(ذوالفقارعلی)
رات میں اپنی فیس بُک کی ٹائم لائن دیکھ رہا تھا تو میرے ایک دوست سُلیمان حیدر کی وال پہ لکھا تھا “کامران اصدر علی سے پہلی بار سنا تھا کہ یہ صدی ملکوں کی نہیں شہروں کی صدی ہے. بڑے شہر آپس میں مل کر ایک نیا ڈیجیٹل جغرافیہ بنا رہے ہیں. کراچی جس طرح دوبئی سے جڑا ہوا ہے اس طرح فیصل آباد سے نہیں. اسلام آباد جس طرح واشنگٹن سے متاثر ہوتا ہے اس طرح تربت سے نہیں ہوتا. ٹرمپ کی فتح پر نیویارک میں ٹی وی ٹوٹنے کو لاہور میں جتنے لوگوں نے دیکھا اتنوں کو گڈانی میں مرنے والے نظر نہیں آ سکے. کلکتہ سے ٹیلی مارکیٹنگ کرنے والے ہوں یا ایبٹ آباد سے آن لائن قرآن پڑھانے والے وہ جہاں رہتے ہیں وہاں کے دن رات ان کے لیے وہ معنی نہیں رکھتے جو اس مارکیٹ کے جس میں وہ کام کر رہے ہیں. ہم جس طرح بدل رہے ہیں اس کی رفتار بہت تیز اور سمت نامعلوم.
اس میں آپ کلاس کا اینگل شامل کر لیں تو صورتحال اور پیچیدہ ہے. اسلام آباد کے ایک ایلیٹ سکول کے بچے لباس، زبان ،کورس، کلاس روم سیٹنگ، تفریح، خوراک سب اسی سکول کے چوکیدار کے بچے کے مقابلے میں یورپ یا امریکہ کے ایک بچے سے زیادہ ملتا جلتا ہے. اسے اور چوکیدار کے بچے کو اگر اکھٹے بٹھا دیا جائے تو یہ دونوں مل کر ایک نظم نہیں گا سکتے ایک کھیل نہیں کھیل سکتے شاید ایک چیز پر بات کرنا بھی ان کے لیے مشکل ہوتا اگر وہ بچے نا ہوتے. 20 سال بعد یہ بچے اسی معاشرے میں ہوں گے اور ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی ہوں گے۔”
تو میرے ذہن کے اندر بہت سے سوالات نے جنم لیا جو انسان کے مُستقبل سے جُڑے ہوئے ہیں۔ جس میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس “بیگانگی” کا آخر نتیجہ کیا نکلے گا؟ میں نے اپنے آس پاس کا جائزہ لیا تو مُجھے بُنیادی انسانی تعلق اور ثقافتی ٹوٹ پھوٹ کے دل دہلا دینے والے منظر دکھائی دینے لگے۔ خاص طور پر ڈیجیٹل جغرافیہ کے تناظر میں جب میں نے دیہی زندگی اور وہاں کی معاشی سرگرمیوں پر نظر دوڑائی تو مُجھے شہر اور دیہات کے فاصلے نا قابل یقین حد تک بڑھتے دکھائی دئیے۔ منڈی اور کاروبار کے نئے تقاضوں سے سب سے زیادہ متاثر ہمارے دیہات ہو رہے ہیں۔ چونکہ ہماری سیاست اور ریاست کو ڈیجیٹل مارکیٹگ چاہئے جس کی وجہ سے بڑے بڑے شہر ریاست کے وسائل کا زیادہ تر حصہ نگل رہے ہیں۔ اور ہمارے سیاستدان بڑے بڑے شہروں میں ہونے والی ترقی یا ڈویلپمنٹ کو کیش کروا کے الیکشن لڑتے ہیں اور عوام کے نام پر قرض لیتے ہیں اور پھر اُس قرض کا خمیازہ پیداواری عمل سے جُڑے لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے جنکا زیادہ تر تعلق دیہات کے باشندوں سےہوتا ہے۔ جبکہ دیہاتوں میں رہنے والے لوگ زندگی کی بُنیادی ترین سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔
عام طور پر دیہات کے لوگوں کا آپسی سماجی تعلق اور میل ملاپ شہر میں بسنے والے لوگوں سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے مگر اب یہ تعلق ویسا نہیں ریا جیسا 10 ، 20 سال پہلے ہوتا تھا۔ کیونکہ دیہات کی مارکیٹ کو جدید معاشی ہتھکنڈوں نے اپنی جکڑ میں لے کر وہاں کے سماجی ڈھانچے کو بہت نُقصان پینچایا ہے۔ چونکہ میرا تعلق ایک گاؤں سے ہے میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے دیہات کے دن رات کو وہاں کے رہنے والوں سے لاتعلق ہوتے دیکھا ہے۔ میرے گاؤں کے لوگ زیادہ تر کھیتی باڑی اور مال مویشی پال کر گزر اوقات کرتے تھے۔ دامان کے علاقے میں کھیتی باڑی رود کوہی کے پانی سے کی جاتی ہے جو ایک قدرتی نظام ہے۔ رود کوہی کا پانی اپنے ساتھ پہاڑ سے زرخیز مٹی بھی ساتھ لاتا تھا جس کی وجہ سے فصلوں کو کھاد کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔مگر ہوا یوں 1992 میں وہاں بجلی پہنچا دی گئی اور لوگوں نے بجلی پر چلنے والے ٹیوب ویل لگا کر اپنی زمینوں کو سیراب کرنا شروع کر دیا۔ اور قُدرتی آبپاشی کے نظام کو نظر انداز کر دیا۔ شروع شروع میں بجلی سستی ہونے کی وجہ سے لوگوں نے خوب منافع کمایا اور وقتی خوشحالی کا منہ دیکھا مگر وقت گُزرنے کے ساتھ منافع شہر کے بیوپاریوں کی جیب میں جانے لگا۔ کھاد، بیج، کیڑے مار ادویات اور مختلف مشینری بیچنے والی شہر سے جُڑی ملٹی نیشنلز اور مقامی کمپنیوں نے کسانوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور کسان دن بدن مقروض اور لاچار ہوتا گیا۔ رہی سہی کسر شہر سے جُڑے سود خور نے پوری کر دی۔ اب میرے گاؤں کے 90 فیصد لوگ مقروض ہیں اور مال مویشی بیچ کر اپنے اپنے گھروں تک سمٹ چُکے ہیں۔ جس کا اثر یہ ہوا ہماری بیٹھکیں، مقامی کھیل، مقامی بیج اور شادی اور خوشی کی مقامی روایتیں بھی سمٹ گئیں اور بہت سے لوگ بجلی کا بل ادا نہ کرنے کے جُرم میں تھانے اور کچہری کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ مگر پیسہ کمانے والے اب کسی اور منڈی کی تلاش میں کسی اور علاقے کو ترقی کے نام پر نوچ رہے ہونگے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ معاشی مفادات کے کھیل میں آج کا انسان ایسے المیے کو اپنے ہاتھوں سے جنم دے رہا ہے جس کا کوئی انت نہیں ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کے نئے شکاری پُرانے جال کے ساتھ شکار کرنے کیلئے بے تاب ہیں مگر مچھلیاں بھی کہیں یہ جان گئی ہیں کہ کڑھائی میں تلے جانے سے تو بہتر ہے کہ وہ اپنی تنہائی میں اندر ہی اندر کہیں مر جائیں۔
آج کے دیہاتوں کو دیکھتے ہوئے مجھےگیبریل گارشیا کے ناول “تنہائی کے سو سال” میں “ماکونڈو” نامی ایک گاؤں کی صورتحال میری یاداشتوں میں اُبھر رہی ہے۔جس میں پہلے پہل تنہائی “ملکیا ونیس” کے کردار میں نمودار ہوتی ہے اور پھر مُختلف حیرتوں اور عذابوں سے گُزرتی بستی کے تمام لوگوں کو کسی کام کا نہیں چھوڑتی اور وہ آہستہ آہستہ اس کے چُنگل میں آکر پے در پے جنسی عمل سے اس خلا کو پُر کرتے کرتے اپنی ذات کی تنہائی میں مر جاتے ہیں۔