پانامہ ، اپنے مہین خان اور کونڈے : طنز و مزاح

پانامہ ، اپنے مہین خان اور کونڈے

پانامہ ، اپنے مہین خان اور کونڈے

(نعیم بیگ)

موبائل کی گھنٹی مسلسل چلا رہی تھی۔۔۔ میں نے ایک نظر اسے دیکھا اور ’جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو‘ پڑھتے ہوئے سننے کا بٹن دبا دیا۔
’’ اماں ، تم کہاں تھے؟ ہر وقت چرنوں میں بیٹھنا مناسب نہیں ہوتا۔ کبھی تو اِس بدنصیبن کی جان چھوڑ دیا کرو۔‘‘ اپنے مہین خان نے چھٹتے ہی اپنی باریک سی منحنی آواز میں اس زور کی ہانکا لگایا تومیں انکے تیور سمجھ گیا۔
میں ہلکلایا ۔۔۔ ’’ ارے خان صاحب ۔ میں فون اٹھا ہی رہا تھا۔‘‘
’’ اب تم بڑھاپے میں کیا اُٹھاؤ گے؟ اُٹھانے کی داستان ہم سے پوچھو ۔۔۔ کیسے کیسے جید میدان چھوڑ کر یوں نکل جاتے تھے ۔
انہوں نے یوں کہتے ہوئے یقیناً بے آواز چٹکی بجائی ہوگی جو ہوا کے دوش پر بیچ میں کہیں تحلیل ہو گئی۔ ہم سے پوچھو کیسے کیسے مردِ میدان۔۔۔ اماں چھوڑو ، بعد میں بتاؤں گا۔۔۔ یہ بتاؤ، کیا صبح ہماری بھابی کونڈے بنا رہی ہیں؟‘‘
’’ ہاں۔۔۔کونڈا کر رہی ہیں اس مہنگائی میں ! ‘‘ میں برجستہ بولا۔
’’ ابے کیسے مغل بچے ہو۔ بنیے کی طرح حساب میں جتے رہتے ہو ؟ ‘‘ مہین خان نے منحنی ساوار کر دیا۔
ویسے ایک بات بتاؤں،پوچھا تو نہیں ۔۔۔ لیکن اتنا جانتا ہوں کہ شبراتن کو دودھ ، چینی اور سوجی کا کہلوا رہی تھیں۔ یہی کچھ ہوگا۔‘‘
’’ بس تب تو ٹھیک ہے، انہیں بتا دینا کہ انکا بدنصیب بھائی مہین خان کل ان کے ہاں حاضر ہوگا۔ وہ جانتی ہیں، ہم ناشتے میں سری پائے اور دوپہر میں شب دیگ تناول کریں گے، بیچ میں موقع لگا تو کونڈے بھی نبٹا دیں گے ۔ خان صاحب نے یوں کہا جیسے کل پشاور سے پیدل چل کر یہاں پہنچ رہے ہیں ۔ جبکہ وہ چند گلیاں پچھواڑے میں ہی تو رہتے تھے۔
’’ خان صاحب۔۔۔ زہے نصیب آپکا اپنا گھر ہے جب چاہیں آ جائیں۔ اس بد نصیبن کو آواز دینے کی کیا ضرورت ہے، آپ کا بھائی جو ہے نا ، لیکن یہ بیچ والی بات سمجھ نہیں آئی۔ کیا کل دن بھر قیام کا ارادہ رکھتے ہیں ‘‘ میں نے سردآہ بھرتے ہوئے کہا۔
’’ ارے۔۔۔ تم تو ذہنی طور پر شکستہ دل شخص اور بدر کے بعد ہلال ہو۔ ارے بدھو، شام تک بیٹھیں گے، کل اپنے وزیراعظم کا پانامہ فیصلہ بھی تو دو بجے آئے گا۔ کونڈے کھاتے ہوئے فیصلہ سنیں گے۔ ہاہاہا ۔۔۔ کونڈے اور پانامہ ایک ساتھ ۔۔۔ خوب لطف آئے گا، ایک طرف کونڈے دوسری طرف کونڈا۔ ‘‘ خان صاحب نے منِخری آواز میں قہقہہ لگایا تو مجھے انکے دلی خواہش معلوم ہو گئی۔ پشاور سے تھے نا اور وہ بھی نجیب الطرفین پٹھان ۔۔۔
’’ اچھا تو آ جائیے ۔ ہم انتظار کرتے ہیں ،لنگر خانہ کھلوائے دیتا ہوں ۔۔۔ اوہ نہیں میرا مطلب دیوان خانہ ۔ ‘‘ میں مردہ سی دل دونِیم آواز میں بولا تویکایک ہنہنا اٹھے۔
’’ کر لو۔۔۔ میاں، جتنا چاہے کر لو مذاق۔۔۔ کل دو بجے کے بعد پوچھیں گے۔ اس سے بڑھ کر اگر تمارے ساتھ یہی ٹھٹھا نہ کیا تو مہین خان نام نہیں۔ تم بدل دینا ؟ ۔ پانچوں جج اپنے ہیں اور سبھی ایک ساتھ بولیں گے ۔ ‘‘ انکی باریک آواز حلق سے نکلی تو مجھے احساس ہوا اب رکیں گے نہیں۔سو جلدی سے کہا۔ ’’ اچھا خان صاحب فون بند کرتا ہوں ۔ صبح ملاقات ہو گی۔ بد نصیبن بلا رہی ہیں ۔ ‘‘ اور فون بند کردیا۔
ہمارے ساتھ مقدر نے ہمیشہ بدنصیبی کا کھیل کھیلا ہے، اِدھر ہم نے علی الصباح بیت الخلاٗکی حدود پار کی اُدھر کھڑکی سے پار ایک منحنی سے آواز نے ایسا للکارا مارا کہ قریب سوئے ہوئے رات کی نیند کے مارے پِلے تک کُتکُتا اُٹھے، ان کی چاؤں چاؤں سے محلہ تو خاک جاگتا البتہ میں وہیں کموڈ پر ڈھیر ہو گیا۔ گردن موڑ کر وہیں سے ہانکا لگایا۔
’’ اماں خان صاحب ۔۔۔ رکیئے ، آتا ہوں۔۔۔ اب انہیں کیا بتاتا کہ میں کہاں ہوں؟
ایسی حالت میں بندہ رمق جسم و جان سے بے پروا ہ صرف مستقبل کی الجھنوں کو سلجھا رہا ہوتا ہے، فلسفہ و منطق کی ان بلندیوں پر رموزِ مملکت خویش خسرواں کی جوتشیانا تخلیق کے تانے بانے بنتا ہے ، لیکن اپنے خان صاحب نے یک جنبشِ للکار سب کچھ چھین لیا۔ لطفِ سکوں ملا نہ سقاوہ طہارتِ خیال۔ اسی سوچ میں غرق کہ آج سپریم کورٹ کا فیصلہ کیسا ہوگا؟ آزار بند ہاتھ میں لئے نیچے صحن میں اترنے لگا۔
’’ اماں خان صاحب ۔۔۔ کیا رات بھر نیند نہیں آئی، جو یوں صبح صبح پکے ہوئے آم کی طرح ٹپک پڑے؟ ‘‘ میں نے دروازہ کھولتے ہی گولہ داغا۔
’’ ابے ، تم کیا جانو ۔۔۔ سری پائے کا ناشتہ اگر چاشت کے بعد کیا جائے تو نظام انہضام بگڑ جاتا ہے۔ ‘‘
’’ ایسا کہاں لکھا ہے؟ ‘‘ میں نے ٹٹولا۔
’’ لکھا تو کہیں نہیں دیکھا، لیکن اس طعام کے موجد نہتے کشمیری خود کہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے اصرار کیا۔
اوپر کمرے تک پہنچتے پہنچتے وہ اس موضوع پر ایک مقالہ پیش کر چکے تھے جو مطلوب میاں بھی سن رہے تھے۔ اوپر چڑھتے ہوئے میں نے آنکھ دبا کر مطلوب میاں کو ناشتہ کا کہہ کر یہ بھی بآواز بلند کہہ دیا ۔
’’ مطلوب میاں تم اپنے خان صاحب کو دیوان خاص میں بٹھاؤ ۔ جب تک میں دیوی کے درشن کر آتا ہوں۔ ہاں احتیاطً ٹی ، وی آن کردینا، کیا ممکن کہ ہم سب وقت کے غلط سرکاری اعلانیے کا شکار ہو جائیں۔‘‘
’’ مطلوب میاں نے کورنش بجا لانے کے انداز میں اپنے مہین خان کی دیوانِ خاص تک راہنمائی کی اور میں اوپر کمرے میں چلا آیا۔
کپڑے بدل کر جب نیچے پہنچا تو اپنے خان صاحب ٹی وی ہونے والی گفتگو پر اچھل اچھل کر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے تھے۔ ٹی، وی کی آواز سے زیادہ انکی اپنے آواز بڑے ہال میں گونج رہی تھی۔ مجھے لگا کہ اینکر کے ساتھ بیٹھے دو مہمانوں کے ساتھ تیسرے دانشور یہی ہیں جو بیچ بیچ میں لقمے دے رہے تھے۔ لمحہ بھر کو احساس ہوا کہ واقعی کہیں لائیو تو نہیں جا رہے کیا؟
میں نے انہیں بازو سے پکڑ کر جھنجوڑ کر انہیں ہوش دلایا کہ وہ اس وقت شاہی مغلیہ دیوانِ خاص میں بیٹھے ہیں، خان صاحب نے مغلوب ہوتے ہوئے مطلوب کو آواز دے ڈالی۔
’’ ہاں بھئی۔۔۔ خان صاحب وہ ناشتہ ہی لا رہا ہے۔ یہ بتائیے آپ نے آج صبح کی ورزش کر لی ہے؟ ‘‘
’’ بہت ناشکری قوم ہے یہ ۔۔۔ارے بھئی، یہ جو کئی ماہ سے عوامی خدمت کر رہا ہوں ۔ جا بے جا در در ٹھوکریں کھا رہا ہوں۔ کہیں شنوائی نہیں ہوتی ۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی عوامی خدمت ہوتی ہے۔ تم مغل بچے ۔۔۔ ان عوامی سرگرمیوں سے کیا سروکار رکھتے ہو۔ تمیں کیا معلوم کہ عدل کی زنجیر لٹکا دینے سے عدل ہو نہیں جاتا ؟‘‘
’’ عدل مہیا کرنا پڑتا ہے مدعی کی چیخ سے پہلے۔۔۔‘‘
یہ تو اچھا ہو ۔۔۔ کہ فوراً اپنے مطلوب میاں ناشتے کی طشتری اٹھائے نمودار ہو گئے تو میری جان چھٹی ۔۔۔ اس بار خان صاحب کچھ زیادہ ہی دانشورانہ خیالات کے حامل تھے۔میں دل ہی دل میں مسکرا اٹھا ۔۔۔۔ مجھے دو بجے کا وقت یاد آنے لگا۔
ناشتہ لگا تو میں نے سری پائے کی ڈش آگے بڑھائی تو غور سے اس میں جھانکنے لگے۔ میں نے قریب ہو کر دیکھنا چاہا ، شاید کہ ڈھونگے میں کچھ گر گیا ہو ، تو دیکھا گھی کی اوپری آئینہ نما تہہ میں اپنی شکل دیکھ رہے ہیں ۔ میری شکل نمودار ہوتے ہی پیچھے ہٹ گئے
’’ ہٹو اماں ۔۔۔ کچھ کھانے دو۔تم ہمیشہ اپنی رونی سے صورت لیکر سامنے آ جاتے ہو۔‘‘
’’ خان صاحب میں تو ہمیشہ آپکی خدمت میں پیش پیش رہا ہوں ۔ دیکھ نہیں رہے اپنے محلے میں سب سڑکیں پکی بنوا دی ہیں ۔ نالیاں بھی بن چکی ہیں ۔ اوپر باڈر سے کچھ دوستوں کو ٓواز دے رکھی ہے ۔ سلطنتِ عثمانیہ سے صفائی والے لایا ہوں تو سلطنت منگولستان سے محنتی کارکن۔۔۔ اب دیکھنا ترقی ہی ترقی ہوگی چاروں طرف ۔
’’ اماں ۔۔۔ یہ جو تم نے اتنی بڑی وسیع و عریض حویلی بنوا لی ہے ۔ مہاجروں کو تو ایسی بساط نہ تھی ۔ تم نے کونسی جادو کی چھڑی گھمائی ہے ۔ یہ کہو دامن میں چند موتی تم بھی چھپائے رکھتے ہو۔ ‘‘
ابھی ناشتہ شروع ہی ہوا تھا کہ برابر سے کچھ اور دوست جن میں پروفیسرمرغوب احمد اور انکے شاگرد مسکین میاں بھی پہنچ گئے ۔۔۔
’’ میرزا ۔۔۔ تمیں اپنی رسوئی دور کہیں پچھواڑے میں لے جانی ہوگی ۔ ورنہ یہاں سے وقتاً فوقتاً کھانوں کی خوشبوئیں ہمارے کمرے تک پہنچ جاتی ہیں اور ہم راہ نہیں پاتے۔ جبھی میں نے مسکین میاں کو ٓواز دی کہ چلو آج میرزا کی حویلی پر دھاوا بولتے ہیں ۔ باہر گلی کے بچوں نے بتایا کہ اپنے مہین خان بھی تشریف فرما ہیں ۔ سوچا یہی موقع ہے ۔ بس ابھی گھڑی بھر کو عدالت کا فرمان آ نے والا ہے ۔ میرزا ۔۔۔ تمارے ستارے گردش میں ہیں ۔ ‘‘ پروفیسر مرغوب نے اندر آتے ہی پورا احوال دے ڈالا۔
پروفیسر مرغوب پیشے سے آسٹرالوجسٹ ہیں ۔۔۔ ہم جب انہیں نجومی کہتے ہیں تو بہت تلملاتے ہیں ۔ خود کو دانش میں یکتا سمجھتے ہیں۔
مجھے نظر انداز کرتے ہوئے خان صاحب کی طرف دیکھا اور بولے۔’’ اماں خان صاحب۔۔۔ سن لو غور سے ۔۔۔ تمارا ستارہ زحل عطارد کے دسویں کیریئر میں ہے اور پلوٹو وہیں کھڑا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ آپ کے نویں گھر میں براجمان ہے اور مشتری کو ساتویں گھر سے پانچو یں گھر میں داخل کرنا چاہتا ہے۔ مشتری کے اس ’انتقال‘ پر جو بیہودہ اثرات آپکی زندگی پر آئیں گے انکا ذمہ دار پلوٹو ہوگا یا کوئی اور؟ ‘‘
’’ سر ۔یہ بتائیں ۔۔۔ فیصلہ کیا ہوگا؟۔‘‘ مسکین نے پوچھنے کی جراٗت کی۔
’’ دو باتیں ہیں مسکین میاں ۔۔۔ میرزا کے ستاروں کو دیکھ لو۔
زہرہ ان کے مالی امور کا سیارہ ہے جو کسی صورت حرکت نہیں کر رہا۔۔۔ نہ اپنے مدار میں ، نہ ہی اس پورے چکر میں کوئی اور سیارہ آپ پر سعد نظرات ڈال رہا ہے۔ اسکا مطلب یہ کہ معاملہ جون کا توں ہی رہے گا۔
مہین خان یہ سن کر تڑپ اٹھے۔
’’ اگر معاملہ جون کا توں ہی رہا تو ہم نے کیا ہاتھوں میں چوڑیاں پہن رکھی ہیں۔ ‘‘
’’ ارے تو آپ کیا جنگ کریں گے؟ ‘‘
’’ ہاں ۔۔۔ اور اگر جنگ نہ کر سکے تو تنگ تو کریں گے ہی نا۔ ‘‘

یہ کہہ کر کونڈوں پر ٹوٹ پڑے۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔