(جواد احمد)
پاکستان میں سیکولرازم کی اصطلاح کے معنی و مفہوم کوعموماً توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ چند لوگوں نے اپنے خیالات کی ترویج کے لیے سیکولرازم سے نفرت پیدا کرنے کی کوشش میں اس کو لا دینیت ، دہریت اور بداخلاقی کا سرچشمہ قرار دیا ہے جو کہ سراسر غلط ہے ۔ سیکولرازم کیلئے موزوں اُردو اصطلاح” فکر پسندی”ہوسکتی ہے ۔ سیکولرازم کی اصطلاح دراصل چرچ یعنی مذہب اور ریاست یعنی سیاست کو الگ کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے گویا سیکولرازم دراصل سیاست اور مذہب کے مابین تفریق کا نام ہے۔
سیکولر اور سیکولرازم خالص مغر بی اصطلاحیں ہیں۔ لاطینی زبان میں سیکولم کے لغوی معنی دنیا کے ہیں ۔ سیکولرازم کا مطلب “ایسا سیاسی اور سماجی نظام ہے جس کی بنیادیں مذہب اور مابعد الطبیعیاتی نظریات کی بجائے عقل اور سائنسی اصولوں پر رکھی گئی ہوں”۔ نامور دانشور اور مصنف سبطِ حسن اپنی تصنیف ‘نویدِ فکر’ میں سیکولرازم کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں ’’قرونِ وسطیٰ میں رومن کتھولک پادری دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، ایک وہ پادری جو کلیساکے ضابطوں کے تحت خانقاہوں میں رہتے تھے۔ دوسرے وہ پادری جو عام شہریوں کی سی زندگی بسر کرتے تھے کلیسا کی اصطلاح میں آخرالذکر کو سیکولرپادری کہا جاتا تھاوہ تمام ادارے بھی سیکولر کہلاتے تھے جو کلیسا کے ماتحت نہ تھے اور وہ جائیداد بھی جسے کلیسا فروخت کر دیتا تھا۔ آج کل سیکولرازم سے مراد ریاستی سیاست یا نظم ونسق کی مذہب یا کلیسا سے علیحدگی ہے‘‘ (صفحہ69)۔
سیکولرازم سے مراد ریاستی معاملات کی مذہب یا کلیسا سے علیحدگی ہے نہ کہ مذہب کی نفی ہے ۔ سیکولرازم نہ تو کوئی مذہبی عقیدہ ہے اور نہ لادینیت کا نام ہے بلکہ ایک معاشرتی فلسفہ ہے جس کا مقصد مذہب کے بارے میں غیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کرنا ہے ۔ جس کے تحت ہر انسان کو اپنی سوچ ، عقیدے ، مذہب یا لادینیت کے کے تحت زندگی گزارنے کا حق حاصل ہوتا ہے ۔ دوسروں کے عقیدے یا سوچ پر دباؤ نہیں ڈالا جاتا ہے ۔ سیکولرازم ایک عملی تدبیر ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ مذہبی نزاع سے بچتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی امور میں مشترک بنیاد پر ملک کانظام چلا یاجائے۔
تاریخی اعتبار سے سیکولرازم کی سوچ یورپ میں عام آدمی کی زندگی میں چرچ کی بے جا مداخلت کے رد عمل کے طور پر ابھری ۔ اگرچہ سیکولر نظام کی بنیادیں انتہائی قدیم ہیں، لیکن سیکولر اور سیکولرازم کی اصطلاح پہلی مرتبہ 19ویں صدی کے ایک انگریز مفکر اور دانشور’ارج جیکب ہولی اوک’ نے وضع کی ۔ اوک کا موقف تھا :
1۔ انسان کی سچی رہنما سائنس ہے۔
2۔ اخلاق مذہب سے جدا ایک قدیم حقیقت ہے۔
3۔ علم وادراک کی واحد کسوٹی اور سند عقل ہے ۔
4۔ ہر شخص کو فکر اور تقریر کی آزادی ملنی چاہیے۔
5۔ ہم سب کو دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سیکولرازم کو معاشرتی نظام کے لیے درست سمجھنے سے ایک دین دار انسان بے دین اور خدا پرست آدمی دہریہ نہیں ہوجاتا ۔ سیکولرازم کا مقصد معاشرے کی صحت مند سماجی اور اخلاقی قدروں کو پامال کرنا نہیں ہے بلکہ سیکولرازم ایک فلسفہ حیات ہے جو خرد مندی اور شخصی آزادی کی تعلیم دیتا ہے اور تقلید وروایت پرستی کی بجائے عقل و علم کی اجتہادی قوتوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ انسان کو توہمات کے جال سے باہر نکالا جائے ۔ اس کے تحت مذہب کو چرچ کی حدود اور انسان کی ذات تک محدود قرار دیا گیا۔ مزید برآں سیکولرازم مذہب کی نفی نہیں کرتا بلکہ یہ کسی بھی فرد کے مذہب پر عمل کے حق کا تحفظ کرتا ہے، جب تک کہ وہ اس اظہار کو مذہبی عبادات کے لیے مخصوص مقامات تک محدود رکھے یا اپنے گھر میں عمل کرے اور جب تک اُس کے مذہبی عقائد اور نظریات دوسرے لوگوں کے نقصان نہیں پہنچاتے یا تشدد وفساد کا باعث نہیں بنتے، سیکولرازم کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مغربی سیکولرازم معاشرتی زندگی کے معاملات میں مذہب کے کردار کو بھی تسلیم کرتا ہے مگر یہ اس کردار کو سیاسی شکل دینے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اس کے مطابق ایسا کرنے سے جدید سائنسی ، معاشی اور منطقی نظریات متاثر ہوتے ہیں۔ یہ وہ سیکولرازم ہے جس پر مغربی ممالک عمل پیرا ہیں۔ سیکولرازم کی بنیاد اس کلئے پر قائم ہے کہ ضمیر و فکر اور اظہار رائے کی آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے ۔
ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی انگلش اردو ڈکشنری کے مطابق سیکولرازم اس معاشرتی اور تعلیمی نظام کے کہتے ہیں جس کی اساس مذہب کے بجائے سائنس پر ہو اور جس میں ریاستی امور کی حد تک مذہب کی مداخلت کی گنجائس نہ ہو۔ مولانا وحید الدین خان’ مسائل اجتہاد‘ میں لکھتے ہیں ’’حقیقت یہ ہے سیکولرازم کوئی مذہبی عقیدہ نہیں اس کا مطلب لادینیت نہیں بلکہ مذہب کے بارے میں غیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کرنا ہے یہ ایک عملی تدبیر ہے اسکا مقصد یہ ہے کہ مذہبی نزاع سے بچتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی امور میں مشترک بنیاد پر ملک کانظام چلایاجائے ‘‘۔سیکولرازم یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ اس دنیاوی خوشی کے علاوہ اور کوئی خوشی نہیں ہو سکتی، البتہ ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہےجہاں انسانی سوچ اور فکر آزاد ہو جس کی بناپر انسان مظاہرِ قدرت اور کائنات کی تخلیق اور یہاں موجود فطرت کے کرشمات پر غورو فکر کرکے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔
جمہوریت اپنی فطرت میں ایک سیکولر نظامِ حکومت ہے ۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی میں یورپ میں جمہوریت کے فروغ نے آگے چل کر ساری دنیا میں مقبولیت حاصل کی ۔ جس طرح سیکولرازم حریت پسندی ،شخصی آزادی سوچنے سمجھنے کے لیے بہتر ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح جمہوریت بحیثیت سیاسی نظام سیکولر نظریات کی بنیاد پر ریاست اور معاشرے کے قیام کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ جمہوریت کی کامیابی کے لیے بھی ایک سیکولر معاشرے، آئین اور سیاسی ثقافت لازم ہیں۔
دوسری طرف مسلم اکثریتی ریاستوں میں سیکولر نظریات فروع نہیں پائے یہی وجہ ہے کہ 57 اسلامی ممالک کے عوام جمہوریت کو ترس رہے ہیں ۔ تقریباً سبھی مسلم ممالک خاندانی بادشاہتوں ، عسکری اور مذہبی آمریتوں یا غیر مستحکم جمہوری حکومتوں کے ماتحت ہیں یا پھر جمہوریت کے نام پر چند خاندانوں کی سیاسی اجارہ داری کے اسیر ہیں ۔ مسلم ممالک میں سیکولرازم کے غیر مقبول ہونے کے باعث جمہوری اقدار پروان نہیں چڑھ پائیں اور فکری سطح پر مسلم آبادی پسماندگی کا شکار ہے۔ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کو ترقی کے لیے محدود مذہبی جمہوریت یا موروثی بادشاہتوں کی جگہ مکمل سیکولر جمہوریت رائج کرنا ہوگی۔
ایسی ریاست یا مملکت جہاں مذہب (چرچ) سیاست (ریاست) سے جُدا ہو۔ اور ریاست کی پالیسیوں پر مذہب کا براہ راست دخل انداز ہونا خارج از امکان ہو۔ سیکولر ریاست کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہوتا۔ اس کے آئین کی رُو سے تمام مذاہب کو مساوی درجہ حاصل ہوتا ہے اور کسی خاص مذہب کے ماننے والوں سے ترجیحی یا امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔ سیکولر سٹیٹ کا مقصد ملک میں مختلف مذاہب کے درمیان چپقلش کو ختم کرنا اور ان کے پیروؤں میں قومی یکجہتی پیدا کرنا ہے۔ سیکولر سٹیٹ کے لیے اُردو میں “لادینی ریاست” کی ترکیب مستعمل ہے ، لیکن یہ اس کا صحیح مترادف نہیں ہے۔بلکہ اس کا صحیح مترادف صُلح کُل بنتا ہے ۔
سیکولرازم یعنی جمہوریت اور مساوات، آئینی اور نمائندہ حکومت ، فکر و ضمیر کی آزادی ، سائنسی سوچ اور شہری حقوق کی جدوجہد جاگیریت اور سرمایہ داری کے درمیان نظریاتی جنگ ہی کی مختلف شکلیں تھیں۔ اس جنگ میں ملوکیت کے علم برداروں کی طرح کلیسا نے بھی ظلم و استبداد کا ساتھ دیا اور ہر روشن خیال ، خرد افروز اور ترقی پنسد تحریک کی شدت سے مخالفت کی مگر تاریخ کے دھارے کو نہ ملوکیت روک سکی اور نہ کلیسائیت۔ انقلاب فرانس نے جاگیری نظام کے تینوں ستون یعنی ملوکیت ، نوابیت اور کلیسا گرادیے ۔ یورپ میں اگلے ایک صدی کے عرصہ میں معاشرے اور ریاست کی تشکیل سیکولر خطوط پر ہوئی۔ انقلاب فرانس (1789) کی وجہ سے سیکولر اداروں اور فکروں کے اثرات یورپ اور ایشیا میں نمایاں ہوئے۔ اس کے باعث یورپ میں ملوکیت ، فیوڈل ازم اور کلیسا کی بالادستی ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی اور دنیا سرمایہ داری نظام کے عہد میں داخل ہوگئی۔وہ حقوق جو سیکولرازم کی جان ہیں : مثلاً تحریر و تقریر کی آزادی ، ضمیر و فکر کی آزادی ، پریس کی آزادی ، تنظیمیں بنانے کی آزادی اور اختلافِ رائے کی آزادی ، ورنہ جاگیری دور میں تو کسی نے ان حقوق کا نام بھی نہ سنا تھا۔ سیکولرازم کے رواج پانے سے کلیسا کی قائم کی ہوئی خوف و دہشت کی فضا ختم ہوگئی ۔ ہر شخص کو پہلی بار اس بات کا موقع ملا کہ وہ دوسرے مسائل کی مانن مذہبی مسائل پر بھی بلا خوف و خطر غور کرے اور جو عقائد و روسوم خلافِ عقل نظر آئیں ان کو رد کردے۔
تاریخی اعتبار سے امریکہ عہد جدید کی پہلی سیکولر ریاست ہے ۔ امریکہ کا نیا آئین جو 1788 میں منظور ہوا ، خالص سیکولر آئین ہے ۔ جس کے مطابق ریاست کے کسی عہدے کے لیے مذہب کی کوئی شرط نہیں اور امریکی کانگریس (پارلیمنٹ) مذہب کے قیام یا مذہب کی آزادی پر پابندی کے سلسلے میں کوئی قانون منظور نہیں کرے گی۔ امریکی آئین کے تحت پارلیمنٹ مذہب کے قیام یا مذہبی رسوم کے متعلق کوئی قانون وضع نہیں کرسکتی۔ اس طرح آئین نے ریاست اور کلیسا کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی ہے۔” امریکہ کے علاوہ کئی ممالک سیکولر نظریات پر عمل پیرا ہیں ۔ سیکولر ریاستوں میں چین ، جاپان ، روس ، فرانس ، اٹلی ، بھارت ، ترکی ، لبنان ۔ ازبکستان کے علاوہ کئی ریاستیں شامل ہیں۔
سیکولر معاشرے کے ممتاز ادارے مندرجہ ذیل ہیں:
1 ۔ مقننہ ۔ جو آزاد اور غیر جانبدار الیکشن کے ذریعے وجود میں آئے۔
2- عدلیہ ۔ جس کو مرکزی اور خودمختاری کا مرتبہ حاصل ہو۔
3۔ انتظامیہ ۔جو عدلیہ اور عدالتی حاکمیت کی اطاعت کرتی ہو۔
4۔ پریس ۔ جو رائے عامہ کے اظہار و تشکیل کا مقبول حربہ ہے ۔
سیکولر ریاست میں ہر شخص بلا لحاظ مذہب مساوی درجے کا شہری ہوتا ہے۔ سیکولر ریاست کسی شہری کے مذہبی معاملات میں دخیل نہیں ہوتی نہ کسی کو مذہبی عقائد کی پابندی کرنے یا نہ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ سیکولر ریاست آئین طور پر کسی مذہب سے وابستہ بھی نہیں ہوتی نہ کسی مخصوص فرقے کے عقاید کو فروغ دیتی ہے۔
jin states ko sacular kaha gya ha agr wo sacular hain to phr wahan muslmano ko to un k mazhab ki azadi nahi di ja rahi.jesey china ma muslmano par rozey rakhny or traveeh parhney par pabandi ha phr zara is ki reason b mention hni chahiye..,ya phr bs pakistan ma hi non muslims ko un ka haq milna chahiye khwa doosrey mumalik ma muslmano k sath kuch b hota rahyyyyyyyy…!!!i