102 ناٹ آؤٹ ، ایک منفرد کاوش
تبصرۂِ فلم از، حسین جاوید افروز
فلمی دنیا میں دو قسم کے اداکار ہوتے ہیں ایک وہ جو ساری عمر ہی کسی ایسے کردار کے متلاشی رہتے ہیں جو ان کی نظر میں ان کی زندگی بدل سکتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ کبھی تو وہ ایسے کردار کو خوش قسمتی سے پا لیتے ہیں یا پھر ساری عمر ہی ایسے کردار کے انتظار میں بیت جاتی ہے۔ لیکن کچھ اداکار ایسے خوش قسمت اور با صلاحیت بھی ہوتے ہیں جن کے لیے ان کی اثر انگیز شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے کردار تخلیق کیے جاتے ہی ہیں اور جب وہ اس کردار میں ڈھل جاتے ہیں تو جیسے فلم بینوں کو من پسند سوغات مل جاتی ہے۔
امتیابھ بچن اور رشی کپور نے بالترتیب بطور اینگری ینگ مین اور رومانوی ہیرو کے اپنا لوہا چار دھائیوں تک کامیابی سے منوایا۔ لیکن اب جب یہ دونوں ہی باکمال اداکار بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں تو بھی ان کے اندر اداکاری کے جنون میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلم بینوں نے دونوں اداکاروں کی 27 برس بعد آئی مشترکہ فلم 102 ناٹ آؤٹ کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا ہے اور یوں فلم دیکھنے کے لیے بھیڑ بڑھتی ہی جارہی ہے۔
102 ناٹ آؤٹ سے قبل رشی کپور اور بگ بی، کبھی کبھی، امر اکبر انتھونی، نصیب، قلی اور عجوبہ میں ساتھ ساتھ کام کر چکے ہیں اور دونوں کی رفاقت تقریباً چالیس برس پر پھیلی ہوئی ہے۔
یہ فلم ممبئی میں رہنے والے سو سال کے دتا واکھریا اور ان کے پچھتر سال کے بیٹے بابو واکھریا کی ہے جو ایک دوسرے سے یکسر مختلف طبیعت کے افراد ہیں۔ دتا واکھریا ایک طویل عمر جینے کے بعد بھی جوش و خروش اور ولولے سے زندگی بسر کرنے پر یقین رکھتا ہے جس کو ہر روز زندگی میں کوئی نہ کوئی ہنگامہ اور قہقے چاہییں۔ جبکہ بابو وکھریا اپنے باپ کے برعکس ہر وقت سنجیدہ، کندھے جھکا کر چلنے والا انسان ہے جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ وہ واقعی بوڑھا ہوچکا ہے لہٰذا اسے بڑھاپے کے تقاضوں کے مطابق ہی اپنی زندگی نیم دلی سے گزارنی چاہیے۔
بطور باپ دتا واکھریا اپنے بیٹے کو مختلف طریقے سے زندگی کی سرگرمیوں میں کھلکھلاہٹ اور شرارتوں کے ساتھ ملوث کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے تاکہ اس کا بیٹا زندگی کو جوش و خروش سے گزارے۔ لیکن جب وہ دیکھتا ہے کہ بابو کی زندگی ایک لگے بندھے اصول کے تحت ہی چلتی ہے تو وہ اس میں بدلاؤ لانے کی ترکیبیں سوچتا ہے اور بابو کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس کا داخلہ ایک اولڈ ایج ہوم میں کروا رہا ہے، جہاں وہ دوسرے بوڑھے دوستوں کے ساتھ رہے اور زندگی کو بدل پائے۔ کیونکہ دتا واکھریا جو کہ 102 سال کی عمر تک پہنچ چکا ہوتا ہے اس کا ایک خواب ہوتا ہے کہ وہ 118 سال کی عمر تک جیے اور دنیا کا سب سے زیادہ طویل العمر شخص بننے کا ریکارڈ حاصل کرے۔
جب بابو اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے خوف سے اولڈ ایج ہوم جانے سے انکار کرتا ہے تو بدلے میں اسے اپنے باپ کی کچھ شرائط تسلیم کرنا پڑتی ہیں۔ یہی سے کہانی ایک نیا موڑ لیتی ہے۔ فلم میں ایک میڈیکل سٹور پر کام کرنے والے دھیرو کا بھی اہم کردار ہے جو باپ بیٹے کی دل چسپ نوک جھونک میں اپنا حصہ ڈالتا رہتا ہے۔
کیا دتا واکھریا اپنے بیٹے کی بیزار زندگی میں تبدیلی کے رنگ بکھیر پاتا ہے؟
کیا دتا واکھریا 118 سال کی عمر تک پہنچنے کا ریکارڑ بنا پاتا ہے؟
کیا بابو اپنے باپ کی جانب سے عائد شرائط پر کھرا اتر پاتا ہے؟
دتا واکھریاکی اس ساری سکیم کے پیچھے کیا مقصد کارفرما ہوتا ہے؟
ان سب سوالات کو جاننے کے لیے آپ کو 102 ناٹ آؤٹ دیکھناضروری ہے۔ فلم کی کہانی میں سادگی اور مزاح کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ خاص کر جس طرح پرانے ممبئی شہر کے مختلف مقامات کی عکاسی کی گئی وہ خاصی متاثر کن ہے۔ ڈائریکٹر امیش شکلا کے کریڈٹ پر اس سے پہلے او مائی گاڈ جیسی اچھوتے موضوع کی فلم بھی ہے۔ جبکہ اس فلم میں اس نے رشی کپور اور امتیابھ بچن جیسے عظیم ایکٹرز کو مہارت سے ایک جان دار ٹیم میں یکجا کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں اداکاروں کے درمیان کیمسٹری اور کامک ٹائمنگ غضب کی رہی ہے۔ خصوصاً چِڑچِڑے پن اور خوشی سے لبریز مکالموں میں گجراتی زبان کا تڑکا بہت ہی مزیدار انداز میں لگایا گیا ہے۔
بنیادی طور پراس فلم کا مرکزی خیال سومیا جوشی کے گجراتی ڈرامے سے لیا گیا ہے۔ فلم کا پہلا ہاف نوک جھونک اور مزاح سے بھرپور ہے جس میں امتیابھ بچن کی رشی کپور کو تنگ کرنے کی اداکاری جہاں شائقین کو ہنساتی ہے تو وہاں رشی کپور اپنے باپ کی اوٹ پٹانگ شرائط سے جس طرح زچ ہوتے ہیں وہ بھی فلم بینوں کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیر دیتا ہے۔
فلم کے مکالمے سامع پر اپنی بھرپور تاثر چھوڑتے ہیں جبکہ سکرین پلے بھی خاصی محنت سے لبریز سے دکھائی دیتا ہے۔ تاہم مزے کی بات یہ ہے کہ فلم کا دورانیہ بھی 102منٹ کا ہی ہے۔ اس فلم کو مکمل طور پر رشی کپور اور امتیابھ بچن نے اپنے کندھوں پر بخوبی اٹھایا ہے جبکہ فلم میں آپ کو ہیروئن چھوڑ کر کوئی خاتون بھی دور دور تک دکھائی نہیں دے گی۔ جبکہ جمت ترویدی نے بھی حقیقی اداکاری سے اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا ہے۔
فلم کا میوزک کہانی کے حوالے سے مناسب ہے اور دل کو بھاتا ہے۔ امیتابھ بچن اور رشی کپور ماضی کی یادوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ہماری پہلی ملاقات ایک فلم ڈائریکٹر کے گھر 1970 میں ہوئی جہاں امتیابھ، خواجہ احمد عباس کے ساتھ بیٹھ کر کچھ لکھنے میں مصروف تھے۔ اس کے بعد بوبی فلم کی شوٹنگ کے وقت بھی اکثر بگ بی، نوجوان رشی کپور کی ہمت افزائی کے لیے فلم کے سیٹ پر چکر لگایا کرتے۔ جبکہ کشمیر میں کبھی کبھی کی شوٹنگ کے دوران دونوں میں دوستی پروان چڑھی جوکہ اپنے دور کی باکمال فلم امر اکبر انتھونی کی عکس بندی کے دوران مزید گہری ہوتی گئی۔
امتیابھ بچن یہاں کہتے ہیں کہ امر اکبر انتھونی کے ڈائریکٹر من موہن ڈیسائی اپنے آپ میں کمال کے انسان تھے۔ فلم میں ایک سین کے دوران جب ہماری ماں نروپا رائے ہسپتال میں بیمار ہوتی ہے تو ہم تینوں ایک وقت میں اسے خون دے رہے ہوتے ہیں۔ ہم نے ڈیسائی سے لاکھ کہا کہ یہ سین میڈیکل ہسٹری کی نفی ہے، لیکن اس نے ہمیں شٹ اپ کال دے دی۔ بعد میں پبلک نے سنیما میں اسی سین پر خوب داد دی۔
اسی طرح فلم قلی میں رشی کپور بتاتے ہیں کہ ہم بنگلور میں شوٹنگ کررہے تھے اور ایک ایکشن سین میں مجھے اونچائی سے چھلانگ مارنا تھی تو سین سے پہلے بچن صاحب پہنچ گئے اور مجھے گھورنے لگے۔ اس سین کے بعد مجھے معمولی چوٹ بھی لگی تو بچن صاحب نے مجھے دھر لیا اور کہا کہ میں تمہیں روکنے والا تھا کہ اتنی اونچائی سے چھلانگ مارنے کا رسک نہ لو زخمی ہونے کا اندیشہ ہے مگر سین تیار تھا لہٰذا خاموش رہا لیکن احتیاط کیا کرو۔ تقدیر کی کرنی دیکھیے کہ اس سے اگلے ہی ایکشن سیکوئنس میں امتیابھ، پونیت ایسر کے ساتھ فائٹ کرتے ہوئے بری طرح ز خمی ہو گئے اور تین ماہ زندگی وموت کی کشمکش میں رہے۔
102 ناٹ آؤٹ، 27 برس بعد بھی دونوں کے درمیان مثالی ہم آہنگی کو ظاہر کرتی ہے۔ باکس آفس پر فلم اب تک اپنے پہلے ہی ہفتے 27 کروڑ کما چکی ہے اور اس کاسفر 45 کروڑ تک جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اس فلم کے ذریعے موثر انداز میں بتایا گیا ہے کہ اپنی زندگی زندہ دلی سے جینا سیکھو کیونکہ ایک دن تو مرنا ہی ہے، لیکن مرنے سے پہلے مر مرکر جینا کوئی دانش مندی نہیں ہے۔ جو بھی تمھارے وجود سے محض کسی فائدے کا متمنی ہے اسے زندگی سے فی الفور نکال دو۔ زندگی کے ہر لمحے کا مزہ لو اوراس کی قدر کرو۔ میں اسے فلم کو 3/5 ریٹ کروں گا۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.