اردو کے حروف تہجی کم کرنے کی ضرورت ہے؟
(عزہ معین)
ہزاروں مرتبہ اردو ادب میں رسم الخط بدل دینے کے لئے بحثیں ہوتی رہی ہیں ۔کیا اردو کا رسم الخط بدل کر ہم نئے پڑھنے والوں کو کوئی سہولت فراہم کر دیںگے ؟ رسم الخط کا بدلنا سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت ممکن ہی نہی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ زمانے کے اعتبا ر سے ہر دور میں کچھ الفاظ نئے روپ و ہیئت میں رائج ہو رہے ہیں۔ ان کی صورت وشکل سہولت کے حساب سے واضح طور پہ بدلتی جا رہی ہے۔ املاء تبدیل ہو رہا ہے۔ وہ تو ہر دور کا تقاضا ہے اور کوئی بھی زبان ہو اپنے دور کے تقاضے کے مطابق اگر نہی تبدیل پوگی تو وہ ظاہر بیمار ہو جائیگی۔
پھر بیماری اس طور سے بڑھتے بڑھتے موت کو گلے لگا لے گی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہندی رسم الخط کو اپنا لینا چاہئے۔ اس سے پہلے کہ زبان مر جائے رسم الخط کو بدل دینا بالکل اسی طرح ہے۔ جیسے کسی نئی نویلی دلہن کے آرائش و زیبائش کے سارے لوازمات چھین لینا میک اپ ہو یا یورات یا پھر چمکیلے و بھڑکیلے لباس یا وہ درخت جس کے سارے پھول و پھل توڑ لئے گئےہوں اور سارے جانداروں کو چرند پرندوں کو دور بھگا دیا گیا ہو۔
ویرانی کو اس کا مقدر بننے سے کون روک سکےگا۔ زبا ن کے الفاظ کو کم کر دینا شاید کچھ لوگوں کے لئے سہل ہو جب کہ یہ اتنا آسان ہے نہیں۔ اس کے الفاظ متروک ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ کیونکہ اردو میں آرائش ان الفاظ کی ہی بدولت ہے۔ جیسا کہ ماہر لسانیات گیان چند جین کے مطابق ، اردو میں زائد حروف مثلاً ،ا،ع،ت،ط،ز،ظ،ض،ذ،ژ،ث،ص،س،وغیرہ ختم کر دینا چاہئے۔
ان کا کہنا ہے کہ مردہ لاشوں کو ڈھونے کا کیا فائدہ جیسے اقوال کسی حد تک قابل قبول ہوسکتے ہیں۔ لیکن پھر اردو کی انفرادیت کہاں باقی رہ جائیگی اس کی شیریں زبان میں لوچ سب ہی مردہ ہو جائیگا۔ گیان چند نے اعتراضات کئے ہیں۔ پھر خود ہی ان کے جوابات دے دیئے ہیں مجھ کو ان سے اختلاف ہے۔
اب ان سے نفع حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن اردو اس طرح سے خاتمے کی طرف ہی رواں ہو جائے گی۔ یہ بھی صحیح ہے کہ کھینچ تان کے پرانی قدروں کو سینے سے لگا کے نہیں رکھنا چاہئے ورنہ اگلے بوڑھا قرار دے کر دائرہ سے نکال دیتے ہیں۔ لیکن اپنی زبان سے حروف تہجی کم کرلینا کوئی حل نہیں ہے۔
کسی بھی زبان کو رائج کرنے میں اس کی نشریات کا جتنا ہاتھ ہوتا ہے وہ موجودہ حال کے مناظرے میں ناپید ہے۔ بچے جتنا اردو سے حال میں ڈر رہے ہیں اور اب اس کے حروف کم کردیں تو اگلوں کو ماضی کا اد ب سمجھنا بھی دشوار ہو جائیگا۔ اب کہیں کہ الفاظ سے تاریخ نکالنے کا مسئلہ بھی محقق پرانے نسخوں سے حل کر لیں گے لیکن محقق بنے تک طالب علم کو پتہ بھی تو ہو۔
mahre lisaniat ko kia itna nahi pata k mahre lisanat ka kam sirf bian karnahuta hai tajveez karna nahi, duh