ہم لکھنے والے پیغمبر نہیں
از چندن شریواستو ، سینئر اسوسیئٹ فیلو، سی ایس ڈی ایس ، نیو دہلی
مترجم : ابو اسامہ ، شعبہ سوشل ورک ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد
‘پہلے ترقی پسند میری تحریروں کو اچھالتے تھے کہ منٹو ہم میں سے ہے۔ اب یہ کہتے ہیں کہ منٹو ہم میں نہیں ہے۔ مجھے نہ ان کی پہلی بات کا یقین تھا، نہ موجودہ پر ہے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ منٹو کس جماعت میں ہے تو میں عرض کروں گا کہ میں اکیلا ہوں…’
جیسے لدھیانہ کا قصبہ سمرالہ، جہاں اب سے ایک پانچ سال پہلے سعادت حسن منٹو نے زندگی کی پہلی سانس لی، پنجاب کا حصہ ہے ویسے ہی شہر لاہور بھی، جہاں188 جنوری 1955 کی ایک دوپہر منٹو کے دم کی ڈور ٹوٹی۔ اگر منٹو کی زندگی اور افسانوں کو سمجھنا ہو تو بات صرف پنجاب کہنے بھر سے نہیں بنتی۔ ثقافت کا جغرافیہ، سیاست کے جغرافیہ کے سامنے بےبس ہو جاتا ہے۔
بس تینتالیس سال کی زندگی نصیب ہوئی سعادت حسن منٹو کو اور ان سالوں کو سمجھنے کے لیے پنجاب لفظ میں مشرقی یعنی ہندوستان اور پاکستان جوڑنا پڑتا ہے ۔ تقسیم سے پہلے کے دنگوں اور تقسیم کے بعد کی باز رفت کے لہو لہان قصوں کے سائے میں لپٹے وہی ہندوستان۔ پاکستان جن کی حکومتوں سے منٹو کی کہانی کا ہیرو بشن سنگھ بار بار پوچھتا ہے کہ بتاؤ میرا گاؤں ٹو بہ ٹو ٹیک سنگھ ملکوں کی تقسیم میں کہاں ہے اور ہر جواب کے بعد اس کے منہ سے گھبراہٹ میں نکلتا ہے، “اوپر دی گڈ گڈ دی انیکس دی بے دھیاناں دی منگ دی دال آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی در فٹے منہ !” اپنے ساتھ ہوئی نا انصافی کے غصے میں نکلا یہ جملہ، موجودہ نیشن-اسٹیٹ کی تعمیر کے خونی مطالعوں کے پس منظر میں شاید بیسویں صدی پر سب سے بڑی کمنٹری ہے۔
اس جملے کا مطلب ٹو بہ ٹو ٹیک سنگھ نام کی پوری کہانی میں گمشدہ ہے مگر سب سے اچھے ڈھنگ سے کھلتا ہے آخر میں۔ یاد کریں، بشن سنگھ کے آخری لمحات کی منظر کشی، “ادھر کھر دار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا، ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان. درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا، ٹو بہ ٹو ٹیک سنگھ پڑا تھا۔”
منٹو کے بارے میں یہ سوال بنا رہے گا کہ کیا ان کے اندر ایک بشں سنگھ موجود تھا جو عمر بھر اپنے لیے ایک درمیانی جگہ کی تلاش کرتا رہا، ایک ایسی جگہ جس پر ہندوستان-پاکستان کی طرح کس نیشن-اسٹیٹ کا نام نہیں لکھا تھا۔ منٹو کے جو سال پاکستان میں گزرے ان کے بارے میں منٹو کا خیال تھا، ” میرے لیے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اپنے ملک میں، جسے پاکستان کہتے ہیں، میں اپنی صحیح جگہ ڈھونڈ نہیں پایا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میری روح بے چین رہتی ہے ۔ میں کبھی پاگل خانے میں اور کبھی اسپتال میں رہتا ہوں۔” اس بے چینی کی وجہ تلاش کر پانا مشکل نہیں ہے۔
منٹو نے سال 1951-1954 کے بیچ چچا سام کے نام کچھ خط لکھے ۔ اس وقت امریکہ کے صدر ٹرومین تھے ۔ جنوبی ایشیا کی سیاست میں امریکی مداخلت کی منشاء کو اپنے دھاردار طنزوں سے بے نقاب کرنے والے خطوں میں ایک جگہ آتا ہے ، ” جس طرح میرا ملک کٹ کر آزاد ہوا اور چچا جان، یہ تو آپ جیسے عظیم عالم سے چھپی ہوئی نہیں ہونی چاہئے کہ جس پرندے کو پر کاٹ کر آزاد کیا جائے گا، اس کی آزادی کیسی ہوگی!” پر کٹے پرندے کو آگے بڑھا کر پوچھیں کہ اس کے پر کہاں ہیں؟ اپنی آزادی کو پر کٹے پرندے کی آزادی کی شکل میں دیکھنے والے منٹو کا جواب ہوگا، ” میرا نام سعادت حسن منٹو ہے اور میں ایک ایسی جگہ پیدا ہوا تھا جو اب ہندوستان میں ہے ۔ میری ماں وہاں دفن ہے، میرا باپ وہاں دفن ہے، میرا پہلا بچہ بھی اس زمین میں سو رہا ہے جو اب میرا وطن نہیں ۔ میرا وطن اب پاکستا ن ہے، جو میں نے انگریزوں کے غلام ہونے کی حیثیت سے پانچ-چھ مرتبہ دیکھا تھا۔”
خود کی تصویر پر کٹے پرندے کی شکل میں دیکھنے والے منٹو کے درد کی دوا کے لیے دونوں ملکوں میں ایک درمیانی جگہ بچی ہوئی ہے۔ اس کا نام یا تو اسپتال ہے یا پھر پاگل خانہ یعنی وہ جگہیں جہاں آپ پہونچتے ہی تب ہے جب کسی وجہ سے آپ کا نیشن-اسٹیٹ کا ذی ہوش شہری ہونا آ پ کے ‘ٹھیک ‘ ہونے کے وقت تک کے لیے ٹہر جاتا ہے ۔
ایک فنکار کی شکل میں منٹو کو لگتا تھا، ہندوستان اور پاکستان ان کےفن کی پرواز کو روکنے والی جگہیں ثابت ہوئی ہیں۔ ” میں پہلے سارے ہندوستان کا ایک بڑا افسانہ نگار ہوں، سالم ہندوستان میں مجھ پر تین مقدمے چلے اور یہاں پاکستان میں ایک، لیکن اسے ابھی بنے ہی کتنے سال ہوئے ہیں۔” جیسے منٹو کی زندگی اپنے لیے نیشن -اسٹیٹ کے تصور سے الگ ایک درمیانی جگہ ڈھونڈتی ہے ویسے ہی ان کی کہانیاں بھی ۔ ان کی کہانیاں سماج اور سیاست کی بنی بنائی سچائیوں کے برعکس فن کی اصلی سچائی کی متمنی ہیں۔ وہ سچ جو سماج کے تانے بانے اور سیاست کے وعدوں میں سما نہیں پاتا۔
منٹو کو ملال رہا کہ انہیں ادبی دنیا آخر آخر تک نہیں سمجھ پائی ۔ منٹو کو ان کے زمانے میں ترقی پسندیت سے باندھ کر دیکھا گیا لیکن منٹو کو لگا ان کی کہانیوں کا سچ کسی بھی ازم کی زمرہ بندیوں سے نہیں باندھا جا سکتا۔ چچا سام کے نام لکھے خطوط میں ہی آتا ہے۔ ‘پہلے ترقی پسند میری تحریروں کو اچھالتے تھے کہ منٹو ہم میں سے ہے۔ اب یہ کہتے ہیں کہ منٹو ہم میں نہیں ہے۔ مجھے نہ ان کی پہلی بات کا یقین تھا، نہ موجودہ پر ہے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ منٹو کس جماعت میں ہے تو میں عرض کروں گا کہ میں اکیلا ہوں…’ اور تضاد دیکھیے کہ اتنے کھرے انکار کے باوجود منٹو کی کہانیوں کو ترقی پسندیت کے چشمے لگا کر پڑھنے کا رواج آج بھی ہے۔ آپ کو بیشتر ایسے خصوصی شمارے مل جائیں گے جس میں منٹو پر مارکسیت کا اثر دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہےیا کبھی فرائیڈ کے اثرات ڈھونڈے جاتے ہیں۔ یا کبھی ترقی پسندی کو وہ تعریف دہرائی جاتی ہے جو کبھی سجاد ظہیر اور ان کے ساتھیوں نے 1925 لندن میں ترقی پسند تحریک کا پہلا مینی فیسٹو تیار کرتے ہوئے تجویز کیا تھا، ” وہ سب کچھ جو ہم میں تنقیدی صلاحیت پیدا کرتا ہے، جو ہمیں نظریاتی طور سے صحت مند بناتا ہے اور ہم میں اتحاد اور قومی یکجہتی پیدا کرتا ہے، اسی کو ہم ترقی پسند ادب کہتے ہیں۔”
اتحاد اور قومی یکجہتی کی حمایت کرنے والی اس تعریف کو صحیح ماں کر منٹو کو پڑھیں تو ان کی کہانی ‘ٹو بہ ٹیک ‘ سنگھ ہاتھ سے پھسل جائے گی، ساتھ ہی یہ سوال بھی ستائے گا کہ آخر منٹو نے ایک نئے فنکار کی شکل میں اپنی کردار کی پہچان کرتے ہوئے یہ کیوں کہا تھا ، ” ہم لکھنے والے پیغمبر نہیں ۔ ہم قانون ساز نہیں… قانون سازی دوسروں کا کام ہے۔ ہم حکومتوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں لیکن خود حاکم نہیں بنتے ۔ ہم عمارتوں کے نقشے بناتے ہیں لیکن ہم معمار نہیں ۔ ہم مر ض بتاتے ہیں لیکن دواخانوں کے مہتمم نہیں ۔ ” منٹو کو غالب بہت پسند تھے۔ سپرہٹ ہوئی فلم مرزا غالب کی کہانی منٹو نے لکھی تھی ۔ اس فلم کی شروعات جس غزل سے ہوتی ہے اس کا ایک شعر ہے ، ‘یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات، دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور’۔ منٹو کے کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ہمیں ان کی زبان کو سمجھنے کے لیے ‘اور دل ‘ کی تلاش کرنی ہوگی ۔