بھارت میں سماج وادی اور غیر برابری پر مبنی سیاست

بھارت میں سماج وادی اور غیر برابری پر مبنی سیاست، پوسٹ ٹروتھ
پروفیسر منوج کمار جھا

بھارت میں سماج وادی  اور غیر برابری پر مبنی  سیاست کے کتنے امکانات بچے ہیں؟

از  پروفیسر منوج کمار جھا  (سابق صدر شعبہ،  دہلی اسکول آف سوشل ورک،  نیو دہلی )

مترجم : ابو اسامہ ،  شعبہ سوشل ورک،   مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،  حیدرآباد، بھارت

اتر پردیش کے حالیہ اسمبلی انتخابات نے نہ صرف  بائیں بازو کو زبردست جھٹکا دیا ہے بلکہ علاقائی سیاسی پارٹیوں کوبھی حیران کیا ہے ۔ سماج وادی اور بہو جن سماج وادی پارٹیوں کی ایک نظریاتی اساس تھی جس کے تحت ان پارٹیوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کی شروعات کی تھی ۔ اور یہی وہ بنیادیں تھیں جن کا استعمال وہ  اپنے مینی فیسٹو میں کرتے رہے ہیں ۔  دلت، پسماندہ اور اقلیتوں کے لیے جو سیاسی کمٹ منٹ پچھلی کئی دہائیوں سے چل رہے تھے ان پر سب سے بڑی قدغن بھاجپا نے لگائی اور بہت ہی چالاکی سے معیشت، سماجی مسائل اور نیو لبرل نظریات کا جال بنایا  (جس میں  یہ پارٹی مکمل طور پر کامیاب رہی ہے )۔ کیا واقعی  ترقی اور تنزلی کے تمام دعوؤں کے پس منظر میں ہندوستانی سماج کی کل بصیرت بھاجپا کے قائم کیے ہوئے سیاسی ڈسکورس سے طے ہورہی ہے؟

ظاہر ہے میڈیا اور خصوصا الیکٹرانک میڈیا نے اپنے سافٹ پاور کا استعمال کیا اور اس ڈسکورس کو خاطر خواہ مضبوطی بخشی ہے۔ مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ ہندوستان کی جدید سیاسی اور سماجی تاریخ اس قسم کے مسخ شدہ خیالات سے ہمیشہ بھری رہی ہے؟ شاید ایسا نہیں ہے، کیوں کہ اس کروڑوں ملک کی آبادی میں اکثریت بنام اقلیت (مذہب، زبان، علاقے، ذات ، طبقات )  کی لڑائی میں ملک کے عوامی رہنماؤں نے ہمیشہ سماجی اور مقامی سروکاروں کو پیش پیش رکھا۔مساوات اور اخوت پر مشتمل ہمہ گیر سیاسی مینی فیسٹو نے اس ملک کی ایک بڑی آبادی کو حوصلہ دیا ہے۔

سیاسی نعرے بازیوں سے پرے اس ملک کے عوام کی،  با ا لخصوص پسماندہ طبقات کے بنیادی مسائل کو ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی پرستی کسی بھی مہذب سماج کو ترقی کی راہ پر نہیں لے جاتی مگر ماضی کے اچھے سروکاروں  سے سیکھنا ایک ترقی پسندانہ قدم ہے۔ بنیادی تعلیم، روزگار، صحت جیسے بنیادی انڈیکیٹرز ملک کے بیشتر لوگوں کا سروکار ہے مگر بہکاوے ، پھسلاوے اور دلکش نعروں کے اس دور میں ہم سب حقیقی مسائل سے رو بہ رو ہونے کی تاب کھو چکے ہیں اور ہمارے لیے سب کچھ اب ایک ‘نیوز آئٹم ‘ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس سیاسی منظر نامے میں ہمیں ایک ایسی متبادل سیاست کی ضرورت ہے جو سماجی انصاف کو اپنے صحیح مقام تک پہونچا سکے ۔اس لیے   تاریخی ترتیب کے ساتھ ہمیں اپنا سیاسی محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی حوالے سے ہم قارئین کی خدمت میں پروفیسر منوج جھا کا ایک مضمون  پیش کررہے ہیں جو پچھلے دنوں بی بی سی میں شائع ہوا تھا۔ (عرض مترجم )


زاہد نے میرا حاصل ایماں نہیں دیکھا

رخ پے تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا

سماج وادی اور برابری کی سیاست کرنے والی  تنظیموں کے  تقریبا تمام حلقوں کی کیفیت ان دنوں کچھ ایسی ہی ہے۔

اتر پردیش کے  انتخاباتی نتیجوں کے بعد بھاجپا سے کئی قدم آگے جا کر، چوتھے کھمبے کے رکھوالوں اور ٹیلی ویزن اینکروں نے ہمارا اور ہم جیسے سروکار والے حلقوں کا  موت نامہ لکھ دیا ہے۔  قیامت  اور شامت کی لفظیات کی مستقل بوچھار کے درمیان،  میں اس’ موت نامے’ والی سیاسی لہر کی حالتوں کے کچھ پہلوؤں کا ذکر کروں گا، لیکن  درخواست یہ ہے کہ آپ اسے ‘موت والی حکایت’ کے طور پر نہ سمجھیں ۔

وزیر اعظم نریندر مودی بار بار گجرات کیو ں جاتے ہیں ؟

کیوں کہ اس لہر کی سیاسی اپیل اگر مردہ ہوگئی  تو اقتدار اور ذرائع میں ستر سے اسی فیصدی کی شراکت اور حصہ داری کی وراثت اور مستقبل کے امکانات محض آثار قدیم کے عجائب خانوں میں پائے جائیں گے۔ تین چوتھائی کی آبادی پر اونچے طبقے کے ظلم، زیادتی اور بربریت کی باتیں بھلا دی جائیں گی اور غیر برابری کے خلاف مہم ، باسی اوراق کی شکل میں یاد کی جائیں گی۔ اور ہمارا پختہ یقین ہے کہ کوئی بھی زندہ قوم ان سروکاروں سے دور ہو کر قانون کی تجاویز کو زمین پر نہیں اتار سکتی۔  ہماری ناکامیوں اور کمزوریوں کا سلسلہ ذرا لمبا ہے ،مگر میں صرف کچھ باتوں کا ذکر کروں گا تاکہ ایک صحیح نظریہ سے دیکھا جا سکے کہ کہاں کہاں چوک ہوئی ہے۔ ڈینیل بیل نے پانچ دہائیوں پہلے نظریہ کے خاتمے کا ا علان  کیا تھا اور ہم نے  گزشتہ بیس سالوں میں بلا وجہ انہیں بہت سنجیدگی سے لیا ہے ۔

نیو لبرل سیاست اور معاشی فکر کی پہلی دستک کے ساتھ ہی لوہیا جی  کی نیم انقلابی اور جے پرکاش نارائن کی انقلابیت یا مساواتی سماج کے تصور کو خارج کرنے میں ہم نے کوئی کوتاہی نہیں برتی ۔  پچھلے پچیس سالوں میں نظریاتی سیاست اور انتخابی سیاست کے بیچ ہم نے اخلاقی سیاست اور اس کے چھوٹے مقاموں کو اپنی آخری منزل مان لی۔

کس کی ترقی کا ڈھنڈورا؟

اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انتخاباتی سیاست کی دال میں تھوڑی اخلاقیات کی چھونک ضروری ہے لیکن ہم نے تو پوری دال ہی ایسے سروکاروںوالی  اخلاقیات کی تیاری کر ڈالی۔ نیو لبرل دور میں جہاں دس فیصد لوگوں کی ترقی کو سب کی ترقی کہہ کر پیش کیا جاتا رہا، جہاں حکومت نے بازار کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے،  جہاں ہمارا کردارکبھی  چپی سادھنے کا رہا تو کبھی بے اثر اور کھوکھلی مخالفت کا۔  جہاں ہمیں امریکی ڈیموکریٹ برنی سینڈرس کے طرز پر متنوع سماجی پس منظر اور غیر برابری کے خلاف عصری محاورے ڈھونڈنے تھے، وہاں ہم نے اپنی پوری طاقت سنگھ اور بھاجپا کے ذریعہ چلائے گئے  تماشے کی سیاست  پر اپنے رد عمل میں صرف کر دیا۔

ہم نے روزگار سے خالی معاشی ترقی کے خلاف لمبی چپی سادھ لی اور ایک رد عمل والی سیاست کر تے کرتے ہم کب تنزلی کی طرف چل پڑے ، ہمیں اس احساس تک نہیں ہوا۔ میڈیاکے ایک بڑے طبقے کی تمام کوششوں کے باوجود سیاست کا اب بھی مطلب ہے، ذرائع کی تقسیم کے انتظام کے مختلف پہلوؤں کی پڑتال کرنا اور یہ ایک ایسا اہم معاملہ ہے جس سے الگ رہنے کا مطلب ہے نوے فیصد کی حصہ داری صرف دس فیصد کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا۔ لیکن ہم نے محاوروں اور سروکاروں کو بھی بھلا دیا۔

اقتدار، طاقت اور ذرائع کا برابری والا نظریہ ہماری سیاسی بصیرت کے ڈی این اے میں تھا، پتا نہیں ہم یہ کب بھلا بیٹھے ۔ سماجی انصاف، آزادی، غیر برابری اور مذہبی رواداری کے ایک زبردست رشتہ ہے اور ہم گزشتہ سالوں میں اس بات کو لوگوں تک پہونچانے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔

شہر اور گاؤں کا نیا نوجوان طبقہ

نتیجتا ہم نے فرد کی آزادی کو سماجی انصاف سے اور سماجی انصاف کومذہب بیزاری  کے خلاف کھڑا ہوتے دیکھا۔ نیو لبرل دور میں شہروں اور گاؤں میں ایک نئے نوجوان طبقے کا ظہور ہوا جسے تجزیہ کار نہ جانے کیوں خواہشات سے لبریز طبقہ مانتا ہے۔ اس اصطلاح کو اگر نہ مانے تو یہ صاف نہیں ہے اس اہم طبقہ سے ہمارا مکالمہ صفر رہا ہے۔ جن کی اولیت اور اہمیت سماج کے کمزور اور مظلوم طبقوں کے حقوق کی وکالت رہی ہے  انہیں اس طبقہ سے مکالمے اور گفت و شنید کے طریقے ایجاد کرنے تھے۔

موجودہ سیاست میں اکثر ‘ترقی’ کی بات ہوتی ہے ۔ کبھی  ترقی رکی بتائی جاتی ہے ،کبھی ترقی چلتی بتائی جاتی ہے۔ مقبول سیاسی حلقے اپنی تمام دلیلوں کو اسی ترقی کی ڈور میں باندھ کر پیش کرتے ہیں۔ سماجوادی روش  کی سیاست کا  سروکار رکھنے والوں نے اس ترقی کی پرتیں کھولنے کی اب تک زحمت نہیں اٹھائی ہے ۔ ہماری سیاست سے متعلق ساری تنظیمیں اس نیو لبرل ترقی کو صحیح مان چکی  ہیں ۔ ترقی کی اس گاتھا کو ہم ایک سو پچیس کروڑ ہندوستانیوں کی ترقی گاتھا مان بیٹھے ہیں۔ کیا اس ترقی نے ذات اور طبقہ پر مبنی غیر برابری میں ذرا بھی سیندھ لگائی ہے؟

سماجی انصاف کی لڑائی

کیا اس ترقی نے اچھی تعلیم اور روزگار میں غیر برابری کے تانے بانے کو درست کرنے کی سمت میں کچھ پہل قدمی کی ہے؟ کیا محنت کی مریادا  اور عزت نفس کو بنائے اور بچائے رکھنے میں کوئی اہم کامیابی حاصل ہوئی ہے؟  اور سب سے اہم ترین پہلو یہ ہے کہ ہم نے ان سوالوں سے لگاتار  دوری بنا لی ہے۔  تیز رفتار بازار اور تنگ نظر سیاست نے سماجی انصاف اور حصہ داری کے فروغ میں متبادل سیاست کی مہم کے لیے کئی چنوتیاں کھڑی کی ہیں ۔ پسماندوں کی شراکت، تعلیم اور روزگار کے مواقع کی برابری، اقلیتوں کے حقوق،  ان کے تحفظ اور غیر برابر ترقی کے مدوں کو ایک  نام نہاد’ہندتو ا کے غلاف’سے ڈھکا جا رہا ہے۔ اور ہمارے پاس کوئی متبادل فلسفہ نہیں ہے۔ آپ مقبول سیاسی فلسفہ کی مخالفت اس کی دھندلی فوٹوکاپی بن کر نہیں کر سکتے ہیں۔

برابری کی روش  والی سیاست کی مقبولیت اور اپیل کو  حال کے دنوں میں ہوئے بدلاؤ کے پس منظر میں دیکھے جانے کی ضرورت ہے اور ایسا نہیں کرنے پر وجود پر خطرہ صرف ایک اخلاقی مسئلہ نہیں رہے گا۔

جے پرکاش نارائن اور لوہیا، جمہوریت کے باہر جا کر پیروکاری سے پہلے، اندرونی جمہوریت پر فوقیت دیتے تھے۔ ہم میں سے کتنے حلقے آج اندرونی جمہوریت کو اپنے سیاسی نصاب کا اہم جزو مانتے ہیں ۔ ہماری پوری سیاست انتخاب کے ارد گرد سمٹ کر رہ گئی ہے اور وہ بھی پرانے اور دیمک لگے ہوئے ہتھیاروں سے ہم لڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کیا ہے ہماری چنوتی؟

ہماری روش کی سیاسی تنظیموں کو چوبیس گھنٹے اور ساتوں دن لوگوں کے بیچ موجود اور تعینات  رہنا ہوگا۔ ٹاپ ڈاؤن اپروچ کے بدلے باٹم اپ اپروچ کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے محلوں، ضلعوں اور صوبائی سطح کی تنظیموں کو لوگوں سے ہمیشہ منسلک رہ کر ان کے مسائل کے لیے مضبوط حمایت دکھانی ہوگی۔ اپنے وراثتی بنیادی گروہوں کے علاوہ تمام ویسے گروہ جن کا ہماری سیاسی تنظیموں کی بنیاد گروہوں سے متضاد نہیں ہے، انہیں جوڑنے کی ایک مستقل کوشش کی جائے۔  ایک دو بار کی کوششوں میں ہوئی ناکامی سے نا امید ہوئے بغیر ہم ایک مضبوط قانونی سرگرمی میں تبدیل کریں۔ ہماری تنظیمیں اور پارٹی کے حامی اور لوگوں میں نظریے کے لیے پوری مناسبت ہونی چاہئے کیوں کہ صرف اقتدار کے ارد گرد کی  سیاست لمبے دور تک نہیں چل پاتی ہے ۔ فرد مرکوز مکالمے سے دوری بھی، متبادل سیاست کے لیے ایک لازمی شرط ہونی چاہئے۔