پروفیسر ہود بھائی ، مولانا خلیق الزمان، مشعال، بلال اور ہم
(ڈاکٹر عرفان شہزاد)
گزشتہ دنوں پروفیسر ہودبھائی نے اکادمی ادبیات میں منعقدہ تقریب ‘اقبال احمد میموریل لیکچر” میں گفتگو کرتے ہوئے مردان یونیورسٹی میں مشعال خان کے بہیمانہ قتل پر یہ الفاظ کہے:
“وہ جو اس بے چارے نوجوان کو ننگا کر کے لاٹھیوں سے مار کے، پتھروں سے مار کے، ختم کر دیا ہے، لعنت ہو ایسی قوم پہ جو اپنے بچوں کو اس طرح سے مارتی ہے۔”
اس پر کچھ خاص فکر کے ذہنوں کی طرف سے ہنگامہ برپا کر دیا گیا کہ پروفیسر صاحب نے پوری قوم پر لعنت بھیج دی ہے۔
زبان و بیان سے ادنی واقفیت کے حامل کو بھی سمجھ آتی ہے کہ یہ لعنت کن پر کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ انہی پر جنہوں نے اس درندگی کا مظاہرہ کیا اور ان پر جنہوں نے یہ سب کرایا اور ان پر جنہوں نے یہ سب ہونے دیا۔ بالواسطہ یہ لعنت ان پر بھی البتہ پڑتی ہے جو اس قتل کی حمایت میں سرگرم ہیں یا اسے درست سمجھنے کی انتہائی پست سطح تک گر چکے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ پھر ایسوں کے لیے اس سے کم تر کوئی لفظ اور کیا ہو سکتا ہے۔چنانچہ یہ لعنت جن کو پڑی ان کو محسوس بھی بہت ہوئی۔
لعنت، زبان و بیان کا ایک مسئلہ ہے، جس کی بابت ایک عرض سنیے۔
قرآن میں خدا نے یہود پر علی الاطلاق لعنت بھی فرمائی اور ان کے بعض طبقات کی تعریف بھی فرمائی۔ قرآن میں ان کی تحسین کی گئی کہ وہ خدا کی کتاب کی ایسی تلاوت کرتے ہیں کہ اس کا حق ادا کر دیتے ہیں۔ ان کو ایک دینار بھی دیا جائے تو ایمان داری سے واپس کرتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں اور حق سامنے آ جائے تو قبول کرنے میں تامل نہیں کرتے وغیرہ۔
اب جب قرآن میں عمومی لعنت ان پر کی جاتی ہے تو یہ سمجھنا کہ اس میں یہود کا ہر فرد شامل ہے، علم و فہم سے عاری ہوئے بغیر ممکن نہیں۔ یہی اسلوب ہم اپنی روز مرہ کی زبان میں استعمال کرتے ہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ امت اخلاقی زوال کا شکار ہو گئی ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہوتے ہیں اس میں بہت سے اعلی اخلاق کے حاملین بھی ہوتے ہیں۔
اقبال کہتے ہیں:
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
یا یہ کہ:
اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگ مسلمانی
حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اقبال کا کئی علماء سے نیاز مندی کا تعلق تھا۔ اس لیے سمجھنا چاہیے کہ ہر عموم مطلقا عام نہیں ہوتا۔ عمومی مذمت بھی کسی مذموم رویے کےساتھ خاص ہوتی ہے۔ ایسی عام مذمت یا لعنت کو سب کے لیے عام سمجھنے والا یا اس پر غصہ کرنے والا یا تو زبان و بیان کے فہم سے تہی دامن ہوتا ہے، یا وہ خود کو اس لعنت کا مستحق سمجھ رہا ہوتا ہے۔
پروفیسر ہود بھائی کے بیان کی بس اتنی سے حمایت پر ہمارے دین کے بزعم خود محافظوں نے ہمارے ریکارڈ سے صرف نظر کرتے ہوئے، ہمیں بھی سیکولرازم اور لبرل ازم کا حامی قرار دے ڈالا۔
ان سے گزارش ہے کہ حسب خواہش اور حسب توفیق آپ بھول رہے ہیں کہ جس وقت آپ حسب عادت گومگو کی کیفیت میں تھے، بھری مسجد میں نبوت کا دعوٰی کرنے والے ایک فاترالعقل کو خون خوار مجمع سے بچانے والے چترال کے مولانا خلیق الزمان کے جرات مندانہ اقدام کی حمایت کریں یا گلا پھاڑتے عوام کا سامنا کرنے کی بجائے بھیگی بلی بن جائیں۔ اس وقت مولانا خیلق الزمان کا مقدمہ بھی ہم ہی لڑ رہے تھے، انہیں تمغہ امتیاز دینے کی سفارش کر رہے تھے۔
ہمارے لیے مظلومیت، ایک لبرل مشعال کی صورت میں سامنے آئی یا دینی مدرسے کے بلال کی شکل میں، ہم نے سب کا نوحہ لکھا ہے۔ ہمارے لیے پروفیسر ہود بھائی ہوں یا مولانا خلیق الزمان، جو بھی حق بات کے لیے کھڑا ہو جائے، ہماری حمایت کا مستحق بن جاتا ہے۔ یہ وہ حق پرستی ہے جو امیہ ابن الصلت جیسے کافر کے اشعار سے توحید کی تحسین کو اخذ کر سکتی ہے، جو قاضی کو ایک مسلمان کے مقابلے میں کسی یہودی کے حق میں فیصلہ دے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی حق پرستی کا وعدہ خدا نے ہم سے لیا ہے۔
مولانا ہو یا پروفیسر، میرٹ پر جو بھی ہو گا داد پائے گا۔ آپ بغیر میرٹ کے پارٹی بیس پر داد خواہ ہیں، ایسی داد دینا ہمارے لیے ممکن نہیں، یہ داد آپ کو کسی کے خلاف بھی ایک نعرہ یا ایک بے بنیاد الزام جاری کرنے پر آپ کے معتقدین سے ہی مل سکتی ہے۔
اس حق پرستی کو وہ کیسے سمجھیں جو دفاعِ دین کے نام پر ابراہیمؑ کے مقابل پروہتوں کا کردار اخیتار کر چکے ہیں؛ جو دلیل کے مقابلے میں ‘حرقوہ’ ‘حرقوہ’ آگ میں جھونک دو، آگ میں جھونک دو، کے نعرے لگاتے ہیں، ہم مگر ابراہیمؑ کی طرح دلیل اور صرف دلیل ہی پیش کر سکتے ہیں۔
ہم مسیحؑ و فقیہ میں سے ہمیشہ مسیح کا انتخاب کریں گے، ہم احبار و رہبان کو ہمیشہ دور سے سلام کریں گے؛ جو مسیحؑ پر بھی غداری اور ارتداد کے الزام لگا کر مصلوب کرانے سے نہیں چوکتے؛ ہم رجل یٰسین کی طرح اپنی قوم کو آخر تک دلیل سے ہی پکارتے رہے گے؛ ہم کسی ریوڑ، کسی غول کا حصہ نہیں بن سکتے، ہم حق کا ساتھ دینے سے پہلے یہ نہیں دیکھ سکتے کہ کہنے والے کا تعلق کس گروہ سے ہے۔
ہم اپنے حصے کا کام کر کے خدا کے حضور پیش ہوجائیں گے اور آپ بھی، جہاں کی عدالت پورے انصاف سے فیصلہ کرے گی کہ کون حق پرست تھا اور کون دین کے بھیس میں خود فریب اور فریب کار عصبیت کا داعی۔