زیادہ مشہور تھے۔ ان حلقوں کے درمیان پیشہ ورانہ رقابت عام تھی۔ سیفو جتنی اچھی شاعرہ تھی اتنی ہی بدنام بھی تھی۔ اس کی ذات سے طرح طرح کے اسکینڈل منسوب کیے جاتے ہیں۔ اس کی ہم عصر اور حریف خواتین اُسے لڑکیوں سے غیر فطری لگاؤ کے باعث لعن طعن کرتی تھیں۔ یہ ایک عام تاثر ہے کہ سیفو نسائی ہم جنس پرستی کی بانی ہے۔ پرویز اختر نے ڈیسمنڈ مورس کی کتاب ’’عورت، مرد اور تاریخ‘‘ سے درج ذیل اقتباس نقل کیا ہے:

’’نسوانی ہم جنسیت کی متبادل انگریزی اصطلاح Lesbianism اوّل اوّل بہ طور دشنام استعمال ہوئی جس کا ہدف لیسبوس نامی ایک جزیرہ ہے۔ یہ جزیرہ ایشیائے کوچک کے ساحل سے دس میل دور بحیرۂ ایگیسٹن (یعنی بحیرہ آژ) میں واقع ہے۔ جزیرے کی ہم جنسی کے حوالے سے وجۂ شہرت بننے کی ذمہ دار ایک عورت سیفو تھی جو یہاں ساتویں صدی ق م میں رہائش پذیر تھی۔ اس نے عورتوں سے اپنی ’’غیرفطری‘‘ محبت کا اظہار شاعرانہ کمالات کی حامل نظموں میں کیا۔۔۔ اسی کے نام پر نسوانی ہم جنسی کا قدرے کم معروف نام سیفزم ہے۔۔۔ اور ہم جنس پرست عورت کو سیفوسٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یونانی لوگ عورتوں کی ہم جنسی کے لیے اُس دور میں Tribien کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ اس کے معنی باہم رگڑنے کے ہیں۔‘‘

بعض روایات میں سیفو کو طوائف بھی کہا گیا ہے، لیکن میری برنارڈ کے بقول:
’’طوائف ہونے کے الزام کو تو عمومی طور پر جدید علما نے رَد کر دیا ہے، کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایتھنز کے مزاحیہ شاعروں کا بھلا سا مذاق ہے۔‘‘


مزید دیکھیے: کیا ہم جنس پرستی کی ذہنیت موروثی ہے؟  از، محمد رضی الاسلام ندوی


اُردو ادب کے جن ناقدین نے سیفو پر قدرے تفصیل سے لکھا ہے اُن میں میرا جی اور سلیم الرحمن کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ میرا جی لکھتے ہیں کہ اگرچہ سیفو کسی طرح کے اخلاقی اصولوں کی پابند نہ تھی لیکن اس بات سے ہم انکار نہیں کر سکتے کہ دل کی صفائی اور پاکیزگی اس کا مطمحِ نظر تھا۔ کسی مرد کے ہاتھوں اپنے روح و جسم کو یکسر سونپ دینا اُس کے لیے کوئی خوشگوار عمل نہ تھا، مثلاً وہ ایک جگہ اپنے آپ کو ’’ابدی دوشیزہ‘‘ لکھتی ہے۔ سیفو کے اردگرد دوشیزاؤں کا جھرمٹ رہتا تھا۔ سیفو اپنی ان نوجوان عورتوں کے

حلقے کو ’’بیڑے‘‘ کے نام سے بیان کرتی ہے۔ میرا جی اس لفظ کے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’یہ بات کچھ کھٹکتی ہے کیوں کہ اسی لفظ سے بعد میں جا کر اُن تربیت یافتہ طوائفوں کو پکارا جانے لگا جو یونانی امرا کا دل بہلاتی تھیں، لیکن سیفو کے زمانے میں اس لفظ کے ساتھ کوئی ایسا ناگوار تلازمِ خیال نہ تھا، نہ اس لفظ کے ترجمے کے لیے زناخی یا دوگانہ کی اصطلاحات سے مدد لینا چاہیے، کیوں کہ اس وقت اس کا مفہوم بعینہٖ وہی تھا جو آج ہمارے سماج میں سہیلی یا ’’دوپٹہ بدل بہن‘‘ کے کلمے سے لیا جاتا ہے۔‘‘

سلیم الرحمن کا خیال ہے کہ سیفو کی ہم جنس بازی کے بارے میں جو مبالغہ آمیز روایات مشہور ہیں، وہ سراسر فرضی ہیں۔ خود اپنے زمانے میں لیسبوس میں اس کی شہرت بالکل یونان کی شاعرہ سیفو اور جنس بازیبے داغ تھی۔ لیکن بعد میں لوگوں نے، خصوصاً طربیہ لکھنے والوں نے، اس کے حوالے سے طرح طرح کی بے سروپا کہانیاں مشہور کر دیں۔ کسی نے اسے بدنامِ زمانہ طوائف کہا تو کسی نے اسے چپٹی باز بنا دیا۔۔۔ ان باتوں کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ متاخرین کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی کہ کوئی عورت اور وہ بھی شریف خاندان کی، اس قدر فاش لہجے میں عاشقانہ نظمیں کہنے کی جسارت کر سکتی ہے۔

سلیم الرحمن کے برعکس ڈاکٹر صفدر سیتاپوری لکھتے ہیں:

’’سیفو کا عشق گوشت پوست کے جسم اور اُس کے ظاہری حسن سے ہے۔‘‘

ایک معاصر مترجم ضمیر احمد لکھتے ہیں:

’’ان کے کلام میں ہم جنسی عشق کے رجحانات بڑے واضح ہیں۔۔۔ محسوسات جیسے آتش بہ داماں ہیں۔‘‘

سیفو اپنی سہیلیوں کے بارے میں جس طرح جذبات و احساسات کا تخلیقی اظہار کرتی ہے ، اُس پر تبصرہ کرتے ہوئے سلیم الرحمن کو بھی کم از کم یہ ضرور تسلیم کرنا پڑا کہ:

’’ان لگاوٹوں میں کہیں کہیں کامنا بھی جھلک مارتی ہے۔‘‘

سیفو کو صرف ہم جنس دوشیزاؤں ہی سے پیار نہ تھا بلکہ متعدد مردوں کے عشق میں بھی گرفتار رہی۔ اس ضمن میں سب سے مشہور نام معروف شاعر الکائیوس کا ہے۔ الکائیوس سیفو سے شادی کا خواستگار تھا لیکن بعض وجوہ کی بنا پر یہ شادی نہ ہو سکی۔ سیفو کی شادی ایک بہت امیر تاجر کیرکلاس سے ہوئی۔ سیفو کی ایک بیٹی کلیز کا ذکر بھی ملتا ہے۔ کیرکلاس کی بے وقت موت سے سیفو شادی کے چند سال بعد ہی بیوہ ہو گئی۔ سیفو مٹی لین کے ایک نوجوان ملّاح فاڈن پر عاشق تھی۔ فاڈن حسن و زیبائی میں بے مثل تھا۔ کچھ عرصہ سیفو اور فاڈن چھپ چھپ کر ملتے رہے لیکن فاڈن جلد ہی سیفو سے کنارہ کش ہو گیا۔ سیفو دربدر فاڈن کو ڈھونڈتی رہی اور بالآخر نااُمیدی اور یاس نے اسے زندگی سے دلبرداشتہ کر دیا اور ایک دن چٹان پر سیر کرتے ہوئے اُس نے دوڑ کر چھلانگ لگا دی اور نیچے گہرائی میں موجزن دریائے ایپی اس کی موجوں نے اس کے جسم کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ خودکشی کے وقت (۵۵۷ ق م) سیفو کی عمر پچپن سال تھی۔

الکائیوس شاعر کی ایک ناتمام نظم سے سیفو کی موت کے متعلق چند اشارے ملتے ہیں:

’’۔۔۔ بدنصیبی۔۔۔ میں ایک بدنصیب عورت۔۔۔ جس کے لیے دکھ ہی دکھ ہیں۔۔۔ گھربار۔۔۔ دکھوں سے بھری ہوئی تقدیر۔۔۔ رسوائی۔۔۔ زندگی کا ناقابلِ علاج زوال آنے کو ہے۔۔۔ ڈرے ہوئے سینے میں ایک خوف جاگ اٹھا۔۔۔ جنون۔۔۔ تباہی۔۔۔ سمندر کی سرد مہر لہریں۔‘‘

انجام کار سیفو کے شکستہ جسم کو دریا سے برآمد کر لیا گیا اور جلانے کے بعد اُس کی راکھ کو مٹی لین میں دفن کرنے کے لیے روانہ کر دیا گیا۔ بعض مورّخینِ ادب نے سیفو کی خودکشی کو محض افسانہ قرار دیا ہے۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں سیلانین نے سیفو کا مجسمہ نصب کیا تھا، بعد میں واس نے اسے چرا لیا۔ اس سے سیفو کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کا پتہ چلتا ہے۔ سیفو کے متنازعہ کردار اور متلوّن مزاج شخصیت کے باوجود ہم عصر اور متاخرین شعرا نے اُسے بھرپور خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ افلاطون، جو اپنی یوٹوپیا میں شاعروں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا، سیفو کے متعلق کہتا ہے کہ:

’’لوگ کہتے ہیں کہ سروشِ غیبی تعداد میں نو ہیں، لیکن وہ بھولتے ہیں، کیوں کہ دیکھو، لیسبوس کی سیفو بھی ہے جو دسواں سروش ہے۔‘‘

ارسطو اسے ’’حسنِ مجسّم‘‘ کہتا ہے اور جا بجا اس کی نظموں کے حوالے دیتا ہے۔ پلوطارک لکھتا ہے کہ:

’’اُس کا کلام شعلوں میں لپٹا ہوا تھا۔‘‘

سیّد امداد امام اثر سیفو کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ:

’’اس کی غزل سرائی ایسی پُرتاثیر تھی کہ اہلِ یونان اُس کے کلام کے مفتون و شیدا تھے۔ معاملات عشقیہ کے بیان پر نادر قدرت رکھتی تھی۔ خود کسی نوجوان پر عاشق تھی اسی لیے اس کا کلام تمام تر عاشقانہ رنگ رکھتا تھا۔ لیرکس کسی شخص نے اہلِ یونان میں سے اس شاعرہ سے بہتر نہیں لکھا۔‘‘

سیّد امداد امام اثر نے سیفو کی شاعری کو غزل سرائی سے تعبیر کیا ہے۔ سیفو نے وارداتِ قلبی اور معاملہ بندی جیسے مضامین کو نہایت سوزوگداز اور خوش سلیقگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اسی لیے ناقدین نے ’’تغزّل‘‘ کو سیفو کی شاعری کی نمایاں خوبی قرار دیا ہے۔ میرا جی رقم طراز ہیں:

’’سیفو نہ صرف اپنے زمانے میں یونان کی سب سے بڑی شاعرہ گزری ہے بلکہ خالص تغزّل کے لحاظ سے وہ آج تک دنیا کی سب سے بڑی شاعرہ تصور کی جاتی ہے۔ اور اس کی شاعری میں دو باتوں نے ایک خاص دل چسپی پیدا کر دی ہے؛ پہلی بات یہ ہے کہ اس کا کلام کمیاب بلکہ نادر ہے۔ اب تک صرف ساٹھ کے قریب ٹکڑے اس کی شاعری کے مل سکے ہیں، اور اُن میں بھی صرف ایک نظم مکمل ہے اور دو تین بڑے ٹکڑے ہیں، باقی سب دو دو تین تین سطروں کے جواہر پارے ہیں بلکہ بعض ٹکڑے تو صرف چند الفاظ پر مشتمل ہیں۔
لیکن یہ ادھورے ٹکڑے بھی چمکتے ہوئے ہیرے ہیں اور بھڑکتے ہوئے شعلے۔ دوسری بات اس کی رنگین سوانح حیات ہیں۔‘‘

میرا جی نے سیفو کی شخصیت کا بھرپور تجزیہ کیا ہے۔ سیفو خوبصورت نہ تھی لیکن اُس کی شخصیت میں ایک پُراسرار مقناطیسی کشش پوشیدہ تھی جس کے باعث نوجوان لڑکیاں اس کی جانب کھنچی چلی آتی تھیں۔ میرا جی ایک مصنف کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ وہ ایک ایسی بلبل کی طرح تھی جس کے ننھے منے جسم کو بدنما پروبال نے ڈھانپ رکھا ہو، لیکن اس کی ذہانت ان نسائی خامیوں کی پردہ پوش تھی۔ وہ ایک ایسی شاعرہ تھی جسے مولوی عظمت اللہ کے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ:

کامنی کوئل تھی تو
گیت سریلا ترا

اُس کی شخصیت کے سحر اور باطن کے اضطراب نے اُس کے کلام کو دو آشتہ بنا دیا تھا۔ محمد سلیم الرحمن سیفو کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ:

’’اس کی شعری دنیا کا مرکز ذاتی جذبات ہیں۔ طرح طرح کی پابندیوں میں جکڑی نسوانی زندگی کی چھوٹی بڑی خوشیاں اور محرومیاں، لگاوٹ کے مزے، لاگ ڈانٹ کی کھٹک، ہر وقت سلگتے رہنے کی کیفیت جو گاہے گاہے لاٹیں مارتی آگ میں بھی تبدیل ہو جاتی ہے، یہ سارا، کبھی نہاں کبھی عیاں، ہیجان اس کے شعر کے سانچے میں ڈھل کر بے کراں اور بے زماں معلوم ہونے لگتا ہے۔ ساپفو کے موضوعات صرف اپنے خاندان اور ہم جولیوں تک محدود ہیں یا پھر اُن کا تعلق قلبی واردات یا مذہبی عقائد سے ہے۔ لیکن احساس کی چوکھی آنچ نے ہر طرح کے کھوٹ کو جلا کر راکھ کر دیا ہے اور حرف حرف میں سونے کی سی ڈلک پیدا ہو گئی ہے۔

عروض پر اُس کی گرفت بہت مضبوط ہے۔۔۔ اشعار کا آہنگ بہت مترنم ہے جیسے اپنے زیروبم سے جذبات کے اتار چڑھاؤ کو آس دے رہا ہو۔۔۔ ساپفو کے کلام میں سوزوگداز، آہنگ اور صوت کی پُرفریب حد تک دل آویز سادگی اور حسّیاتی حسن کی اس یکجائی سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم کوئی آسمانی نشیدسن رہے ہوں۔۔۔ اس کا ایمان تھا کہ وہ جس دنیا میں سانس لے رہی ہے وہاں الوہی ہستیاں کہیں آس پاس ہی سرگرمِ عمل ہیں۔ جب وہ شاعری کی دیویوں کو پکارتی ہے تو اس بلاوے میں کوئی سخن سازی یا رسمی عقیدت شامل نہیں ہوتی، وہ اپنے الہام کا سرچشمہ اُنہی کو سمجھتی ہے۔ اس کی نظر میں مضامین غیب سے نہیں آتے بلکہ ان دیویوں کی طرف سے القا ہوتے ہیں۔ آسمانی ہستیوں کی تائید سے سرفراز ہونے کے شعور سے اُس کا کلام جگمگاتا اور عشق ایسی واردات کا روپ دھارتا نظر آتا ہے جو انسانی امنگوں اور جذبوں سے سیراب بھی ہے اور اپنے آپ میں افلاکی شان بھی رکھتا ہے۔

وہ عشق کی مختلف کیفیتوں کی شاعر ہے لیکن اُس کے لیے عشق محبوب کے حوالے سے خود اپنی ذات کی توسیع کا نام ہے۔ اپنے حواس کو دوآشتہ کرنے کا عمل ہے۔ زندگی کی اس تھرتھراہٹ کی ترجمانی ہے جو اس کے رگ و پے میں سیل کی طرح رواں دواں تھی۔ جب عشق کی آگ بجھتی ہے تو وہ بالکل سونی بلکہ اَدھ موئی ہو کر رہ جاتی ہے۔۔۔ ساپفو کی شاعری کی نرماہٹ کی نظیر یونانی شاعری میں ملنی مشکل ہے۔ یہ نرماہٹ لذت اندوزی اور آرام طلب خودپسندی یا اپنے خیالوں اور جذبوں کو چوم چاٹ کر خوش ہوتے رہنے سے وجود میں نہیں آئی۔

اس میں رَچی ہوئی مٹھاس اتنی گاڑھی بھی نہیں کہ ذرا سی دیر میں طبیعت سیر ہو جائے۔ ساپفو نے تشبیہہ اور استعارے کا سہارا کم لیا ہے اور دو ٹوک انداز میں بات کہنے کو ترجیح دی ہے۔ اس کا فن زیب و زینت کے لیے تمثالیات کا محتاج نہیں۔ وہ تمثالوں کی حدود سے نکل کر ایسی سطح پر جا پہنچا ہے، جہاں ہر شے کے حسن کو شفاف، کندن حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں بیان کو گہنوں، پاتوں اور توضیحی چناں چنیں کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس کے ہاں مواد اور پیش کش کے انداز کے درمیان کوئی آویزش یا جھول نظر نہیں آتا اور سمجھنا مشکل ہے کہ وہ ایسی نظمیں کیسے کہہ لیتی ہے جو ایک طرف تو سادگی کا کمال ہیں اور دوسری طرف بلاغت کا یہ عالم ہے کہ ہر لفظ اپنا فریضہ غیرمعمولی جزالت اور سعادت مندی سے انجام دیتا ہے۔ ان نظموں کی روشن ضمیری اور خالص شعلگی دیدنی ہے، جیسے ان میں کارفرما تخیل پہلے ہی کسی آنچ میں تپ کر پارس ہو چکا ہو۔‘‘