حبیب جالب عصر حاضر کے ایک انسان دوست اورحساس انقلابی شاعر تھے جن کی ساری زندگی سرمایہ دارانہ آمریت اور اس کے استحصالی ہتھکنڈوں کے خلاف آواز بلند کرتے گزر گئی۔ ان کی ایک مشہور نظم کے چند بول درج ذیل ہیں۔
خطرہ ہے زرداروں کو
گرتی ہوئی دیواروں کو
امریکہ کے پیاروں کو
خطرے میں اسلام نہیں
درج بالا نظم کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی ہر طرح کے سیاسی اور معاشی استحصال کو مذہب کی اوٹ میں چھپائے جانے کے عمل کا آغاز ہوچکا تھا۔ مذہب کو سیاسی مقاصدحاصل کرنے کے لئے استعمال کرنے کی جو روایت تقسیم ہند سے پہلے قائم کی گئی تھی غالبا” یہ اس کا لازمی نتیجہ تھا۔ نفرت، انتشار، بد امنی اور بے یقینی کی ایک ایسی فضاء قائم کی گئی جس میں بظاہر ہر وقت مذہب اور اہل مذہب خطرے میں رہتے تھے۔ چنانچہ مسلئہ چاہے صوبائی خودمختاری کا ہو، علاقائی زبانوں کے تحفظ کا ہو، سیاسی نظام میں سول اور ملٹری بیوروکریسی کی طرف سے نقب لگانے کے عمل کا ہو، جاگیرداری نظام کے خاتمے اور زرعی اصلاحات کا ہویا محروم طبقات کی طرف سے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے آواز اٹھانے کا ہو،کم و بیش ہر جگہ مذہب کے نام پر ہی ان تمام معاملات میں عوام کی آواز کو دبا کرظلم و ستم اور ناانصافی کو روا رکھا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ جب بھی ہمارے مغربی آقاؤں کو اس خطے میں انتشار پیدا کرنے اور اپنے مفادات پورے کرنے کے لئے ‘کافر’ روس کے خلاف ہماری مدد کی ضرورت پڑی تو اسے بھی مذہب کا ہی خوشنما لبادہ پہنایا گیا۔ مذہب کے اس منافقانہ استعمال کا نقطہ عروج اس آمر کا دور ہے جسے حبیب جالب نے اپنی ایک نظم میں ظلمت سے تشبیح دی۔ جس میں بظاہر ہر طرف مذہب کے فروغ کا شور تھا لیکن مجموعی نتیجہ معاشرے میں فرقہ واریت، کلاشنکوف کلچر، ہیروئن، سمگلنگ، عدم برداشت اور سیاست میں دولت کے اندھا دھند استعمال جیسے مفاسد کی شکل میں نکلا۔ رفتہ رفتہ مذہب کا یہ راگ اپنی کشش اور تاثیر کھونے لگا۔ اگرچہ آج بھی مذہب کے نام پر سیاسی، معاشی اور سماجی استحصال کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے لیکن معاشرے کی ایک معقول اکثریت اس حقیقت کو سمجھنے لگی ہے کہ مذہب کا نام محض اقتدار کے حصول اور اسے طوالت دینے یا ملکی و غیر ملکی اشرافیہ کے مفادات پورے کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس کا مذہب کے حقیقی مقاصد یعنی انسانی مساوات، عدل وانصاف، سیاسی امن اور معاشی خوشحالی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
آزادی کے ستر برس بعد اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو محض اتنا فرق پڑا ہے کہ مذہب کا نام استعمال کرنے کی بجائے چند جدید اصطلاحات کا رواج پڑنے لگا ہے جن میں سےمقبول ترین اصطلاح جمہوریت کی ہے۔ حبیب جالب اگر آج زندہ ہوتے تو غالب امکان یہی ہے کہ وہ’ خطرے میں اسلام نہیں’ کی بجائے’ خطرے میں جمہوریت نہیں’ کے الفاظ استعمال کرتے اور مذکورہ نظم کچھ اس طرح سے ہوتی۔
خطرہ ہے زرداروں کو
گرتی ہوئی دیواروں کو
امریکہ کے پیاروں کو
خطرے میں جمہوریت نہیں
انسان جب سے پیدا ہوا ہے اس کی رائے کو متاثر کرنے کے لئے ہر دور میں مختلف حربے آزمائے گئے ہیں۔ کبھی بتوں کا سہارا لیا گیا، کبھی نیکی اور بدی کے الگ الگ خداؤں کا تصور دیا گیا تو کبھی امیری غریبی اور ظلم و ستم کو خدا کی مرضی و منشاء قرار دیا گیا۔ انسان جتنی دیر میں ایک دھوکے سے نکلتا ہے، اگلا دھوکہ ایک نئے روپ میں اس کا منتظر ہوتا ہے اور انسان اپنی سادگی، بھولپن، کم علمی یا ناقص یادداشت کے نتیجے میں اگلے دھوکے کا خوشی خوشی شکار بن جاتا ہے۔ مثلا” دور جدید میں دنیا کے سامراجی ممالک کمزور قوموں پر قبضے اور ان کےمعاشی وسائل کی لوٹ مار کرنے کو جواز بخشنے کے لئے جو انتہائی خوش نما نعرے استعمال کرتے ہیں ان میں آزادی، انسانی حقوق اور جمہوریت سرفہرست ہیں۔بظاہر تو ان نعروں میں بیان کردہ اصطلاحات سے اختلاف کرنا ممکن نہیں ہے لیکن جن مقاصد کے لئے یہ استعمال کی جاتی ہیں وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے سامنے آتے جارہے ہیں۔ مغربی استعمار کی مداخلت کے نتیجے میں نہ تو ان ملکوں میں آزادی اور جمہوریت آتی ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کے حوالے سے ان کا ریکارڈ بہتر ہوتا ہے۔ الٹا وہاں خانہ جنگی، فرقہ وااریت اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں آج اشرافیہ کے مختلف دھڑے قومی وسائل کی انتہائی بے دردی سے لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ ملک میں غربت، جہالت، بد امنی اور پسماندگی دن بدن بڑھتی جارہی ہے لیکن اس تباہ کن صورت حال کو جواز بخشنے کے لئے جس اصطلاح کا سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے وہ جمہوریت کی ہے۔ کہیں جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دیا جاتا ہے تو کہیں جمہوریت کی مضبوطی اور تسلسل کا ذکر کیا جاتا ہے اور کہیں جمہوریت کو درپیش خطرات کا راگ الاپا جاتا ہے۔ اس صورت حال میں قوم کے باشعور اور دردمند افراد کے لئے انتہائی ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ جمہوریت کی اصطلاح کو گہرائی میں جا کر سمجھیں اور اس کو درپیش حقیقی چیلنجز کا ادراک حاصل کریں۔
جمہوریت کی اصطلاح دو لفظوں جمہور (عوام) اور حکومت کی مرکب ہے یعنی ایسا طرز حکومت جس میں اقتدار و اختیار عوام کے ہاتھ میں ہو۔ جمہوریت کی مسلمہ تعریف کے مطابق جمہوریت سے مراد عوام کی حکومت ہے، جو کہ عوام کے زریعے کی جائے اور جس میں عوام کا مفاد پیش نظر ہو۔ جمہوریت کی ضد آمریت، شہنشاہیت یا اشرافیت کو کہا جاتا ہے یعنی ایسا نظام حکومت جس میں اختیارات کا منبع فرد واحد یا ایک مخصوص طبقہ ہو اور وہ طبقہ اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے لئے تمام اختیارات اور وسائل کو استعمال کرے۔ انسانی عقل کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ جمہوریت یعنی حکومتی معاملات میں شمولیت کی خواہش اور اس کے لئے جدوجہد کا عنصر انسانی معاشروں میں بتدریج آگے بڑھا ہے اور دور حاضر کا انسان بحیثیت مجموعی جمہوریت کو بہترین اور واحد قابل عمل نظام حکومت سمجھنے لگا ہے۔ انسانی تاریخ میں جمہوریت کا اولین تصور یونانی اور رومن تہذیبوں میں ملتا ہے جہاں سینٹ یا پارلیمنٹ کی ایک ابتدائی شکل موجود تھی۔ جمہوریت کے اسی ارتقاءکو دین اسلام نے شورائیت (ہر کام میں اہل الرائے افراد سے مشورہ کرنا) اورسیاسی بیعت جیسے تصورات کے زریعے آگے بڑھایا۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں جہاں مغرب میں روسو اور والٹئیر جیسے دانشور جمہوریت پر مبنی افکار کو پروان چڑھا رہے تھے وہیں ہندوستان میں شاہ ولی اللہ مروجہ بادشاہت کو متروک قرار دی کر قوم کے عقلمند اور اہل افراد پر مبنی پارلیمنٹ کا تصور پیش کررہے تھے۔ انہیں نظریات کی بنیاد پر موجودہ دور میں جمہوریت کی تعمیر و تشکیل ہوئی۔ مختصرا” یہ کہ جمہوریت سے مراد انسان کا یہ فطری تقاضا ہے کہ اس پر کوئی دوسرا نسان حکومت نہ کرے ،حکومتی معاملات میں اس کی نمائندگی ہو، اس کی رائے کی اہمیت ہواور ریاستی پالیسیاں بناتے وقت اس کے مفادات کا خیال رکھا جائے۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جمہوریت کے ارتقاء کا یہ سفر یک رخا اور ہموار نہیں رہا بلکہ یہ مختلف ادوار میں مختلف مرحلوں اور شکلوں سے گزرا ہے۔ مثلا” رومن جمہوریت میں رائے دینے کا حق تمام عوام کو حاصل نہ تھا۔نہ ہی غلاموں کے کوئی سیاسی حقوق تھے۔ اس طرح مروجہ مغربی جمہوریت میں بھی آغاز میں ووٹ دینے کا حق صرف بڑے بڑے جاگیرداروں اور تاجروں کو ہی حاصل تھا۔ رفتہ رفتہ یہ حق عوام کو ملنا شروع ہوا لیکن اس میں بھی عورتوں اور سیاہ فام افراد کو ووٹ ڈالنے کا حق بہت بعد میں دیا گیا۔ اسی طرح جمہوریت کی عملی شکل کے حوالے سے بھی دنیا میں کوئی متفق علیہ ماڈل دستیاب نہیں ہے۔ خود مغرب میں کہیں صدارتی نظام حکومت ہے تو کہیں پارلیمانی طرز حکومت ہے ۔ کہیں پر سیاسی نظام میں دو پارٹیوں کا غلبہ ہے تو کہیں دو سے زیادہ جماعتیں سیاسی عمل میں شریک ہیں۔ اس تنوع کی بنیادی وجہ ہر ملک اور علاقے کامخصوص تاریخی پس منظر، روایات اور زمینی حقائق ہیں۔ اسی طرح ایشیاء ، افریقہ اور جنوبی امریکہ میں بھی ہر ترقی پسند ملک نے اپنے حالات کے مطابق اپنے سیاسی نظام کو جمہوریت کی روح کے مطابق تشکیل دیا ہے۔ اس نقطے کو سمجھنے کا مقصد مغربی سامراجی اقوام کی دنیا کے مختلف ممالک کے سیاسی نظاموں پر بے جا تنقید کی اصل حقیقت کا ادراک حاصل کرنا ہے۔ اگر یورپی اقوام کم و بیش ایک جیسی تاریخ ، جغرافیہ اور روایات کے باوجود ہر ملک میں مختلف نوعیت کا سیاسی نظام رکھتی ہیں تو دنیا کے باقی خطوں میں وہ جمہوریت کی کسی مخصوص عملی شکل کا کس بنیاد پر مطالبہ کر سکتے ہیں؟ ہر ملک کے عوام یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ اپنی ضروریات اور مسائل کو سامنے رکھ کر اپنے سیاسی نظام کو جمہوری اصولوں پر تشکیل دیں۔ کسی بھی ملک کے سیاسی نظام کا تجزیہ کسی مخصوص شکل پر اصرار کی بجائے اس بنیاد پر کیا جائے گا کہ وہاں کے سیاسی عمل میں عوام کی شرکت کا کیا طریقہ کار اپنایا گیا ہے ، کیا قانون سازی کرنے والے عوام کے حقیقی نمائندے ہیں اور کیا قانون سازی عوام کے مفادات اور ضروریات کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے یا نہیں؟
اب آئیے پاکستان میں رائج جمہوریت سے وابستہ چند مفروضوں اور مغالطوں کاجائزہ لیں۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کےساتھ ہی اقتدار کی رسہ کشی اور وسائل پر قبضے کا ایک شرمناک کھیل شروع ہو گیا۔تقریبا” دس سال تک کوئی آئین نہ بن سکا یعنی پورا ملک انگریز کے بنائے گئے قوانین پر ہی چلتا رہا (اگرچہ آج بھی انگریز کا قانون ہی معاشرے میں نافذ العمل ہے لیکن کم سے کم سر ورق پر اسلام ،عوامی حکمرانی اور انسانی حقوق کے خوشنمانعرے درج کر ديے گئے ہیں)۔ہر طرف ایک اضطراب کی کیفیت تھی اور ملک کی مرکزی سیاسی جماعت مزید کئی پارٹیوں اور دھڑوں میں تقسیم ہو رہی تھی۔ کھینچا تانی اور لوٹ مار کی اس فضاء میں انگریز کی تربیت یافتہ فوجی اشرافیہ اور سول بیوروکریسی نے بھی اپنے حصے کا مطالبہ کردیا۔ ان کے اس مطالبے کی بنیاد یہ قیاس تھا کہ چونکہ ہم بطور ادارہ کے زیادہ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور منظم بھی اس لئے اختیارات اور وسائل پرہمارا قبضہ ہونا چاہئے۔ ان کے اس قیاس کو کلیتا” رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کی مرکزی جماعت مسلم لیگ تھی جسے کسی طور پر بھی ایک منظم اور متحد سیاسی جماعت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جماعت کے پاس نہ تو قومی ترقی کا کوئی مستقل نظریہ تھا اور نہ ہی اس نظریے پر کو ئی تربیتی نظام اور حکمت عملی موجود تھی ۔۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد ملک کو کن خطوط پر چلایا جائے گا اس بارے میں بھی کوئی واضع لائحہ عمل موجود نہ تھا اور سوال کرنے پر محض چند موہوم خیالات یا کھوکھلی لفاظی سے کام چلایا جاتا تھا۔ جماعت کی اکثریت انگریز کے کاسہ لیس جاگیرداروں، وڈیروں اور تاجروں پر مشتمل تھی جن کے پیش نظر فقط اپنے اقتدار اور بالادستی کو قائم رکھنا تھا۔ اس طبقے کا نہ تو عوامی مسائل سے کوئی ربط تھا اور نہ ہی ان مسائل کے حل کے حوالے سے اس کی کوئی قومی سوچ تھی اسی طبقے کو بانی پاکستان نے اپنی جیب میں موجود کھٹے سکوں سے تشبیہہ دی تھی۔ سیاسی طبقے کو باہم دست و گریباں دیکھ کر سول اور ملٹری بیوروکریسی نے اقتدار میں آنے کا راستہ نکالنا شروع کردیا۔ رفتہ رفتہ اقتدار پر ان کی گرفت مضبوط ہوتی گئی اور بالآخر قیام پاکستان کے گیارہ سال بعد ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔ اس صورت حال میں ملک کے سیاسی طبقے نے اپنی استحصالی اور طبقاتی سوچ پر نظر ثانی کرکے عوامی فلاح کی بنیاد پر سیاست کرنے کی بجائے فوج اور بیوروکریسی کا دست نگر اور معاون بننے میں ہی عافیت جانی۔ آنے والے ادوار میں اسی طبقے کے مختلف نمائندوں کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا ۔ سیاسی اشرافیہ اور سول و ملٹری بیوروکریسی کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی آج بھی جاری ہے اور دونوں مختلف عنوانات مثلا” جمہوریت، گڈکورننس اور احتساب وغیرہ کے تحت ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نظر آتے ہیں۔ یہاں ایک دلچسپ نقطہ ہمسایہ ملک ہندوستان کے متعلق ہے جس نے ہمارے ساتھ ہی آزادی حاصل کی لیکن وہاں ایک بار بھی سول اور ملٹری بیوروکریسی کو مارشل لاء نافذ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ ا س کی بنیادی وجہ وہاں کانگریس کی شکل میں ایک مضبوط اور منظم سیاسی جماعت کی موجودگی تھی۔ کانگریس میں قومی سطح پر تنظیم سازی، مشاورت اور کارکنوں کی تربیت کا ایک نظام موجود تھا۔ آزادی حاصل کرنے سے قبل ہی وہ اپنے ملک کا ایک آئین بنا چکے تھے جس کے تحت انہوں نےمستقبل میں ملک چلانے کےلئے خطوط کو طے کرلیا۔ رفتہ رفتہ انہوں نے اپنے تعلیمی نظام اور مضبوط سیاسی کلچر کے زریعے سامراجی اقدار پر تربیت یافتہ اپنی فوج اور بیورو کریسی میں بھی قومی سوچ کوراسخ کروالیا۔
پاکستان میں 1970 کی دہائی کے بعد سے جمہوریت کے عنوان کے تحت سیاسی اشرافیہ کی حکومت مختلف ادوار میں نافذالعمل رہی ہے۔خاص کر 90 کے دہائی سے لے کر آج تک ملک کی تمام بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا ہے۔ ان ادوار میں سیاسی حکومتیں حکومتی معاملات میں سول اور ملٹری بیوروکریسی (اسٹیبلیشمنٹ) کی مداخلت کا شکوہ کرتی رہی ہیں ۔ یہ شکوہ مکمل طور پر بے جا بھی نہیں ہے کیونکہ بیوروکریسی کو اقتدار اور پالیسی سازی میں اپنی مرضی کرنے کی لت پڑ چکی ہے۔ ساتھ ہی بیوروکریسی کے وسیع پیمانے پر کاروباری اور معاشی مفادات پیدا ہوچکے ہیں جن کے تحفظ کے لئے طاقت کے مراکز پر ان کا اثر و رسوخ ضروری ہے۔ اس کھینچا تانی کو سیاستدان جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہیں (بیشتر اوقات سیاستدانوں کا ہی ایک گروہ اس حملےمیں اسٹیبلیشمنٹ کا ہم نوا ہوتا ہے) جبکہ اسٹیبلیشمنٹ اپنے اقدامات کو شفافیت، احتساب اور گڈگورننس کے پردے میں چھپاتی ہے۔ یہاں عوام اس تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں کہ نعرے تو دونوں کے ہی خوشنما ہیں تو حمایت کس کی کی جائے۔ اس صورت حال میں دانشوروں اور رائے عامہ کے دو گروہ بن جاتے ہیں۔ ایک وہ جو احتساب کے نام پر ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے حلیف بن جاتے ہیں دوسرے وہ جو جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے نام پر سیاسی طاقتوں کے حمایتی بن جاتے ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ دور جدید میں حکمرانی کرنے کا حق عوام کی نمائندگی کرنے والی سیاسی قیادت کا ہوتا ہے اور اسی کو ہمیں بطور اصول قبول کرنا چاہیے لیکن پاکستان کے معروضی حالات میں اس اصول کو قابل عمل بنانے کے لئے کچھ تقاضے پورے کرنے پڑیں گے۔ اوپر کی سطروں میں بیان کئے گئے اسباب کے نتیجے میں اسٹیبلیشمنٹ کا ریاستی معاملات میں عمل دخل ایک زمینی حقیقت ہے۔ اس عمل دخل کو اپنی جائز حدود میں لانے کے لئے ایک منظم، باصلاحیت اور مخلص سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جوکہ اپنی بہتر کارکردگی کے زریعے رفتہ رفتہ نظام حکومت پر اپنی جڑوں کو مضبوط بنائے اور پھر اپنی سیاسی اور اخلاقی ساکھ کی بناء پر ہر ادارے کو اپنے دائرہ کار میں کام کرنے پر مجبور کرے۔
پاکستان میں بدقسمتی سے اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتیں دعوے تو جمہوریت اور عوامی خدمت کے کرتی ہے لیکن تمام عملی اقدامات ان دعؤوں کے برعکس کرتی ہے۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ ان کی نااہلی اور بدعنوانی کی داستانیں طوالت اختیار کرتی جاتی ہیں۔ ملک کی معیشت اور عام آدمی کی حالت تو کمزور ہوتی جاتی ہے لیکن ان کے ذاتی کاروبار دن دگنی رات چگنی ترقی کرنے لگتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں عوام کا گزشتہ ادوار کو یاد کرنا اور جمہوریت اور ترقی پر مبنی ان کے نعروں کو جھوٹ سمجھنا کچھ ایسی بھی لا یعنی بات نہیں ہے کیونکہ عوام کو اپنے مسائل اور ان کے حل سے سروکار ہوتا ہے۔محض تقریروں اور فلسفوں سے ان کا پیٹ بھرنا ایک مشکل کام ہے۔ کم سے کم انہیں اتنا تو نظر آئے کہ اس مشکل صورت حال میں ان کی قیادت ان کے ساتھ کھڑی ہے لیکن عوام دیکھتے ہیں کہ تمام مسائل اور قربانی صرف انہی کے حصے میں آئی ہے۔ قیادت تو اپنی عیاشی، کاروبار اور سرمستیوں میں مصروف ہے۔ آخر میں عوام کے پاس اس قیادت سے بیزاری اور نفرت کے سوا کیا چارہ باقی رہ جاتا ہے؟
(جاری ہے)
بہت خوب لکھا ہے۔ امید ہے آگے آنے والی قسط میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کو بھی فوکس کریں گے۔ شکریہ
Great usman Bhai mashallah
Well done!
nice one