(فائزہ افتخار ملک)
اردو وطن عزیز کی قومی زبان ہے علاوہ ازیں ایک سروے کے مطابق دنیا میں جو زبانیں کثرت سے بولی اور سمجھی جاتی ہیں اردو ان میں سے ایک ہے۔ چند صدیوں قبل تشکیل پانے والی یہ زبان مختلف ارتقائی مراحل سے گزرتی ہوئی اب ایک ادبی زبان کا درجہ حاصل کر چکی ہے اور اسے اس مقام پر پہنچانے میں بلاشبہ ہمارے شاعروں، ادیبوں اور نقادوں کا اہم کردار ہے۔
باوجود اس حقیقت کے کہ اس زبان میں قدآور ادبی شخصیات شاعر اور ادیب موجود ہیں جو نہ صرف اس زبان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں بلکہ اس کی ترویج و ترقی کے لیے کوشاں ہیں، ہمارے ملک کی اکثریت اب اس شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کو کوئی زیادہ قابل قدر نہیں گردانتی اور نہ ہی اردو ادب کی تعلیم کو خاص اہمیت حاصل ہے بلکہ اس حوالے سے کچھ استہزائیہ رویے بھی سامنے آتے ہیں۔
اردو زبان کا استعمال آج کل روزمرہ میں بولنے اور ”پاپولر فکشن” تک محدود ہے۔ مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی یہ زبان ایک نئی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جس میں انگریزی الفاظ کے استعمال میں روز بروز بے پناہ اضافہ ہوا چلا جا رہا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترجیحات بدلتی رہتی ہیں اور ہر وقت کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جیسے اردو زبان کے ابتدائی دور میں اس میں عربی، فارسی ، ہندی اور سنسکرت کے الفاظ کا بے دریغ استعمال کیا جاتا تھا۔ جبکہ اب جدید دور ہے اور جدیدزیورِ تعلیم سے آراستہ ہماری یہ نسل اسی زبان میں انگریزی کی آمیزش کر لیتی ہے۔ البتہ زبان کے ساتھ جو انصاف برتنا چاہیے اردو ادب سے وابستہ لوگوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جائز حق تو اسے ضرور حاصل ہو۔
ایم اے اردو یا اردو ادب سے وابستہ لوگوں کے لیے معاشرے کے عام لوگوں کے ہان کچھ استہزائیہ انداز پایا جاتا ہے اور یہ کہ اردو شاعری تو میر و غالب کے غم و فلسفہ طوائفوں اور خیالی محبوبوں اور دلی و لکھنؤ کی زوال پذیر اور اُجڑی تہذیبوں کی بھول بھلیوں میں گم ہے۔
حالانکہ وہ دلی و لکھنؤ کب کے اُجڑ کر بس بھی گئے بلکہ پوری طرح سے بارونق اور آباد ہیں۔ تہذیب کب سے طوائفوں سے متعلق مسائل سے نکل کر انتہائی وسعت اختیار کر گئی مگر ایم اے اردو کرنے والے طلباء خاص طور پر سالِ اول کے طلباء اگر شاعری کا پرچہ پڑھیں تو یہی دلی لکھنؤ کی تہذیب لٹنے کا غم، تاریخ کا پرچہ پڑھیں تو بھی اسی تہذیب کا زوال اور غمگین شاعری، اسلوب میں یہ ذکر بلکہ ذکر کیا۔ مکاتیبِ غالب کے حوالے سے نہایت تفصیل ملتی ہے۔
جبکہ افسانوی نثر کے پرچے میں بھی ناولوں میں اسی دلی و لکھنؤ کی لٹتی ہوئی تہذیب کا رونا ہے۔ طوائفوں سے متعلق بھی یہی صورت حال ہے کہ ان کا ذکر ہر جگہ ملتاہے اور غلام عباس کے دو افسانے اسی موضوع سے متعلق ہیں۔ اگرچہ یہ شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں مگر ایک جیسے موضوعات ہی کا مختلف طرح سے بیان کیوں؟ یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ تقریباً سارا عظیم ادب تہذیب کے آخری دور میں تخلیق ہو ا یا یہ نظریہ کے شاہکار ادب تہذیب کے زوال میں ہی تخلیق ہوتاہے اور میر و غالب کی شاعری میں زندگی کا عظیم فلسفہ ہے اور درد کی صوفیانہ شاعری نہایت اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔ ان شاعروں کا غم ذاتی غم نہیں بلکہ پوری تہذیب کا غم ہے اس کی سطح آفاقی نوعیت کی ہے اور یہ کہ عشق ان کے نزدیک ایک جذبہ نہیں ایک بہت بری قدر ہے۔ مگر سارا سال بھی طلباء اس عشق اور غم کو پڑھ کر بھی کسی قدر اور فلسفے کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔
بات یہاں پھر وقت کے تقاضوں اور ضرورتوں کی آ جاتی ہے۔ آج کے دور میں عشق کے وہ معنی ہرگز مراد نہیں لیے جاتے یا لیے جا سکتے جو میر یا ولی دکنی کے دور میں لیے جاتے تھے اور اگر مراد لے بھی لیے جائیں تو یہ نسل اسے محسوس کرنے سے قطعی نابلد ہے۔ جب تک گہری ریاضت نہ کر لی جائے میر کا غم سمجھ میں نہیں آتا۔ میر کے سیدھے سادے اشعار کو نقادوں نے اس قدر مشکل بنا کر پیش کیا ہے کہ طلباء کسی بھی مفہوم کو سمجھنے سے عاری رہتے ہیں۔
اگر ہمارے پاس ابتداء میں ایسے عظیم ادیب اور شاعر اور ادیب موجود تھے تو آخر ہم کتنی صدیاں صرف انہی کے مطالعے پر صرف کریں گے۔ کیونکہ اس بات میں شک و شبے کی گنجائش نہیں کہ ہمارے طلباء کی اکثریت صرف نصاب پڑھنے پر ہی اکتفا کرتی ہے۔ دراصل ہماری پوری قوم کا ایک اہم رویہ ”مردہ پرستی” اور ”ماضی پرستی” ہے۔ ہمارے مزاجوں میں گزری شخصیات ، گزرے واقعات اور گزرے لوگوں کی یاد دہراتے رہنا بلکہ اسی میں زندگی رہنا شامل ہے۔ یہ یقیناً ایک مثبت رویہ ہے لیکن بہرحال اس کی کچھ حدود تو ہونی چاہئیں۔ آج بھی ہماری تہذیب روبہ زوال ہے۔ کتنا ہی اعلیٰ ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ مگرہمارے نصاب میں اٹھارویں صدی کے قصائد اور شہر آشوب شامل ہیں۔ میر حسن اور دیاسنکر نسیم کی مثنویات جو بلا شبہ اس دور کی تہذیب ومعاشرت کی نمائندگی کرتی ہیں اور زبان و بیان کی عمدگی کا نمونہ ہیں مگر اس دور کی ”تہذیب و معاشرت کی” اور عرصہ ہوا وہ تہذیب لٹ پٹ کر پھر سے ترقی یافتہ ہو گئی اور ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔
مسئلہ در حقیقت یہ بھی ہے کہ تمام پرچوں (پورے نصاب) میں ایک طرح کے موضوعات پڑھ کر نا صرف الجھن ہوتی ہے بلکہ کوفت اور شدید بیزاری کا احساس ہوتاہے اور دِلی و لکھنؤ کے زوال، طوائفوں کے ذکر، مرضی محبوب اور ہرطرف عشق و ستم طلباء پر اخلاقی سطح پر منفی اثرات بھی مرتب کرتے ہیں کیونکہ فی زمانہ وہ عشق کے کوئی اعلیٰ و ارفع معنی اخذ کرنے کے قابل نہیں رہے۔
شاعری سے ہٹ کر افسانوی ادب کو دیکھا جائے تو امرائو جان ادا، جسے بالاتفاق اردو کا پہلا مکمل ناول، پورا پورا ناول، عظیم ناول قرار دیا جاتاہے، میں بھی اسی زوال پذیر معاشرے کی معاشرت کی عکاسی کی گئی ہے۔ فسانۂ آزاد میں بھی تقریباً یہی پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مولوی نذیر احمد دلی کا محاورہ، میرامن دلی کے روڑے، رجب علی سرور لکھنؤ کی زبان اور لکھنؤ کا زوال و انحطاط۔ غلام عباس کا” آنندی” میں طوائفیں اور ”اُس کی بیوی”، میں طوائفوں کا ذکر۔ یہی وجہ ہے کہ ایم اے سال اول کا نصاب یکسانیت کا شکار معلوم ہوتاہے۔
کیا اردو ادب میں صرف وہی ادب شامل ہے جو اس دور میں تخلیق ہوا؟ اس کے بعد اردو میں کتنا ہی عظیم ادب تخلیق ہوا جس میں نثر اور شاعری دونوں شامل ہیں، جسے ناجانے کس مصلحت کے تحت نصاب میں شامل نہیں کیا گیا۔ ادب مزاج رکھنے والے طلباء تو اس سے واقف ہوتے ہیں مگر اکثریت اس زبان و ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر لینے کے بعد بھی اس سے واقفیت حاصل نہیں کر پاتے اور یوں اس امر سے بھی نا آشنا ہی رہتے ہیں کہ یہ ادب ترقی کے مراحل طے کرتا ہواروز بروز عروج کی منازل طے کررہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قدیم ادب کے ساتھ جدید ادب بلکہ معاصر ادب کو بھی شامل کیا جائے۔ اس ادب کو جو ہماری تہذیب ہمارے دور کے مسائل کو بیان کرتا ہے۔ صرف تہذیبوں کے لٹنے کے غم اور طوائفوں سے ہٹ کر بھی اردو ادب زندگی کے مسائل اور فلسفے کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر اردو ادب پر طوائفوں اور دلی و لکھنؤ ہی کی اجارہ داری نظر آتی ہے حالانکہ یہ سب تاریخ کے پرچے میں بھی پڑھا جاتاہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ اردو کی ابتدا اور قدیم اصناف سے واقفیت دلائی جائے لیکن شاعری اور افسانوی ادب میں جدید اور معاصر ادب یا اس سے ہٹ کر دوسرے موضوعات پر تخلیق کیا جانے والا عمدہ ادب شامل کیا جانا چاہیے تاکہ اس میں وسعت پیدا ہو سکے۔ قصائد ، شہر آشوب اور قصائد کے متعلق بتایا ضرور جانا چاہیے مگر ان کی طرف، داستانوں کی طرف کوئی واپس جانے والا نہیں۔ اب تو نئے نئے تجربات ہو رہے ہیں جن کو ساتھ لے کر چلنا نہایت ضروری ہے کیونکہ تعلیم کے دیگر تمام شعبے آگے کی طرف جا رہے ہیں۔ نئی نئی دریافتیں کر رہے ہیں اور اردو ادب ابھی بھی ماضی میں کہیں کھویا ہوا ہے اور ترقی یافتہ قومیں وہی ہوتی ہیں جو وقت کے تقاضوں اور ضرورتوں کو سمجھتی ہیں، تبدیلی قبول کرتی ہیں اور خودکو اس سے ہم آہنگ کرتی ہیں۔