(ذوالفقار علی)
اماں تو مُجھے دلاسا کیوں نہیں دیتی۔ تُجھے میری موت نظر کیوں نہیں آتی؟ تیری لوری اب میرے کانوں میں رس کیوں نہیں گھولتی۔ اماں تجھے پتا ہے کہ میں ذمہ داریوں کا بوجھ اُتھاتے اُٹھاتے ٹوٹ چُکا ہوں میری نیند کو کسی انجانے خوف نے چاٹ لیا ہے، جو خواب تو نے بُنے تھے اُن کو پورا کرتے کرتے میرے بال سُفید ہو گئے، مگر میں آج بھی اُن خوابوں کے ہیولوں میں سرگرداں ہوں۔ اماں تُجھے پتا ہے ایماندای کا جو سبق تو نے مُجھے پڑھایا تھا، اُس پہ قائم رہ کے میں یہاں survive نہیں کر پا رہا۔ اماں جب تو کہتی تھی تیرا بخت بُلند ہو تو میں کس یقین سے اُس پہ اپنے خواب بُنتا تھا۔ آ دیکھ اُن خوابوں کی کرچیاں میرے جگر میں پیوست ہوئی جاتی ہیں۔ ایک لوئر مڈل کلاس کا آدمی یہاں پر جیتے جی مرتا رہتا ہے اور اُسے پتا بھی نہیں چلتا کہ کب اُس کی ٹانگیں قبر میں لٹک گئیں۔
بابا تیرے کاندھے پہ چڑھ کے جب ادھر اُدھر دیکھتے تھے تو منظر کتنے حسین لگتے تھے۔ اب ہر طرف ویرانی سی ویرانی کیوں ہے۔ بابا تُجھے پتا ہے اب ہم وہ خالص خوراک نہیں کھاتے جو تو اپنے ہاتھوں سے بو کے ہمیں کھلاتا تھا بلکہ اب تو زہر کھاتے ہیں، دھوئیں کے زہر سے بھری سانسیں پھیپھڑوں میں اُنڈیلتے ہیں اور زہر بھری باتیں سُنتے ہیں۔ میری اماں، میرے بابا میں مر رہا ہوں اب تو دلاسا دینے والا بھی کوئی نہیں۔ بلکہ میری کارکردگی کو پیسہ کمانے والے مشین کی طرح جانچا جاتا ہے۔ میں جتنا بہتر کمائی کروں گا اُتنا ہی مُجھے عزت ملے گی۔ بابا یہ عزت مُجھے نہیں چاہیے، مُجھے میری زندگی چاہیے۔ وہ زندگی جس میں پیار کسی ضابطے کا مُحتاج نہ ہو، جس میں میرے بچپنے کے یار دوست مُجھ سے کھیلتے کھیلتے لڑ پڑیں تو اگلی صُبح پھر “گولیاں” کھیلیں، ” گوگڑے چھپک” کا مزہ لیں، “لُک چھپ” میں ایک دوسرے کو ڈھوند کے خوشی سے بھرا شور مچائیں۔
دادی تیری “سمی” کی داستاں کہاں کھو گئی۔ تیری رسیلی آواز کی جگہ ٹریفک کا شور سُنائی دیتا ہے، پٹاخوں کی آوازیں ڈرا دیتی ہیں، گھر کی “گھُرٹ” (چکی) کی آواز کی جگہ اب کارخانوں کی بے ھنگم آوازیں میری سماعتوں پہ گراں گُزرتی ہیں، “مٹی” کے “گُھبکار” کی جگہ کانوں کو پھاڑنے والے ہارن بجتےہیں۔ دادی آ دیکھ گھر کے آنگن میں اب پیڑ کا سایہ نہیں ہے اب اُس کی جگہ بجری اور سیمنٹ کی دیواریں کھڑی گریہ کر رہی ہیں۔ دادی میں آہستہ آہستہ مر رہا ہوں۔
دادا تو کہاں ہے؟ گھڑی کی سوئی رات کے آٹھ بجے کی سوئی پر پہنچ چُکی۔ تُجھے بی بی سی نہیں سُننا۔ تُجھے یاد ہے نا جب تیرے ریڈیو کی سوئی کو میں ادھر اُدھر گُھما دیتا تھا تو، تو مُجھے کہتا تھا مُجھے رضا علی عابدی کا “شیر دریا”، وقار احمد کو “بچہ جمہورا”، اور”سب رس” سُننا ہے مگر میں تُجھ سے قصہ سنانے کی شرط پے بی بی سی سُننے دیتا تھا۔ دادا تیری یاد میں آج بھی میں بی بی سی سُنتا ہوں مگر اب سیاست میں وہ مزا نہیں رہا جو تیرے وقتوں میں ہوا کرتا تھا اب تو سیاست کے سارے برتن “لیکس” زدہ ہو چُکے ہیں۔
میرے پرائمری کے اُستاد محترم آپ کہاں ہیں؟ آپ کے حُقے کی گڑ گڑاہٹ آج تک مُجھے بھولی نہیں۔ آپ کی پیار بھری مار، پُرانی سائیکل، تیرے رجسٹر، تیری “سوٹی” جس سے تو ہمیں مارتا تھا وہ کہاں گُم ہو گئیں؟ میرے پیارے اُستاد وہ شعر بھی آج تک مُجھے نہیں بھولا جس کو آپ نے کچے کمرے کی کچی دیوار پر اپنے ہاتھوں سے لکھا تھا کہ ” کم نگاہ سے کسی رند کو نہ دیکھ، کیا جانے اُس کریم کو تو ہے کہ وہ پسند”۔ ہائے آج کے لمبی لمبی ڈگریوں والے معلم اور میرا پی ٹی سی ٹیچر۔ میں مر رہا ہوں مگر کسی کو کوئی خبر ہی نہیں۔
ہائے میری بستی کی گلیاں تُجھے تو یاد ہو گا نا بچپن کے دنوں میں ننگے پاؤں سکول جاتے ہوئے ہم خوب دھول اُڑایا کرتے تھے، بستی کی دُکان کا مالک “میرو چاچا” ہماری اس حرکت کی وجہ سے ہمیں روز ڈانٹتا تھا۔ جن گلیوں میں بھاگ بھاگ کے میں بڑا ہوا وہ گلیاں اب تنگ ہو گئی ہیں اب وہاں موٹر بائیک کی دھول اُڑتی ہے اب “میرو چاچا” موٹر سائیکل کے پیچھے بھاگنے کی بجائے حسرت بھری نظروں سے اُسے تکتا رہتا ہے۔ ہائے مُقدس گلیو، اب میں بڑا ہو گیا ہوں اب میں دھول نہیں اُڑاتا بلکہ اب میرے اندر دھول اُڑتی ہے۔ اب میلے کپڑے بھی نہیں پہنتا پر میلے من کے ساتھ جی رہا ہوں۔
ارے موسمو میں مر رہا ہوں، تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ وہ ساون کی بدلیاں، وہ پورب کے جھونکے، وہ چاند کے گرد بننے والے قوس و قزح کے دائرے، نیلے آسمان پہ ٹمٹماتے ستارے، وہ بارش کے بعد آسمان پہ جھولتی “بی بی پاک کی پینگ” وہ “سنجھ” وہ “رغام” سب میرے سمیت مر رہے۔ آہ، اب تو اُجلے موسموں کی جگہ “سموگ” نے لے لی ہے ۔ ان موسموں کا اور تو ہم کُچھ نہیں کر سکتے وہ بچپن میں بارش مانگنے کا گیت تو گا سکتے ہیں ” آجڑی حبیب، کالیں روحیں دا طبیب، کالی بکری، کالا شینہہ، گھتو دانڑے وسے مینھ” تاکہ مرتی ہوئی بارشوں کو دلاسا دیا جاسکے۔ آپ سب کو میرا پُرسہ وصول ہوا۔