یہ مسائلِ فسانہ
از، ابرار مجیب
کلیم الدین احمد کے ایک جملے کو مستعار لے کر اگر میں یہ کہنے کی جرأت کروں کہ اردو فکشن محبوب کی موہوم کمر ہے یا اقلیدس کا خیالی نقطہ تو لوگ نہ یہ کہ معترض ہوں گے بلکہ بہت ممکن ہے چیخ بھی پڑیں۔ ان کا چیخنا بجا بھی ہے کیوں کہ اردو فکشن تو موجود ہے اور اس کی شناخت بھی ممکن ہے لیکن فکشن کی تنقید کچھ اور ہی منظر نامہ پیش کررہی ہے۔ ہماری تنقید آج تک اسی بحث میں الجھی ہوئی ہے کہ افسانہ کیا ہے؟ اگر آج تک افسانہ کی شناخت ہی ممکن نہیں ہوسکی تو مذکورہ بالا بیان کچھ اتنا غلط بھی نہیں ہے۔یہاں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہماری تنقید نے اردو فکشن کا گہرائی اور گیرائی کے ساتھ، ہمارے فنی تصورات ،معاشرتی ، تاریخی اور کلچرل دروبست کے پس منظر میں پوری غیر جانبداری سے مطالعہ کیا ہی نہیں ۔اردو فکشن کی تنقیدی تاریخ پر جب ہم ایمانداری سے نظر ڈالتے ہیں تو ہماری تنقید ایک ایسی سہاگن کی طرح نظر آتی ہے جس کی مانگ میں سیندور نہیں ہے۔
اردو فکشن کی تنقید نے خودساختہ تصورات اور مغربی فنی توجیہات کی بنیاد پر فکشن سے ’’مطالبات‘‘ کی روش قائم کی اور فکشن میں موجود علاقائیت اور کلچر کے مسائل کو یکسر مسترد کردیا۔ تنقید جب ’’مطالبات‘‘پر اُتر آتی ہے تو ادب کی جدلیاتی ندی خشک ہوجاتی ہے،اس کا ایک بدیہی نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ تخلیق کے سُوتے خشک ہونے لگتے ہیں اور تنقید کی حاکمیت کو فروغ ملنے لگتا ہے۔ یہ حاکمیت تخلیقی فنکاروں کو مصاحب کے درجہ پر لے آتی ہے، جو نقاد کی سلطنت میں آدابِ دربار کی رسم کو نبھاتے ہوئے مسندِتنقید کو فرشی سلام پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اردو میں فکشن کی تنقید نے ایسا ہی گُل کھلایا۔ ہمارے یہاں ایک صنف کا موازنہ اور مقابلہ دوسری صنف سے کرکے ایک صنف کو سرے سے خارج کرنے کے جارحانہ تنقیدی رویے کی مثال بھی موجود ہے۔ یہ رویہ اگر ایک طرف فن کے جواز پر سوالیہ نشان لگاتا ہے تو دوسری طرف فنکار کے صنفی رویے اور انتخاب کی آزادی کو خارج کردیتا ہے۔ نئے تنقیدی منظر نامے میں فکشن کی تنقید یا ’’تنقید ‘‘ نے ’’اتھارٹی ‘‘ کے بیانیوں اورکلامیوں سے خود کو الگ کرلیا ہے لیکن اردو تنقید ابھی تک اس رویے کی اسیر ہے۔ جواز اور عدم جواز کی معرکہ آرائی تخلیقی جوہر کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنی ہے۔ اردو تنقید کا یہ رویہ فن کی تھیوری پر سنجیدہ مکالمہ (ڈسکورس) کا آغاز نہیں کرتا، جیسا کہ دعویٰ کیا گیا بلکہ ہر طرح کے ڈسکورس کی زبان پر قفل لگا کر تنقید کی مطلق العنانیت کا اعلان ہے۔ فنکار تنقید ی موشگافیوں اور دورازکار منطق کے الجھاوے میں کبھی خود کو دیکھتا ہے اور کبھی اپنے فن کو۔ پسپائی کی اسفل ترین سطح پر پہنچ کر ہمارا مصنف اپنے زوال پر نوحہ کناں نہیں ہوتا ، احتجاج کی آواز بھی بلند نہیں کرتا، بلکہ نقاد کی عطا کردہ ڈفلی اٹھا کر جوشِ عقیدت میں بجاتاہوا تخلیقی موت کی آغوش میں جا پہنچتا ہے۔
اردو فکشن کی تنقید نے راوی اور بیانیہ کے رشتہ پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ’’نریشن ‘‘ میں ’’نریٹر‘‘ کا کیارول ہے ؟ فکشن کے فریم ورک میں راوی کی کیا حیثیت ہے؟ تنقید کو اس پس منظر میں کون سا رول ادا کرنا چاہئیے ؟ کیا مصنف ایک بنے بنائے سانچے کا غلام ہے یا تخلیقی عمل، ایک فنکار کو اس کے اپنے مخصوص تصورفن اور زندگی کے تئیں اس کے رویے کے آزادانہ اظہار اوروابستگی سے ہم آہنگ ہونے کی آزادی عطا کرتا ہے۔ اسی طرح فکشن کے بیانیہ میں نقاد اپنی مرضی یا اپنے تصورات فن اور نظریاتی تعصب کی بنیادوں پر متنی سچائیوں کو تلاش کرے گایا بیانیہ میں موجود’’حقیقت‘‘کا حقیقی ادراک حاصل کرکے متنی تناطر کو پیش کرے گا۔ آپ اپنے نظریاتی تعصبات کی بنیاد پر کسی مخصوص فنکار کے بیانیہ کو اس لیے رد نہیں کرسکتے کہ وہ آپ کے ذہن میں موجود فنی یا فکری نظریات کے مطابق نہیں۔ ہماری تنقید نے ایک اور کارنامہ انجام دیا ہے، وہ یہ کہ اگر فکشن میں مصنف کے یہاں کسی قسم کی نظریاتی وابستگی نظر آئے تو اُسے نان آرٹ کہہ کر مسترد کردیا جائے۔ تنقیدی ’’اتھارٹی‘‘ کی یہ صورت فن میں نظریاتی وابستگی کو زہر ہلاہل سمجھتی ہے، خاص طور سے ایسے نظریات جو سماجی ناہمواری اور استحصال سے انسلاک رکھتے ہوں۔
فن برائے فن کے مغربی نظریے کو منطق اور استدلال کا جامہ پہنا کر تنقید نے حقیقت کے بیان اور سماجی کشاکش کے بامعنی ڈسکورس کو ایک آسیب کے طور پر پیش کیا ، اس ماؤرائے استدلا ل ، جوبظاہر استدلال کا التباس ہے ، سے صرف ایک نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ہمارا تنقیدی ماحول کس قدر تعصب اساس گھٹن کا شکار ہے۔ تنقیدی آمریت جوکہ لسانی سیاست کا سب سے بڑا کھیل ہے، اپنی آمرانہ وجاہت کے ساتھ فکشن کو انگلیوں پر نچانے کا کام انجام دیتی رہی ہے جس کے نتیجہ میں ایک پوری نسل فکری مغالطوں اور گمراہی کا شکار ہوگئی۔ فکشن کے رہنما اصول کی دوصورتیں بہت واضح ہیں : ایک ترقی پسندتنقید کے مطالبات اور دوسرا جدیدیت کا نسخہ تیر بہ ہدف جو کہ نظریاتی وابستگی پر لعنت ملامت کرتا ہے۔ ان دو انتہاؤں نے مصنف کی متنی شخصیت کو فکشن کی بحث سے باہر کردیا۔ تنقید کی ’’اتھارٹی ‘‘ ان رویوں میں ’’طاقت ‘‘ کے اظہاریہ کے طور پر ہمارے سامنے آتی ہے۔ ’’اتھارٹی ‘‘ کی موجودگی میں کسی بھی طرح کے مکالمے کی گنجائش نہیں رہتی ۔ بیانیہ کی بحث میں مصنف بھی مطلق العنان نہیں ، اُسے اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ Absolutism پر اصرار کرے ، اسی طرح تنقید بھی متنی تناظر سے باہر نکل کر مصنف کے سامنے مطالبات کی فہرست نہیں رکھ سکتی۔ کاملیت کے مطالبہ سے فن کار نہیں ملا اور پروہت پیدا ہوتے ہیں۔ فوکوؔ اور بارتؔ ’’طاقت‘‘ کے کسی بھی قسم کے اظہار کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ طاقت ’’ڈوکسا‘‘ یا غلط فکری نظام کی تشکیل میں معاون ہے۔
جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں ، ہماری تنقید نے شاعری اور فکشن کے تقابل سے ایک عجیب اور ناقابل فہم صورت حال پیدا کردی۔ ہم اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہے کہ فکشن کا مصنف اور شاعر دو مختلف ذہنی رویوں کے حامل ہیں۔ باختن ؔ کا کہنا ہے کہ فکشن کا مصنف نظریاتی وابستگی کے باوجود جمہوری ہے جبکہ شاعر اپنے فنی رویے میں بہت حد تک آمر ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ فکشن ہمیشہ ’’ڈایا لوجک‘‘یعنی مکالماتی ہوتی ہے جبکہ شاعری ’’مونولاجک‘‘ یعنی خود کلامی ، اس لحاظ سے ہر دو صنف کا تقابل اور موازنہ اور ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا تنقیدی اصول کے بنیادی تقاضوں کے خلاف ہے۔ ظاہر ہے یہ رویہ بھی لسانی سیاست کے ذریعہ تنقید کی آمریت کے نفاذ کا ایک عمل ہے۔ یہ رویہ سب سے پہلے مصنف کی تناظری حقیقت ، موضوعیت اور تخلیقی سیلف کو چیلنج کرتا ہے اور پھر اُسے کلی طور پر خارج کردیتا ہے۔ دنیا کے کسی ادب میں تنقید نے اس قدر معاندانہ کردار ادا نہیں کیا جس کی مثال اردو تنقید نے پیش کی ہے۔
فکشن ، مصنف کی سماجی شناخت اور وابستگی کے بغیر کوئی شئے نہیں ہے، بلکہ کچھ بھی نہیں ہے۔ تنقید کے لیے اس بات کا ادراک حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ چوں کہ فکشن کا بیانیہ صرف حقیقت کو بیان نہیں کرتا بلکہ اس کی صورت بھی بدلتا رہتا ہے، حقیقت کی بدلی ہوئی یہ صورت بنیادی طور پر جمود کی کیفیت کو تبدیل کرنے کا اعلامیہ ہے ۔ ہماری تنقید یا تو مصنف کے اس تناظر کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے یا اس بدلی ہوئی حقیقت کی شناخت سے قاصر ہے، یہی وجہ ہے کہ ہماری تنقید ہمیشہ اپنی حاکمیت کا اظہار کرتے ہوئے مصنف سے اپنے مطالبات منوانے پر زور دیتی ہے۔ فکشن کے فنکار کو یہ بات سمجھ لینی چاہئیے کے مطالباتی اد ب لسانی سیاست سے الگ اپنی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
فکشن ، مصنف کی سماجی شناخت اور وابستگی کے بغیر کوئی شئے نہیں ہے، بلکہ کچھ بھی نہیں ہے۔ تنقید کے لیے اس بات کا ادراک حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔
بہت عمدہ ابرار مجیب اچھا آرٹیکل لکھا ہے ۔۔۔