اسلام اور سماج کا تشکیلی عمل : مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری کا ایک انٹرویو
(انٹرویو: شیر افضل گوجر )
مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری ،ایک عالمی سطح کے ادارہ، رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ)کے سربراہ اور ایک مسلم مفکر ہیں،پاکستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں ان کے لیکچرز فکر اور سوچ کے نئے زاویوں سے آشنا کرتے ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے ایک اجتماع میں شرکت کے لئے مانسہرہ کا دورہ کیا اور اس موقع پر کچھ دوستوں نے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا اس نشست میں انہوں نے سماج کے تشکیلی عمل، فکر و فلسفے کی اساس پر وحدتِ فکری، کسی جغرافیائی حدود میں بسنے والے انسانوں کے اجتماعی اعمال کی شیرازہ بندی، ترقی کا روحانی اور مادی نقطۂ نظر ، مسلم معاشروں میں موجود فکری بحران کی وجوہات، اقسام اوراس بحرانی حالت سے نکلنے کے راستے اور سماجی مسائل کے حل پر سیر حاصل اور تفصیل سے روشنی ڈالی ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
سوال۔۔۔قوموں کی زندگی میں سماجی تشکیلی عمل کی کیا اہمیت ہے ؟جدید صنعتی دور کے پیداواری رشتوں نے انسانی سماج پر کونسے اثرات مرتب کیے؟
مفتی عبدالخالق آزاد ۔۔موجودہ دور میں سماجی تشکیل کے حوالے سے ہمیں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ قوموں کی زندگی میں معاشروں کی سماجی تشکیل کا عمل بڑی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات بڑی ضروری قرار پاتی ہے کہ سب سے پہلے سماجی تشکیل کے بنیادی اصول و نظریات کا تعین کیا جائے۔ چناں چہ قوموں کی زندگی میں سب سے پہلے فکر و فلسفے کی اساس پر وحدتِ فکری کا موجود ہونا ضروری ہے۔ دوسرے مرحلے پر ان نظریات و افکار کی اساس پر کسی جغرافیائی حدود میں بسنے والے انسانوں کے اجتماعی اعمال کی شیرازہ بندی کی جاتی ہے۔ یعنی اس فکر کو عمل میں لانے کی درست حکمتِ عملی اختیار کی جاتی ہے۔ پھر تیسرے مرحلے پر اس فکر اور فلسفے پر مبنی عملی سیاسی اور معاشی نظام تشکیل دیا جاتا ہے۔ قوموں کی ترقی کا راز،دنیا میں ان قوموں نے ترقی کی ہے، جنھوں نے اپنی نظریاتی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی تشکیل کے لیے سب سے پہلے تو ایک سکول آف تھاٹ متعین کیا۔ یعنی اپنا فکر و فلسفہ اور نظریۂ حیات متعین کیا۔ اور پھر اسی فلسفے اور نظریے کی اساس پر انھوں نے اپنے لیے ایک سیاسی اور معاشی نظام تشکیل دیا۔ اور اسی کو پھیلانے کے لیے تعلیمی ادارے، نظم و نسق کا عمل اور سماجی نظام کی تشکیل کا عمل آگے بڑھایا۔ گرد و پیش کے معاشروں کی غور طلب حقیقت ،ہم نے سب سے پہلے جن باتوں پر غور کرنا ہے، وہ یہ کہ ہمارے گرد و پیش موجود معاشروں کی بنیادی ساخت کس نوعیت کی ہے؟ عالمِ اسلام کن بنیادی مسائل سے دو چار ہے؟ اور ان مسائل کی سماجی تشکیل کے نقطۂ نگاہ سے نوعیت کیا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے گرد و پیش اس وقت دنیا میں دو سکول آف تھاٹ پر مبنی نظام ہائے حیات کام کررہے ہیں: ایک کیپٹل اِزم تو دوسرا سوشل اِزم۔ جن ممالک نے کیپٹل اِزم اختیار کیا ہے، انھوں نے سرمائے کی بنیاد پر اپنی جغرافیائی حدود میں بسنے والے افراد کی شیرازہ بندی کا ایک مکمل فلسفہ اور نظام قائم کیا۔ سرمائے کی بالادستی کی بنیاد پر انھوں نے اپنے سماجی ادارے تشکیل دیے اور عملی نظام بنائے۔ سیاسی، معاشی اور عدالتی نظام وضع کیے۔ اور ثقافتی اور تہذیبی سطح پر سرمائے کے فروغ کے لیے بہت سے ادارے بنائے۔ ان کے مقابلے پر دوسرے وہ ممالک ہیں، جنھوں نے سوشل اِزم اختیار کیا۔ انھوں نے محنت کشوں کی تنظیم کی اساس پر اپنی جغرافیائی حدود میں بسنے والے لوگوں کے لیے اپنے فکر و فلسفے پر مبنی ایک سماجی نظام قائم کیا۔ اور محنت کشوں کے تحفظ کے لیے ادارے تشکیل دیے۔ سیاسی، معاشی اور عدالتی نظام وضع کیے۔ الغرض ان دونوں مکتبہ ہائے فکر نے اپنے اپنے افکار و نظریات کی اساس پر اپنے اپنے معاشروں میں عملی نظام تشکیل دیے ہیں۔ اس حوالے سے آج مسلمان معاشروں کی کیا حالت ہے؟ وہ مسلمان جو کہ دین اسلام کی تعلیمات کے ساتھ وابستگی رکھتے ہیں۔ کتابِ مقدس قرآن حکیم پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں۔ حضوؐر کی تعلیمات سے اپنی وابستگی کا اعلان کرتے ہیں۔ سوال یہ کہ ان کے پاس اس جدید دور میں سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل حل کرنے اور سماجی تشکیل کے حوالے سے دینی نقطۂ نگاہ سے بنیادی افکار و نظریات اور عملی نظامِ حیات کیا ہے؟ کیا جدید صنعتی دور کے پیداواری رشتوں کے تناظر میں دین اسلام سماجی تشکیل کے حوالے سے مکمل رہنمائی دیتا ہے؟ دنیا میں ایک دور وہ تھا، جو زراعت پر مبنی پیداواری رشتوں پر قائم تھا۔ جب کہ دوسرا تجارتی دور کہلاتا ہے۔ دین اسلام نے اپنے ابتدائی دور میں زرعی اور تجارتی پیداواری رشتوں کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اپنے لیے ایک عالم گیر عملی نظام تشکیل دیا تھا۔ جو تقریباً گیارہ سو سال تک دنیا میں غالب رہا۔ 610ء میں حضوؐر پر وحی نازل ہوئی۔ اور آپؐ کو نبوت عطا ہوئی۔ اور 1707ء میں اورنگ زیب عالم گیر کا انتقال ہوا۔ اس طرح یہ تقریباً گیارہ سو سال سے زائد کا عرصہ بنتا ہے۔ اس پورے دور میں بلاشرکتِ غیرے یورپ، افریقہ اور ایشیا پر مسلمانوں نے اپنے نظام کو غالب رکھا۔ وہ چوں کہ زرعی اور تجارتی دور تھا تو اس وقت کے اعلیٰ دماغوں، حکمرانوں اور علم و فن سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اس دور کے تقاضوں کے تناظر میں معاشرے تشکیل دیے۔ اور انسانیت کی ترقی میں کردار ادا کیا۔ چناں چہ برعظیم ہندوستان، جو مسلمانوں کی آمد سے قبل غربت و افلاس اور بھوک کا شکار تھا۔ اس نے اتنی سماجی اور معاشی ترقی کی کہ خود برطانیہ کے باشندے اس کو ’’سونے کی چڑیا‘‘ کہنے پر مجبور تھے۔ آپ دیکھیں کہ ان دونوں ادوار میں دین اسلام نے انسانیت کے سامنے سماجی مسائل حل کرنے کا ایک عملی اجتماعی نظام دیا، لیکن سوال یہ کہ صنعتی دور آجانے کے بعد جب اس دور میں نئے سماجی تقاضے پیدا ہوئے اور پہلے دور سے قطعاً مختلف نئے پیداواری رشتے سامنے آئے تو کیا اس دور میں دین اسلام اِن نئے پیداواری رشتوں اور سماجی تقاضوں کو سامنے رکھ کر انسانی سماج کی تشکیل کے لیے کوئی بنیادی فکر اور نظریہ اور اس کے عملی سیاسی نظام اور اقتصادی نظام کو تشکیل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ عالم اسلام کو درپیش مسائل کا تجزیہ ،اس اہم سوال کے تناظر میں اگر ہم عالمِ اسلام کو درپیش مسائل کا جائزہ لیں تو یہ بات بڑی کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ معاشرتی تشکیل کے نقطۂ نگاہ سے عالم اسلام میں افکار و نظریات، سیاسیات و اجتماعیات، اقتصادیات و معاشیات کے حوالے سے ایک بحران کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ نیز عملی نظام قائم کرنے کے حوالے سے بہت سے ابہامات اور مشکلات موجود ہیں۔ سماجی تشکیل کی حکمتِ عملی کا فقدان اس پر مستزاد ہے۔
سوال ۔۔نظریاتی اور فکری سطح پر مسلم دنیا آ ج کہاں کھڑی ہے؟ سماجی مسائل کے بنیادی پہلوؤں سے رُوگردانی مسلم معاشروں کو کس طرف لے جا رہی ہے؟
مفتی عبدالخالق آزاد ۔۔ہمیں سماجی تشکیل کے لیے ایک نظریے اور فکر کی ضرورت ہے، لیکن اس حوالے سے جب ہم عالمِ اسلام کا جائزہ لیتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ایک فکری اور نظریاتی بحران کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ مسلم معاشرے خواہ عرب ممالک کے ہوں یا دیگر ممالک کے، ان میں اس حوالے سے ایک انتہاپسندانہ سوچ اور نظریہ تو یہ ہے کہ سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل کو ’’دنیاداری‘‘ قرار دے کر دین کی تعلیمات سے الگ کردیا گیا ہے۔ وہ دین کو صرف اس حدتک مانتے ہیں کہ دین کے کچھ عقائد اختیار کرلیے جائیں۔ اس کی کچھ رسوم ادا کرلی جائیں یا کچھ اعمال اور ادو وظائف کر لیے جائیں۔ سماجی تشکیل کے عملی مسائل کو دینی نقطۂ نگاہ سے حل کرنے کی سوچ کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اور پھر اسی پر بس نہیں، بلکہ ان معاشروں میں موجود جتنے فرقے ہیں، ہر فرقے کی رسومات اور اعمال و وظائف دوسرے سے مختلف ہیں۔ گویا کہ ہمارے معاشروں میں نہ صرف سیاست اور معیشت سے متعلقہ مسائل سے بے اعتنائی پائی جاتی ہے، بلکہ سطحیت کی بنا پر فرقہ وارانہ سوچ بھی بڑی گہری نوعیت لیے ہوئے ہے۔ سماجی مسائل کے حل کرنے کے بنیادی پہلوؤں سے رُوگردانی اور مذہبی فرقہ بندی کا خطرناک نتیجہ گزشتہ پچیس تیس سال سے ہمارے مسلمان معاشروں میں اپنا اثر دکھا رہا ہے۔ وہ یہ کہ جب ہم نے سیاسیات و سماجیات کو دین سے خارج کردیا اور معاشیات کے معاملات کو دین سے الگ کردیا اور صرف عقائد یا مخصوص فرقے کے خیالات کو سامنے رکھا۔ تو اس سے مذہبی انتہاپسندی پیدا ہوئی۔ جس کا نتیجہ دہشت گردی اور قتل و غارت گری کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے اور پھر اگر ہمارے بعض مذہبی رہنماؤں نے معاشرتی تشکیل کے حوالے سے سیاست اور معیشت کی بات بھی کی تو زرعی اور تجارتی دور کی فقہی جزئیات کو سامنے رکھ کر گروہی اور طبقاتی بنیادوں پر اپنے خیالات و افکار کی دنیا بسائی۔ اور جدید صنعتی دور کے پیداواری رشتوں اور سیاسی تقاضوں کو سامنے رکھے بغیر سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل حل کرنے کا طریقۂ کار وضع کیا۔ اور یوں مذہب کو ان ملکوں میں موجود نوآبادیاتی دور کے نظام کا آلۂ کار بنا کر رکھ دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے مسلمان معاشروں سے جدید صنعتی دور کے تقاضوں کے تناظر میں سیاست اور معیشت پر مبنی مسائل کے حل کرنے کا شعور ختم ہوگیا۔ کتنا بڑا اَلمیہ ہے کہ آج مسلمان نوجوان سماجی تشکیل کے دینی، سیاسی اور اقتصادی شعور سے بے گانہ ہوگیا ہے۔ سیاسی اور معاشی معاملات میں دینی افکار کو چھوڑ کر غلامی کے زمانے میں اغیار کی جانب سے پیدا کیے جانے والے فرقہ وارانہ اُمور میں مبتلا ہوگیا۔ اور اس کے نتیجے میں نظریاتی یکسوئی اور فکری وحدت سے محروم ہے۔
سوال ۔۔فکری بحران کی وجوہات کون کون سی ہیں اور کتنی اقسام مسلم معاشروں میں موجود ہیں؟
مفتی عبدالخالق آزاد ۔۔ سیاست کے میدان میں ہمارے حکمران طبقات ہیں یا پھر وہ لوگ جو کہ صرف مادی نقطۂ نظر سے ترقی کی بات کرتے ہیں۔ یہ لوگ برطانوی سامراج کے زیرتسلط نوآبادیاتی دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرے اور اسی ذہنیت کے مطابق کام کرنے کی سوچ اور فکر رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک بھی دین کا سیاست اور معیشت سے متعلق معاملات میں دخل دینا درست نہیں ہے۔ بلکہ ان کے طرزِ عمل سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیاسیات اور معاشیات کا میدان محض مادی نقطۂ نظر سے مفادات کے حصول کے لیے ہوتا ہے۔ چوں کہ مادی نقطۂ نظر سے سرمائے اور جاگیر کی طاقت ہی اصل ہے۔ چناں چہ جاگیر اور سرمائے کی بنیاد پر اپنے مفادات حاصل کرنے کے علاوہ ان کی کوئی اور غرض نہیں۔ اس طرح ان کا اندازِ سیاست دین حق کی تعلیمات سے دور ہو کر آمریت اور چنگیزیت پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ اس طرح مسلمان معاشروں میں دو انتہاپسندانہ تصورات پائے جاتے ہیں۔ ایک مادیت پرستی اور مالی مفادات کے تقاضوں کے تحت کام کرنے والے لوگوں کا بنایا ہوا سیاسی، معاشی اور سماجی نظام ہے۔ خواہ وہ نظام ظلم و ستم کا ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرے مذہبی انتہاپسندی پر مبنی فرقہ ورانہ گروہیت کے تصورات و خیالات۔ یہ درحقیقت ہمارے ہاں نظریاتی بحران کا اظہار ہے۔ سیاسی شعور کا فقدان، دوسرا بحران یا مسئلہ جو کہ ہمارے مسلمان معاشروں میں پایا جاتا ہے، وہ سیاسی شعور کا فقدان ہے۔ کیوں کہ سیاسی شعور انسانی معاشروں کی تشکیل کے لیے ایک بنیادی قدر ہے، جس کی اساس پر معاشرے ترقی کرتے ہیں۔ سیاست کے میدان کا اگر تجزیہ کریں تو وہ لوگ جو کہ سیاست کی بات بھی کرتے ہیں، ان میں بھی دو گروہ ہیں: آمریت پر مبنی سیاسی تصورات بھی ایک وجہ ہیں،ایک گروہ وہ ہے جو کہ شخصی صوابدید کی اساس پر نظامِ حکومت اور سیاست کرنے کی بات کرتا ہے۔ چناں چہ یہ لوگ ’’خلافت‘‘ کے عنوان سے آمریت قائم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اور شخصی آمریت پر مبنی نظام بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ اسلام میں ادارہ جاتی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک بادشاہ، اس کے خاندان اور ایک طبقاتی گروہ کا سیاست پر تسلط حاصل کرلینا گویا اسلامی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ ساٹھ کے قریب مسلمان ممالک کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں پر بادشاہتیں اور شخصی حکومتیں ہیں۔ اور جہاں پر جمہوریت کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے تو درحقیقت وہاں پر بھی سیاسی پارٹیاں چند خاندانوں کی لمیٹڈ کمپنیاں ہیں۔ اُنہی خاندانوں کے افراد ہی پارٹیوں کے سربراہ اور چیئرمین منتخب ہوکر ملک پر مسلط ہوجاتے ہیں۔ خواہ وہ فرد کتنی ہی چھوٹی عمر کا کیوں نہ ہو۔ وہی پارٹی اور حکومت کا سربراہ ہوگا، کیوں کہ وہ مخصوص خاندان کا فرد ہے۔ آپ دیکھیں کہ مسلمان معاشروں میں ادارہ جاتی بنیادوں پر نظام نہیں بنایا جاتا۔ محض چند بادشاہوں اور خاندانوں کے گرد سیاست اور حکومت کا نظام گھومتا رہتا ہے۔ یہ ہمارے معاشروں کی خطرناک بحرانی حالت ہے۔ جمہوریت کے لبادے میں سرمایہ دارانہ آمریت بھی ایک مسلہ ہے، ایک اور توجہ طلب بات یہ کہ جن ملکوں میں ’’جمہوریت‘‘ کے نام سے ادارے موجود ہیں تو ان میں بھی سرمایہ دار جاگیردار اور رسمی پیری مریدی کرنے والے مذہبی خانوادوں کے دباؤ پر ووٹ لیے جاتے ہیں۔ درحقیقت یہ نوآبادیاتی دور کی سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ جمہوریت ہے۔ ایسی جمہوریت کے نام سے قائم اداروں میں بجائے اس کے کہ اجتماعی طور پر مسائل حل کرنے کا نظام قائم ہوتا، بلکہ اُلٹا جاگیر دارانہ، سرمایہ دارانہ مفادات کے تحفظ اور ظلم و ستم کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ گویا کہ ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر سرمایہ داریت کو مسلط کردینا یا ’’خلافت‘‘ کے نام پر آمریت کو معاشرے پر مسلط کردینا، یہ بحران کا اور پہلو ہے۔ جو کہ ہمارے معاشروں میں پایا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں ہمارا عام نوجوان پریشانی کا شکار ہے کہ وہ کس طرف جائے؟ ’’خلافت‘‘ کے سیاسی نظام کی طرف جائے، جہاں آمریت کے نقصانات پائے جاتے ہیں یا نام نہاد جمہوریت پر مبنی سیاسی نظام کی طرف جائے، جہاں سرمایہ دار اور جاگیردار اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قوانین بناتے ہیں۔ اور جو انسانیت کے حقیقی مسائل کو حل کرنے اور ان کی شیرازہ بندی کرنے سے قاصر ہے۔ اس حوالے سے ہمارے مذہبی طبقے کا کردار بڑا عجیب و غریب ہے۔ بعض مذہبی نمائندے اسی غلط سیاسی نظام کا حصہ بن کر کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور دین اسلام کے حقیقی تقاضوں کو بروئے کار لانے کے بجائے اس غلط سسٹم کی خرابیوں سے مکمل طور پر آلودہ ہیں۔ جب کہ دوسرا مذہبی گروہ سیاست کو ’’دنیاداری‘‘ قرار دے کر اس سے علیحدگی اختیار کرنے کو اپنا مذہبی اعزاز سمجھتا ہے۔ اور دینی پاکیزگی کا دعوے دار بنتا ہے۔ اقتصادی اور معاشی بحران ،تیسری بحرانی کیفیت جو کہ ہمارے مسلمان معاشروں میں پائی جاتی ہے، وہ اقتصادی اور معاشی حوالے سے ہے۔ اس حوالے سے بھی بہت سے غلط تصورات پائے جاتے ہیں۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں، جو معاشی معاملات کو ’’دنیا‘‘ قرار دے کر اس سے علیحدگی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں، جو سماجی زندگی کے معاشی معاملات کو جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نقطۂ نظر سے حل کرنے کی بات کرتے ہیں۔ سرمایہ داری اور جاگیرداری پر مبنی تصورات معاشیات کے حوالے سے بعض لوگ وہ ہیں، جنھوں نے زمین کی ملکیت کے تقدس کو اتنی شدت کے ساتھ پیش کیا کہ جاگیرداری نظام کی سفاکیت کی یاد تازہ ہوگئی۔ اور سرمائے کی بالادستی کو قبول کرکے سرمایہ داری اور جاگیرداری کی اساس پر اقتصادی نظام قائم کرنے میں اپنا کرادا ادا کیا ہے۔ اگر ہم ساٹھ مسلمان ممالک کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ دعوے دار تو ہم دین کی تعلیمات کے ہیں، لیکن اقتصادی اور معاشی نظام ہم نے جاگیرداری اور سرمایہ داری کا قائم کر رکھا ہے۔ جن کی تاریخ انسانی معاشروں میں برپا کیے جانے والے مظالم سے پُر ہے۔ چناں چہ جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام میں ’’سرمائے‘‘ اور جاگیر کو اصل قرار دے کر اس کے مفاد کے لیے ’’انسانیت‘‘ کو اس کے اردگرد گھمایا جاتا ہے۔ حال آں کہ دین اسلام کی تعلیمات تو اس بات کا درس دیتی ہیں کہ ’’انسان‘‘ کو اصل قرار دیا جائے اور سرمایہ اور زمین سمیت باقی تمام اشیا کو انسان کے فائدے اور نفع کے لیے استعمال کیا جائے۔ دینی معاشی نظام کے حوالے سے مذہبی رہنما مخمصے کا شکار ہیں۔ معاشیات کے حوالے سے مذہبی رہنما ایک مخمصے کا شکار ہیں۔ وہ ایک طرف معاشی مسائل حل کرنے کے دعوے دار بھی ہیں، دوسری طرف معاشیات کے بنیادی اُمور ، یعنی پیدائشِ دولت کے اصول کیا ہیں؟ اور پیدا شدہ دولت کی تقسیم اور تبادلے کی اصول کیا ہیں؟ ان سب اصولوں کی بنیاد پر معاشی نظام کیا ہونا چاہیے؟ کے حوالے سے یہ مذہبی رہنما بہت زیادہ تقسیم کا شکار ہیں۔ حتیٰ کہ بعض مشہور مذہبی رہنما، یہ کہتے ہیں کہ ’’اسلام کوئی معاشی نظام نہیں ہے۔ … قرآن و حدیث نے کوئی معاشی فلسفہ یا نظریہ پیش نہیں کیا۔‘‘ ان کا خیال ہے کہ دنیا میں نظام تو صرف دو ہی ہیں: ایک کیپٹل اِزم اور دوسرا سوشل اِزم۔ (1) گویا ہمیں ان میں سے کسی ایک کو مشرف باسلام بنانا ہوگا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ کیپٹل اِزم اور سوشل اِزم، جن کی عمریں ڈیڑھ دو سو سال سے زیادہ نہیں ہیں، ان کا تو ایک نظام موجود ہو اور وہ کتابِ مقدس قرآن حکیم اور دین کی تعلیمات کہ جس نے تقریباً ایک ہزار سال تک یورپ، افریقہ اور پورے ایشیا پر حکمرانی کی ہے، اس کا کوئی اقتصادی نظام نہ ہو۔ اور وہ بغیر اقتصادی و معاشی نظام کے تقریباً ایک ہزار سال تک دنیا کے لیے خوش حالی پیدا کرنے کا باعث رہا ہو؟!! یہ کتنی افسوس ناک بات ہے۔
سوال ۔۔اس بحرانی حالت سے نکلنے کا راستہ اور سماجی مسائل کا حل کیا ہے ؟
مفتی عبدالخالق آزاد ۔۔اس نظریاتی، سیاسی اور معاشی بحرانی کیفیت اور حالت سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم سماجی تشکیل کے بنیادی امور کے بارے میں دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں واضح اور دو ٹوک نظریہ اور فکر، عملی سیاسی اور معاشی نظام کے قیام کے لیے صحیح حکمتِ عملی اختیار کریں۔ اس حوالے سے سماجی تشکیل کے درجِ ذیل تین بنیادی اُمور کے بارے میں دینی تعلیمات کے تناظر میں اپنا نقطۂ نظر واضح کریں۔ اور بنیادی لائن آف ایکشن طے کریں۔ یعنی: سوسائٹی کی تشکیل کا فکر اور نظریہ کیا ہے؟ اس نظریے کی اساس پر اس کے سیاسی نظام کی نوعیت کیا ہے؟ اسی نظریے کی اساس پر اس کے معاشی نظام کے بنیادی امور کیا ہیں؟ کوئی بھی معاشرہ ان تینوں دائروں کے اساسی اُمور متعین کرکے ہی ترقی کرتا ہے۔ دینی نقطۂ نظر سے سماجی تشکیل کے اِن امور پر غور کی اہمیت، اب سوال یہ کہ دین کی تعلیمات ان تینوں امور کے بارے میں کیا ہیں؟ اس حوالے سے ہمیں سوچنا ہے۔ آج مسلمان نوجوان اس حوالے سے بڑا بے چین ہے۔ اس کے سامنے بہت سارے مسائل اور چیلنجز ہیں۔ آج کا نوجوان اس جدید دور میں پیش آمدہ مسائل کو دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں حل کرنے کے حوالے سے بڑا فکرمند ہے۔ کیوں کہ نوجوان نے اس کا مشاہدہ کرلیا ہے کہ جن ممالک میں سرمایہ داری نظام موجود ہے، وہاں پر وہ انسانیت کے لیے تباہی اور بربادی پیدا کرنے کا باعث بنا ہے۔ اور جن ممالک میں سوشل اِزم قائم رہا، اس نے بھی بھی انسانیت کے مسائل حل نہیں کیے، یوں مجموعی طور پر دنیا مسائل کا شکار ہے۔ اب وہ دین اسلام، جو قیامت تک کے لیے آیا ہے، اس کی روشنی میں سماجی تشکیل کے حوالے سے ہمیں کیا کردار ادا کرنا ہے؟ سماجی تشکیل کے حوالے سے انسانی فلا ح و بہبود کا نظریہ اور فکرجہاں تک سماجی تشکیل کے لیے ایک نظریہ اور فکر متعین کرنے کی بات ہے، تو اس حوالے سے دین اسلام کی تعلیمات انسانی معاشروں کی تشکیل کے لیے ’’نوعِ انسانیت‘‘ کو اصل قرار دیتی ہیں۔ کتابِ مقدس قرآن حکیم پوری انسانیت کے لیے ہدایت اور رہنمائی ہے۔ اس کو ماننے والی جماعت صحابہ کرامؓ پوری انسانیت کو کام یاب بنانے کی فکر پر کام کرتی ہے۔ رسول اکرمؐ پوری انسانیت کے لیے رحمت ہیں۔ اور خداوند تعالیٰ پوری انسانیت کا ربّ ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ انسانی سماج کی تشکیل کی بنیاد خود انسان اور اس کے انسانی تقاضے ہونے چاہئیں۔ خواہ وہ انسان کسی رنگ، علاقے یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ اس طرح دیکھا جائے تو دین اسلام بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب انسانی تقاضوں کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ آج کی ضرورت یہ ہے کہ ہم فرقہ واریت اور گروہیت کے نظریے سے بالاتر ہوکر سماجی تشکیل کے لیے صرف انسانیت اور اس کے انسانی تقاضوں کو بنیاد بنائیں۔ انسانی مسائل حل کرنے کا طریقہ سوچیں۔ تضادِ فکر کا حل ؛ نوعِ انسانیت کے بنیادی تقاضوں کی تفہیم نوعِ انسانیت کی فلاح و بہبود کے نظریے کو اختیار کرلینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بنیادی تقاضوں کی جامع تفہیم کی جائے۔ اور ان کی تکمیل کا عملی نظام تشکیل دیا جائے۔ اور اس حوالے سے ہمارے معاشرے میں جو تضادِ فکر پایا جاتا ہے، اس کو حل کیا جائے۔ کیوں کہ جب انسانیت کی بات کی جاتی ہے تو ایک گروہ کی سوچ یہ کہ انسان صرف روح کا نام ہے۔ حیوانی اور جسمانی تقاضے کچھ اہمیت نہیں رکھتے۔ اسے صرف اسی حوالے سے روح کی تکمیل کے اقدامات کرنے ہیں۔ جب کہ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ انسان دراصل ایک حیوانی جسم ہے۔ اس کے حیوانی اور جسمانی تقاضوں کی بنیاد پر نظام تشکیل دینا چاہیے۔ اس تضادِ فکر کو بھی حل کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کا تقاضا یہ ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ مجموعی طور پر انسانیت کی حقیقت کیا ہے؟ اور اس کے جسم و روح کے بنیادی تقاضوں کو حل کرنے کا صحیح طریقۂ کار کیا ہے؟ انسانیت کے حوالے سے شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا نقطۂ نظر ،اس حوالے سے برعظیم پاک و ہند کے عظیم مفکر حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے اس حقیقت کی نشان دہی کی ہے کہ انسان نہ محض روح ہے اور نہ محض جسم اور حیوان بلکہ وہ روح اور جسم، یعنی ’’ملکیت‘‘ اور ’’بہیمیت‘‘ دونوں کا مجموعہ ہے۔ اور ان دونوں کے مجموعے کی بنیاد پر انسانیت کی حقیقت اور اس کے تقاضوں کو سمجھا جانا چاہیے۔ نوعِ انسانیت کی فلاح و بہبود کا نظریہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے مَلکی اور حیوانی تقاضوں کی مجموعی تکمیل کے حوالے سے ہی انسانی سماج کا نظام تشکیل پانا چاہیے۔ انسانی تقاضوں کی تکمیل کے اَخلاقِ اربعہ اور ارتفاقاتِ اربعہ ،امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے دینِ اسلام کی تعلیمات اور ان کے عملی نظام پر مبنی ایک ہزار سال کی عظیم الشان تاریخ کا تحلیل و تجزیہ کرتے ہوئے اس بات کا تعین کیا کہ انسانی روح کی تکمیل کے لیے عبادات اور اَخلاقیات کے نظام کی ضرورت ہے۔ اور اس کے جسم اور حیوانی تقاضوں کی درست تکمیل کے لیے ارتفاقات کی ضرورت ہے۔ چناں چہ قرآنی تعلیمات کے مطابق انسانیت کے بنیادی اَخلاق چار ہیں۔ اور اس کی سماجی ترقی کے ارتفاقات بھی چار ہی ہیں۔ ان دونوں کے مجموعے سے نوعِ انسانیت کی صحیح سماجی تشکیل اور اس کی تکمیل ہوتی ہے۔
نظام کی تشکیل کے عملی پہلووں کی بہت خوب نشاندہی فرمائی۔