پاکستان کی خادمانہ فری سروسز
(ظہیر استوری)
پاکستان ہمیشہ سے ایک خادم کی صورت مسلم ممالک کی خدمت میں مصروف عمل دکھائی دیتا ہے۔ خصوصاَ سعودی عرب، عرب امارات، ایران، عراق اور افغانستان کے ساتھ ہمیشہ ان کے بُرے وقتوں میں شانہ بشانہ کھڑا دکھائی دیا ہے۔ 1980میں ایران عراق جنگ کے دوران عراق نے کویت سے تقریباَ 14 بلین ڈالر کا قرضہ لیا تھا مگر جنگ ختم ہونے کے بعد یہ قرضہ پھندے کی طرح صدام حسین کے گلے میں اٹک گیا۔ اسی “پھندے” کی وجہ سے 2 اگست 1990 کو صدام حسین نے کویت پر تیل کی چوری کے الزام میں ایک ملٹری آپریشن شروع کیا جس کو دنیا “گلف وار” کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اس آپریشن میں عراقی فوج نے کویت پر قبضہ کیا اور کچھ دنوں بعد صدام حسین نے اسے عراق کا نواں صوبہ قرار دے کر کویت کے امیر کی جگہ اپنا نیا گورنر منتخب کر لیا۔ صدام حسین نے پاکستانی آمروں کی طرح دو دن کا بول کر اس آپریشن کو سات مہینے تک کھینچ لیا۔ عراق کے اس قبضے کو دنیا کے بڑے ممالک اور عراق کے اپنے اتحادیوں، بھارت اور فرانس، نے بھی اسے مسترد کردیا۔ سویت یونین اور چائنہ نے تو اپنے تجارتی تعلقات معطل کر دیئے۔ اس دوران امریکہ یہ کہہ کر مداخلت سے باز رہا کہ ہم عربوں کے آپس کے معاملات میں نہیں پڑیں گے مگر بعد میں یہی امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے صدام حسین کو 15 جنوری 1991 تک اپنی فوجیں واپس بلانے کا الٹی میٹم دے دیا اور اسی مہینے میں ان اتحادیوں نے عراق کے خلاف ملٹری آپریشن شروع کیا اور 25 فروری کو کویت کو آزاد کرا دیا۔
اس آپریشن کے دوران کویت کے امیر نے سعودی عرب میں پناہ لی۔ پناہ دینے کے بعد سعودی عرب کو محسوس ہوا کہ صدام حسین اُن کی سرزمین پر بھی حملہ کر سکتا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ اسے پہلے سعودی عرب ایران عراق جنگ کے دوران اسی صدام حسین کا ساتھ دے چکا تھا۔ سعودی عرب کو صدام حسین پر بھروسہ نہں رہا اس لئے سعودی عرب نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مقدس مقامات کی حفاظت کی درخواست کی اور یہی وہ وقت تھا جب خادم الحرمین شریفین نے کہا تھا کہ مقدس مقامات کی حفاظت غیر مسلم بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے چائنہ اور سویت یونین کے ساتھ بھی تعلقات بڑھا دیئے جو کہ اس جنگ کے بعد میں بھی کام آئے۔ اسی بنا پر سعودی عرب نے آٹھ لاکھ اتحادی افواج کو جگہ مہیا کی اور اُس وقت کے امریکی صدر جارج بُش سینیئر نے بھی سعودی عرب میں قائم فوجی کیمپوں کا دورہ کیا۔ سعودی حکومت کے اس غیر مسلموں کے ذریعے مقدس مقامات کی حفاظت کے فیصلے کے بعد سلطنت میں دو بلاک بن گئے ایک بلاک لبرل مائنڈ سیٹ کا جو کہ کسی حد تک اس لاجک کو قبول کرتے تھے جبکہ دوسرا مذہبی بلاک، جن کا اس فیصلے پر خون کھولتا تھا۔ اسی کھولتے خون کے ساتھ سعودیہ کے دارالحکومت ریاض میں بم دھماکے ہوئے جس میں کئی امریکی اور بھارتی فوجی مارے گئے۔
گلف وار کے دوران عراق کے خلاف “آپریشن ڈیزرٹ اسٹروم” میں 32 اتحادی ممالک کی فوج کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوج نے بھی حصہ لیا اس اتحاد کی قیادت امریکی فوج کے ہاتھ میں تھی۔ ایک طرف اُس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ مغربی ممالک پر الزام لگاتے تھے کہ انہوں نے عراق کو کویت پر حملہ کرنے پر اُکسایا ہے جبکہ دوسری طرف سے اسی اتحاد کا حصہ بن کر عراق کے خلاف آپریشن میں حصہ لے لیا۔ آرمی چیف کی اس تنقید کے باوجود اسی اتحاد کا حصہ بننے کی واحد وجہ سعودی عرب تھا جس کی حفاظت پاکستان کی “اپنی حفاظت” کے مترادف ہے۔
اسی طرح یمن کا مسئلہ جب آن پڑا تو فوج بھیجنے یا نہ بیجھنے پر ایک لمبی چوڑی بحث ہوئی جس کے بعد حکومت پاکستان نے ایک “ہومیو پیتھک” اعلان کیا کہ حرمین شریفین کی حفاظت ہمیں اپنی جان سے بھی پیاری ہے مگر سعودیہ اور یمن کے معاملے میں کسی کا ساتھ نہیں دیں گے۔ کچھ لوگ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستانی فوج پہلے سے ہی سعودی عرب میں خدمات سرانجام دے رہی ہے اور اس مسئلے کی شروعات سے ہی پاکستانی رہنماؤں کے دوروں کا مقصد سعودی عرب کو پاکستانی تیار کردہ ہتھیاروں کی فروخت اور یمن پر انہیں استعمال کرکے ان ہتھیاروں کو ٹیسٹ کرنا بھی ہے۔ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ گرم تعلقات کو ایران برداشت نہیں کرتا کیونکہ ایران سعودی تعلقات کئی سالوں سے خراب چل رہے ہیں۔ اسی لئے شام میں ایران صدر اسد کی حمایت میں کھڑا ہے تو دوسری طرف شامی باغیوں کے سر پر سعودیہ کا ہاتھ ہے۔ ان دونوں ممالک کا ایک دوسرے کو پسند نہ کرنے کی بنیادی وجہ مذہبی اختلافات ہیں۔ دونوں ممالک کے انہی اختلافات کے نتائج پاکستان بگھت رہا ہے۔ پاکستان کی سُنی آبادی سعودیہ کے حق میں نعرے لگاتی ہے تو دوسری طرف شیعہ آبادی ایران کے گُن گاتی ہے۔
بیچارہ پاکستان ان دونوں کے اختلافات کی بھینٹ چڑھتا آیا ہے۔ ایران پاکستان سے اس لئے بدظن ہے کہ سعودیہ سُنی آبادی کو سپورٹ کرتا ہے اور سعودی عرب کو پاکستان میں ایران کے لئے نرم گوشہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ دونوں ممالک کی اس سرد جنگ میں بیچارہ پاکستان ہی ہمیشہ مشکلات میں دکھائی دیتا ہے۔ اسلامی اتحاد میں ایران کی شمولیت کے لئے پاکستان کو سعودیہ سے بھی بات کرنی پڑتی ہے اور ایران کو بھی منانا پڑتا ہے۔ یمن کے مسئلے کے لئے سعودی عرب کو بھی یقین دلانا پڑتا ہے کہ شیخ جی آپ کی حفاظت ہماری حفاظت ہے اور ایران کو بھی یقین دلانا پڑتا ہے کہ برادر ہم تو اس جمیلے میں پڑنا ہی نہیں چاہتے ہیں، ہم تو اسلامی ممالک میں اتحاد کے لئے کوشیشیں کر رہے ہیں۔
پاکستان نے اسلامی ممالک کی حفاظت اور باہمی امن کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ سعودی عرب کو بچانا ہو تو ہم حاضر، افغانستان سے سویت یونین کو بھگانا ہو تو ہم حاضر۔ ہم نے اپنے گلے میں پلے کارڈ سجایا ہوا ہے کہ اسلامی ممالک کے بیچ جو بھی جیسے بھی معاملات طے کرنے ہوں تو ہماری سروسز مفت دستیاب ہیں۔ ہم یہ سب تو کر رہے ہوتے ہیں مگر جب یہی معاملات اور مسائل حل ہوجاتے ہیں تو ہماری خدمات کی پذیرائی تو درکنار اُلٹا ہم پر الزام لگا رہے ہوتے ہیں کہ یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔ افغانستان کو ہی لیجیے، سویت یونین سے آزادی دلائی، مہاجرین کو کئی عشروں تک پناہ دی مگر جب وقت گزر گیا تو وہ ہم پہ ہی الزام لگا بیٹھے کہ ہماری اس حالت کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ ایران کو شکایتیں ہیں کہ ہم سعودی عرب کے قریب ہیں اور سعودی عرب چاہتا ہے کہ ہم ایران کی صحبت سے دور رہیں۔
اس ساری کنفیوزن کے بیچ پاکستان ایک خدمت گزار کے طور پر کبھی افغانستان کو یقین دلا رہا ہوتا ہے کہ بھائی ہم نے تو آپ کو آزادی دلا دی، آپ کو اپنا مہمان بنا کے رکھا اب آپ ایسی باتیں تو نا کرو۔ کبھی سعودی عرب کا سفیر بن کر ایران کو منانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ برادر آپ بھی شامل ہو جائیں نا تو کبھی سعودی عرب سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ اس سارے کھیل میں پاکستان کا اپنا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔ کبھی مذہب تو کبھی وطن کے نام پہ قربانی صرف ہم سے ہی کیوں لی جاتی ہے۔