کلینڈر کہانی

ایک روزن لکھاری
مطیع اللہ جان، لکھاری

کلینڈر کہانی

(مطیع اللہ جان)

ہم تاریخ بدل سکتے ہیں مگر تاریخیں نہیں کچھ تاریخوں پر ہونے والے واقعات کی ترتیب پر غور کیا جائے تو بہت سے عقدے کھلتے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف کی طرف سے بھارتی جاسوس اور دہشت گرد کلبھوشن یادیو کی پھانسی پر عمل درآمد روکنے کے فیصلے نے پاکستانیوں کو صدمے اور حیرت کی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے۔ یہ سب کیسے ہوا، کیوں ہوا اور اس کا کون ذمہ دار ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ہماری حکومت اور ادارے دینے کے پابند ہیں مگر روادار نہیں۔ کوئی جواب دے یا نہ دے مگر کلینڈر جھوٹ نہیں بولتا۔تین مارچ دو ہزار سولہ کو بھارتی جاسوس اور دہشت گرد کلبھوشن یادیو کو بلوچستان سے گرفتار کیا جاتا ہے۔
ایک سال کی تحقیق، تفتیش اور ٹرائل کے بعد کلبھوشن یادیو کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی عدالت دس اپریل دو ہزار سترہ کو سزائے موت سنا دی گئی۔ ظاہر ہے یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا جس کے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سیاسی حکومت پر براہ راست اثرات مرتب ہونے تھے مسئلہ شاید نواز شریف حکومت کی مبینہ بھارت نوازی سے زیادہ ایک سیاسی حکومت کے خارجہ پالیسی پر کنٹرول کا تھا۔ اس کے بعد کلینڈر کی ایک اور تاریخ آئی۔چھبیس اپریل دو ہزار سترہ کو بھارتی کاروباری شخصیت سجن جندال کو “ذاتی دوست” کا حیثیت سے وزیر اعظم ہاوس میں استقبال کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے بھارتی جاسوس کی سزائے موت کے بعد جو پیغام دنیا کو گیا تھا سجن جندال کی آمد نے ایک متبادل پیغام دیا۔ سجن جندال کی آمد میں چھپا ایک اور پیغام بھی تھا کہ اگر آپ کلبھوشن یادیو جیسے اتنے اہم فیصلے سے پہلے حکومت کی مشاورت کے روادار نہیں تو پھر حکومت بھی اپنے فیصلے خود کرنے کا حق رکھتی ہے۔
اگر آپ خود کو محب وطن کہتے ہوئے منتخب حکومت کی حب الوطنی پر لال سیاہی کا دائرہ کھینچیں گے تو پھر ہم بھی حکومت اور عوامی مینڈیٹ کے امین ہونے کے ناتے اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔مسئلہ کسی دشمن ملک کے جاسوس کی سزائے موت کا نہیں تھا بلکہ حکومت اور اسکی خارجہ پالیسی کو سرعام نظر انداز کرنے کا تھا۔ جندال کی آمد نے ماحول کو پھر گرما دیا اور اسی گرمی کی لہر کے دوران ہی ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ انتیس اپریل دو ہزار سترہ کو منظر عام پر آ گئی۔ جو بظاہر” وقار” کے منافی تھی اور پھر اسی تاریخ میں فوجی ترجمان کی وہ ٹویٹ آ گئی جو ” فرزند اول” کے مطابق مقبول مگر غلط تھی۔
یہ ٹویٹ محض ڈان لیکس انکوائری رپورٹ کے نا مکمل ہونے کا شاخسانہ نہیں تھی بلکہ اس وقت کے عمومی کشیدہ سول ملٹری تعلقات کی عکاس تھی۔اس بات کا ثبوت ٹویٹ واپس لینے کے ” غیر مقبول “مگر درست فیصلے سے جڑا وہ نوٹیفیکیشن ہے جس میں دی گئی “مکمل سفارشات” پچھلی نا مکمل سفارشات سے کچھ زیادہ مختلف نہیں دکھائی دیتیں۔ٹویٹ کی واپسی کی تاریخ بھی کلینڈر کہانی کا اہم اور دلچسپ موڑ ہے۔ آٹھ مئی دو ہزار سترہ کو کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف بھارت عالمی عدالت انصاف میں پہنچ جاتا ہے اور اسی روز عالمی عدالت انصاف پاکستان کو نوٹس جاری کر دیتی ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے کہ جب ٹویٹ میدان میں تھی اور سول ملٹری قیادت کی نو دن سے ایک دوسرے سے بات چیت بھی بند تھی۔ عالمی عدالت انصاف کے نوٹس پر جواب حکومت نے دینا تھا، وقت کم تھا اور مقابلہ سخت، یہی وقت تھا کہ بین الاقوامی قانونی ماہرین کا مشورہ فوج کو درکار ہوا۔
اس کم وقت میں پاکستانی نڑاد وکیل خاور قریشی کا مشورہ اور انتخاب ضروری ہو گیا تھا۔بظاہر یہی وہ قومی مفاد اور سلامتی سے جڑی صورت حال تھی جس میں عسکری قیادت نے پہلا قدم بڑھایا اور چار وناچار دس مئی دو ہزار سترہ کو متنازع ٹویٹ واپس لینے کا اعلان کر دیا۔سرکاری وجہ یقینا مکمل سفارشات پر عمل در آمد کی بتائی جا سکتی تھیں۔ اب اگلا چیلنج عالمی عدالت انصاف میں یک زبان اور یک جان ہو کر بھارت کو بے نقاب کرنا تھا۔ عسکری قیادت کی دعوت پر پاکستانی نڑاد وکیل بارہ مئی دو ہزار سترہ کو اسلام آباد پہنچے۔ اور اس سے اگلے روز تیرہ مئی کی رات آرمی چیف کے ڈنر پر مہمان بنے۔ ہدایات واضح اور بلند انداز سے دیں گئیں۔ وقت اتنا کم تھا کہ حکومت یا اسکے قانونی ماہرین کو اپنی مہارت پیش کرنے کا بھی موقع نہ ملا۔
شاید یہ خیال بھی نہیں آیا کہ پاکستانی عدالتوں کی طرح عالمی عدالت انصاف سے بھی تیاری کیلئے کوئی تاریخ مانگ لی جاتی یا پھر عالمی عدالت انصاف کا ہتھوڑا گرنے سے پہلے از خود ہی عارضی یقین دہانی کروا دی جاتی کہ حتمی فیصلے تک پاکستان نے کلبھوشن کی پھانسی پر عمل در آمد روک دیا ہے۔ ایسا کرنے سے بھارت کو فتح کے شادیانے بجانے کا موقع بھی نہ ملتا۔مگر یہ سب کچھ تبھی ہوتا کہ پاکستان کی سیاست کے دو بڑے ایک دوسرے کی ٹانگ نہ کھینچ رہے ہوتے۔ نقصان شاید ان بڑوں کا اتنا نہیں جتنا اس ملک اور قوم کا ہے۔ انا اور سیاسی مفاد کی جنگ میں پاکستان کی ساکھ کا نقصان نا قابل تلافی ہے۔
ابھی بھی ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ دو بڑے اتنے اہم قومی معاملے پر اپنے اپنے آئینی دائرے کار کے مطابق کام کریں گے یا نہیں ؟ اٹارنی جنرل کا یہ فیصلہ کہ وہ وفاق پاکستان کی خود نمائندگی کریں گے اچھا فیصلہ ہے مگر یہ فیصلہ پہلے ہی ہو جاتا تو اور بھی اچھا ہوتا اور آنے والے دنوں میں عالمی عدالت انصاف میں ہونے والی کارروائی کے دوران قوم کے بڑوں کو اپنی انا اور سیاسی مفاد کے خول سے باہر نکلنا ہوگا وگرنہ دشمن ایسے ہی فائدہ اٹھائے گا جس طرح اس نے کلینڈر کی مذکورہ تاریخوں میں اٹھایا۔ اگر منتخب حکومت کو مکمل طور پر فیصلے کرنے کی ذمہ داری ادا نہ کرنے دی گئی تو یاد رہے کہ کلینڈر کہانی جاری رہے گی۔ ہم تاریخ بدل سکتے ہیں مگر تاریخیں نہیں۔


Courtesy: nawaiwaqt.com.pk