پاکستان پیپلزپارٹی کی نظریاتی سیاست سے کارپوریٹ سیاست تک

پاکستان پیپلزپارٹی کی نظریاتی سیاست سے کارپوریٹ سیاست تک

پاکستان پیپلزپارٹی کی نظریاتی سیاست سے کارپوریٹ سیاست تک

(افتخار بھٹہ)

پاکستان پیپلزپارٹی کی نظریاتی جدو جہد کا آغاز عوام دوست نعروں اور منشور کے ساتھ ہوا۔ ہم جیسے نظریاتی لوگوں کا رومانیت کی حد تک جذباتی تعلق سوشل ازم جمہوریت اور اسلام کے نعروں سے تھا جس میں ملک کے غریب محنت کشوں اور کسانوں کیلئے سماجی اور معاشی انصاف کے حوالہ سے امید کی کرن تھی۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد سیاسی خلاء کو ذوالفقار علی بھٹو نے پر کرنے کی کوشش کی تھی کیونکہ اس نے غریب طبقات کو اپنے منشور میں اُن کے مسائل کے حوالے سے مخاطب کیا تھا جس میں پارٹی اپنے پہلے دور اقتدار میں اصلاحاتی تبدیلی کے ایجنڈے کو بڑھانے میں کامیاب رہی۔

مگر 1977کے انتخابات میں ایسے لوگوں کو ٹکٹ دیئے گئے جو کہ محض پارٹی کی مقبولیت کے حوالہ سے کامیاب ہو کر اقتدار میں آنا چاہتے تھے۔ انتخابی دھاندلی کے نام پر چلنے والی تحریک کو تحریک نظام مصطفٰی میں تبدیل کر دیا گیا۔ جس میں دینی سیاسی جماعتوں کے ساتھ کچھ ترقی پسندی کا نام لینے والی جماعتیں بھی نوستاروں کے پرچم قومی اتحاد میں جمع ہو گئیں اس تحریک کا انجام مارشل لاء کے نفاذ پر ہوا۔

ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا چند جیالوں نے خود سوزی بھی کی اور قید و بند کی صوبتیں بھی برداشت کیں۔ پارٹی سے غیر نظریاتی وابستگی رکھنے والوں نے جنرل ضیاء کی حمایت کی ایم آر ڈی کی تحریک میں پارٹی کو مکمل طور پر کچلنے کی کوشش کی۔ محترمہ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہید نے تحریک کے دوران ریاستی تشدد کو برداشت کیا۔ ہم جیسے جذباتی لوگوں کی رومانیت پسندی پارٹی کے ساتھ 1988تک قائم رہی جب بے نظیر بھٹو نے بر سر اقتدار آکر نیو لبرل ازم کے سرمایہ دارانہ ایجنڈے پر عمل شروع کیا تو عوامی حقوق کیلئے تحریک کی امیدیں دم توڑنا شروع ہو گئیں۔

مگر عام ووٹر کا رشتہ بھٹو خاندان کے ساتھ جڑا رہا کیونکہ ان کے نزدیک یہ پاکستان میں واحد غریب طبقات کی علامتی پارٹی رہی ہے اور اُن کے معاشی اور سیاسی حقوق کی بات کرتی ہے۔ مگر مفاہمت کی سیاست جو کہ کارپوریٹ کا خاص حصہ ہوتی ہے جس میں اہم فیصلوں کا اختیار منتخب قیادت کو نہیں ہوتا ہے۔ اگر قیادت بغاوت کرنے کی کوشش کرے تو اس کو ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہید کی طرح عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے اب کوئی پارٹی انقلاب، نظام کی تبدیلی اور بغاوت کی بات نہیں کرتی ہے، اور نہ ہی ملک کے محنت کش طبقات کے حوالہ سے کوئی منشور رکھتی ہے آج کے مقبول لیڈرعمران خان ہمیں احتجاجی سیاست کی طرف گامزن دیکھائی دیتے ہیں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے نوجوان ہی اس کے جلسے جلسوں کی زینت ہوتے ہیں، اگر پی ٹی آئی مڈل کلاس کی کار پوریٹ سیاست سے باہر نکل کر عوام کے سماجی اور معاشی حقوق کے حوالہ سے کوئی منشور دیتی تو ملک کے غریب طبقات کی حمایت حاصل کر سکتی تھی۔ مگر ایسا نہیں ہوا ہے کیونکہ یہ نظریاتی جماعت نہیں ہے اور نہ ہی اس کے کارکن موجودہ نظام کیخلاف جدو جہد کرنے کی جرات رکھتے ہیں۔

اس کو ہم نے اسلام آباد بند کرنے کی کال کی حوالے سے دیکھا ہے جب تمام لیڈر شپ بنی گالا میں بند ہو چکی تھی اس طرح پھر عوامی حقوق کی جدو جہد کا خلاء پر کرنے کا فریضہ شائد پیپلزپارٹی کو ہی ادا کرنا پڑے ، آصف علی زرداری کو گیارہ سال جیل میں رہنے کا تجربہ حاصل ہے پارٹی کی قیادت کی قربانیوں کے حوالے سے تاریخی روایات ہیں وہ سیاسی جوڑ توڑ کے باد شاہ ہیں کچھ لینے اور دینے کی بھی کارپوریٹ صلاحیتوں کے مالک ہیں مفاہمت کے تحت چند اداروں کی پر زور مخالفت کے باجوود اپنے اقتدار کے پانچ سال پورے کرنے میں کامیاب رہےہیں ۔

آئین میں ترمیم کے ذریعے چھوٹے صوبوں کو مالی خود مختاری دی ہے نیشنل فنانس کمیشن کے ذریعہ وسائل کی تقسیم کو یقینی بنایا ہے جبکہ موجودہ حکومت این ایف سی ایوارڈ کی تشکیل میں ناکام دیکھائی دیتی ہے انہی حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے آصف علی زرداری نے چھوٹے صوبوں کی طرف رخ کیا ہے۔ اپنی انتظامی اور مفاداتی کمزوریوں کے باجوود پیپلزپارٹی کی کچھ حمایت عوام میں موجود ہے، ویسے بھی اب انقلابوں اور بغاوتوں کا وقت گزر چکا ہے۔

اس پسپائی کا اظہار پاکستان کے نامور بائیں بازو کے دانشور اور قانون دان عابد حسن منٹو کر چکے ہیں اور اُن کے نزدیک شعور آگاہی اور سیاسی نظریاتی تبدیلی اور سوشل ڈیمو کریسی کے تحت انتخابات میں حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایسے میں کسی روایتی،سوشلسٹ یا لبرل ایجنڈے کا نافذ کرنا ممکن نہیں رہا ہے جبکہ سیکولرازم کو ہمارا وزیرداخلہ گناہ کبیرہ قرار دیتا ہے۔ جس سے ملک کی دائیں بازو کی سیاسی اور دینی جماعتوں کا مائنڈ سیٹ واضح ہوتا ہے جبکہ جہادی کالعدم تنظیموں کا اپنا ایجنڈا ہے۔ جن کو مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علماء اسلام کے کنونشن میں قومی سیاست کے دائرے میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی جس کے نتیجہ میں ڈپٹی چیئر مین سینٹ عبدالغفور حیدری پر خود کش حملے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

اسی طرح احسان اللہ احسان کو میڈیا کے سامنے لا کر کیا حاصل کرنا ہے بلا تبصرہ ہے ایسی فضا میں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کا ترقی پسندانہ اور عوام دوست سیاست کرنا بلا شبہ ایک کٹھن کام ہے کیا اُن کے نظریاتی مخالفین انہیں ملک میں آزادانہ طور پر خوف و ہراس کی بندش سے آزاد ہو کر پارٹی کارکنوں کو متحرک کرنے کی اجازت دینگے۔

بہر صورت پارٹی لیڈر شپ نے پنجاب اور وفاق کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا ہے اور مختلف میٹنگوں اور جلسوں کے ذریعے شہروں میں اپنی موجودیت کو دکھانے میں مصروف ہیں لیکن مقاصد کا حصول عوام دوستی اور معاشی حقوق کے نعروں کے ساتھ منسلک ہے اس سیاسی تحریک اور رابطوں کا مقصد اقتدار کا حصول ہے بلاول بھٹواور آصف علی زرداری پارٹی کے سیاسی ایجنڈے کو پنجاب میں بڑھائینگے جبکہ آصفہ اور بختاور بلوچستان اور پختونخواہ میں سیاسی سر گرمیاں کرینگی جس کی شکل عوامی سیاست ہو سکتی ہے جبکہ زرداری محالاتی سیاست کے ذریعے رابطوں میں پنجاب ، سرحد اور بلوچستان کے ووٹ پولر اور مقامی مقبولیت رکھنے والے مختلف خاندانوں کے افراد کو پارٹی میں شامل کرنے کی کوشش کرینگے۔

اس طرح عوامی اور محلاتی سیاست کو ساتھ ساتھ لیکر چلا جائے گا جو یقینا ایک نیا تجربہ ہوگا پاکستان میں اس وقت پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کرپشن کے حوالے سے سیاست کر رہی ہیں جبکہ کرپشن کے کھلاڑی اس کھیل کو الجھانے میں مصروف ہیں لیکن عوام اب کرپشن کے نعرے سے اکتا چکے ہیں یہی وجہ ہے ان جماعتوں کے جلسوں میں مخصوص چہرے نظر آتے ہیں اور دن کی بجائے رات کو منعقد ہوتے ہیں جو کہ گلیمر کے ذریعے ان کی رونق بڑھاتے ہیں جلسوں کے شرکاء کو پورے ملک سے اکٹھا کیا جاتا ہے۔

کرپشن اور جمہوریت دو ایسے موضوعات ہے جنہیں سیاست اور صحافت پر مسلط کر دیا گیا ہے عوام کی وسیع اکثریت کے حقیقی مسائل کو دبا دیا گیا ہے آصف علی زرداری کس منشور اور نعروں کے ساتھ پارٹی کارکنوں کو متحرک کرتے ہیں یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات کے مختلف پرتوں میں نظریاتی ہم آہنگی اور طریقہ کار پر اتفاق ہے۔ اصل مقصد تو تکنیکی اور مالیاتی طور پر ریاست کو مضبوط بنانا ہے اس کے ساتھ ہی سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے میں شامل دیگر پراجیکٹس کس طرح ہماری مقامی صنعت اور زراعت کو متاثر کر سکتے ہیں۔

یہ ایک سوچنے کی بات ہے یہ تمام باتیں آصف علی زرداری کی پیپلزپارٹی کیلئے آئندہ انتخابات میں چیلنج رہیں گی، کیونکہ منڈی کی آزاد معیشت میں آزادانہ انتخابات اور آزاد عدلیہ کے معنی بہت چھوٹے ہو گئے ہیں، منڈی کی معیشت میں اُن کو اجناس میں تبدیل کر دیا ہے جس کو مالیاتی اور انتظامی طور پر سنبھالنے میں پنجاب کی حکمران اشرافیہ سب سے زیادہ تجربہ رکھتی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے آئندہ کے سیاسی کھیل میں انوسٹر کیا کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ فی الحال عوام سیاست میں کہیں دیکھائی نہیں دیتے ہیں اور نہ ہی اسٹیک ہولڈر ہیں پیپلزپارٹی کیلئے ایسے ماحول میں کامیابی کی گنجائش نکالنا خاصہ مشکل ہے دوسرے اس کو دہشت گردی کے حوالے سے دھمکیاں بھی 2013کے انتخابات کی طرح عوام سے براہ راست رابطے سے روک سکتی ہیں ،بہر صورت بنیادی نظریات انحراف کے باوجود پیپلزپارٹی کا لبرل اور سیکو لر حوالہ بعض مقتدرہ طبقات اور سیاستی حلقوں کیلئے ناقابل قبول ہے جبکہ ملک کی دیگر سیاسی قیادتوں کو دہشت گردی کے حوالے سے کوئی خطرات لا حق نہیں ہیں۔


Courtesy: dailymuballigh.com