پیروں، فقیروں سے روحانی علاج کی سماجیاتی اناٹومی
از ابو اسامہ ، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ سوشل ورک، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد، بھارت
روح اور جسم کا رشتہ
جدید زمانے کی مشینوں، ایجادات اور میڈیکل سائنسز نے انسانی زندگی کو کھلی کتاب کی طرح عیاں کر دیا ہے۔ ہمارے درمیان انسانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو جدید ایجادات، جدید اسپتالوں کے نظام ، جسمانی اور باالخصوص نفسیاتی مسائل سے دور ہوکر اس کی اپنی ایک روحانی دنیا ہے۔ اور یہی نہیں بلکہ مشیل فوکو کے کنٹرول میکنزم میں پوری طرح فٹ بیٹھتا ہے کہ روحانی عامل نہ یہ کہ اپنے مریض کو اپنے قابو میں کرتا ہے بلکہ اس کے جسمانی اور نفسیاتی حواس پر کنٹرول کرتا ہے۔ یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ان عاملین میں سے بیشتر افراد وہ ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی مدرسے سے فارغ ہوتے ہیں اور جن کی کل تعلیمی جمع پونجی مدرسہ کی دینی تعلیم ہوتی ہے۔ یہاں ہم ان پیشہ ور عاملین پر بحث نہیں کر رہے ہیں جو پانچ سو اکیاون روپیوں میں دو پریمیوں میں شادی کرواتے ہیں یا ساس کے ظالمانہ چنگل سے بہو کو نجات دلاتے ہیں یا پھر خسارے میں چل رہے بزنس کو بلندی پر لے جانے کا دعوی کرتے ہیں۔
خواجہ شمس ا لد ین عظیمی اپنی کتاب ‘ روحانی علاج ‘ کی تمہید میں لکھتے ہیں:
“عامل حضرات کسی عمل کی تکرار کر کے اپنے دماغ کو بار بار حرکت دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ارادہ پر قابو پا لیتے ہیں۔ مشق کے ذریعہ ان کی مہارت جتنی بڑھتی ہے اس قدر ان کو قوت ارادی میں کام لینے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ اس قسم کے آدمی از روئے جبلت بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی طبیعت خود بخود روحانیت کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ پہلے سے انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ ہمارے اندر افتاد طبع موجود ہے بلکہ اس قوت کے بار بار استعمال سے جو وہ محض تفریحا کرتے ہیں’ کامیابی ہونے لگتی ہے۔ آہستہ آہستہ ان پر یہ راز منکشف ہو جاتا ہے کہ خیال اور ارادہ سے کام لیا جا سکتا ہے۔ جب وہ اس پر عمل کرتے ہیں اور بار بار اس کو دہراتے ہیں اور نتائج حسب ا لخود پیدا ہوتے ہیں تو وہ خود کو عامل سمجھنے لگتے ہیں اور لوگ بھی انہیں عامل کہہ کر پکارنے لگتے ہیں۔“
دوسری طرف عین اس طرز علاج پر مبنی ایک اچھا خاص بڑا طبقہ ہے جو جسمانی اور نفسیاتی مسائل کو روحانیت کے چشمے سے دیکھ کی کوشش کرتا ہے۔ :مزید اس کتاب کی ابتدا میں ہی انہوں نے آسیب سے متعلق دلچسپ باتیں لکھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں
“آسیب کا علاج: آسیب ایک ایک ایسا مرض ہے جو دماغ سے تعلق رکھتا ہے اس کی زیادہ تر وجہ یہ ہوتی ہے کہ خون میں مٹھاس کی نسبت نمک کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ یہ خون سارے جسم میں سے دور کر کے جب دماغ کے دو کھرب خلیوں میں گردش کرتا ہے تو دماغ کے وہ خلیے جو انسان کے اندر شعوری حواس بناتے ہیں، متاثر ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ میں مریض کندھوں پر وزن محسوس کرنے لگتا ہے اور اس کی نظروں کے سامنے ایسی چیزیں یا صورتیں آنے لگتی ہیں جن کو وہ سمجھ نہیں سکتا اور نہ ان کا آپس میں رابطہ یا تعلق قائم کر سکتا ہے۔ مثلا یہ کہ اس کسی عورت یا مرد کا ہیولا نظر آتا ہے چونکہ اس طرح غیب میں دیکھنا اس کی عادت نہیں ہے اس لیے وہ خوف زدہ ہو جاتا ہے اور ایسی حرکتیں کرنے لگتا ہے جو شعوری حدود سے باہر ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ یہ تاثر اتنا گہرا ہوتا ہے کہ شعور میں تعطل واقع ہو جاتا ہے اور اس کے حواس لا شعوری تحریکات کے تابع ہوجاتے ہیں۔جس کے نتیجے میں وہ عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگتا ہے۔”
اسی طرح انہوں نے ہر طرح کی بیماری کی وجہ عقلی اور روحانی دونوں طور سے بتائی ہے اور عمل کے لیے قرآنی آیتوں اور دعاؤں کا ورد کرنے کو بتایا ہے۔ مگر بنیادی طور پر وہ عاملین اور روحانی مریضوں کے لیے ایسا نسخہ ہے جس پر عمل کرکے وہ اپنی ہر طرح کی بیماری سے شفا یاب ہو سکتے ہیں۔ مصنف نے ابتدا تو نہایت سائنسی طرز پر کی ہے مگر درمیان میں بیشتر موضوعات پر جذبات اور عقلیت کو ملا کر پورے معاملے کو ہی خلط ملط کر دیا ہے۔
مسلمانوں میں دو طرح کے لوگ ہیں جو روحانی علاج کے سلسلے میں عاملین کے پاس جاتے ہیں : ایک طبقہ تو وہ ہوتا ہے جو دعا، تعویذ، جادو، کرتب، گنڈہ، آسیب، اوپری سایہ اور جنات و خبیث پر پورا پورا یقین رکھتا ہے۔ اور جن کا عقیدہ اس حد تک مضبوط ہوتا ہے کہ وہ انسان کی ہر پریشانی، بیماری یا مصیبت کا علاج دعا اور روحانی عمل کی تاثیر میں دیکھتے ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہے جو ان باتوں پر عقیدہ کی حد تو یقین نہیں رکھتا ہے مگر اس کے وجود سے انکار نہیں کرتا ہے۔ مگر حالات سے پریشان ہو کر کسی عامل کے پاس اپنے درد کا علاج ڈھونڈنے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے اور نتیجتا اس کو کئی با ر فائدہ ہوتا ہے اور بعض دفعہ خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ اس کے بر عکس ایک بڑا طبقہ ہے جو سرے سے ہی اس کے وجود سے انکار کرتا ہے اور جس کا ماننا یہ ہے کہ انسان کے علاوہ کوئی بھی ایسی ما فوق الفطرت طاقت نہیں ہوتی ہے جو انسان پر حاوی ہو سکے۔ اس لیے وہ ہر طرح کی بیماری، ذہنی الجھن یا کسی بھی نا مانوس پریشانی کو خالص طبعی اور نفسیاتی مانتے ہیں۔
عاملین کی بائیو گرافی
ہم مختصرا عاملین کے بارے میں ایک نظر ڈال لیتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
- عاملین،تعلیمی لیاقت میں مکاتب، مدرسے، اور کچھ جدید تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیں
- معاشی آسودگی کی کمی ہوتی ہے
- سماجی مرتبہ میں لوئر مڈل کلاس میں کافی مقبول ہوتے ہیں مگر شہرت حاصل ہونے کے بعد مڈل کلاس طبقوں میں بھی جانے جاتے ہیں
- عموما روحانی علاج ایک پارٹ ٹائم مصروفیت ہوتی ہے اور پھر مقبولیت کے ساتھ یہ بنیادی مصروفیت بن جاتی ہے
- چونکہ جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ یہ عمل مناسبت نہیں رکھتا ہے اس لیے بیشتر عاملین اپنے مریضوں کو عقلی اور نفسیاتی دلائل بھی دیتے ہیں
- زیادہ تر عاملین کے علم کی بنیاد نیم مذہبی، ثقافتی اور قدیم رسم پر مبنی ہوتی ہے اور اپنے علم کا اظہار مختلف کرشمائی سرگرمیوں کے ذریعہ کرتے ہیں
- بیشتر حضرات پیسے یا دولت نہیں لیتے ہیں مگر اپنے ارد گرد عقیدت مندوں سے گھرے ہوتے ہیں جس سے انہیں ایک طرح کی ذہنی آسودگی اور علم کی طاقت کا گمان ہوتا ہے
- عاملین کے پاس عورتوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، جو روحانی کورس کے لیے ان کے پاس دور دراز سے سفر کر کے آتی ہیں اور جو ہر طرح کے امراض اور پریشانیوں سے چھٹکارا چاہتی ہیں
- چشتی، سہروردی کی طرح، عاملین بھی اپنے ‘شیخ’سے بیعت ہوتے ہیں اور روحانی علاج کے لیے پوری سند (چند مہینوں پر مشتمل کورس )حاصل کرتے ہیں
- ہندوستان جیسے ملک میں کئی ایک بڑے دینی ادارے ایسے عاملین کی کھیپ تیار کرتے ہیں جو بیک وقت عامل اور عالم دونوں ہوتے ہیں
- کم و بیش ہر عامل اپنے مریضوں کو کچھ مخصوص کورسز بتاتے ہیں جن میں دعا، کچھ روحانی عمل جیسے آگ اور دوسری وغیرہ سے کام لینا شامل ہے
- گاؤں اور شہری علاقوں دونوں جگہوں پر عاملین کو مقبولیت حاصل ہے
عامل اور مریض کی دنیا
یہاں میں کچھ Narratives کو سنانا چاہوں گا جو اس موضوع کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں۔ میں نے اپنی تلاش کے دوران مختلف لوگوں سے بات کی جنھیں ہو بہو یہاں ذکر کرنا مناسب ہوگا ۔ ایک ریسپانڈنٹ نے کہا:
“میری زندگی کے سب سے پہلے عامل میرے آبائی وطن سے ذرا فاصلہ پر ایک گاؤں ہے ‘ وہاں ایک خوشگوار شام کے وقت ہوئی تھی۔ صورت حال یوں تھی کہ میری والدہ جنہیں ان سب باتوں پر پختہ یقین تھا کہ کچھ مولانا صاحبان کے پاس ایسے خاص علم ہوتے ہیں جس کی طاقت سے جن حضرات ان کے قبضے میں آجاتے ہیں جو ہر طرح کی اچھی بر ی باتوں سے با خبر رہتے ہیں، ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ دعاؤں کی طاقت دنیا کی ساری دواؤں سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ان کی یہی عقیدت تھی جو مجھے بھی ان کے پاس جانا پڑا۔ امی نے ان سے یہ شکایت کی کہ میں پڑھائی میں دھیان نہیں دیتا ہوں سو ایسی کوئی دعا بتائیں جس سے میں پڑھنے لگوں۔ میں وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا جب مولانا صاحب پر ‘کیفیت’ طاری ہوئی اور انہوں نے میری والدہ کی ہر بات کا جواب دے دیا مثلا فلاں کے گھر میں یہ مسئلہ ہے، کسی نے چوری کر کے گھر کے باہر کچھ چھپایا ہے، مجھے رات میں دکان کی طرف جاتے ہوئے گلی میں ایک چنچل جن نے پکڑ لیا ہے جو پڑھنے میں دھیان نہیں لگنے دیتا ہے۔ میاں بیوی میں محبت نہ ہونے کی وجہ بیچ میں کوئی اور لڑکی ہے وغیرہ وغیرہ۔“(اس کہانی میں اہم بات یہ رہی کہ مولانا صاحب نے مفت میں پانی کچھ بوتلیں دعائیں پھونک کر دیں جس کو بلا ناغہ پینا تھا) میں نے بڑی مستعدی سے اس پر عمل کیا اور اس سال سالانہ امتحان میں بری طرح فیل ہوگیا۔” ایک اور فیملی ممبران سے بات کرتے وقت تھوڑا پریشان کردینے والا حادثہ سننے میں آیا۔
میرے ایک رسپانڈنٹ نے بتایا:
“میری بہن دو بچوں کی ماں تھی اور اپنے میکے میں ہی رہ رہی تھی کیوں کہ ان کے شوہر روزی روٹی کے سلسلے میں گلف کے کسی ملک میں رہ رہے تھے۔ ہلکی پھلکی پریشان رہا کرتی تھیں وہ پھر بعد میں بہت تیزی سے ان کی طبیعت بگڑنے لگی۔ ان کے شوہر سے مشورہ کرنے کے بعد ان کو ایک دوسرے ضلع کے مشہور مولانا کے پاس لے جایا گیا۔ مولانا صاحب نے روحانی علاج کا ایک کورس بتایا جس کو مہینوں تک جاری رکھنا تھا۔ کورس چلتا رہا، مولانا صاحب کے چکر لگتے رہے، طبیعت کبھی بگڑتی کبھی سنبھلتی مگر مکمل طورپر وہ صحت یاب نہ ہو سکیں ۔ بہر حال ایک صبح جب ہم لوگ سو رہے تھے کہ دھم سے گرنے کی آواز آئی- میں دوڑ کر کمرے سے باہر آئی اور دیکھا کہ باجی پہلے منزلہ سے صحن میں کود کر نیچے بے سدہ پڑی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر سے پاس لے جایا گیا مگر پہنچنے سے پہلے ہی جان نکل گئی تھی۔“
ایک اور ریسپانڈنٹ نے کہا:
“میرے گھر میں ہمیشہ بھوت، سایہ، جادو ٹونے ، آسیب کی باتیں ہوا کرتی تھیں کہ اس کی ساس نے بہو پر کچھ کرتب کرا دیا ہے جس سے اب اس کو بچہ نہیں ہوگا، اس نے اپنے شوہر کو قبضے میں کر رکھا ہے اس لیے اب وہ اپنی ساری کمائی اپنی بیوی پر ہی خرچ کرتا ہے وغیرہ۔ ایک روز میں نے اپنے ٹیچر سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس میں خاص دلچسپی نہیں دکھائی اور یہ کہہ کر ٹال دیا کہ تم ان سب چکروں میں نہ پڑو تو زیادہ مناسب ہے۔ اسی دوران میں نے ایک مولانا صاحب کا کافی نام سن رہا تھا جن کے ہاتھ میں الله نے ‘شفا’ دے رکھی تھی۔ انہوں نے اپنے گھر کے اوپری حصہ میں ایک کمرہ اسی کام کے لیے مخصوص کر رکھا تھا جس میں وہ شام کے وقت بیٹھا کرتے تھے۔ ایک روز میں نے اپنی غیر شادی شدہ بہن کو ساتھ لیا اور ان کے پاس چلا گیا۔ مولانا صاحب سے ملنے میں کافی وقت لگا کیونکہ بہت زیادہ لوگ دکھانے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میری بہن کو شادی ہوئے ابھی ایک سال بھی نہیں ہیں کہ اس کو تنہائی میں اور رات میں چونکنے اور ڈرنے کی عادت ہوگئی ہے اور یہ بلا وجہ پریشان بھی رہتی ہے۔ مولانا صاحب نے تھوڑی در کے لیے مراقبے میں گئے اور میری بہن کا ہاتھ پکڑ کر دعائیں پڑھتے رہے اور پوچھتے رہے ۔ آخر میں انہوں نے اس کو باہر جا کر انتظار کرنے کے لیے کہا اور مجھ سے کہنے لگے کہ تمھاری بہن کی نند نے اس پر جادو کردیا ہے۔“
اس طرح کے کئی ایک ریسپانڈنٹ نے مجھ سے اپنے تجربوں کو شیئر کیا۔ عام مشاہدے کے مطابق، ان میں سے ہر مولانا صاحب بلا معاوضہ اس طرح کے علاج کیا کرتے ہیں۔ حال ہی میں ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک مولانا جن کا آج کل کسی شہر میں کافی نام ہے ، وہ مہینے میں تقریبا بیس سے پچیس دن ہوائی جہاز کے ذریعہ مختلف گھروں میں جا کر دعا اور تعویز کے ذریعہ علاج و معالجہ کرتے ہیں۔ بہت سارے شفا یاب مریضوں نے تو ان کو قیمتی تحائف سے نوازا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایک والدین بچی کے رشتہ کے لیے کئی سالوں سے پریشان تھے مگر شادی نہیں ہو رہی تھی کیونکہ ایک جن جو لڑکی پر عاشق ہوگیا تھا۔ عین شادی کے دن لڑکی کو بیہوش کر دیتا تھا۔ مولانا صاحب نے شادی کروائی اور بدلے میں ایک گاڑی بھی پائی جو بڑی مشکل سے انہوں نے لینے کے لیے حامی بھری۔
یہ کہانی کے منفی یا ایسے پہلو ہیں جن سے میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ اس کے علاوہ ایسی بہت ساری success stories مل جائیں گی جو آپ کو حیران کر دینے کی حد تک مثبت اور کارگر ہوں گی۔ اگر آپ عاملین کی لفظیات پر ذرا دیر کے لیے غور کریں تو محسوس کریں گے کہ سب کچھ غیب کی مدد سے ہو رہا ہے جس کسی بھی عامل کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ مثال کے طور پر وہ کہیں گے کہ ‘خدا کی ذات پر بھروسہ کرو ، نماز کا اہتمام کرتے رہو، پاک صاف رہو یا پھر قرآن اور پیغمر کا معجزہ ہے جو انسان کی کسی بھی مصیبت کو ٹال دیتاہے’۔
یقین اور عقیدگی کے درمیان مقید مریض
اس روایتی علاج میں ایک تاریخی تسلسل بھی ہے۔ دوستانہ ماحول اور رازداری کے رہنما اصولوں پر مبنی یہ طریقہ علاج کئی معنوں میں پر کشش ہے۔ چونکہ موجودہ دور کے سماجی اور معاشی نظام نے الجھنیں، ذہنی پریشانیاں، اختلاج کے مریض پیدا کیے ہیں۔ ڈپریشن، نفسیاتی ڈس آرڈر اور anxiety نے تقریبا دنیا کے ہر تیسرے انسان کو پریشان کر رکھا ہے ۔ اس پوری صورت حال میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ہر مولانا مسلمانو ں کی مقدس کتاب قرآن سے ہی عمل دخل کے سارے مواد اور رہنمائی لیتے ہیں۔ اس سے بھی دلچسپ بات یہ کہ پڑھی جانے والی آیتوں کو بہ مشکل ہی کوئی ایسا مریض ہوگا جو اس کے معانی اور مفاہیم سے واقف ہوگا۔ کیونکہ علم کی برتری یا کسی بھی علمی میدان کی مہارت اس بنیاد پر طے ہوتی ہے کہ اس کی اصطلاحات، معلومات، تشبیہات اور تلمیحات مشکل زبان میں ہوں۔ چونکہ موجودہ دور کا انسان نہ صرف وجودیت کے بحران سے گزر رہا ہے بلکہ سماجی اور معاشی عوامل اس قدر گنجلک ہیں کہ وہ ان دونوں کے بیچ پھنس گیا ہے۔ دوسری طرف ہمارا معاشرہ ثقافتی اعتبار سے آسیب، نظر بد اور الہامی معاملات میں یقین رکھتا ہے جس کے نتیجے میں اکثر وہ مسائل یا الجھنیں جو گھریلو یا سماجی دباؤ کے تحت پیدا ہوتی ہیں’ ان کی وجوہات کو نظر انداز کر کے آسیبی دے دیے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عقیدے اور یقین سے پرے روحوں اور اور بد روحوں کا وجود ہے؟
نوٹ : اگلی قسط میں روحانی علاج و معالجے سے مرتب ہونے والے سماجی اثرات پر بحث کی جائے گی۔ (مصنف)