والدینی کے زعم میں والدین کی کوتاہیاں
(ڈاکٹر عرفان شہزاد)
ہمارے سماج میں بچوں کی تربیت سے پہلے والدین کی تربیت کرنا زیادہ ضروری ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت اور نشو و نما میں والدین شدید قسم کی کوتاہیوں کے مرتکب ہوتے ہیں، لیکن ان کی اکثریت کو اس کا احساس ہی نہیں، اور جن کو کچھ احساس ہو بھی جائے تو اعتراف کرنے کی ہمت کم ہی جٹا پاتے ہیں۔
والدینی کے اس زعم میں کہ ماں کے قدموں تلے جنت اور باپ جنت کا دروازہ ہے، والدین اپنی ذمہ داریاں ادا کرنےمیں نہایت درجہ کوتاہ پائے گئے ہیں۔ والدین کی عظمت کی سرشاری میں اپنی کوتاہیوں کی طرف متوجہ ہونے اور ان کی اصلاح سے ایک طرح کی بے اعتنائی کا رجحان ان میں پایا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ ان کی چند غلط فہمیاں آج دور کر دی جائیں۔
ہمارے ہاں ماؤں کا سب سے بڑا کارنامہ بچوں کو تکلیف سے جننا، اپنا دودھ پلانا، کھانا کھلانا اور کپڑے پہنانا سمجا جاتا ہے؛ اور باپ کا دن رات بچوں کے لیے کمانا اور سہولتیں فراہم کرنا کافی سمجھ لیا گیا ہے، دوسری طرف یہ بھی حقیقت یہ ہے کہ بچے پیدا کرنے کا فیصلہ والدین کا اپنا ہوتا ہے، بچے کی درخواست پر یہ عمل انجام نہیں دیا جاتا، لیکن پھر بھی اپنی اس ‘حرکت’ کا احسان بچوں پر دھرا جاتا ہے! یہ احسان کس رو سے ہے؟ اس کی کوئی قابل قبول دلیل ایجاد نہیں ہو سکی۔ اپنے بنیادی فرائض کو احسان سمجھ کر پورا کرنے کے گھمنڈ میں والدین بچوں کی تربیت سے متعلق اپنی دوسری اہم ترین ذمہ داریوں سے قطعی نابلد اور لا پرواہ پائے جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں بالعموم اپنے بچوں سے مکالمے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ بچہ کیا سوچتا ہے، اکثر والدین کو معلوم نہیں ہوتا، نہ ہی وہ جاننے کی وہ کوشش کرتے ہیں۔ آپ کا بچہ اگر اپنے اندر اٹھنے والے سوالات، اپنے عجیب و غریب خیالات، اپنے خدشات، خوف، اندیشے، اپنے مشاہدات اور ان سے نکالے ہوئے غلط، درست اندازے، آپ سے ڈسکس نہیں کرتا تو آپ ناکام والدین ہیں۔ اگر بلوغت کے قریب وہ اپنے اندر جسمانی اور ذہنی تبدیلیوں میں آپ کی براہ راست رہنمائی سے محروم رہتا ہے تو آپ ناکام والدین ہیں۔ اگر اس سے کوئی غلطی ہو جائے اور وہ ضمیر کی خلش کا شکار ہو، اور وہ اس گھٹن سے نجات پانے کے لیے آپ کو بتا بھی نہ پائے، تو آپ ناکام والدین ہیں، اگر اسے یہ اعتماد نہیں ہے کہ اس کی غلطی پر ڈانٹ ڈپٹ کے بعد، بلکہ مار پیٹ کے بعد بھی، اس سے قطع تعلق نہیں کیا جائے گا، اسے گھر سے نکال نہیں دیا جائے گا، بہن بھائیوں، رشتہ داروں میں اسے نکو نہیں بنایا جائے گا، تو آپ ناکام والدین ہیں۔
عام حالات میں کوئی ٹین ایجر خود کشی نہیں کر سکتا، کوئی نشے کا شکار نہیں بن سکتا، کوئی کسی کے عشق میں گھر سے بھاگ نہیں سکتا/ سکتی، کسی بچے کو ماہر نفسیات کے پاس لے جانے کی ضرورت نہیں پڑ سکتی، کسی لڑکی کو ہسٹیریا کا دورہ نہیں پڑ سکتا، اگر ان بچوں کا اپنے والدین سے مکالمے کا تعلق بھی استوار ہو۔
ہمارے ہاں بالعموم والدین اور بچوں کے درمیان بات چیت چند مخصوص ہدایات، احکامات اور فرمائشوں تک محدود رہتی ہے۔ آپ سارا دن میں اپنے بچوں سے اپنی بات چیت کا جائزہ لیجیے، آپ نے ان سے کیا کیا باتیں ہیں؟ آپ کی باتیں کھانا، کپڑے، دانت برش، نہانا، ہوم ورک، وقت پر سونا وغیرہ جسی ہدایات کے علاوہ عموما کچھ اور نہیں ہوتیں۔ بچے سکول سے آتے ہیں تو ٹیوشن پڑھنے چلے جاتے ہیں، وہاں سے واپس آتے ہیں تو قاری صاحب سے سیپارہ پڑھنے کا وقت ہو جاتا ہے، ان سے چھوٹتے ہیں تو ٹی وی یا انٹرنیٹ پر کچھ دیر کوئی پروگرام یا چیٹنگ میں وقت گزارتے ہیں اور ادھر سونے کا وقت آ جاتا ہے۔
والدین کے پاس بچوں کو دینے کے لیے وقت ہی نہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام میں تو وقت نکالنا اور بھی مشکل ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تو یہ بھی رواج ہے کہ بچے کو کوئی بات سمجھانی ہو تو اپنی رشتہ داروں بلکہ بچے کے دوستوں یاروں تک کو اس کی شکایتیں لگا کر اسے سمجھانے کا کہا جاتا ہے۔ یہ والدین دراصل اس کا اعتراف کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو خود سمجھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یوں بچہ دوسروں کی نظر میں بھی چھوٹا پڑ جاتا ہے۔
پھر یہی بچے والدین سے باتیں نہ کرنے کی عادت کے ساتھ جب بڑے ہو جاتے ہیں تو ان کے لیے بھی والدین کا وجود ایک ضرورت یا بچپن کی یادگار سے زیادہ اہم نہیں ہوتا۔ ان کی والدین سے جذباتی وابستگی اور ذہنی قرب اس درجے کا نہیں ہو پاتا جو اپنی آخری عمر میں والدین کو ان سے درکار ہوتا ہے۔ آخری عمر میں جب ماں کچن اور باپ ملازمت سے ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں تو انہیں اولاد سے باتیں کرنے کی ضرورت پڑتی ہے، اس وقت تک ان کے دوست یار، رشتہ دار یا دنیا سے تو رخصت ہو چکے ہوتے ہیں یا میسر نہیں ہوتے۔ ایسے میں وہ اپنے دل کی باتیں کرنے، مکالمہ کرنے کے لیے اپنے بچوں کی طرف پلٹتے ہیں، لیکن افسوس کہ بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے تو اپنے اور اپنے بچوں کے درمیان مکالمہ کی بنیاد ہی نہیں رکھی تھی۔ کمیونیکیشن گیپ کی گہری خلیج کے پاٹنے کا وقت کب کا گزر چکا ہوتا ہے۔ ماں باپ کو دل کی باتیں بتانے کے لیے ترسنے والا چھوٹا سا بچہ، جو کبھی خود سے باتیں کر کے دل ہلکا کر لیا کرتا تھا، یا کسی ہم عمر، ہم جماعت سے بات کر کے تسکین ڈھونڈتا تھا، اب بڑا ہو گیا ہوتا ہے۔ اس نے اپنی باتوں کے لیے دوسرے محرم تلاش کر لیے ہوتے ہیں۔ اب اس کا تعلق بھی والدین سے چند ہدایات تک محدود ہوتا ہے کہ آپ نے دوا وقت پر لے لی؟ آپ نے کھانا کھا لیا؟ مارکیٹ جا رہا ہوں، آپ کو کچھ منگوانا ہو تو بتائیے، وغیرہ وغیرہ۔ دل سے دل تک کا راستہ ماہ و سال کی ریت میں پٹ چکا ہوتا ہے، اس کی بازیافت اب ممکن نہیں ہوتی۔
اولاد والدین کی تکلیف پر رو سکتے ہیں، ان کے علاج پر اپنا سب کچھ لٹا سکتے ہیں، ان کے لیے کسی سے لڑ مر بھی سکتے ہیں، لیکن انسان کی بے بسی کا تماشا دیکھیے کہ چاہ کر بھی وہ ان کے پاس بیٹھ کر دو گھڑی دلجمعی سے بات نہیں کر سکتے۔ ان کے الفاظ، محاورے، گفتگو کے مقدمات سب والدین سے مختلف اور ان کے لیے اجنبی سے ہو چکے ہوتے ہیں۔
بڑی آسانی سے یہاں اولاد کو مورد الزام ٹھرا دیا جاتا ہے کہ وہ بڑھاپے کی عمر میں والدین سے بات نہیں کرتے۔ پھر وہ نامعقول کہانی سنا دی جاتی ہے کہ ایک بوڑھا ایک کوے کو دیکھ کر بیٹے سے پوچھتا ہے کہ وہ کیا ہے، بیٹا کہتا ہے کہ کوا ہے، باپ بار بار پوچھتا ہے۔ بیٹا تنگ آ جاتا ہے اور کچھ سخت سست کہ دیتا ہے۔ اس پر باپ ڈائری لے کر آتا ہے کہ تم نے اپنے بچپن میں 20 بار کوے کے بارے میں پوچھا تھا کہ یہ کیا ہے، اور میں نے ہر بار لطف لیتے ہوئے تمہیں بتایا تھا کہ وہ کوا ہے۔
اس کہانی میں لڑکے کے بچپن سے یک دم جوانی کی طرف چھلانگ لگا دی گئی ہے، اور بیچ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ لڑکا جب کچھ بڑا ہوا تھا تو باپ نے اس کے ساتھ پیار تو کیا تھا، کھانا کپڑا اور دیگر ضرورتیں اور خواہشیں بھی پوری کیں تھیں، لیکن وہ اس کے ساتھ دل کی بات نہیں کرتا تھا، اس کے دل کی بات نہیں سنتا تھا، باپ سے کچھ کہنے کے لیے اسے ماں، یا بہن بھائیوں میں سے باپ کے کسی فیورٹ سے کہلوانا پڑتا تھا، پھر اس کی والدین سے مکالمہ کرنے کی ضرورت ختم ہو گئی تھی، اس نے اپنے دوست یا بہن بھائیوں میں سے کسی کو اپنا محرم راز بنا لیا تھا، چنانچہ اس کے دوست، اور اس کے بہن بھائی جن سے اس کا مکالمہ ہوتا ہے وہ بڑھاپے میں بھی اگر اس کے پاس آتے ہیں تو وہ ان سے گھنٹوں باتیں کرتا ہے اور اکتاتا نہیں۔ یہی وہ والدین کے ساتھ بھی کر سکتا تھا اگر باتوں کا تعلق پہلے قائم کر لیا گیا ہوتا۔
ہمارے معاشرے میں ایسا طبقہ بھی پایا جاتا ہے جہاں باپ کا مطلب ایک ایسا شخص ہے جس سے ایک ڈر آمیز احترام اور فاصلے کا رشتہ رکھا جانا سماجی قدر کے طور پر برتا جاتا ہے۔ بڑے فخر سے بتایا جاتا ہے کہ ہم نے آج تک والد کے سامنے زبان نہیں کھولی۔ والد کے گھر آتے ہیں پورے گھر پر سناٹا طاری ہو جاتا ہے۔ والد صاحب اپنی اس آمرانہ حاکمیت کا لطف لیتے لیتے جب ریٹائرڈ ہو کر چارپائی سے لگ جاتے ہیں تو ان کی خدمت کرنے والے تو بہت ہو سکتے ہیں، لیکن ان کی بات سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ دل کی بات آپ کسی سے نہ کر سکیں، اس سے بڑھ کر کیا اذیت ہو سکتی ہے۔
بچوں کا والدین سے دوری اختیار کرنے میں قصور سراسر نہیں تو اکثر والدین کا ہوتا ہے۔ آج اپنے بچوں کے دل، زبان اور کان سے رابطہ قائم کیجیے، تاکہ کل وہ آپ کی باتیں سن سکیں۔ ورنہ پھر گلہ بھی مت کیجیے گا اور ناصر کاظمی کا یہ شعر زیر لب پڑھتے ہوئے وقت گزارئیے گا۔
منہ لپیٹے پڑے رہو ناصر
ہجر کی رات ڈھل ہی جائے گی